ہفتہ، 18 دسمبر، 2010

اُس حسین ابنِ حیدر پہ لاکھوں سلام - سلام

 

مصطفےٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام

 

جن کا جھولا فرشتے جھلاتے رہے

 

لوریاں دے کے نوری سلاتے رہے

جن پہ سفّاک خنجر چلاتے رہے

 

جن کو کاندھوں پہ آقابٹھاتے رہے

 

اس حسینؑ ابنِ حیدر پہ لاکھوں سلام

کر لیا نوش جس نے شہادت کا جام

 

جس کا نانا دو عالم کا مختار ہے

 

جو جوانانِ جنّت کے سردار ہے

جس کا سر دشت میں زیرِ تلوار ہے

 

جو سراپائے محبوبِ غفّار ہے

 

اس حسینؑ ابنِ حیدر پہ لاکھوں سلام

کر لیا نوش جس نے شہادت کا جام

 

جس کو دھوکے سے کوفہ بلایا گیا

 

جس کو بیٹھے بٹھائے ستایاگیا

جس کی گردن پہ خنجر چلایا گیا

 

جس کے بچوں کو پیاسے رلایا گیا

 

جس کے لاشِ پہ گھوڑا دوڑایا گیا

 

 

اس حسینؑ ابنِ حیدر پہ لاکھوں سلام

کر لیا نوش جس نے شہادت کا جام

 

اپنے نانا کا وعدہ وفا کر دیا

 

جس نے حق کربلا میں ادا کردیا

جس نے امّت کی خاطر فدا کردیا

 

گھر کا گھر سب سپردِ خدا کردیا

 

اس حسینؑ ابنِ حیدر پہ لاکھوں سلام

کر لیا نوش جس نے شہادت کا جام

 

جس کو دوشِ نبی پر بیٹھایا گیا

 

جس کا جنت سے جوڑا منگایا گیا

جس کو تیروں سے چھلنی کرایا گیا

 

جس کے بیٹے کو قیدی بنایا گیا

 

اس حسینؑ ابنِ حیدر پہ لاکھوں سلام

کر لیا نوش جس نے شہادت کا جام

 

 

منگل، 12 اکتوبر، 2010

جمعہ، 8 اکتوبر، 2010

Attack on Karachi Sufi Shrine Abdullah Shah Ghazi

image

On Thursday, twin blasts struck a Sufi shrine in Karachi, killing at least 5 people and injuring at least 40 others (the Express Tribune reports 10 killed and over 50 injured), just a few months after 40 people were killed in an attack on the Data Darbar shrine in Lahore. According to ……… [Read full story]

جمعہ، 1 اکتوبر، 2010

URS of Hazrat Sakhiy-e-Kamil will be held on 24th October, 2010

 

Banner urs 2010 sakhi e kamil

Click the picture to enlarge and download

 

URS (عرس) of Hazrat Sakhiy-e-Kamil Hazrat Syed Afzaal Ahmad Hussain Gilani will held on Sunday, 24th October, 2010.

اتوار، 19 ستمبر، 2010

Islamic Scholars

A brief sketch of 12 Scholars of Muslim World and their workings and contributions.

To read/download click on the link below:

http://www.scribd.com/doc/37681973/Islamic-Scholars

If you are facing some error in the link mentioned above you can also try another link:

http://tinyurl.com/IslamicScholars

جمعہ، 10 ستمبر، 2010

Eid Mubarak

Assalamo Alaikom wa Rahmatullahi wa Barakatuhu

 

Islam is the religion that teaches us to look at our brothers’, sisters’ and neighbours’ needs before looking at our own needs. Eid is an Islamic festival and celebration; we should try to wear new clothes and new things or at least neat and tidy. On this occasion, we are taught to specially look at other Muslims. Islam gives a law of FITRANA so that poor and needy Muslims could also enjoy the Eid as do rich people enjoy their Eid. This year, we don’t have to search for poor and needy people as our brothers and sisters are victims of flood. This year, we should try to give money for flood. This year, we should try to buy one thing instead of two and donate the money of the second thing to the victims of flood disaster.

Dear Muslims, on this Eid, try to reduce your Eid shopping at least 50 percent and try to donate that money to the victims of flood disaster struggling for life. Be generous if you want Allah to be Generous upon you. Pray for our brothers and sisters who are a victim of flood. May Allah Help them and restore them to their lives as before. May Allah make this Eid a memorable Eid that had not been celebrated yet and May Allah makes the next Eid better than this Eid. May Allah Showers His Blessing upon every Muslim in the world.

 

Eid Mubarak to every Muslim from Hazrat Pir Syed Muhammad Mubarak Ali Gilani (Sajjada Nasheen Mundair Sharif Syeddan), Sahibzada Syed Shah Kamal Mohy-ud-Din (Chief Editor monthly Sohney Mehraban) and other members of Sohney Mehraban Welfare Organization.

