جمعرات، 24 نومبر، 2011

Malfozaat-e-Mehboob-e-Zaat

دربارِ عالیہ قادریہ منڈیر شریف کی مشہور تصنیف ’’ملفوظاتِ محبوبِ ذات‘‘ (تصنیف حضرت سخیٔ کامل‘ سرکار اوّل صاحب‘ السیّد محمد افضال احمد حسین گیلانی‘ سجادہ نشین درگاہِ حضرت محبوبِ ذات‘ درگاہِ حضرت محبوبِ ذات‘ منڈیر شریف سیّداں) پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں دستیاب ہے۔ کتاب ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

اگر آپ کو مندرجہ بالا لنک کھولنے میں مشکل پیش آ رہی ہے تو یہاں کلک کریں۔

The famous book of Darbar-e-Aaliya Qadriya Mundair Sharif Syedan, “Malfozaat-e-Mehboob-e-Zaat” (authored by Hazrat Sakhiy-e-Kamil, Sarkar Awwal Sahib, Syed Muhammad Afzaal Ahmad Hussain Gillani, Sajjada Nasheen Dargah-e-Hazrat Mehboob-e-Zaat, Mundair Sharif Syedan) is now available in pdf format. To download the file, click here.

If you are having problem in the link above, then click here.

Please note: As the pdf file is more than 100 MB in size, the preview is not available. So, in order to read the pdf file, you have to download it first. Sorry for the inconvenience but presenting the exact replica of the book in high quality and keeping the pdf file under 100 MB was not possible for us.

ضروری نوٹ: پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم ایک سو ایم۔بی سے زیادہ ہونے کی وجہ سے انٹرنیٹ پر پڑھنے کی سہولت میسر نہیں۔ تاہم‘ پی۔ڈی۔یاف فائل پڑھنے کے لیے اسے اپنے کمپیوٹر میں ڈاؤن لوڈ کریں۔ اس پریشانی کے لیے ہم معذرت خواہ ہیں مگر بالکل کتاب والا رزلٹ اچھی کوالٹی کے ساتھ پی۔ڈی۔ایف فائل میں ۱۰۰ ایم۔بی سے کم حجم میں دینا ہمارے لیے ممکن نہیں۔

بدھ، 31 اگست، 2011

Eid Mubarak

111111111111111111¶¶¶¶¶¶¶
111111111111¶¶¶¶¶¶¶_____¶¶¶¶¶¶¶
11111111¶¶¶¶¶________________¶¶¶¶¶
111111¶¶¶¶______________________¶¶¶¶
11111¶¶____________________________¶¶
...111¶¶________________________________¶¶
11¶¶_______¶¶¶¶¶_________¶¶¶¶¶________¶¶
1¶¶_______¶¶¶¶¶¶¶_______¶¶¶¶¶¶¶________¶¶
¶¶________¶¶¶¶¶¶¶_______¶¶¶¶¶¶¶_________¶¶
¶¶_________¶¶¶¶¶_________¶¶¶¶¶__________¶¶
¶¶______________________________________¶¶
¶¶______¶¶¶__________________¶¶¶________¶¶
1¶¶_______¶¶¶______________¶¶¶_________¶¶
11¶¶________¶¶¶¶________¶¶¶¶__________¶¶
111¶¶_________¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶___________¶¶
11111¶¶____________________________¶¶
1111111¶¶¶______________________¶¶¶
1111111111¶¶¶________________¶¶¶
111111111111¶¶¶¶¶¶______¶¶¶¶¶¶
111111111111111111¶¶¶¶¶¶
11111111111111111¶¶____¶¶
1111111111111111¶¶______¶¶
11111111111111111¶¶¶¶¶¶¶¶
11111111111111111111¶¶
1111111111111111111¶¶
11111111111111111¶¶¶
1111111111111111¶¶
1111111111111111¶¶
11111111111111111¶¶
11111111111111111¶¶
111111111111111¶¶¶
┏━━━┳━━┳━━━┓
┃┏━━┻┫┣┻┓┏┓┃
┃┗━━┓┃┃╋┃┃┃┃
┃┏━━┛┃┃╋┃┃┃┃
┃┗━━┳┫┣┳┛┗┛┃
┗━━━┻━━┻━━━┛
┏━┓┏━┳┓╋┏┳━━┓┏━━━┳━━━┳━━━┳┓┏━┓
┃┃┗┛┃┃┃╋┃┃┏┓┃┃┏━┓┃┏━┓┃┏━┓┃┃┃┏┛
┃┏┓┏┓┃┃╋┃┃┗┛┗┫┃╋┃┃┗━┛┃┃╋┃┃┗┛┛
┃┃┃┃┃┃┃╋┃┃┏━┓┃┗━┛┃┏┓┏┫┗━┛┃┏┓┃
┃┃┃┃┃┃┗━┛┃┗━┛┃┏━┓┃┃┃┗┫┏━┓┃┃┃┗┓
┗┛┗┛┗┻━━━┻━━━┻┛╋┗┻┛┗━┻┛╋┗┻┛┗━┛

بدھ، 1 جون، 2011

قرآن اور کنز الایمان (تحریر شیخ المشائخ، بدر المشائخ، سلطان المشائخ، شیخ سیّد محمد مبارک علی گیلانی قادری مدظلہ العالی)۔

اَلْـحَمْدُ لِلّٰهِ الْقَادِرِ ذِی الْقُوَّةِ الْـمَتِیْنِ o اَلَّذِی اَرسَلَ الاَنْبِیَآءِ بِالْـهِدَایَةِ وَالتَّلقِیْنِ o وَوَلَّی الْاَوْلِیَآءِ لِاِحْیَاءِ الدِّیْنِ ؕ وَاَظُهَرَ الْـمُعجِزَاتِ وَالْکَرَامَاتِ بِاَیْدِیْهِمْ تَـنْبِیْهًا لِلْمُنکِرِینَ ؕ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِنَا الْکَونَیْنِ نَبِیِّ الْـحَرَمَیْنِ غَیَاثِ الدَّارَیْنِ وَمُغِیْثِ الْـمَلْوَیْنِ اِمَامِ الْقِبْلَـتَیْنِ جَدِّ الْـحَسَنِ وَالْـحُسَیْنِ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا عَظِیْمِ الاٰبَاءِ مِنْ سَیِّدِنَا آدَمَ اِلٰی سَیِّدِنَا عَبْدِ اﷲِ۔ اللّٰهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ کَرِیْمِ الْاُمَّهَاتِ مِنْ سَیِّدَتِنَا السَّیِّدَةِ حَوَّاءَ اِلٰی سَیِّدَتِنَا السَّیِّدَةِ آمِنَةِ وَسَیِّدَتِنَا حَلِیْمَةِ بِعَدَدِ کُلِّ مَعلُوْمٍ لَّکَ یَا عَلِیْمُ۔ اللّٰهمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَاَهلِ بَیتِهِ وَاَصْحَابِهِ وَاَزْوَاجِه وَاَوْلَادِهِ سَیِّدِنَا الْقَاسِمِ وَسَیِّدِنَا عَبْدِاﷲِ وَسَیِّدِنَا اِبْرَاھِیْمَ وَسَیِّدِنَا زَیْدٍ وَّعَمَّاتِه ِوَبَنَاتِهِ سَیِّدَتِنَا السَّیِّدَةِ فَاطِمَةَ الزَّھْرَا اُمِّ مَوْلَانَا الْاِمَامِ الْـحَسَنِ وَاُمِّ مَوْلَانَا الْاِمَامِ الْـحُسَیْنِ وَسَیِّدَتِنَا السَّیِّدَةِ زَیْنَبَ وَسَیِّدَتِنَا رُقَیَّةِ وَسَیِّدَتِنَا السِّیِّدَةِ اُمِّ کُلثُوْمِ وَسَیِّدَتِنَا السَّیِّدَةِ زَیْنَبَ فِی کُلِّ لَـمْحَةٍ وَنَفْسٍ عَدَدَ مَاوَسِعَةَ عِلْمُ اﷲِ۔ اَمَّا بَعْد

فَاَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ فَقَدْ قَالَ اﷲُ تَعَالٰی فِی الْقُراٰنِ الْکَرِیْمِ بُرْهَانِ الرَّشِیْدِ فُرْقَانِ الْـمَجِیْدِ نُورٌ مُّبِیْنِ ذِکْرِ الْعَظِیْمِ:

وَنُنَزِّلُ مِنَ القُراٰنِ مَا ھُوَ شِفَآءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۙ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا (پارہ نمبر 15 سبحٰن الذیٓ، سورة بنیٓ اسرآئیل، آیت 82) صدق اﷲ العظیم

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ !

میں نے اپنے مضمون کا آغاز قرآنِ کریم میں سے پارہ نمبر 15 کی سورة بنی اسرائیل / الاسراء کی ایک آیتِ مبارکہ سے کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ پہلی الہامی کتابوں کی نسبت قرآنِ کریم میں کیا خوبیاں ہیں۔ میں نے جس آیت سے آغاز کرنے کی کوشش کی اُس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس قرآن میں شفاءصرف مومنوں کے لیے ہے۔ اور جو کوئی بھی اس کے ساتھ عدل و انصاف نہ کرے اور جو کوئی بھی اس کا ترجمہ فی الواقع وہ بیان نہ کرے گا، قرآن میں اُس شخص کے لیے سوائے خسارے کے اور کچھ بھی نہیں۔ قرآن کریم اس کے لیے شفاءنہیں ہو گا بلکہ اس کے حق میں نقصان دے گا۔ جس طرح کے خود قرآنِ کریم میں اس بات کا ذکر سورة البقرة کی آیت نمبر 26 میں آتا ہے:

یُضِلُّ بِه کَثِیْرًا ۙ وَّیَهْدِیْ بِه کَثِیْرًا ؕ۔ اور بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے۔ (سورة البقرة، آیت 26)

اگر اِن دونوں آیات کو اکٹھا دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس فرقانِ حمید سے بہت سے لوگوں کو ہدایتِ کامل ملتی ہے اور وہ جب مومن کے درجہ تک پہنچ جاتے ہیں تو ان کے لیے یہی قرآنِ مجید شفاءکا کام دیتا ہے۔ اور بہت سے لوگ اس کا اصل مطلب نہیں سمجھ پاتے اور اس میں منشائے ربِّ تعالیٰ ڈھونڈنے کی بجائے اپنی مرضی تلاش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے قرآن میں خسارے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ وہ اسی کتاب اللہ سے بہک جاتے ہیں۔

