جمعرات، 30 اپریل، 2009

Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 – 1961) (محمد محمد )

 

محمد ﷺ محمد ﷺ پکارا کروں گی

اسی سے میں دل کو سہارا کروں گی

پیا بھول جانا نہیں اس بندی کو

یہی عرض رو رو گزارا کروں گی

اسی سے میں دل کو سہارا کروں گی

 

پیا کے پیارے میں رستہ میں رہ کر

یہ فرقت کی گھڑیاں گزارا کروں گی

لگی آگ من میں بجائیو محمد ﷺ

پیا کو میں ایسے پکارا کروں گی

اسی سے میں دل کوسہارا کروں گی

 

جاؤ ری سیو پیا سے یہ کہہ دو

دردِ ہجر میں میں گزارا کروں گی

پیا مجھ کو اِک دن ملیو خدارا

یہی رات دن میں چتارا کروں گی

اسی سے میں دل کو سہارا کروں گی

 

تڑپتا ہے دل اور پھڑکتی ہیں آنکھیں

پیا کے میں درشن کو جایا کروں گی

وہ فرقت کے صدمے اس عاجز سے سن کر

پیا پاس میں جو سنایا کروں گی

اسی سے میں دل کو سہارا کروں گی

 

محمد ﷺ محمد ﷺ پکارا کروں گی

اسی سے میں دل کو سہارا کروں گی

Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 – 1961) (محمد کو حبیب اپنا)

محمد کو حبیب اپنا خدا نے بنا لیا ہے

ساری خدائی اپنی کا صاحب بنا لیا ہے

خدا کا پیار ہے تم سے خدا کے لاڈلے تم ہو

امت کی رہبری کو رہبر بنا دیا ہے

خدا کا وعدہ ہے قرآن میں دن قیامت کے خوش کریں گے

جنت کے مالک ہو تم کو صاحب بنا دیا ہے

خدا کی خدائی میں ہے یکتا وہ نورِ وحدت

کوئی ہمسر ہوا نہ ہو گا ایسا بنا دیا ہے

دل و جان سے ہوں قربان رحمت اللعالمیں پر

ہوئی نظر جس پر ان کی رحمت بنا دیا ہے

مجھ پر بھی نظر کرم کر دو رحمت اللعالیں ہو

منظور کر لو صاحب جیسا بنا دیا ہے

خدا کے پیارے ہو تم خدا کا پیار ہے تم سے

مطلوب بھی محبوب بھی تمہیں بنا دیا ہے

عاجز پہ نظرِ رحمت اِک بار اور کر دو

اجڑے ہوۓ چمن کو جیسے بسا دیا ہے

Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 – 1961) (رسولِ خدا کا ایثار)

 

رسول اللہ کے قبضہ میں نہ دولت تھی نہ ثروت تھی

نہ اس باطل کدہ میں ان کو دنیا کی ضرورت تھی

قناعت پر گزارا تھا توکل پر گزارا تھا

شہنشاہِ دوعالم تھے اور اس پر بھی یہ حالت تھی

اِدھر تاجِ شہنشاہی ادھر حکمِ جہاں باری

اِدھر دنیا کی دولت تھی ادھر زر کی فراوانی

مگر جو لطف ان کو فقر و فاقہ میں میسر تھا

بڑی مشکل سے سمجھے گی اسے تخلیقِ انسانی

شہنشاہِ دوعالم اور یہ ایثار کیا کہنا

تکالیف و مصائب میں نہایت مطمئن رہنا

زمانہ در پے آزاد تھا دنیا مخالف تھی

ہزاروں قدرتوں کے باوجود اتنے ستم سہنا

یہاں حق کی اشاعت کے لئے ایثار و قربانی

وہاں ہر اِک قدم پر کفر و باطل کی فراوانی

یہاں یہ کوششیں کہ دنیا کو راہِ راست پر لائیں

وہاں گمراہیوں کا جوش اور گمراہ نادانی

یہاں حق کے سوا کچھ اور دولت تھی نہ طاقت تھی

نہ محبوبِ خدا کو اس نمائش کی ضرورت تھی

وہ مصلح تھے وہ ہادی تھے پیغمبر تھے خلیفہ تھے

انھیں حق کی اشاعت کے لئے حق سے محبت تھی

انھیں نے حسنِ سیرت سے کیا تسخیر دنیا کو

بساطِ حق شناسی سے کیا تعمیر دنیا کو

بتایا اہلِ عالم کو کہ مقصد کیا ہے جینے کا

دکھائی زندگی کے خواب کی تعبیر دنیا کو

یقیناً ان کا یہ ایثار تھا جس نے زمانے میں

بھری تھی زندگی حق آشنائی کے فسانے میں

Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 - 1961) (محمد کی محبت):

محمد کی محبت دل میں گر تیرے نہیں ہے

نو نزد خالقِ یکتا ابھی مومن نہیں ہے

محمد کی محبت جو خدا کی عین اطاعت ہے

محبت کر تو اے مومن یہ ہدایت اس کی ہے

محمد سے محبت کر کہ رحمت تم پہ ہو جائے

خدا کا فضل ہو جاۓ وہ راضی تم پہ ہو جاۓ

محمد کی محبت ہے تری بخشش قیامت میں

اگر تو اس سے خالی ہے نہیں راحت قیامت میں

محمد خالق اکبر کو ہے مخلوق سے پیارا

ہمارے سب وہ رشتوں سے ہے مال و جان سے پیارا

محمد کی محبت سے تو خوش رحمٰن ہوتا ہے

غلامی اس کی کرنے سے عطا ایمان ہوتا ہے

غلامی جس نے کر لی پھر سند اس کو ملتی ہے

پھر قیامت میں نہیں پرسش وہ جنت اسکو ملتی ہے

محمد کی محبت کی سند حاصل تو کر عاجز

کھدا لے دل پہ نام ان کا خدا کو خوش تو کر عاجز

Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898-1961) (وحدة الوجود - Wahda-tul-Wujood)