عید مبارک

بدھ، 25 اگست، 2010

MAQAM-E-SAHABIYYAT HAZRAT MEHBOOB-E-ZAAT KI NAZAR MEIN by Sahibzada Syed Shahrukh Kamal Gilani

To read/download this article in pdf, click here. یہ مضمون پی ڈی ایف فائل میں پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

اس مضمون کے جملہ حقوق بحق صاحبزادہ سیّد شاہ رُخ کمال گیلانی محفوظ ہیں۔

بغیر قلمی اجازت اس مضمون کا استعمال کسی بھی جگہ پر کسی بھی طریقے سے غیر قانونی ہے۔

یہ مضمون ماہنامہ سوہنے مہربان ماہِ شعبان و رمضان 1431ھ میں شائع ہوا

 

مقامِ صحابیت حضرت محبوبِ ذات کی نظر میں

تحریر: صاحبزادہ سیّد شاہ رُخ کمال مکرّم گیلانی

 

            اعوذ باللہ من الشیطٰن الرّجیم۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

            السلام علیکم ورحمة اﷲ وبرکاتہ

            کافی مدّت سے مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے مریدین میں ایک خیال پیدا ہو رہا ہے کہ شاید حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز صحابہ کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور نہ اُن کا ذکر کیا کرتے تھے بالخصوص خلفائے راشدین میں سے پہلے تین خلفاءکا ذکر نہیں کیا کرتے تھے۔

            جب میں نے محسوس کیا کہ چند لوگ اس چیز کا قطعی طور پر انکار کر رہے ہیں کہ سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز صحابہ کا ذکر کرتے تھے تو میں نے چاہا کہ اس کی تحقیق کی جائے۔ ذاتی طور پر میں نے اس کی تحقیق اپنے بزرگوں سے شروع کر دی۔

            میں نے سوچا کہ اگر آج چند لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوالات پیدا ہو سکتے ہیں تو کل اکثر لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ کل کو ثبوت پیش کرنا مزید دشوار ہو گا کہ ہم شاید اُن لوگوں کے بیانات بھی نہ دے پائیں جو سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کی صحبت میں رہے۔ مگر آج یہ کام زیادہ مشکل نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ان سوالات کے صحیح جوابات کی تحقیق مریدین کے لیے تھوڑی دشوار ہو سکتی ہے۔ اس لیے میں نے چاہا کہ میں اس پر مزید تحقیق کر کے مریدین کے سامنے سچائی رکھوں۔

            اگر ہم سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے شہزادوں کی تصنیفات اٹھا کر دیکھیں جو کہ آپ قدس سرہ العزیز کی سوانح حیات پر لکھی گئیں یعنی ’ملفوظاتِ محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز‘ (تصنیف شہزادہٴ اوّل سرکار سخیٴ کامل حضرت سیّد افضال احمد حسین گیلانی قدس سرہ العزیز) اور ’مرآة الرّحمن‘ (تصنیف شہزادہٴ سوئم حضرت مفتی سیّد افتخار احمد حسین گیلانی رحمة اللہ علیہ)۔ ان دونوں تصنیفات میں سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کے مواعظ و ملفوظات میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا ذکر اور فضیلت بھی شامل ہیں۔

            شیخ المشائخ پیر سیّد محمد مبارک علی شاہ صاحب گیلانی قادری مدظلہ العالی، سجادہ نشین دربارِ عالیہ منڈیر شریف سیّداں، نے بتایا کہ سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات سیّد احمد حسین گیلانی قادری قدس سرہ العزیز ہر جمعة المبارک کو جو خطبہ ارشاد فرماتے تھے اُس میں حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم کے اسمائے گرامی بھی شامل ہوتے اور اِسی وجہ سے آج تک جو خطبہ دربارِ عالیہ میں جمعة المبارک پر پڑھا جاتا ہے اُس میں خلفائے راشدین کے اسمائے گرامی بھی شامل ہوتے ہیں۔

            شیخ المشائخ کے برادرِ اصغر، حضرت سیّد شاہ کمال محی الدین گیلانی قادری، مدظلہ العالی نے مجھے اُس خطبہ والی کتاب کی زیارت کروائی جس سے دیکھ کر سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز جمعة المبارک کا خطبہ پڑھا کرتے تھے۔ اور بتایا کہ یہ والا خطبہ (الحمد لربّ ھو شافٍ لسقیمٖ) پڑھا کرتے تھے۔ اور اُس کتاب پر سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کے دستِ مبارک سے لکھا ہوا شعر بھی دکھایا۔

            حضرت قبلہ پیر سیّد محمد مبارک علی گیلانی مدظلہ العالی، سجادہ نشین دربارِ عالیہ، نے فرمایا کہ یہ پہلا خطبہ سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز ہر جمعہ کو پڑھا کرتے اور دوسرا خطبہ کبھی ایک پڑھ لیتے تو کبھی دوسرا پڑھ لیتے۔ پھر حضرت پیر سیّد محمد مبارک علی شاہ صاحب مدظلہ العالی نے اُسی انداز میں وہ خطبہ پڑھ کر سنایا جس انداز میں حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز اسے پڑھا کرتے تھے۔