عَنْ عَائِشَةَ رضی اﷲ عنها: أَنَّ النَّبِیَّ صلی اﷲ علیه وآله وسلم کَانَ یَنْفُثُ عَلَی نَفْسِهِ فِي الْـمَرَضِ الَّذِي مَات فِیْهِ بِالْـمُعَوِّذَاتِ، فَلَمَّا ثَقُلَ کُنْتُ أَنْفُثُ عَلَیْهِ بِهِنَّ وَأَمْسَحُ بِیَدِ نَفْسِهِ لِبَرْکَتِها۔ فَسَأَلْتُ الزُّهْرِیَّ: کَیْفَ یَنْفُثُ؟ قَالَ کَانَ یَنْفُثُ عَلَی یَدَیْهِ ثُمَّ یَمْسَحُ بِهمَا وَجْهَهُ۔متفق علیه وهذا لفظ البخاري۔ (اخرجه البخاري في الصحیح، کتاب: الطب، باب: الرقی بالقرآن والمعوذات، ۵/۵۶۱۲، الرقم: ۳۰۴۵، وفي باب: في المراة ترقي الرجل، ۵/۰۷۱۲، الرقم: ۹۱۴۵، ومسلم في الصحیح، کتاب: الاسلام، باب: رقیة المریض، ۴/۳۲۷۱، الرقم: ۲۹۱۲، وابن ماجة في السنن، کتاب: الطب، باب: ما یدعو به اذا أوی الی فراشه، ۲/۵۷۲۱، الرقم: ۵۷۸۳، والنسائی في السنن الکبری، ۴/۵۵۲، الرقم: ۶۸۰۷، ومالک في الموطأ، ۲/۲۴۹، الرقم: ۷۸۶۱، وأحمد بن حنبل في المسند، ۶/۴۱۱، الرقم: ۵۷۸۴۲، ۶۰۳۶۲، وابن حبان في الصحیح، ۷/۰۳۲، الرقم: ۳۶۹۲، وعبد بن حمید في المسند، ۱/۹۲۴، الرقم: ۴۷۴۱)۔

ترجمہ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے اس مرض میں جس کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال ہوا معوذات پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا کرتے تھے، جب تکلیف زیادہ ہو گئی تو میں یہی سورتیں پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر دم کرتی تھی اور بابرکت ہونے کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا (اپنا) دست اقدس آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر پھیرا کرتیں۔ میں (معمر) نے (ماما ابن شہاب) زہری سے پوچھا کہ آپ دم کس طرح کیا کرتے تھے؟ فرمایا: سورتیں پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونک مار کر انہیں اپنے چہرے پر پھیر لیا کرتے۔

عَنْ عَائِشَةَ رضی اﷲ عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اِذَا مَرِضَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِهِ، نَفَثُ عَلَیْهِ بِالْـمُعَوِّذَاتِ، فَلَمَّا مَرِضَ مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِیْهِ۔ جَعَلْتُ أَنْفَثُ عَلَیْهِ وَأَمْسَحُهُ بِیَدِ نَفْسِهِ۔ لِأَنَّـهَا کَانَتْ أَعْظَمَ بَرَکَةٌ مِنْ یَدي۔وفي روایة: بِمُعَوِّذَاتٍ۔ متفق علیه وهذا لفظ مسلم۔ (أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب: فضائل القرآن، باب: فضل المعوذات، ۴/۶۱۹۱، الرقم: ۸۲۷۴، ومسلم في الصحیح، کتاب: الاسلام، باب: رقیة المریض بالمعوذات والنفث، ۴/۳۲۷۱، الرقم: ۲۹۱۲، وأبو داود في السنن، کتاب: الطب، باب: کیف رقی، ۴/۵۱، الرقم: ۲۰۹۳، وابن ماجه في السنن، کتاب: الطب، باب: النفث في الرقیة، ۲/۶۶۱۱، الرقم: ۹۲۵۳، والنسائی في السنن الکبری، ۶/۰۵۲، الرقم: ۷۴۸۰۱)۔

ترجمہ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اہل میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ﴿قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ اور ﴿ قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ پڑھ کر اس پر دم کرتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مرضِ وصال میں مبتلا تھے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر دم کرتی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر پھیرتی، کیونکہ آپ کے ہاتھ میں میرے ہاتھ سے زیادہ برکت تھی اور ایک روایت میں بِمُعَوِّذات کے الفاظ ہیں۔

عَنْ عَائِشَةَ رضی اﷲ عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم اِذَا أَوَی اِلَی فِرَاشِه نَفَثَ فِي کَفّیْه۔ ﴿بِقُلْ هوَ اللّٰهُ أَحَدٌوَبِالْمُعَوَّذَتَیْنِ جَمِیْعًا، ثُمَّ یَمْسَحُ بِهمَا وَجْهَهُ وَمَا بَلَغَتْ یَدَاه مِنْ جَسْدِه، قَالَتُ عَائِشَةُ: فَلَمَّا اشْتَکَی کَانَ یَأْمُرُنِي أَنْ أَفْعَلَ ذَالِکَ بِه۔ رواه البخاری۔ (أخرجه البخاری في الصحیح، کتاب: الطب، باب: النفث في الرقیة، ۵/۹۶۱۲، الرقم: ۶۱۴۵، وابن حبان في الصحیح، ۲۱/۲۵۳، الرقم: ۳۴۵۵، وأحمد بن حنبل في المسند، ۶/۴۵۱، الرقم: ۹۴۲۵۲، والحکیم الترمذي في نوادر الأصول، ۳/۳۱۲)۔

ترجمہ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب اپنے بستر پر تشریف لے جاتے تو “سورۃ اخلاص”، “سورة الفلق” اور “سورة الناس” پڑھ کر اپنی ہتھیلیوں پر دم کرتے پھر انہیں اپنے چہرہ انور پر ملتے اور جہاں تک جسم اطہر تک ہاتھ پہنچتے وہاں تک ہاتھ پھیرتے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بیمار ہوئے تو (نقاہت کی بنا پر خود ایسا نہ کر سکنے کے باعث) مجھے اپنے جسم پر (معوذات پڑھ کر) ہاتھ پھیرنے کا حکم فرمایا۔

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضی اﷲ عنه قَالَ: بَیْنَا أَنَا أَسِیْرُ مَعَ رَسُولِ اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم بَیْنَ الْـجُحْفَةِ وَالْأَبْوَاءِ اِذْ غَشِیَتْنَا رِیْحٌ وَظُلْمَةٌ شَدِیْدَةٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللّٰه یَتَعَوَّذُ ﴿بِأَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ وَ ﴿أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ وَیَقُوْلُ: یَا عُقْبَةُ! تَعَوَّذْ بِهمَا فَمَا تَعَوَّذَ مُتَعَوِّذْ بِمِثْلِهمَا۔ قَالَ: وَسَمِعْتُه یُؤَمُّنَا بِهمَا فِي الصَّلَاة۔ رواه أبو داود والبیهقی۔ (أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: في المعوذتین، ۲/۳۷، الرقم: ۳۶۴۱، والبیهقی في السنن الکبری، ۲/۴۹۲، الرقم: ۶۵۹۳، وَفي شعب الایمان، ۲/۱۱۵، ۷۱۵، الرقم: ۳۶۵۲، ۳۷۵۲، والمنذري في الترغیب والترهیب، ۲/۱۵۲، الرقم: ۳۸۲۲)۔

ترجمہ۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب میں مقام جحفہ اور ابواءکے درمیان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہمراہ چل رہا تھا کہ اچانک ہمیں تیز آندھی اور بہت زیادہ تاریکی نے آ گھیرا، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم: ﴿قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ اور ﴿ قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے لگے اور فرماتے جاتے: اے عقبہ! تم بھی ان دونوں کے ذریعے اللہ کی پناہ مانگو، پس کوئی بھی پناہ مانگنے والا ان کی مثل سورتوں سے پناہ نہیں مانگتا (مگر یہ کہ اسے پناہ دے دی جاتی ہے)۔ اور راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ان (سورتوں کی تلاوت) کے ساتھ (بھی) امامت کراتے ہوئے سنا ہے۔

عَنْ عَلِيٍّ رضی اﷲ عنه قَالَ: بَیْنَا رَسُولُ اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم ذَاتَ لَیْلَةٍ یُصَلِّي فَوَضَعَ یَدَه عَلَی الْأَرْضِ فَلَدِغَتْه عَقْرَبٌ فَتَنَاوَلَها رَسُول اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم بِنَعْلِه فَقَتَلَها فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: لَعْنَ اللّٰه الْعَقْرَبَ لَا تَدَعُ مُصَلِّیًا وَلَا غَیْرَه أَوْ نَبِیًا وَلَا غَیْرَه اِلَّا لَدِغَتْهمْ ثُمَّ دَعَا بِمِلْحٍ وَمَائٍ فَجَعَلَه فِي اِنَائٍ ثُمَّ جَعَلَ یَصُبُّه عَلَی اِصْبِعِه حَیْثُ لَدَغَتْه وَیَمْسَحُها وَیُعَوِّذُها بِالْمُعَوَّذَتَیْنِ۔ رواه ابن ماجة مختصرا وابن أبي شیبة واللفظ له والبیهقي والطبراني۔ واسناده حسن۔ (أخرجه ابن ماجه عن عائشة رضی اﷲ عنها في السنن، کتاب: اقامة الصلاة السنة فیها، باب: ما جاءفي قتل الحیة والعقرب في الصلاة، ۱/۵۹۳، الرقم: ۶۴۲۱، وابن أبي شیبة في المصنف، ۵/۴۴، الرقم: ۳۵۵۳۲، والبیهقي في شعب الایمان ۲/۷۱۵، الرقم: ۵۷۵۲، والطبراني في المعجم الأوسط، ۶/۱۹، الرقم: ۹۸۵، وفي المعجم الصغیر، ۲/۷۸، الرقم: ۰۳۸، والدیلمي في الفردوس بمايثور الخطاب، ۳/۵۶۴، الرقم: ۲۴۴۵، والهیثمي في مجمع الزوائد، ۵/۱۱۱، وقال: اسناده حسن)۔

ترجمہ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنا دست اقدس زمین پر رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بچھو نے ڈس لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے اپنے نعلین مبارک سے مار ڈالا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: بچھو پر اللہ کی لعنت ہو کہ وہ نمازی، غیر نمازی اور نبی اور غیر نبی کسی کو بلا امتیاز ڈسنے سے باز نہیں آتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پانی اور نمک منگوایا، ان کو ایک برتن میں حل کیا اور پھر اس کو اپنی اس انگلی پر ڈالنا شروع کر دیا جہاں سے بچھو نے ڈسا تھا اور اس پر دست اقدس پھیرنے لگے اور اس انگلی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم معوزتین پڑھ کر دم فرمانے لگے۔

وفي روایة للطبراني والبیهقي: رواه ابن فضیل عن مطرف: لَمْ یَذْکُرْ تَنَاوُلَـها بِالْفِعْلِ قَالَ: ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ، وَمِلْحٍ وَجَعَلَ یَمْسَحُ عَلَیْها وَیَقْرَأُ: ﴿قُلْ هوَ اللّٰه أَحَدٌ﴾ وَ ﴿قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ وَ ﴿قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾۔ (أخرجه ابن ماجه عن عائشة رضی اﷲ عنها ف] السنن، کتاب: اقامة الصلاة السنة فیها، باب: ما جاءفي قتل الحیة والعقرب في الصلاة، ۱/۵۹۳، الرقم: ۶۴۲۱، وابن أبي شیبة في المصنف، ۵/۴۴، الرقم: ۳۵۵۳۲، والبیهقي في شعب الایمان ۲/۷۱۵، الرقم: ۵۷۵۲، والطبراني في المعجم الأوسط، ۶/۱۹، الرقم: ۹۸۵، وفي المعجم الصغیر، ۲/۷۸، الرقم: ۰۳۸، والدیلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، ۳/۵۶۴، الرقم: ۲۴۴۵، والهیثمي في مجمع الزوائد، ۵/۱۱۱، وقال: اسناده حسن)۔