گھٹ میں ہوں پر گھٹ بھی ہوں اور گھٹ اپنا میں ہی ہوں

ہر شے کے اندر، شے کے ساتھ، جو ہے وہ میں ہی ہوں

كُن کہا اور كُن ہوا كُن سے میں، میں ہی كُن ہوں

كُن سے میں ہی ظاہر ہوں اور باطن اس کا میں ہی ہوں

کہیں ذات احد انہد ہوں کہیں وحدت اندر احمد ہوں

کہیں مستور ظاہر ہوں سب اسم صفاتی میں ہی ہوں

کہیں ذات احد انہد ہے کہیں وحدت اندر احمد ہے

کہیں کثرت اندر ہو مستور ہو محمد ظاہر ہے

بھیس سے میں اور بھیس بھی میں بھیس کے اندر بھید بھی

خود بہروپ بھر کے پورا شیدا اس کا میں ہی ہوں

آپ ہی احمد، آپ محمد، آپ ہی آدم، آپ ہی حوا

اپنے اندر آپ سمایا معنی اس کا میں ہی ہوں

آپ ہی احمد، آپ محمد، مست دیوانہ میں ہی ہوں

کہیں مخفی ہوں کہیں ظاہر ہوں سب اسم صفاتی میں ہی ہوں

وحدت اندر احد ہو کے وحدیت اندر کثرت ہو کے

آپ ہی احمد، آپ محمد، مست دیوانہ میں ہی ہوں

جلوہ ہوں نور ہوں میں ہی سرّ نہاں ہوں

مسجودِ ملائک کی میں ہی رمزِ عیاں ہوں

میرے ہی ہونے سے ہوا آدم مسجودِ ملائک

تعظیم بھی ہوئی تکریم بھی ہوئی میں ہی سرّ عیاں ہوں

جمعہ، 24 اپریل، 2009

Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 - 1961) (اطاعت مصطفےٰ)

خدا کی عین اطاعت جو اطاعت مصطفےٰ کی ہے

خدا کی ہے محبت جو محبت مصطفےٰ کی ہے

اطاعت جو کرے مومن خدا خوش ہوتا ہے اس سے

معزز اس کو کرتا ہے عنایت مصطفےٰ کی ہے

اطاعت کر تو اے مومن یہ اس کی ہدایت ہے

خدا کی ہے خوشی اس میں شفاعت مصطفےٰ کی ہے

نفس مغلوب ہوتا ہے وہ شیطان دور ہوتا ہے

خدا کے گھر میں ہے عزت یہ عظمت مصطفےٰ کی ہے

یہ دنیا اس پہ مرتی ہے وہ نفرت اس سے کرتا ہے

خدا خود جلوہ گر اس میں یہ برکت مصطفےٰ کی ہے

اطاعت فرض ہے تجھ پر تو اے مومن سمجھ اس کو

خدا کا قرب حاصل کر یہ عزت مصطفےٰ کی ہے

اطاعتِ مصطفےٰ سے تو خدا کا فضل ڈھونڈ عاجز

خدا کی ہے رضا اس میں یہ خلوت مصطفےٰ کی ہے

Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898-1961) (وحدة الوجود - Wahda-tul-Wujood)

گھٹ میں ہوں پر گھٹ بھی ہوں اور گھٹ اپنا میں ہی ہوں

ہر شے کے اندر، شے کے ساتھ، جو ہے وہ میں ہی ہوں

كُن کہا اور كُن ہوا كُن سے میں، میں ہی كُن ہوں

كُن سے میں ہی ظاہر ہوں اور باطن اس کا میں ہی ہوں

کہیں ذات احد انہد ہوں کہیں وحدت اندر احمد ہوں

کہیں مستور ظاہر ہوں سب اسم صفاتی میں ہی ہوں

کہیں ذات احد انہد ہے کہیں وحدت اندر احمد ہے

کہیں کثرت اندر ہو مستور ہو محمد ظاہر ہے

بھیس سے میں اور بھیس بھی میں بھیس کے اندر بھید بھی

خود بہروپ بھر کے پورا شیدا اس کا میں ہی ہوں

آپ ہی احمد، آپ محمد، آپ ہی آدم، آپ ہی حوا

اپنے اندر آپ سمایا معنی اس کا میں ہی ہوں

آپ ہی احمد، آپ محمد، مست دیوانہ میں ہی ہوں

کہیں مخفی ہوں کہیں ظاہر ہوں سب اسم صفاتی میں ہی ہوں

وحدت اندر احد ہو کے وحدیت اندر کثرت ہو کے

آپ ہی احمد، آپ محمد، مست دیوانہ میں ہی ہوں

جلوہ ہوں نور ہوں میں ہی سرّ نہاں ہوں

مسجودِ ملائک کی میں ہی رمزِ عیاں ہوں

میرے ہی ہونے سے ہوا آدم مسجودِ ملائک

تعظیم بھی ہوئی تکریم بھی ہوئی میں ہی سرّ عیاں ہوں