            آپ کے برادرِ اصغر نے بتایا کہ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے بعد آپ قدس سرہ العزیز کے شہزادہٴ سوئم حضرت سیّد افتخار احمد حسین گیلانی رحمة اللہ علیہ بھی یہ خطبہ اکثر پڑھا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ جونسا بھی خطبہ آپ کبھی پڑھتے تو اُ س میں بھی خلفائے راشدین کے اسمائے گرامی شامل ہوتے۔ اور جب آپ تشریف نہ رکھتے تو سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کے ایک مرید جناب سیّد ذوالفقار علی نقوی، اہلِ تشیع ہونے کے باوجود یہی خطبہ پڑھا کرتے تھے کیونکہ یہ خطبہ سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز نے پڑھا۔

            اس کے بعد اکثر مقامات پر میں نے حضرتِ سجادہ نشین دربارِ عالیہ مدظلہ العالی اور آپ کے برادرِ اصغر مدظلہ العالی سے ایسے لوگوں کا ذکر کیا تو انہوں نے یہی چیزیں ہر بار بتائیں اور چند واقعات سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کی زندگی سے بیان کیے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز اپنی زندگی میں صحابہ کرام اور خلفائے راشدین رضوان اللہ اجمعین کا ذکر کیا کرتے اور ان کے خلاف کبھی بات سننا بھی پسند نہ فرماتے۔

            اس سے پہلے کہ میں دیگر واقعات بیان کروں، میں چاہوں گا کہ سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے دستِ مبارک کا نوشت آپ لوگوں کو دکھاں۔ یہ مرآة الرّحمن میں بھی موجود ہے۔ اس میں حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت امام علی، حضرت امام حسن، حضرت امام حسین، رضی اللہ عنھم، حضرت فاطمہ، حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ سلام اللہ علیھن کے بارے میں احادیثِ نبوی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے دستِ مبارک سے لکھی ہوئی ہیں۔

Untitled-1 (1)

            پچھلے سال (2009ء میں) جب میں نے یہ ذمّہ اٹھایا کہ مریدین تک حضرت سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کا صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی طرف رویّہ بتانا ہے تو میں اس سوچ میں تھا کہ کن کن اشخاص اور ذرائع سے معتبر خبریں فراہم ہو سکتی ہیں۔ میں مرآة الرّحمن کا مطالعہ کر رہا تھا کہ یہ نوشت مبارک میری نظروں سے گزرا۔ اگلے ہی ماہ یعنی شعبان المعظم ۱۴۳۰ھ، اگست 2009ء میں رسالہ ماہنامہ سوہنے مہربان میں ہی ’خطباتِ محبوبِ ذات قدس سرة العزیز (ترتیب و پیشکش: عباس علی قادری المعروف عباس جی کمالیہ)‘ چھپا۔ اُس میں سرکارِ عالی کے سات مواعظ کا خلاصہ بیان کیا گیا۔ یہ مواعظ مرآة الرّحمن میں بھی موجود ہیں۔

            مضمون 'خطباتِ محبوبِ ذات قدس سرة العزیز (رسالہ سوہنے مہربان شعبان ۰۳۴۱ھ)' سے کچھ سطور نیچے نقل کر رہا ہوں جو عباس علی قادری صاحب نے تحریر کیے۔

            سرکارِ عالی محبوبِ ذاتؒ نے چوتھے وعظ میں عظمتِ صحابہ پر گفتگو فرمائی کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ جو ان کی معیت میں آ جاتے ہیں (اصحاب) وہ کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں رحم دل۔ ان کو دیکھا جا سکتا ہے رکوع و سجود کرتے ہوئے۔ (عبادات خداوندی میں مصروف) ہر گھڑی اللہ کا فضل تلاش کرتے ہیں۔ اس کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشان ہیں۔ توریت اور انجیل میں ان کے اوصاف کی مثالیں دی گئی ہیں۔

            ان کے ذریعہ ہی دین کو تقویت ملی، حضرت کے وقت اور خلیفوں کے وقت وعدہ دیا ان کو ایمان لائے اور نیک کام کئے۔ مگر خاتمے کا اندیشہ رکھا تاکہ نڈر نہ ہو جائیں۔ حالات سے اتنی شاباش بھی غنیمت ہے۔

            آپؒ وہ خطبہ ارشاد فرماتے جس میں احترام صحابہ کا درس ملتا ہے۔ (مراة الرحمن ص 27 دیکھئے(

            وَلَوُ کُنُتُ مُتَّخِذَا خَلِیْلًا غَیْرَ رَبِّیْ لَاتَّخِذْتُ اَبَا بَکْرٍ خَلِیْلاً      ؕ  اِنَّ اللہَ تَعَالٰی جَعَلَ الْحَقَّ عَلٰی لِسَانِ عُمْرَ       ؕ  وَرَفِیْقِیْ فِیْ الْجَنَّةِ عُثْمَانِ بْنُ عَفَّانَ وَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌ مَولَاہُ وَالْحَسَنُ  وَالْحُسَیْنُ  سَیِّدُ الشَّبَابُ اَہْلَ الْجَنَّةِ وَالْفَاطِمَةُ  سَیِّدَةُ نِّسَآءِ اَہْلَ الْجَنَّةِ وَخَیْرَ نِسَآئِہَا خَدَیْجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِدٍ وَّ فَضَلَ عَائِشَةَ عَلَی النِّسَآئِ فضل الشریف علی سائر الطعام۔