ترجمہ۔ طبرانی اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ ابن فضیل نے مطرف سے روایت کیا اور انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اس بچھو کو مار دینے کا ذکر نہیں کیا (صرف اتنا بیان کیا کہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے پانی اور نمک منگوایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس انگشت مبارکہ پر اپنا دست اقدس پھیرنا شروع کیا اور ساتھ یہ (سورتیں) بھی پڑھتے جاتے۔ ﴿قُلْ هوَ اللّٰه أَحَدٌ﴾ اور ﴿قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ اور ﴿قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰه رضی اﷲ عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم: عَلَیْکُمْ بِالشِّفَائَیْنِ: الْقُرْآنُ، وَالْعَسَلُ۔ رواه الحاکم وابن أبي شیبة والطبراني والبیهقي واللفظ له۔ وقال: رفعه زید بن الحباب والصحیح موقوف علی ابن مسعود۔ وقال الحاکم: هذا حدیث الصحیح علی شرط مسلم۔ (أخرجه الحاکم، في المستدرک، ۴/۳۲۲، الرقم: ۷۳۴۷، وابن أبي شیبة في المصنف، ۵/۰۶، الرقم: ۹۸۶۳۲، ۶/۶۲۱، الرقم: ۹۱۰۰۳، والطبراني في المعجم الکبیر، ۹/۲۲۲، الرقم: ۶۷۰۹، والبیهقی في شعب الایمان، ۲/۹۱۵، الرقم: ۱۸۵۲)۔ ترجمہ۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: تم دو شفاؤں کو لازم پکڑو: ایک قرآن اور دوسری شہد۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰه بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اﷲ عنه قَالَ: فِي الْقُرْآنِ شِفَاءَ انِ: الْقُرْاَنُ وَالْعَسَلُ القُرْآنُ شَفَاءٌ لِـمَا فِي الصُّدُورِ وَالْعَسَلُ شِفَاءٌ مِنْ کُلِّ دَاءٍ۔ رواه البیهقي وقال: هذا هو الصحیح موقوف۔ (أخرجه البیهقی في السنن الکبری، ۹/۵۴۳)۔ ترجمہ۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں دو شفائیں ہیں۔ ان میں سے ایک قرآن (خود) اور دوسری شفاءشہد ہے قرآن مجید سینوں کی تمام بیماریوں کے لیے شفاءہے اور شہد دیگر تمام بیماریوں کے لیے شفاءہے۔

عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ رضی اﷲ عنه: أَنَّ رَجُلًا شَکَی اِلَی رَسُولِ اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم وَجْعَ حَلْقِه قَالَ: عَلَیْکَ بِقِرَائَ ةِ الْقُرْآنِ۔ رواه البیهقي۔ (أخرجه البیهقي في شعب الایمان، ۲/۹۱۵، الرقم: ۸۵۲)۔ ترجمہ۔ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں اپنے گلے میں تکلیف کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اپنے اوپر قرآن مجید کی تلاوت کو لازم کر لو (گلے کی تکلیف جاتی رہے گی)۔

عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مَصْرَفٍ رضی اﷲ عنه قَالَ: کَانَ یُقَالُ: اِنَّ الْـمَرِیْضَ اِذَا قُرِیئَ عِنْدَه الْقُرْآنُ وَجَدَ لَه خِفَّةً، فَدَخَلْتُ عَلَی خَیْثَمَةَ وَهوَ مَرِیْضٌ فَقُلْتُ: اِنِّي أَرَاکَ الْیَومَ صَالِحًا قَالَ: اِنَّه قُرِیئَ عِنْدِي الْقُرْآنُ۔ رواه البیهقي۔ (أخرجه البیهقي في شعب الایمان، ۲/۸۱۵، الرقم: ۹۷۵۲)۔ ترجمہ۔ حضرت طلحہ بن مصرف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کہا جاتا تھا کہ بےشک مریض کے قریب جب قرآن مجید پڑھا جاتا ہے تو وہ اپنی تکلیف میں افاقہ محسوس کرتا ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت خیثمہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے گیا تو میں نے ان سے کہا کہ میں آج آپ کو درست حالت میں دیکھ رہا ہوں تو انہوں نے کہا کہ میرے پاس قرآن مجید پڑھا گیا ہے (یہ اسی کی برکت سے ہوا ہے)۔

عَنْ عَلِيِّ رضی اﷲ عنه قَالَ: خَمْسٌ یَذْهبْنَ بِالنِّسْیَانِ وَیَزِدْنَ فِي الْـحِفْظَ وَیَذْهبْنَ الْبَلَغَمَ: السِّوَاکُ وَالصِّیَامُ وَقِرَاَءَ ةِ الْقُرْآنِ وَالْعَسْلُ وَاللِّبَانُ۔ رواه الدیلمي۔ (أخرجه الدیلمي في الفردوس بما ثور الخطاب، ۲/۷۹۱، الرقم: ۷۹۲)۔ ترجمہ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ پانچ چیزیں بھولنے کی بیماری دور کرتی ہیں اور حافظہ میں اضافہ کرتی ہیں اور بلغم کو ختم کرتی ہیں (وہ چیزیں یہ ہیں:) مسواک، روزے، قرآن مجید کی تلاوت، شہد اور دودھ۔

مندرجہ بالا احادیث قرآن کا مومنوں کے لئے شفاءہونے کے متعلق تھیں۔ قرآنِ کریم کو متقین، مسلمین اور تمام عالمین کے لیے ہدایت ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کو دیسی گھی کھانے کی عادت نہیں اور بازار کی خراب چیزیں کھاتا ہے تو جب وہ دیسی گھی کھائے گا تو وہ دیسی گھی جس میں بہت سے فائدے ہیں اس کی طبیعت کے خراب ہونے کا باعث بنے گا۔ وہی دیسی گھی جو کہ شفاءہے اِس شخص کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے گا۔ کیونکہ اِسے خالص چیزیں کھانے کی عادت نہیں اور خراب چیزوں نے اس کے نظام کو بھی خراب کر دیا ہے۔ اِسی طرح قرآنِ کریم بھی ایک خالص کتاب اللہ ہے اور اگر کسی کا نظام شیطان کے ساتھ رہ کر اور شیطانی کام کر کے خراب ہو چکا ہو تو یہ قرآن اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ اور اگر وہ قرآن کو اپنی مرضی کے مطابق سمجھنا چاہے تو اِس کے لیے خسارے کے علاوہ کچھ نہیں۔ مگر اللہ جسے ہدایت دینا چاہے اُسے ہدایت ِ کامل مل جاتی ہے۔ اُس وحدہٗ لاشریک کے خزانوں میں کسی قسم کی کمی نہیں۔ اُن لوگوں کا بیان جنہیں قرآن نفع نہیں دیتا مندرجہ ذیل احادیث میں ہے۔

عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْـخُدْرِيِّ رضی اﷲ عنه قَالَ: بَعَثَ عَلِيٌّ رضی اﷲ عنه وَهوَ بِالْیَمَنِ اِلَی النَّبِيِّ صلی اﷲ علیه وآله وسلم بِذُهیْبَةٍ فِي تُرْبَتِها فَقَسَمَها بَیْنَ الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْـحَنْظَلِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي مُـجَاشِعٍ وَبَیْنَ عُیَیْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَاريِّ وَبَیْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي کِلَابٍ وَبَیْنَ زَیْدِ الْـخَیْلِ الطَّاءِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَني نَبْهانِ فَتَغَیَّظَتْ قُرَیْشٌ وَالْأَنْصَارُ فَقَالُوْا: یُعْطِیْه صَنَادِیْدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَیَدَعُنَا، قَالَ: اِنَّمَا اَتَأَلَّفُهمْ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَیْنَیْنِ نَاتِئُ الْـجَبِیْنِ، کَثُ اللِّحْیَةِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَیْنِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، اِتَّقِ اللّٰه، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اﷲ علیه وآله وسلم: فَمَنْ یُطِیْعُ اللّٰه اِذَا عَصَیْتُه فَیَأًمَنُنِي عَلَی أَهْلِ الْأَرْضِ، وَلَا تَأْمَنُوْنِي؟ فَسَأَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ قَتْلَهُ أُرَاه خَالِدَ بْنَ الْوَلِیْدِ فَمَنَه النَّبِيُّ صلی اﷲ علیه وآله وسلم (وفي روایة أبی نعیم: فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، اتَّقِ اللّٰه، وَاعْدِلْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم: یَأْمَنُنِي أَهْلُ السَّمَائِ وَلَا تَأْمَنُوْنِي؟ فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: أَضْرِبُ رَقَبَتَهُ یَا رَسُوْلُ اللّٰه؟ قَالَ نَعَمْ، فَذَهبَ فَوَجَدَه یُصَلِّي، فَجَائَ النَّبِيَّ صلی اﷲ علیه وآله وسلم فَقَالَ: وَجَدْتُه یُصَلِّي فَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَضْرِبُ رَقَبَتَه؟) فَلَمَّا وَلَّی قَالَ النَّبِيُّ صلی اﷲ علیه وآله وسلم: اِنَّ مِنْ ضِئْضِیئِ هذَا قَوْمًا یَقْرَئُ وْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَهمْ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الْاِسْلَامِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِیَّةِ یَقْتُلُوْنَ أَهْلَ الْاِسْلَامِ وَیَدْعُوْنَ أَهْلَ الْأَوثَانِ لَئِنْ أَدْرَکْتُهمْ لَأَقْتُلَنَّهمْ قَتْلَ عَادٍ۔ متفق علیه۔ وهذا لفظ البخاری۔

(أخرجه البخاری في الصحیح، کتاب: التوحید، باب: قول اﷲ تعالی: تعرج الملائکة والروح الیه، ۶/۲۰۷۲، الرقم: ۵۹۹۶، وفي کتاب: الأنبیاء، باب: قول اﷲ: وأما عاد فأهکلوا بریح صرصر شدیدة عاتیة، ۳/۹۱۲۱، الرقم: ۶۶۱۳، ومسلم في الصحیح، کتاب: الزکاة، باب: ذکر الخوارج وصفاتهم، ۲/۱۴۷، الرقم: ۴۶۰۱، وأبو داود في السنن، کتاب: السنة، باب: في کتاب الخوارج، ۴/۳۴۲، الرقم: ۴۶۷۴، والنسائي في السنن، کتاب: تحریم الدم، باب: من شهر سیفة ثم وضعه في الناس، ۷/۸۱۱، الرقم: ۱۰۱۴، وفي کتاب الزکاة، باب: المؤلفة قلوبهم، ۵/۷۸، الرقم: ۸۷۵۲، وفي السنن الکبری، ۶/۶۵۳، الرقم: ۱۲۲۱۱، وأبو نعیم في المسند المستخرج علی صحیح الامام مسلم، ۳/۷۲۱، الرقم: ۳۷۳۲، وأحمد بن حنبل في المسند، ۳/۸۶، ۳۷، الرقم: ۶۶۶۱۱، ۳۱۷۱۱، وعبد الرزاق في المصنف، ۰۱/۶۵۱، والبیهقي في السنن الکبری، ۶/۹۳۳، الرقم: ۴۲۷۲۱، ۷/۸۱، الرقم: ۲۶۹۲۱، وابن منصور في کتاب السنن، ۲/۳۷۳، الرقم: ۳۰۹۲، وأبو نعیم ف[\ي حیلة الأولیاء، ۵/۲۷، والشوکاني في نیل الأوطار، ۷/۵۴۳، وابن تمیمة في الصارم المسلول، ۱/۶۹۱)۔