            گویا آپ مؤدة صحابہ و اہلِ بیت علیہم السلام کا درس دیتے اور ازواجِ رسول کا احترام سکھاتے۔

            اس کے بعد اب اگر کوئی اور دلیل نہ بھی پیش کی جائے تو یہ کافی ہے یہ بتانے کے لیے کہ سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز خلفائے راشدین اور ازواجِ مطہرات کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا کرتے تھے اور ہر گز ان کے خلاف کوئی بات نہ کہتے تھے۔ لیکن میں مزید آگے چلوں گا اور چند واقعات کا ذکر کروں گا جو کہ مجھے تحقیق کرنے پر معلوم پڑے ہیں۔

            حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے چار شہزادوں سے زیادہ بہتر حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے بارے میں ہمیں کون آگاہ کر سکتا ہے؟ شہزادہٴ اوّل اور شہزادہٴ سوئم تو نظامِ قدرت کے تحت اپنے فانی اجسام کو فنا کر کے اپنی حقیقی زندگیوں میں پہنچ چکے ہیں۔ اس لئے ہم ان کی تصنیفات اور اولاد سے ہی ان کے بارے میں مستند معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ اور شہزادہٴ دوئم سے بھی ہم نے معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کی۔

            تصنیفات کے بارے میں پہلے بھی ذکر ہو چکا کہ سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے دو شہزادوں نے جو آپ قدس سرہ العزیز کی زندگی پر سوانح حیات مرتب کیں اُن دونوں میں حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے ملفوظات و مواعظ میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے مناقب بھی شامل ہیں۔

            ملفوظاتِ محبوبِ ذات (تصنیف شہزادہٴ اوّل، سرکار سخیٴ کامل، اعلیٰ حضرت پیر سیّد محمد افضال احمد حسین گیلانی سجادہ نشین دربارِ عالیہ منڈیر شریف سیّداں) میں باب ہفتم (فضائل و مناقبِ اہلِ بیت و صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین)کے پہلے عنوان (صراطِ مستقیم) کے تحت جو کچھ لکھا ہے شاید میرے مضمون کا خلاصہ ہے۔ قارئین کے لیے وہ سطور نیچے نقل کر رہا ہوں:

            ”حضور سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز نے اپنے خطبات میں فرمایا کہ میں شیعہ مذہب اور اہل سنت والجماعت کے عقیدوں اور ان کی فقہ سے ہٹ کر دین کا وہ اسلوب اختیار کئے ہوئے ہوں جو آقائے نامدار حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ کا تھا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ اور حضرت غوث الثقلین کی راہنمائی سے کسی کو برا نہ کہا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کہ میرے طریقے پر چلنے والوں کی جماعت میری جماعت ہے اور یہی سوادِ اعظم یعنی بڑی جماعت ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کہا ہے یہ میری جماعت ہے یعنی صحابہ کرام کی جماعت جن کو اللہ تعالیٰ نے عشرہ مبشرہ اور الآ انا اولیآءاللہ لا خوف علیھم ولاھم یخزنون فرمایا ہے۔ یہی جماعت سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کی ہے جو 72 گروہوں میں سے صراطِ مستقیم پر گامزن ہے۔ اسی نظریے کے تحت حضور سرکارِ عالی نے ہمیشہ اہلِ بیت اور صحابہ کرام کو اپنے مواعظ اور خطبات میں اوّلین اہمیت دی۔ اہلِ بیت سے حضور سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کو والہانہ محبت تھی۔ قرآن پاک کے حکم کے مطابق اہلِ بیت کی محبت فرض ہے۔ صحابہ کرام کی فضیلت آپ کے اس عمل سے نمایاں ہے کہ آپ سرکار نے ان کی خدمات کو سراہنے کے ساتھ ساتھ جمعة المبارک میں ہمیشہ وہ خطبہ پڑھا جس میں اہلِ بیت اور صحابہ کرام کے اسمائے گرامی پڑھے جاتے ہیں۔ یہ مقبول ترین خطبہ سارے پاکستان کی مساجد میں پڑھا جاتا ہے۔“ (ملفوظاتِ محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز، باب ہفتم، عنوان صراطِ مستقیم، صفحہ نمبر 94)۔

            شہزادہٴ اوّل سرکار سخیٴ کامل حضرت قبلہ سیّد افضال احمد حسین گیلانی قدس سرہ العزیز جب دعا مانگتے تو درود شریف میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین پر بھی درود بھیجتے۔ نہ آپ نے کبھی صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے خلاف کوئی کلمہ کہا اور نہ ہی آپ کے کسی عمل سے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی مخالفت ثابت ہے۔

            شہزادہٴ دوئم قبلہ حضرت سیّد اقبال احمد حسین گیلانی دامت برکاتہم العالیہ، سربراہِ اعلیٰ دربارِ عالیہ منڈیر شریف سیّداں، کی مصروفیات، میری فراغت میں اور میری فراغت اُن کی مصروفیات میں ہوتی، جس کی وجہ سے تقریباً چار ماہ تک مجھے اُن کے ملفوظات محفوظ کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ 27 دسمبر 2009 بروز اتوار بمطابق ۹ محرم الحرام ۱۴۳۱ھ کو مجھے یہ موقع نصیب ہوا تو میں نے کیمرا لیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ بعد از سلام، آپ سے عرض کی کہ سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کی نظر میں مقامِ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے لیے آپ سے پہلے بھی عرض کی تھی مگر وقت نہ مل سکا۔ تو سرکارِ عالی قدس سرہٰ العزیز کی زندگی میں سے کسی واقعہ پر روشنی ڈال کر اس بات کی تصدیق فرما دیں۔ تو آپ نے ایک واقعہ بیان کیا۔ آپ کے الفاظ اُسی طرح تحریر کر رہا ہوں:

            ” اعوذ باللہ من الشیطٰن الرّجیم۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ کچھ لوگ سرکارِ عالی (قدس سرہ العزیز) کے پاس آئے۔ کہنے لگے صحابہ کرام کا درجہ بتائیں۔ اور یہ بتائیں کہ حضرت علی (کرم اللہ علیٰ وجہہ الکریم) کیوں بعد میں خلیفہ بنے؟ سرکار نے فرمایا کہ حضرت صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) کو رسولِ پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے خلیفہ بنایا، پھر باری حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی آئی، پھر باری حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کی آئی۔ اگر علی (علیہ السلام) کو پہلے بنا دیتے، حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی باری نہیں آنی تھی‘ نہ صدیق (رضی اللہ عنہ) کی باری آنی تھی۔ اس واسطے سرکار رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذہانت کے ساتھ، اپنے تدبّر کے ساتھ، اُن کو پہلے خلیفہ بنایا۔ یہ ترتیب دی ہے: پہلے خلیفہ صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ)، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، پھر حضرت علی (کرم اللہ علیٰ وجہہ الکریم) کو خلیفہ بنایا۔ یہ بہت بڑی بات تھی جو لوگ نہیں سمجھ پاتے۔“

            ہمارے بزرگ عموماً پنجابی زبان میں کلام کرتے ہیں مگر بچوں کے ساتھ اردو زبان میں ہی گفتگو کرتے ہیں۔ میں نے اُسی ترتیب میں اور اُسی طرح وہ کلمات رقم کرنے کی کوشش کی ہے۔

            لکھتے لکھتے ہی مجھے علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔ حکیم الامت، حضرت علّامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا

تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استور

لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر

اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش

اے گرفتارِ ابوبکرؓ و علیؓ ہشیار باش

            اب میں نے وہ باقی اشخاص تلاش کیے جنہوں نے حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا۔ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے گلشن میں یہ سعادت، پوتوں میں سے صرف دو شہزادوں کو مل سکی یعنی شہزادہٴ اوّل کے دو شہزادے حضرت سجادہ نشین اور ان کے برادرِ اصغر سیّد شاہ کمال محی الدین گیلانی۔

            پیر طریقت الحاج پیر سیّد محمد مبارک علی گیلانی قادری مدظلہٰ العالی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ قادریہ فاضلیہ احمد حسینیہ افضالیہ منڈیر شریف سیّداں، ضلع سیالکوٹ) سے اِس مضمون کے لئے اکثر مقامات پر معلومات حاصل کی جنہیں یہاں اکٹھا کر رہا ہوں۔ اسی طرح آپ کے برادرِ اصغر سیّد شاہ کمال محی الدین گیلانی قادری مدظلہ العالی سے بھی اکثر مقامات پر اس سلسلہ میں بات ہوتی رہی۔ اور وہ معلومات بھی یہاں اکٹھی کر کے لگا رہا ہوں۔

            آپ دونوں نے سختی سے اس بات کی نفی کی کہ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو اچھا نہ جانتے تھے۔ آپ دونوں نے مجھے وہ خطبہ دکھایا جو سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز جمعہ کے روز پڑھا کرتے تھے اور اُس میں خلفائے راشدین کے نام بھی موجود ہیں۔اس بات کا تفصیلی ذکر اس مضمون کے ابتداء میں آ چکا ہے۔