ترجمہ۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے مٹی میں ملا ہوا تھوڑا سا سونا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے اقرع بن حابس حنظلی جو بنی مجاشع کا ایک فرد تھا اور عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری، جو بنی کلاب سے تھا اور زید الخیل طائی، جو بنی نبہان سے تھا ان چاروں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس پر قریش و انصار کو ناراضگی ہوئی اور انہوں نے کہا کہ اہلِ نجد کے سرداروں کو مال دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: میں تو ان کی تالیف قلب کے لئے کرتا ہوں۔ اسی اثناءمیں ایک شخص آیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، پیشانی ابھری ہوئی، داڑھی گھنی، گال پھولے ہوئے اور سر منڈا ہوا تھا اور اس نے کہا: اے محمد! اللہ سے ڈرو، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ کی اطاعت کرنے والا کون ہے اگر میں اس کی نافرمانی کرتا ہوں حالانکہ اس نے مجھے زمین والوں پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں مانتے؟ تو صحابہ میں سے ایک شخص نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی میرے خیال میں وہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں منع فرما دیا۔ (اور ابو نعیم کی روایت میں ہے کہ ”اس شخص نے کہا: اے محمد اللہ سے ڈرو اور عدل کرو، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: آسمان والوں کے ہاں میں امانتدار ہوں اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس کی گردن کاٹ دوں؟ فرمایا: ہاں، سو وہ گئے تو اسے نماز پڑھتا پایا (اس لئے قتل نہیں کیا) تو کسی دوسرے صحابی نے عرض کیا: میں اس کی گردن کاٹ دوں؟) جب وہ چلا گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی نسل سے ایسی قوم پیدا ہو گی کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے اگر میں انہیں پاں کو قوم عاد کی طرح ضرور قتل کر دوں“

عَنْ أَبِـي سَلَمَةَ وَعَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ أَنَّهمَا أَتَیَا أَبَا سَعِیْدٍ الْـخُدْرِيَّ رضی اﷲ عنه فَسَأَلَاه عَنِ الْـحَرُوْرِیَّةِ أَسَمِعْتَ النَّبِیَّ صلی ﷲ علیه وآله وسلم؟ قَالَ: لَا أَدْرِي مَا الْـحَرُوْرِیَّةُ؟ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صلی اﷲ علیه وآله وسلم یَقُولُ: یَـخْرُجُ فِي هذِه الْأُمَّةِ وَلَمْ یَقُلْ مِنْها قَوْمٌ تَـحْقِرُوْنَ صَلَاتَکُمْ مَعَ صَلَاتِـهمْ یَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ حُلُوْقَهمْ أَوْ حَنَاجِرَهمْ یَـمْرُقُونَ مِنَ الدِّیْنِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنْ الرَّمِیَّةِ ۔۔۔۔۔ الحدیث۔ متفق علیه۔ (أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب: استتابة المرتدین وقتالهم، باب: قتل الخوارج الملحدین بعد اقامة الحج علیهم، ۶/۰۴۵۲، الرقم: ۲۳۵۶، وفي فضائل القرآن، باب: اثم من راءی بقراءة القرآن، أو تاکل به أو فخر به، ۴/۸۲۹۱، الرقم: ۱۷۷۴، ومسلم في الصحیح، کتاب: الزکاة، باب: ذکر الـخوارض وصفاتهم، ۲/۳۴۷، الرقم: ۴۶۰۱، و مالک في الموطأ، کتاب: القرآن، باب: ماجاء في القرآن، ۱/۴۰۲، الرقم: ۸۷۴، والنسائی في السنن الکبری، ۳/۱۳، الرقم: ۹۸۰۸، وأحمد بن حنبل في المسند، ۳/۰۶، الرقم: ۶۸۵۱۱، وابن حبان في الصحیح، ۵۱/۲۳۱، الرقم: ۷۳۷۶، والبخاري في خلق أفعال العباد، ۱/۳۵، وابن أبي شیبة في المصنف، ۷/۰۶۵، الرقم: ۲۹۷۳، وأبو یعلٰی في المسند، ۲/۰۳۴، الرقم: ۳۳۲۱، وابن أبي عاصم في السنة، ۲/۶۵۴، الرقم: ۵۳۹، والبیهقي في شعب الایمان، ۲/۷۳۵، الرقم: ۰۴۶۲، والربیع في المسند، ۱/۴۳، الرقم: ۶۳)۔

ترجمہ۔ حضرت ابو سلمہ اور حضرت عطاءبن یسار رضی اللہ عنہما دونوں حضرت ابو سعید خدری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حروریہ کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ حروریہ کیا ہے؟ ہاں میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے یہ نہیں فرمایا کہ ایک ایسی قوم نکلے گی (بلکہ لوگ فرمایا) جن کی نمازوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے، وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن (یہ قرآن) ان کے حلق سے نہیں اترے گا یا یہ فرمایا کہ ان کے نرخرے سے نیچے نہیں اتے گا اور وہ دین سے یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتاہے۔

عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْـخُدْرِيِّ رضی اﷲ عنه عَنِ النَّبِیِّ صلی اﷲ علیه وآله وسلم قَالَ: یَـخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قَبَلِ الْمَشْرِقِ وَیَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا یُـجَاوِزُ تَرَاقِیَهمْ یَـمْرُقُونَ مِنَ الدِّیْنِ کَمَا یَـمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِیَّةِ، ثُمَّ لَا یَعُوْدُوْنَ فِیْهِ حَتَّی یَعُودَ السَّهْمُ اِلَی فُوقِهِ، قِیْلَ مَا سِیْمَاهمْ؟ قَالَ: سِیْمَاهمُ التَّحْلِیْقُ أَوْ قَالَ: التَسْبِیْدُ۔ رواه البخاري۔ (أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب: التوحید، باب: قراءة الفاجر والمنافق وأصوتهم وتلاوتهم لا تجاوز حناجرهم، ۶/۸۴۷۲، الرقم: ۳۲۱۷، ومسلم في الصحیح، کتاب: الزکاة، باب: الخوارج شر الخلق والخلیقة، ۲/۰۵۷، الرقم: ۸۶۰۱، وأحمد بن حنبل في المسند، ۳/۴۶، الرقم: ۲۳۶۱۱، ۳/۶۷۴، وابن أبي شیبة في المصنف، ۷/۳۶۵، الرقم: ۷۹۳۷۳، وأبو یعلٰی في المسند، ۲/۸۰۴، الرقم: ۳۹۱۱، والطبراني في المعجم الکبیر، ۶/۱۹، الرقم: ۹۰۶۵، وابن أبی عاصم في السنة، ۲/۰۹۴، الرقم: ۹۰۹، وقال: اسناده الصحیح، وأبو نعیم في المسند المستخرج، ۳/۵۳۱، الرقم: ۰۹۳۲)۔

ترجمہ۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: مشرق کی جانب سے کچھ لوگ نکلیں گے کہ وہ قرآن پاک پڑھیں گے مگر وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے اور پھر وہ دین میں واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر اپنی جگہ پر واپس نہ لوٹ آئے۔ دریافت کیا کہ ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا: ان کی نشانی سر منڈانا ہے یا فرمایا: سر منڈائے رکھنا ہے۔

عَنْ یُسَیْرِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: سَأَلْتُ سَهْلَ بْنَ حُنَیْفٍ رضی اﷲ عنه هلْ سَمِعْتَ النَّبِیَّ صلی اﷲ علیه وآله وسلم یَذْکُرُ الْخَوَرِجَ؟ فَقَالَ: سَمِعْتُهُ وَأَشَارَ بِیَدِه نَـحْوَ الْـمَشْرِقِ قَوْمٌ یَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ بِأَلْسِنَتِهمْ لَا یَعْدُوْا تَرَاقِیَهمْ یَـمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْنِ کَمَا یَـمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِیَّةِ۔ رواه مسلم۔ (أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب: التوحید، باب: قراءة الفاجر والمنافق وأصوتهم وتلاوتهم لا تجاوز حناجرهم، ۶/۸۴۷۲، الرقم: ۳۲۱۷، ومسلم في الصحیح، کتاب: الزکاة، باب: الخوارج شر الخلق والخلیقة، ۲/۰۵۷، الرقم: ۸۶۰۱، وأحمد بن حنبل في المسند، ۳/۴۶، الرقم: ۲۳۶۱۱، ۳/۶۷۴، وابن أبي شیبة في المصنف، ۷/۳۶۵، الرقم: ۷۹۳۷۳، وأبو یعلٰی في المسند، ۲/۸۰۴، الرقم: ۳۹۱۱، والطبراني في المعجم الکبیر، ۶/۱۹، الرقم: ۹۰۶۵، وابن أبی عاصم في السنة، ۲/۰۹۴، الرقم: ۹۰۹، وقال: اسناده الصحیح، وأبو نعیم في المسند المستخرج، ۳/۵۳۱، الرقم: ۰۹۳۲)۔ ترجمہ۔ یُسیر بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے خوارج کا ذکر سنا؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! میں نے سنا ہے اور اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کر کے کہا: وہ اپنی زبانوں سے قرآن مجید پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا اور وہ دین سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے (خارج ہو جاتاہے)۔

وفي روایة مسلم زاد: فَقَامَ اِلَیْه عُمْرُ بْنُ الـخَطَّابِ رضی اﷲ عنه فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَه؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: ثُمَّ أَدْبَرَ فَقَامَ اِلَیْهِ خَالِدٌ سَیْفُ اللّٰه۔ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللّٰه أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَه؟ قَالَ: لاَ، فَقَالَ: اِنَّه سَیَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِی هذَا قَوْمٌ، یَتْلُونَ کِتَابَ اللّٰه لَیِّنًا رَطْبًا، (وَقَالَ: قَالَ عَمَّارَةُ: حَسِبْتُه) قَالَ: لَئِنْ أَدْرَکْتُهمْ لَأَقْتُلَنَّهمْ قَتْلَ ثَـمُوْدَ۔ (أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب: الزکاة، باب: ذکر الخوارج وصفاتهم، ۲/۳۴۷، الرقم: ۴۶۰۱)۔

ترجمہ۔ اور مسلم کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! کیا میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: نہیں، پھر وہ شخص چلا گیا، پھر حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: نہیں اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن بہت ہی اچھا پڑھیں گے (راوی) عمارہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ بھی فرمایا: اگر میں ان لوگوں کو پا لیتا تو (قومِ) ثمود کی طرح ضرور انہیں قتل کر دیتا۔“