            مزید میں نے حضرت سیّد شاہ کمال محی الدین گیلانی مدظلہ العالی سے ایک واقعہ سنا۔ آپ مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے ایک شیعہ مرید نے یہ جاننا چاہا کہ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کا صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے متعلق کیا خیال ہے؟ اور اس سوال کے پوچھنے کی وجہ یہی تھی کہ آپ قدس سرہ العزیز کے مریدین آپ قدس سرہ العزیز کی باتوں کو مستند سمجھتے تھے اور اپنے علماءکے پیچھے چلنے کی بجائے سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے پیچھے چلنا بہتر سمجھتے تھے۔ ان شیعہ صاحب نے آپ قدس سرہ العزیز کے نائی سے کہا کہ جب وہ آپ قدس سرہ العزیز کا خط کر رہا ہو تو یہ سوال پوچھ لے۔ آپ قدس سرہ العزیز کے نائی نے خط کے دوران یہ سوال پوچھا تو سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز نے خط وہیں روک کر اُسے بڑے جلال میں جواب دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب ہیں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں اور ان کا مقام بہت بلند ہے۔

            ان کے علاوہ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے رشتہ داروں میں ان لوگوں کو تلاش کیا جنہوں نے سرکارِ عالی کو اپنی ہوش میں دیکھا اور سنا ہو۔   اس کام میں سب سے پہلے میں نے گلشنِ محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے چند گلوں سے معلومات حاصل کرنا چاہی۔

            حضرت محبوبِ ذات رضی اللہ عنہ کی ظاہری حیاتِ طیبہ کے آخری لمحات تک آپ کی سب سے بڑی نواسی آپ قدس سرہ العزیز کی خدمت میں معمور رہیں۔ آپ ہی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے لیے روٹیاں پکایا کرتی تھیں۔ چنانچہ میں نے چاہا کہ ان سے اس موضوع پر کچھ پوچھا جائے۔ آپ نے بھی یہی بتایا کہ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز جمعة المبارک میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا ذکر کیا کرتے تھے خصوصاً چار اصحاب کا۔ آپ نے یہ بھی بتایا کہ جو لوگ اس چیز کا انکار کر رہے ہیں انہوں نے تو خود کبھی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کو دیکھا بھی نہیں۔ آپ نے بتایا کہ جو درود شریف پڑھا جاتا تھا اُس میں اصحاب کا ذکر آتا تھا۔ اس بات کی تصدیق حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے شہزادہٴ اوّل اور شہزادہٴ دوئم کی بڑی صاحبزادیوں نے بھی کی اور یہ بھی بتایا کہ وہ درود شریف جمعہ کے خطبہ سے پہلے کثرت سے پڑھا جاتا تھا۔ دونوں شہزادیوں نے حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے۔

            حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے پوتوں میں سے ایک شہزادے نے مجھے بتایا کہ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز اہلِ تشیع حضرات سے یہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر ہمارے پاس آنا ہے تو یہ باتیں مانو۔ ایک تو یہ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو گالی نہ دو، دوسری یہ کہ ماتم نہ کرو اور تیسری یہ کہ غوث الاعظم کو پیرانِ پیر اور سیّد تسلیم کرو۔

            تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات رضی اللہ عنہ کے مریدین میں اہلِ تشیع حضرات بھی کثیر تعداد میں موجود تھے۔ یہاں ایک چیز قابلِ غور ہے کہ اہلِ تشیع حضرات کسی پیر کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے کیونکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ زندہ ہیں اور ابھی ان ہی کی بیعت جاری ہے۔ جب ان کا ظہور ہو گا تو تب ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ مگر سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کی یہ کرامت تھی کہ جو شیعہ آپ کے آستانہ پر آتا اور آپ کو ایک نظر دیکھ لیتا تو آپ کا مرید بننے کی خواہش ظاہر کرتا۔ حالانکہ چند لمحے قبل وہ اس نیت سے آ رہا ہوتا تھا کہ میں بھی دیکھوں یہ پیر کون ہے؟ آخر یہ کیوں شیعوں میں اتنی مقبولیت حاصل کرتا جا رہا ہے؟ کیا اس کے پاس واقعی کچھ ہے یا نہیں؟ اور جب کوئی شیعہ آپ قدس سرہ العزیز کا مرید ہو جاتا تو اپنے علماءکی باتیں اور احادیث پر آپ رضی اللہ عنہ سے ہی تصدیق کی مہر لگواتا اور جب تک آپ کسی بات کی تصدیق نہ کرتے تو اُس بات کو نہ مانتا اور جس بات کو صحیح فرما دیتے اُسے قبول کر لیتا خواہ وہ اہلِ تشیع کے عقائد کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

            مزید میں نے چاہا کہ سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کے جتنے مریدین ابھی حیات ہیں یا وہ لوگ جنہوں نے اپنی ہوش میں سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کو دیکھا اور سنا ہے یا وہ لوگ جنہوں نے خواہ سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کو اپنی زندگی میں نہ دیکھا ہو مگر ایک یا دو واسطوں سے حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے مبارک حالات و واقعات کو کثرت کے سنا ہو یا دربارِ عالیہ کے حالات کو ان ایام میں دیکھا ہو، ان سے بھی اس بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہیے۔