عَنْ زَیْدِ بْنِ وَهْبٍ الْـجَهنِيِّ رضی اﷲ عنه أَنَّهُ کَانَ فِي الْـجَیْشِ الَّذِیْنَ کَانُوا مَعَ عَلِيٍّ رضی اﷲ عنه الَّذِیْنَ سَارُوْا اِلَی الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رضی اﷲ عنه: أَیُّها النَّاسُ اِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم یَقُولُ: یَـخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي یَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَیْسَ قِراءَتُکُمْ اِلَی قِرَاءَتِـهِمْ بِشَيءٍ وَلاَ صَلَاتُکُمْ اِلَی صَلَاتِـهِمْ بِشَيءٍ وَلاَ صِیَامُکُمْ اِلَی صِیَامِهمْ بِشَيءٍ یَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ یَـحْسِبُوْنَ أَنَّه لَـهمْ، وَهوَ عَلَیْهمْ لاَ تُجَاوِزُ صَلَاتُـهمْ تَرَاقِیَهمْ یَـمْرُقُوْنَ مِنَ الاِسْلاَمِ کَمَا یَـمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِیَّةِ ۔۔۔۔۔ الحدیث۔ رواه مسلم۔ (أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب: الزکاة، باب: التحریض علی قتل الخوارج، ۲/۸۴۷، الرقم: ۶۶۰۱، وأبو داود في السنن، کتاب: السنة، باب: في قتال الخوارج، ۴/۴۴۲، الرقم: ۸۶۷۴، والنسائي في السنن الکبری، ۵/۳۶۱، الرقم: ۱۷۵۸، وأحمد بن حنبل في المسند، ۱/۱۹، الرقم: ۶۰۷، وعبد الرزاق في المصنف، ۰۱/۷۴۱، والبزار في المسند، ۲/۷۹۱، الرقم: ۱۸۵، وابن أبي عاصم في السنة، ۲/۵۴۴، ۶۴۴، والبیهقي في السنن الکبری، ۸/۰۷۱)۔

ترجمہ۔ حضرت زید بن وہب جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اس لشکر میں تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لئے گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: میری امت میں ایک قوم ظاہر ہو گی وہ ایسا قرآن پڑھیں گے کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت نہ ہو گی، نہ ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہو گی وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے لیکن در حقیقت وہ ان کے لئے مضر ہو گا، نماز ان کے گلے سے نیچے نہیں اتر سکے گی اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔

أخرجه البخاري في صحیحه في ترجمة الباب: قَولُ اللّٰه تَعَالَی: ﴾وَمَا کَانَ اللّٰه لِیُـضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ اِذْ هدَاهمْ حَتَّی یُبَیِّنَ لَهمْ مَا یَتَّقُونَ﴿ [التوبة، ۹:۵۱۱] وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ رضی اﷲ عنهما یَرَاهمْ شِرَارَ خَلْقِ اللّٰه، وَقَالَ: اِنَّهمُ انْطَلَقُوا اِلَی آیَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْها عَلَی الْـمُؤْمِنِیْنَ۔

وقال العسقلاني في الفتح: وصله الطبري في مسند علي من تهذیب الآثار من طریق بکیر بن عبد اﷲ بن الأشج: أَنَّه سَأَلَ نَافِعًا کَیْفَ کَانَ رَأَی ابْنُ عُمَر فِي الْـحَرُوْرِیَّةِ؟ قَالَ: کَانَ بَرَاهمْ شِرَارَ خَلْقِ اللّٰه، انْطَلَقُوا اِلَی آیَاتِ الْکُفَّارِ فَجَعَلُوها فِي الْـمُؤْمِنِیْنَ۔ قلت: وسنده صحیح۔ (أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب: استتابة المرتدین والمعاندین وقتالـهم، باب: (۵) قتل الخوارج والملحدین بعد اقامة الحجة علیهم، ۶/۹۳۵۲، والعسقلاني في الفتح الباری، ۲۱/۶۷۲، الرقم: ۲۳۵۶، وفي تغلیق التعلیق، ۵/۹۵۲)۔

ترجمہ۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب کے عنوان کے طور پر یہ حدیث روایت کی ہے: اللہ تعالیٰ کا فرمان: ”اور اللہ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کر دے۔ اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو، یہاں تک کہ وہ ان کے لئے وہ چیز واضح فرما دے جن سے انہیں پرہیز کرنا چاہئے۔“ اور حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما انہیں (یعنی خوارج کو) اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے (کیونکہ) انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کرنا شروع کر دیا۔

اور امام عسقلانی ”فتح الباری“ میں بیان کرتے ہیں کہ امام طبری نے اس حدیث کو تہذیب الآثار میں بکیر بن عبد اللہ بن أشج کے طریق سے مسند علی رضی اللہ عنہ میں شامل کیا ہے کہ ”انہوں نے نافع سے پوچھا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حروریہ (خوارج) کے بارے میں کیا رائے تھی؟ تو انہوں نے فرمایا: وہ انہیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بدترین لوگ خیال کرتے تھے۔ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کیا۔ میں ”ابن حجر عسقلانی“ کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

عَنْ أَبِي رَافِعٍ رضی اﷲ عنه أَنَّه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم: لَا أُلْفِیَنَّ أَحَدَکُمْ مُتَّکِئًا عَلَی أَرِیْکَتِه یَاْتِیْه أَمْرٌ مِـمَّا أَمَرتُ بِه أَوْ نَـهیْتُ عَنْه فَیَقُولُ: لَا أَدْرِي مَا وَجَدْنَا فِي کِتَابِ اللّٰه اتَّبَعْنَاه۔ رواه الترمذي وأبوداود وابن ماجة۔ وقال أبو عیسی: هذا حدیث حسن۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: العلم عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وآله وسلم، باب: ما نهی عنه أن یقال عند حدیث النبي صلی اﷲ علیه وآله وسلم، ۵/۷۳، الرقم: ۳۶۶۲، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في لزوم السنة، ۴/۰۰۲، الرقم: ۵۰۶۴، وابن ماجة في السنن، المقدمة، باب: تعظیم حدیث رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وآله وسلم والتغلیظ علی من عارضه، ۱/۶، الرقم: ۳۱، والشافعي في المسند، ۱/۱۵۱، والحاکم في المستدرک، وقال: هذا الاسناد وهو صحیح، ۱/۰۹۱، الرقم: ۸۶۳، والطحاوي في شرح معاني الآثار، ۴/۹۰۲، والبیهقي في السنن الکبری، ۷/۶۷، الرقم: ۹۱۲۳۱)۔ ترجمہ۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: میں ایسے آدمی کو ہر گز نہ پاں جس کے پاس کوئی ایسی بات آئے جس کا میں نے حکم دیا ہو یا جس سے میں نے منع کیا ہو تو وہ کہے میں نہیں جانتا۔ ہم نے صرف اسی کی پیروی کی جسے اللہ کی کتاب (قرآن) میں پایا۔

عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْـخُدْرِيِّ وَأَنْسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اﷲ عنهما عَنْ رَسُوْلِ اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم قَالَ: سَیَکُونُ فِي أُمَّتِي اخْتِلَافٌ وَفُرْقَةٌ قَوْمٌ یُحْسِنُوْنَ الْقِیْلَ وَیُسِیْئُونَ الْفِعْلَ یَقْرَأُوْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَهمْ (وَفِي رِوَایَةٍ: یَـحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَه مَعَ صَلَاتِـهمْ وَصِیَامَه مَعَ صِیَامِهمْ) یَـمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْنِ مُرُوْقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِیَّةِ لَا یَرْجِعُوْنَ حَتَّی یَرْتَدَّ عَلَی فُوْقِه همْ شَرُّ الْـخَلْقِ والْـخَلِیْقَه طُوبَی لِمَنْ قَتَلَهمْ وَقَتَلُوه یَدْعُوْنَ اِلَی کِتَابِ اللّٰه وَلَیْسُوا مِنْه فِي شَيءٍ مَنْ قَاتَلَهمْ کَانَ أَوْلَی بِاللّٰه مِنْهمْ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰه مَا سِیْمَاهمْ؟ قَالَ: التَّحْلِیْقُ۔ رواه أبوداود وابن ماجة۔ (أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: السنة، باب: في قتال الخوارج، ۴/۳۴۲، الرقم: ۵۶۷۴، وابن ماجة في السنن، المقدمة، باب: في ذکر الخوارج، ۱/۰۶، الرقم: ۹۶۱، وأحمد بن حنبل في المسند، ۳/۴۲۲، الرقم: ۲۶۳۳۱، والحاکم في المستدرک، ۲/۱۶۱، الرقم: ۹۴۶۲، والبیهقي في السنن الکبری، ۸/۱۷۱، والمقدسي في الأحادیث المختاره، ۷/۵۱، الرقم: ۱۹۳۲، ۲۹۳۲، وقال: اسناه صحیح، وأبو یعلی في المسند، ۵/۶۲۴، الرقم: ۷۱۱۳، والطبراني نحوه في المعجم الکبیر، ۸/۱۲۱، الرقم: ۳۵۵۷، والمروزي في السنة، ۱/۰۲، الرقم: ۲۵)۔

ترجمہ۔ حضرت ابو سعید خدری اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: عنقریب میری امت میں اختلاف اور تفرقہ بازی ہوگی، ایک قوم ایسی ہو گی کہ وہ لوگ گفتار کے اچھے اور کردار کے برے ہوں گے، قرآن پاک پڑھیں گے جو ان کے گلے سے نہیں اترے گا (اور ایک روایت میں ہے کہ تم اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے) وہ دین سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے، اور واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر کمان میں واپس نہ آ جائے وہ ساری مخلوق میں سب سے برے ہوں گے، خوشخبری ہو اسے جو انہیں قتل کرے اور جسے وہ قتل کریں۔ وہ اللہ عز وجل کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا ان کا قاتل ان کی نسبت اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو گا، صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا: سر منڈانا۔

ایک اور روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسی طرح فرمایا: ان کی نشانی سر منڈانا اور ہمیشہ منڈائے رکھنا ہے۔

عِنْ أَبِي هرَیْرَةَ رضی اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی اﷲ علیه وآله وسلم قَالَ: الْـمِرَائُ فِي الْقُرْآنِ کُفْرٌ۔ رواه أبوداود وأحمد، اسناه حسن۔ (أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: النهی عن الجدال في القرآن، ۴/۹۹۱، الرقم: ۳۰۶۴، والنسائي في السنن الکبری، ۵/۳۳، الرقم: ۳۹۰۸، وأحمد بن حنبل في المسند، ۲/۰۰۳، الرقم: ۶۷۹۷، وابن حبان في الصحیح، ۴/۴۲۳، الرقم: ۴۶۴۱، والطبراني في المعجم الأوسط، ۳/۱۶، الرقم: ۸۷۴۲، والـهیثمی في معجم الزوائد، ۱/۷۵۱)۔ ترجمہ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: قرآن مجید (کے کلام اللہ ہونے) میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔

عَنْ أَبِي بَکْرَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم: سَیَخْرُجُ قَوْمٌ أَحْدَاثٌ أَحِدَّائُ أَشِدَّائُ ذَلِقَةٌ أَلْسِنَتُهمْ بِالْقُرْآنِ یَقْرَءُوْنَه لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَهمْ۔ فَاِذَا لَقِیْتُمُوهمْ فَأَنِیْمُوهمْ ثُمَّ اِذَا لَقِیْتُمُوهمْ فَاقْتُلُوهمْ فَاِنَّه یُؤْجَرُ قَاتِلُهمْ۔ رواه أحمد والحاکم وابن أبي عاصم۔ رجال أحمد رجال الصحیح، وقال ابن أبي عاصم: اسناده صحیح، وقال الحاکم: هذا حدیث صحیح۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ۵/۶۳، ۴۴، والحاکم في المستدرک، ۲/۹۵۱، الرقم: ۵۴۶۲، وابن أبي عاصم في السنة، ۲/۶۵۴، الرقم: ۷۳۹، وعبد اﷲ بن أحمد في السنة، ۲/۷۳۶، الرقم: ۹۱۵۱، وقال: اسناده حسن، والبیهقي في السنن الکبری، ۸/۷۸۱، والدیلمي في فردوس بمأثور الخطاب، ۲/۲۲۳، الرقم: ۰۶۴۳، والـهیثمي في مجمع الزوائد، ۶/۰۳۲، والحارث في المسند، (زوائد الهیثمي)، ۲/۴۱۷، الرقم: ۴۰۷)۔ ترجمہ۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: عنقریب نو عمر لوگ نکلیں گے جو کہ نہایت تیز طرار اور قرآن کو نہایت فصاحت و بلاغت سے پرھنے والے ہوں گے وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ سو جب تم ان سے ملو تو انہیں مار دو پھر جب (ان کا کوئی دوسرا گروہ نکلے اور) تم انہیں ملو تو انہیں بھی قتل کر دو یقینا ان کے قاتل کو اجر عطا کیا جائے گا۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰه بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی اﷲ عنه قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم یَقُولُ: سَیَخْرُجُ أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي مِنْ قِبَلِ الْـمَشْرِقِ یَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَقِیَهمْ کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّی عَدَّها زِیَادَةً عَلَی عَشْرَةِ مَرَّاتٍ کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قَطِعَ حَتَّی یَـخْرُجُ الدَّجَّالَ فِي بَقِیَّتِهُمْ۔ رواه أحمد والحاکم۔ (أخرجه أحمد بن حنبل، في المسند، ۲/۸۹۱، الرقم: ۱۷۸۶، والحاکم في المستدرک، ۴/۳۳۵، الرقم: ۷۹۴۸، وابن حماد في الفتن، ۲/۲۳۵، وابن راشد في الجامع، ۱۱/۷۷۳، والـهیثمي في مجمع الزوائد، ۶/۸۲۲، والآجري في الشریعة، ۱/۳۱۱، الرقم: ۰۶۲)۔ ترجمہ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میری امت میں مشرق کی جانب سے کچھ یسے لوگ نکلیں گے جو قرآن پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا اور ان میں سے جو بھی (شیطان کے) سینگ (کی صورت) میں نکلے گا وہ کاٹ دیا جائے گا۔ ان میں سے جو بھی (شیطان کے) سینگ (کی صورت) نکلے گا کاٹ دیا جائے گا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یوں ہی دس دفعہ سے بھی زیادہ بار دہرایا فرمایا: ان میں جو بھی (شیطان کے) سینگ (کی صورت) میں ظاہر ہو گا کاٹ دیا جائے گا یہاں تک کہ ان ہی کی باقی ماندہ نسل سے دجال نکلے گا۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰه بْنِ عَمْرٍو وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضی اﷲ عنهما قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم أَکْثَرُ مُنَافِقِي أُمَّتِي قُرَّاؤُها۔ رواه أحمد وابن أبي شیبة والبیهقي والطبراني ورجاله ثقات۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ۲/۵۷۱، الرقم: ۳۳۶۶۔۴۳۶۶، ۷۳۶۶، ۴/۱۵۱، وابن أبي شیبة في المصنف، ۷/۷۹۷، الرقم: ۵۳۳۴۳، والبیهقي في شعب الایمان، ۵/۳۶۳، الرقم: ۹۵۹۶، والطبراني في المعجم الکبیر، ۷۱/۹۷۱، ۵۰۳، الرقم: ۱۷۴، ۱۴۸، وابن المبارک في الزهد، ۱/۲۵۱، الرقم: ۱۵۴، والبخاري في خلق أفعال العباد، ۱/۸۱۱، والفریابي في صفة المنافق، ۱/۵۵، الرقم: ۲۳۔۳۳، والـهیثمي في مجمع الزوائد، ۶/۹۲۲۔۰۳۲)۔ ترجمہ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ان دونوں نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: میری امت میں اکثر منافق اس (قرآن) کو پڑھنے والے ہوں گے۔

عَنْ جَابِرٍ رضی اﷲ عنه یَقُوْلُ: یَصَرَ عَیْنِي وَسَمِعَ أُذُنِي رَسُولَ اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم بِالْـجِعْرَانَةِ وَفِي ثَوبِ بِلَالٍ فِضَّةٌ وَرَسُوْلُ اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم یَقْبِضُها لِلنَّاسِ یُعْطِیْهمْ، فَقَالَ رَجُلٌ: اعْدِلْ، قَالَ: وَیْلَکَ وَمَنْ یَعْدِلُ اِذَا لَمْ أَکُنْ أَعْدِلُ؟ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْـخَطَّابِ: یَا رَسُولَ اللّٰه، دَعْنِي أَقْتُلْ هذَا الْـمُنَافِقَ الْـخَبِیْثَ؟ فَقَالَ رَسُولَ اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم: مَعَاذَ اللّٰه أَنْ یَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّي أَقْتُلُ أَصْحَابِي، اِنَّ هذَا وَأَصْحَابَه یَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیْهمْ یَـمْرُقُونَ مِنَ الدِّیْنِ کَمَا یَـمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِیَّةِ۔ رواه أحمد وأبو نعیم۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ۳/۴۵۳، الرقم: ۱۶۴۱، وأبو نعیم في المسند المستخرج علی صحیح الامام مسلم، ۳/۷۲۱، الرقم: ۲۷۳۲)۔

ترجمہ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سنا: جعرانہ کے مقام پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑوں (گود) میں چاندی تھی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس میں سے مٹھّیاں بھر بھر کے لوگوں کو عطا فرما رہے ہیں تو ایک شخص نے کہا: عدل کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: تو ہلاک ہو۔ اگر میں عدل نہ کروں گا کو کون عدل کرے گا؟ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے چھوڑ دیں کہ میں اس خبیث منافق کو قتل کر دوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: میں لوگوں کے اس قول سے کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرنے لگ گیا ہوں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ بے شک یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نہیں اترے گا، وہ دین کے دائرے سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔

عَنْ حُذَیْفَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم: اِنَّ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَیْکُمْ رَجُلٌ قَرَأَ الْقُرْآنَ حَتَّی اِذَا رُئِیَتْ بَهْجَتُه عَلَیْه وَکَانَ رِدْئًا لِلْاِسْلَامِ غَیْرَه اِلَی مَاشَاءَ اللّٰه فَانْسَلَخَ مِنْه وَنَبَذَه وَرَاءَ ظُهْرِه وَسَعَی عَلَی جَارِه بِالسَّیْفِ وَرَمَاه بِالشِّرْکِ قَالَ: یَا نَبِيَّ اللّٰه، أَیُّهمَا أَوْلَی بِالشِّرْکِ الْـمَرْمِيُّ أَمِ الرَّامِي قَالَ: بَلِ الرَّامِي۔ رواه ابن حبان والبزار والبخاري في التاریخ، اسناده حسن۔ (أخرجه ابن حبان في الصحیح، ۱/۲۸۲، الرقم: ۱۸، والبزار في المسند، ۷/۰۲۲، الرقم: ۳۹۷۲، والبخاري في التاریخ الکبیر، ۴/۱۰۳، الرقم: ۷۰۹۲، والطبراني عن معاذ بن جبل رضی اﷲ عنه في المعجم الکبیر، ۰۲/۸۸، الرقم: ۹۶۱، وفي مسند الشامیین، ۲/۴۵۲، الرقم: ۱۹۲۱، وابن أبي عاصم في السنة، ۱/۴۲، الرقم: ۳۴، والـهیثمي في مجمع الزوائد، ۱/۸۸۱، وقال: اسناده حسن، وابن کثیر، في تفسیر القرآن العظیم، ۲/۶۶۲)۔

ترجمہ۔ حضرت خذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: بےشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اللہ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا۔ پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوس پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا، راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! ان دونوں میں کون زیادہ شرک کے قریب تھا شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: شرک کا الزام لگانے والا۔

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضی اﷲ عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰه صلی اﷲ علیه وآله وسلم: سَیَخْرُجُ أَقْوَامٌ مِنْ أُمَّتِي یَشْرَبُوْنَ الْقُرْآنَ کَشُرْبِهمُ اللَّبَنَ۔ رواه الطبراني ورجاله ثقات کما قال الـهیثمي والـمناوي۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، ۷۱/۷۹۲، الرقم: ۱۲۸، والـهیثمي في مجمع الزوئد، ۶/۹۲۲، والمناوي في فیض القدیر، ۴/۸۱۱)۔ ترجمہ۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: عنقریب میری امت میں ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو یوں (غٹ غٹ) پڑھیں گے گویا وہ دودھ پی رہے ہیں۔

عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ رضی اﷲ عنه: سَأَلَ رَجُلُ مِنْ بَنِي یَرْبُوعٍ، أَوْ مِنْ بَنِي تَـمِیْمٍ۔ عُمَرَ بْنَ الْـخَطَّابِ رضی اﷲ عنه عَنِ ﴾الذَّارِیَاتِ وَالْـمُرْسَلَاتِ وَالنَّازِعَاتِ﴿ أَوْ عَنْ بَعْضِهنَّ، فَقَالَ عُمَرُ: ضَعْ عَنْ رَأْسِکَ، فَاِذَا لَه وَفْرَةٌ، فَقَالَ عُمَرُ: أَمَا وَاللّٰه لَوْ رَأَیْتُکَ مَـحْلُوقًا لَضَرَیْتُ الَّذِي فِیْه عَیْنَاکَ، ثُمَّ قَالَ: ثُمَّ کَتَبَ اِلَی أَهْلِ الْبَصْرَةِ أَوْ قَالَ اِلَیْنَا، أَنْ لَا تُـجَالِسُوه، قَالَ: فَلَوْ جَاءَ وَنَـحْنُ مَائَةٌ تَفَرَّقْنَا۔ رواه سعید بن یحیي الأموي وغیره باسناد صحیح کما قال ابن تمیمة۔ (أخرجه ابن تمیمة، في الصارم المسلول، ۱/۵۹۱)۔

ابو عثمان نہدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ بنی یربوع یا بنی تمیم کے ایک آدمی نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ”الزَّارِیَاتِ وَالْـمُرْسَلَاتِ وَالنَّازِعَاتِ“ کے کیا معنی ہیں؟ یا ان میں سے کسی ایک کے بارے میں پوچھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اپنے سر سے کپڑا اتارو، جب دیکھا تو اس کے بال کانوں تک لمبے تھے۔ فرمایا: بخدا! اگر میں تمہیں سر منڈا ہوا پاتا تو تمہارا یہ سر اڑا دیتا جس میں تمہاری آنکھیں دھنسی ہوئی ہیں۔ شعبی کہتے ہیں پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل بصرہ کے نام خط لکھایا کہا کہ ہمیں خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ ایسے شخص کے پاس نہ بیٹھا کرو۔ راوی کہتا ہے کہ جب وہ آتا، ہماری تعداد ایک سو بھی ہوتی تو بھی ہم الگ الگ ہو جاتے تھے۔

عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ: قَالَ: فَبَیْنَمَا عُمَرُ رضی اﷲ عنه ذَاتَ یَوْمٍ جَالِسًا یُغَدِّي النّاسَ اِذَا جَائَ رَجُلٌ عَلَیْه ثِیَابٌ وَعِمَامَةٌ فَتَغَدَّی حَتَّی اِذَا فَرَغَ قَالَ: یَا أَمِیْرَ الْـمُؤْمِنِیْنَ، ﴾وَالذَّارِیَاتِ ذَرْوًا فَالْـحَامِلَاتِ وِقْرًا﴿ فَقَالَ عُمَرُ رضی اﷲ عنه: أَنْتَ هوَ فَقَامَ اِلَیْه وَحَسَرَ عَنْ ذِرَاعَیْه فَلَمْ یَزَلْ یَـجْلِدُه حَتَّی سَقَطَتْ عِمَامَتُه، فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسُ عُمَرُ بِیَدِه، لَوْ وَجَدْتُکَ مَـحْلُوقًا، لَضَرَبْتُ رَأْسَکَ۔ رواه الامام أبو القاسم هبة اﷲ اللالکاني۔ (أخرجه واللالکائي في أعتقاد أهل السنة، ۴/۴۳۶، الرقم: ۶۳۱۱، الشوکاني في نیل الأوطار، ۱/۵۵۱، ولعظیم آبادي في عون المعبود، ۱۱/۶۶۱، وابن قدامة في المغني، ۱/۵۶، ۹/۸)۔

ترجمہ۔ حضرت سائب بن یزید نے بیان کیا کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ بیٹھے دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے اسی اثنا میں ایک شخص آیا اس نے (اعلیٰ) کپڑے پہن رکھے تھے اور عمامہ باندھا ہوا تھا تو اس نے بھی دوپہر کا کھانا کھایا جب فارغ ہوا کو کہا: اے امیر المومنین ﴾وَالزَّارِیَاتِ ذَرْوًا فَالْـحَامِلَاتِ وِقْرًا﴿ کا معنی کیا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تو وہی (گستاخِ رسول) ہے۔ پھر اس کی طرف بڑھے اور اپنے بازو چڑھا کر اسے اتنے کوڑے مارے یہاں تک کہ اس کا عمامہ گر گیا۔ پھر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر میں تجھے سر منڈا ہوا پاتا تو تیرا سر کاٹ دیتا۔

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی اﷲ عنه قَالَ: سَیَبْلَی الْقُرْآنُ فِي صُدُوْرِ أَقْوَامٍ کَمَا یَبْلَی الثَّوَابُ فَیَتَهافَتُ، یَقْرَؤُوْنَه لَا یَـجِدُوْنَ لَه شَهْوَةً وَلَا لَذَّةً، یَلْبِسُوْنَ جُلُوْدَ الضَّأْنِ عَلَی قُلُوْبِ الذِّئَابِ أَعْمَالُـهمْ طَمَعٌ لَا یُـخَالِطُه خَوْفٌ اِنْ قَصَّرُوْا۔ قَالُوْا: سَنَبْلُغُ وَاِنْ أَسَاؤُا قَالُوْا: سَیُغْفَرُ لَنَا اِنَّا لَا نُشْرِکُ بِاللّٰه شَیْئًا۔ رواه الدارمي۔ (أخرجه الدارمي في السنن، باب: تعاهد القرآن، ۲/۱۳۵، الرقم: ۶۴۳۳، والطبراني في الجامع الأحکام القرآن، ۷/۲۱۳)۔

ترجمہ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: یہ قرآن لوگوں کے سینے میں اس طرح بوسیدہ ہو جائے گا جس طرح ایک کپڑا بوسیدہ ہو کر گر پڑتا ہے۔ لوگ اس کو پڑھیں گے لیکن اس کی تلاوت کے لئے نہ تو کوئی خواہش رکھیں گے اور نہ ہی اس کی تلاوت سے کوئی حظ لیں گے۔ گویا وہ بھیڑوں کے دلوں پر بھیڑوں کی اون کا لباس پہنائیں گے، ان کے اعمال سراسر لالچ پر مبنی ہوں گے جن میں اللہ کی خشیت کی آمیز بھی نہیں ہو گی اگر انہوں نے کوئی تقصیر کی تو کہیں گے کہ عنقریب ہم اپنی منزل کو پہنچ جائیں گے اور اگر کوئی برائی کی تو کہیں گے کہ عنقریب اللہ ہمیں بخش دے گا کیونکہ بےشک ہم کسی کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہراتے۔

گویا یہ کتاب قرآنِ کریم ہدایت ہے متقی کے لیے۔ اور متقی وہ ہے جو اسے نورِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روشنی میں پڑھے۔ یہ کتاب مومنوں اور متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔ اگر اس کتاب کو نورِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روشنی میں پڑھا جائے تو یہ تمام انسانیت کے لیے ہدایت ہے۔ لیکن اگر اس کتاب کو بغیر نورِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پڑھا جائے تو یہی کتاب اس کے لیے خسارا ہے۔ نور کا بیان بہت لمبا ہے جو کہ کچھ سطروں میں یا کچھ پیراگراف میں نہیں لکھا جا سکتا۔ پھر کبھی موقع ملا تو اُس پر بھی مضمون لکھنے کی کوشش کروں گا۔

پیر سیّد نصیر الدین نصیر گیلانی صاحب رحمة اللہ علیہ نے اعلیٰ حضرت بریلوی رحمة اللہ علیہ کی نعت ”نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا“ پر تضمین کہی۔ فرماتے ہیں:

تجھ سے جو پھیر کے مُنہ جانبِ قرآن گیا

سُر خرو ہو کے نہ دُنیا سے وہ انسان گیا

کتنے گستاخ بنے، کتنوں کا ایمان گیا

لے خبر جلد کہ اوروں کی طرف دھیان گیا

میرے مولیٰ، میرے آقا، ترے قربان گیا

یہ کتاب قرآنِ مجید مومنوں کے ساتھ باتیں بھی کرتی ہے۔ اس وجہ سے اس کا ایک نام کتابِ ناطق بھی ہے یعنی بولنے والی کتاب۔ باقی کتابیں جو کہ اللہ کی طرف سے ہیں جیسا کہ توریت، زبور اور انجیل وغیرہ، وہ ہیں تو من اللہ ہی لیکن وہ ہمارے سارے سوالوں کا جواب نہیں دے سکتیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

فَوَیْلُ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْهِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ هٰذَا مِنْ عِنْدِ اﷲِ لِیَشْتَرُوْا بِهٖ ثَـمَنًا قَلِیْلًا ؕ فَوَیْلٌ لَّـهُمْ مِّـمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ وَوَیْلٌ لَّـهمْ مِّـمَّا یَکْسِبُوْنَ۔ تو خرابی ہے ان کے لئے جو کتاب اپنے ہاتھ سے لکھیں پھر کہہ دیں یہ خدا کے پاس سے ہے کہ اس کے عوض تھوڑے دام حاصل کریں تو خرابی ہے ان کے لئے ان کے ہاتھوں کے لکھے سے اور خرابی ان کے لئے اس کمائی سے۔ (سورة البقرة، آیت نمبر 79) یعنی اُن کتابوں میں بہت سی تبدیلی ہو چکی ہے۔ جس طرح کے خود بائبل میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے والی کُتب و صحائف کے بارے میں ایک آیت ہے:

(یرمیاہ 8:8) تُم (یہودی) کیونکر کہتے ہو کہ ہم تو دانِشمند ہیں اور خُداوند کی شریعت ہمارے پاس ہے؟ لیکن دیکھ لِکھنے والوں کے باطِل قلم نے بطالت پَیدا کی۔

جبکہ قرآن کی حفاظت کا ذمّہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّا نَـحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَه لَـحٰفِظُوْنَ۔ بےشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بےشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔ (سورة الحجر، آیت نمبر 9) اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن سب کتابوں سے افضل ہے اور سب کتابوں کی سردار ہے۔

اب آپ نے دیکھنا ہے کہ کیا قرآن میرے سوالوں کا جواب دیتا ہے یا نہیں۔ تو قرآن سے میرا پہلا سوال یہ ہے کہ اے قرآن تو مجھے بتا کہ تو کونسی زبان میں نازل ہوا؟ تو قرآن سے مجھے جو جواب ملا وہ ہے: اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ۔ بیشک ہم سے اسے عربی قرآن اتارا کہ تم سمجھو۔ (سورة یوسف، آیت 2) ۔ میں نے قرآن سے ایک اور سوال کیا کہ اے قرآن تو مجھے بتا کہ تو کس مبارک ماہ میں نازل ہوا؟ تو قرآن نے مجھے جواب دیا: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ۔ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا۔ (سورة البقرة آیت 185)۔ میں نے ایک دفعہ قرآن کو کہا اے قرآن تو کس رات یا کس دن نازل ہوا؟ تو جواب ملا: اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَکَةٍ۔ پھر میں نے سوال کیا کہ تو کونسی رات کو نازل ہوا؟ تو قرآن نے مجھ سے کہا: اِنَّا اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ۔ بیشک ہم نے اسے شب ِ قدر میں اتارا۔وَمَاۤ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ۔ اور تم نے کیا جانا کیا شب ِ قدر۔ (سورة القدر، آیت نمبر 1 اور 2)۔

اگر میں اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان بریلوی (رحمة اللہ علیہ) کے ترجمے کو آسان لفظوں میں لکھوں تو شاید یہ بنے۔ اور (اے حبیب) تم جانتے ہو (اور ضرور جانتے ہو) لیلة القدر کیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہ ہو گا جو کہ عام طور پر تراجم میں پایا جاتا ہے کہ آپ کو کیا معلوم کہ شب ِ قدر کیا ہے؟ بلکہ حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تو ہر چیز کی خبر تھی جس کی گواہی غوث الثقلین شیخ سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے بھی دی ہے۔ اِن دونوں ترجموں کو ذہن میں رکھیئے کیونکہ آگے بھی اس کا ذکر آئے گا۔۔

میں امامِ اجل، شیخ محقق، حضرت علامہ شیخ محمد شاہ عبدالحق محدث دہلوی (رحمة اللہ تعالیٰ علیہ) کو میلاد النبی کے حوالے سے پڑھ رہا تھا تو اِسی آیت کے حوالے سے آپ (رحمة اللہ علیہ) میلاد النبی کے مہنے پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لوگو! جس مہینے قرآن نازل ہوا، میں پوچھتا ہوں یہ شب لائقِ قدر و تقریم کیسے بنی؟ خود قرآنِ کریم میں جواب ہے کہ ہم نے اِس شب میں قرآن اتارا۔ اے مسلمانو! بتا جس شب قرآن اترا وہ شب ہزار مہینے سے بہتر اور جس شب قرآن والا آیا اُس شب کے کیا کہنے؟ مزید فرماتے ہیں کہ میں شیخ محقق محدث دہلوی فتویٰ دیتا ہوں کہ شب ِ میلادِ مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) شب ِ قدر سے بھی افضل ہے۔

امام ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن مرزوقؒ نے اپنی کتاب ”جنی الجنتین فی فضل اللیلتین۔۔۔“ میں شب ولادتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیلة القدر سے افضل ہونے پر ۲۰ دلائل رقم فرمائے ہیں۔ حضرت محقق العصر مولانا مفتی محمد خان قادری نے یہ بیس ایمان افروز دلائل وبراہین عربی سے اردو کے قلب میں ڈھالے۔