            اس سلسلہ میں سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کے ایک مرید جناب سیّد یوسف شاہ صاحب، جو لاہور سے ہیں، سے ملاقات کی۔ ان سے اس بارے میں تفصیلی بات چیت ہوئی۔ انہوں نے اس بات کو واضح کیا کہ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز نے کسی صحابی کو کبھی برا بھلا بھی نہیں کہا، گالی دینا تو بہت دور کی بات ہے۔ آپ ہمیشہ اپنے مریدین کو ان لوگوں کی عظمت سے آگاہ کرتے اور فرماتے انہوں نے اسلام کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ جمعہ کے خطبہ اور درود شریف والی بات تو ہر وہ شخص بتاتا ہے جو حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے ساتھ رہا ہے خواہ انتہائی قربت نہ پا سکا۔ مگر ایک چیز بہت واضح ہے کہ سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات السیّد احمد حسین گیلانی رضی اللہ عنہ ہمیشہ اہلِ بیت کے ذکر کو بلند و بالا رکھتے اور ہر کسی کو اس کی تلقین کرتے اور اہلِ بیت علیہم السلام کو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین پر مقدم رکھتے۔

            سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کی خدمت میں عرصہ دراز تک امّاں فضلاں (جنہیں لوگ بہن فضلاں کے نام سے جانتے ہیں) مقیم رہیں۔ آپ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے کھانے کا انتظام بھی کرتیں۔ آپ نے اور حضرت محبوبِ ذات رضی اللہ عنہ کی نواسی نے (جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے) حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کی بے حد خدمت کی۔ اس وجہ سے آپ دونوں کی روایات معتبر اور مستند ہیں۔ اماں فضلاں نے بھی یہی بات کہی کہ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز نے تو کبھی کسی عام انسان کو برا بھلا نہیں کہا جبکہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی شان تو ویسی ہی عام انسانوں سے بلند ہے۔ اس بات کی مزید تصدیق حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کی پوتی نے کی۔ پھر اماں فضلاں نے بھی جمعہ کے خطبہ اور درود شریف کے بارے میں بتایا۔

            حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے مرید اور خلیفہٴ ثانی، خلیفہ محمد عبد الحفیظ صاحب رحمة اللہ علیہ کے مریدین میں سے ایک خاندان دربارِ عالیہ میں لمبا عرصہ رہا۔ یہ اُس دور میں آئے کہ جب میرے والدِ ماجد حضرت صاحبزادہ سیّد شاہ کمال محی الدین گیلانی مد ظلہ العالی ابھی نویں جماعت میں تھے۔ حضرت سخیٴ کامل قدس سرہ العزیز کے وصال کے چند سال بعد یہ خاندان قریبی علاقے میں چلا گیا مگر اکثر دربارِ عالیہ پر آ کر یہ حاضری دیتے ہیں۔ یہ لوگ زیدی سیّد ہیں اور پرانے مریدین سرور شاہ جی اور انوار شاہ جی کو بخوبی جانتے ہیں۔ عورتیں ان کی والدہ کو آپاں یاسمین کے نام سے جانتی ہیں۔ جب میں نے ان سے بھی اس موضوع پر کچھ چیزیں پوچھیں تو انہوں نے سختی سے اس بات کا انکار کیا کہ سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو برا بھلا کہتے تھے۔ آپ نے یہ بھی بتایا کہ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے مریدین میں شیعہ حضرات کافی تعداد میں تو تھے مگر ان سے بہت زیادہ تعداد میں سنی حضرات تھے۔ آپ کے مریدین کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کیونکہ آپ نے ہندوستان (انڈیا) میں بہت زیادہ مرید کیے۔ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کو کبھی کسی نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے خلاف کوئی عمل یا کلمہ کہتے نہیں دیکھا۔

            حضرت سخیٴ کامل سیّد محمد افضال احمد حسین گیلانی قدس سرہ العزیز کی ایک مرید ہیں جنہوں نے کافی طویل عرصہ دربارِ عالیہ پر گزارا۔ اکثر پرانے مریدین انہیں سہیلی نسیم کے نام سے جانتے ہیں۔ آپ سرکارِ عالی رضی اللہ عنہ کے وصال کے تقریباً تین سال بعد دربارِ عالیہ پہلی مرتبہ آئیں۔ گو آپ نے حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کو نہیں دیکھا مگر چونکہ آپ نے کافی عرصہ دربارِ عالیہ پر گزارا اور پرانے مریدین میں شامل ہیں تو میں نے آپ سے اُس وقت دربارِ عالیہ کی رسومات و معمولات کے بارے میں دریافت کیا۔ مجھے یہ بات سن کر عجیب نہیں لگا کہ اُس دور میں بھی جمعة المبارک کے خطبہ میں خلفائے راشدین کا نام لیا جاتا تھا۔ اُس دور میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے خلاف کوئی کلمہ سرزد نہ ہوتا تھا۔

            گویا آج کے زمانہ میں کوئی اہلِ سنت و جماعت اہلِ بیت علیہم السلام کے مقام کو نیچا کرنا چاہے یا کوئی اہلِ تشیع صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے مقام کو نیچا کرنا چاہے تو دونوں ہی سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کے عقائد سے اتفاق نہیں کرتے اور میری نظر میں وہ دونوں ہی گمراہ ہیں۔ سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کی زندگی اور ان کے ملفوظات سے، جہاں تک ہم نے پڑھا اور سنا، ہمیں یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا مقام بہت بلند ہے، ان کی شان میں گستاخی نہیں کرنی چاہیے مگر اہلِ بیت علیہم السلام کر رتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے بہت زیادہ بلند و بر تر ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اہلِ بیت علیہم السلام کے خدام میں شامل ہیں۔ مالک اور نوکر کا کبھی مقابلہ نہیں ہوا کرتا۔ اس وجہ سے ہمیں بھی چاہیے کہ اہلِ بیت علیہم السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے مقابلہ سے باز رہیں۔ چونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اہلِ بیت علیہم السلام کے خدام ہیں اس لیے میرے لیے ان کا رتبہ بہت بلند ہے اور اسی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا احترام مجھ پر فرض ہے۔

            قارئین اس سوال کا جواب ضرور جاننا چاہتے ہوں گے کہ میں کم عقل کیوں اپنا وقت ایسی متنازعہ تحقیق میں ضائع کر رہا ہوں؟ میں یہاں اس بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ اولاً تو یہ کہ ایسی تحقیق کسی مرید کے لیے ایک مشکل کام ثابت ہو سکتی ہے۔ جبکہ میرے لیے یہ تحقیق اتنی مشکل نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہمارے گھر کی بات ہے جس کو میں بہت مرتبہ مختلف اشخاص سے سن سکتا ہوں۔ ایک واقعہ جتنا زیادہ اور مختلف اشخاص سے مروی ہو گا اتنا زیادہ مستند ہو گا۔اور دوسری بات یہ کہ ایسی تحقیق مجھے صرف مضمون لکھنے کے لیے ہی نہیں کرنی پڑتی بلکہ یہ مجھے اپنے بزرگوں کے حالات و عقائد جاننے کے لیے کرنی پڑتی ہے خواہ وہ کتنی ہی مشکل کیوں نہ ثابت ہو، جنہیں ضرورت کے وقت قلم بند بھی کیا جا سکتا ہے۔

            بعد ازاں ایک اور بات عرض کرتا چلوں کہ یہ مضمون خالصتاً حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے مریدین اور عقیدت مندوں کے لیے لکھا گیا ہے۔ یہ مضمون صرف صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا مقام حضرت محبوبِ ذات کے نزدیک ثابت کرنے کے لیے لکھا گیا ہے۔ چونکہ چند لوگ اس بات کا سرے سے ہی انکار کر رہے ہیں اور مریدین میں اختلافات اور بے خبری نظر آ رہی ہے، اس وجہ سے میں نے چاہا کہ مریدین کو اس بات کی خبر ہونی چاہیے کہ حضور سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کا نظریہ اور عقیدہ کیا تھا۔

            جو شخص حضور سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کے مریدین میں شامل ہے، وہ ان تمام باتوں تو من و عن قبول کرنے کے لیے تیار ہو گا۔ کیونکہ حضور غوث الثقلین شیخ سیّد عبد القادر گیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مرید اپنے پیر کے ہاتھ میں اس طرح ہے جس طرح مردہ، غسّال کے ہاتھ میں۔ اور جو شخص حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے نظریات و عقائد سے اختلاف رکھے، وہ حضور سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کا مرید کہلانے کا حق نہیں رکھتا۔

            یہ مضمون سُنّی یا شیعہ کے حق یا مخالفت میں ہر گز نہیں لکھا گیا۔ اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے مریدین اہلِ تشیع بھی تھے اور انہوں نے آپ قدس سرہ العزیز کو اور آپ کے تمام عقائد کو من و عن مانا۔ ہم ابتداء میں بھی سیّد ذوالفقار علی شاہ صاحب کا ذکر کر چکے ہیں اور یہ بات بھی واضح کر چکے ہیں کہ وہ اہلِ تشیع تھے۔ اگر آپ کبھی جمعة المبارک کا خطبہ پڑھتے تو وہی والا پڑھتے جو سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز پڑھا حالانکہ اس میں خلفائے راشدین کے اسمائے گرامی شامل تھے۔

            حضور سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات سیّد احمد حسین گیلانی قدس سرہ العزیز کے مریدین کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ انہوں نے اہلِ سنت یا اہلِ تشیع کے علماءکے پیچھے نہیں چلنا بلکہ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے پیچھے چلنا ہے۔ اور حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز  فرمایا کرتے کہ میں اہلِ سنت اور اہلِ تشیع سے ہٹ کر دین کا وہ اسلوب اپنائے بیٹھا ہوں جو آقائے نامدار حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنائے تھے۔