۱) شرف، علو اور رفعت کا نام ہے اور یہ دونوں چیزیں اضافی ہیں تو ہر رات کی خصوصیت اس میں پائے جانے والے شرف کے باعث ہوتی ہے۔ ولیلة المولد شرفت بولادة خیر خلق اﷲ تولیلة المیلاد کو تمام مخلوق سے بہتر ذات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت کا شرف نصیب ہوا۔ اس اعتبار سے یہ تمام راتوں سے افضل قرار پائی۔

۲) لیلة میلاد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظہور کی رات ہے اور لیلة القدر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا کی گئی تو ظاہر ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ملنے والی رات سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ اقدس کے ظہور کی رات افضل ہے۔

۳) لیلة میلاد میں ظہور فرمانے والی ہستی پاک کو اللہ کریم نے جو بے حد عظیم نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ لیلة القدر ان نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خصائص میں سے ہونے سے سبب لیلة القدر دوسری عام راتوں سے افضل قرار پائی تو جس رات کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وجود مبارک سے شرف مطلق و کامل حاصل ہو وہ یقینا لیلة القدر سے افضل ہے۔

۴) لیلة القدر کو اپنے اندر پائی جانے والی خصوصیات (مثلاً نزول قرآن) کے سبب فضیلت حاصل ہے اور وہ راحج قول کے مطابق آئندہ سال آنے والی رات میں وہ پہلو موجود نہیں لیکن لیلة میلاد کو ایسی ہستی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ خصوصیت حاصل ہے تاقیامت جس کے انوار سے ہر فرد مستفید ہو رہا ہے۔

۵) لیلة القدر کو ملائکہ کے نزول سے فضیلت حاصل ہے لیکن لیلة میلاد کو ظہورِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فضیلت حاصل ہے تو جس ہستی سے لیلة میلاد کو شرف مل رہا ہے۔ وہ لیلة القدر کو شرف دینے ولی تمام چیزوں سے افضل ہے لہٰذا لیلة المیلاد، لیلة القدر سے افضل ہے۔

۶) فضل زائد کو افضلیت کہا جاتا ہے اگرچہ یہ دونوں راتیں فضل میں نزول ملائکہ کی وجہ سے مشترک ہیں لیکن خیر الخلق صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظہور کی وجہ سے لیلة میلاد کو زائد فضل حاصل ہے۔

۷) لیلة القدر کو جیسا کہ ذکر ہو چکا کہ نزول ملائکہ کے سبب فضیلت حاصل ہے۔ وہ یوں کہ وہ محل اعلیٰ سے زمین کی طرف منتقل ہوتے ہیں لیکن لیلة المیلاد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے ظہورِ مبارک اور وجودِ مقدس کے ساتھ جلوہ زفروز ہوتے ہیں۔ ظہورِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں یقینا برتری اور فضیلت کا باعث ہے۔

۸) لیلة القدر میں عمل کرنے والوں کے سبب اس کو فضیلت حاصل ہے لیکن ان تمام عاملین کو جمع بھی کر دیا جائے تو وہ اس ہستی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے برابر نہیں ہو سکتے جس کے سبب لیلة المیلاد کو فضیلت حاصل ہوئی اور نہ ہی ان کے اعمال حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کسی عمل کے برابر ہو سکتے ہیں اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کوئی بھی عمل لیلة القدر کے علاوہ کسی بھی وقت کیا ہو۔

۹) لیلة القدر کو افضیلت اس لئے ہے کہ یہ امت محمدیہ کو بطورِ انعام عطا فرمائی گئی لیکن لیلة میلاد ایسی ہستی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت ہے کہ جس کی وجہ سے امت کو یہ فضیلت حاصل ہے۔

۱۰) لیلة القدر کی فضیلت صرف امت محمدیہ کو حاصل ہے حالانکہ لیلة المولد کی وجہ سے ساری کائنات کو فضیلت حاصل ہوئی ہے۔ اسی رات میں ایسی ذات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آئی جس کو اللہ نے رحمة للعالمین بنا کر مبعوث فرمایا۔

۱۱) لیلة میلاد سال کی دیگر راتوں پر دلادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وجہ سے افضل ہے۔ کیونکہ اسے ”لیلة مولد النبی“ (حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادتِ باسعادت کی رات) اور لیلة القدر کو شرف کی وجہ سے یہ نام دیا گیا جو نسبت خاص لیلة میلاد کو حاصل ہے اس طرح کی شرف ولی نسبت لیلة القدر کو ہر گز حاصل نہیں۔ یعنی لیلة میلاد کو ایسا خصوصی شرف حاصل ہے جو لیلة القدر کو حاصل نہیں۔

۱۲) لیلة القدر کا فائدہ صرف اس میں عمل کرنے والے کو ہی حاصل ہوتا ہے تو اس کا نفع اتنا وسیع نہیں جبکہ لیلة میلاد کا نفع ہر ایک کو حاصل ہے اور عام ہے۔ جس کا نفع زیادہ اور عام ہو وہ یقینا دوسرے سے افضل ہے۔

۱۳) لیلة القدر کی فضیلت کے بارے میں کچھ اختلاف بھی موجود ہے کہ اس کی فضیلت ختم ہو چکی ہے یا باقی ہے (کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ لیلة القدر کو اُٹھا لیا گیا تھا) لیکن لیلة میلاد کا شرف باقی ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔

۱۴) چونکہ لیلة میلاد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت ہوئی اس لئے اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے خصوصی نسبت ہوئی لہٰذا وہ دیگر تمام اوقات اور زمانوں پر افضل قرار پائے گی جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا روضہ اطہر دیگر تمام مقامات سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نسبت حاصل ہونے کے سبب افضل ہے اور اس پر اُمت کا اجماع ہے لہٰذا جو وقت اور زمانہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت کے لئے متعین کیا گیا وہ تمام اوقات سے افضل ٹھہرا۔

۱۵) لیلة القدر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظہور کی فرع ہے اپنے اصل کی قوت کا مقابلہ کہاں کر سکتی ہے؟

۱۶) لیلة میلاد میں اللہ تعالیٰ کا فیضان ہر وجود کو عام نصیب ہوا اور ہر شے کے وجود کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وجودِ مبارک کے ساتھ اتصال کی نسبت مل گئی اور یہ چیز صرف اسی رات کا امتیاز ہے جو لیلة القدر کو حاصل نہیں۔

۱۷) اگر لیلة میلاد میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مبارک وجود کے ان اسرار کا اظہار فرمایا جن کے ساتھ سعادتِ اخروی متعلق ہے حقائق آشکار ہو گئے حق، باطل سے ممتاز و ممیّز ہو گیا۔ انوار سعادت اور ہدایت کے راستے روشن ہو گئے جنتی اور جہنمی گروہ الگ الگ ہو گئے۔ دین سر بلند ہوا اور کفر حقیر ٹھہرا۔ اس طرح کے غیر محدود و اسرار الٰہیہ کا اس رات ظہور ہوا، اور یہ بات کسی اور رات کے حصہ میں نہیں آئی جس میں لیلة القدر بھی شامل ہے۔

۱۸) اگر لیلة میلاد، لیلة القدر سے افضل نہ ہو تو درج ذیل امور میں سے کوئی ایک شے لازم آئے گی

الف: ملائکہ کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے افضل ہونا۔

ب: اس میں اور دیگر راتوں میں عمل کا برابر ہونا۔

ج: لیلة القدر میں کئے گئے عمل کا بڑھ جانا۔

حالانکہ ان تینوں میں سے کوئی بھی امر ممکن نہیں کیونکہ لیلة میلاد کو فضیلت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت کی وجہ سے ملی ہے اور لیلة القدر کو نزول ملائکہ یا عمل کی وجہ سے۔

۱۹) مولد ولی ساعت تمام زمانوں اور اوقات پر افضل ہے۔ جب لیلة میلاد کا ایک حصہ، لیلة القدر سے افضل ہے تو یہ تمام رات لیلة القدر سے کیوں افضل نہ ہو گی۔

۲۰) تمام اوقات سے افضل وقت، ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مبارک وقت ہے اور لیلة القدر کو اس وقت میں سے کوئی حصہ حاصل نہیں، گویا لیلة القدر سب سے افضل نہیں جبکہ یہاں افضل ترین وقت لیلة میلاد کو حاصل ہے لہٰذا اس بنیاد پر بھی لیلة میلاد ہی لیلة القدر سے افضل ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمّد طاہر القادری صاحب اپنی کتاب جشنِ میلادُ النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شرعی حیثیت میں، جو کہ اکتوبر ۱۹۸۸ئ میں چھپی تھی، صفحہ نمبر ۲۷ پر ”لیلة القدر افضل ہے یا شب میلادِ رسول “ کے عنوان کے تحت رقم طراز ہیں:

”جن کے ذکر اور خلقِ عظیم کو بیان کرنے والی کتاب کے اُترنے سے رمضان کو اتنی فضیلت ملی کہ اس کی صرف ایک رات ہزار مہینوں سے افضل ٹھہری تو اس ماہِ مقدّس یعنی ربیع الاوّل کی عظمت و فضل کا کیا عالم ہو گا جس کو صاحبِ کتاب محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کے ماہِ میلاد کا شرف حاصل ہے۔ جس رات یہ کلامِ الٰہی یعنی ذکر خلقِ عظیم اترا‘ اللہ تعالیٰ نے اُس رات کو قیامت تک انسان کے لیے ”ليلَةُ القدر“ کی صورت میں بلندئ درجات اور شرفِ نزول ملائکہ سے نوازا اور بفحوائے فرمان ایزدی لَیْلَةُ الْقَدْرِ  ۙ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ

اس ایک رات کو ہزار مہینوں پر فائق و برتر قرار دیا گیا تو جب صاحب ِ قرآن یعنی مقصود و محبوبِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ورود ہوا اور بزم حسینانِ عالم کے تاجدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمین و زماں کو ابَدی رحمتوں اور لازوال سعادتوں سے منور فرمایا تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس ووقت کی کتنی قدر و منزلت ہو گی اس کا اندازہ لگانا فہم و شعور کے لیے ناممکن ہے۔

تاہم متذکرہ بالا اس مختصر سے تقابل سے مقصود لیلةُ القدر کے مقابلے میں ربیع الاوّل اور بالخصوص ساعتِ میلاد مصطفےٰ علیہ التحية والثنأ کی اہمیت و تقدّس کو واضح کرنا تھا۔

ان حقائق کو تسلیم کرنے سے یہ بھی مترشح ہوا کہ قرآنِ حکیم کی قدر و منزلت کا اعتراف کرنے سے پہلے صاحبِ قرآن کی قدر و منزلت کو دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرنا پڑے گا۔

اس کی مزید وضاحت اس روز مرّہ مثال پر غور کرنے سے ہو جاتی ہے کہ اگر کوئی علم جیسی نعمت کو حاصل کرتا ہے تو اسے کسی نہ کسی واسطے یا ذریعے کا سہارا لینا پڑے گا۔

اور یہ واسطہ و ذریعہء علم اس کے لیے بلاشبہ اس کا وہ اُستاد ہوتا ہے جو اسے علم سکھاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے استاد کو انسان تک نعمتِ علم پہنچانے کا ذریعہ بنایا ہے۔

اس حال میں کتنا عجیب ہوگا کہ اگر وہ انسان علم کی قدردانی تو کرے مگر اس اُستاد کی قدر و منزلت اور شرف و تکریم سے عدم توجگی کا مظاہرہ کرے جس کے واسطے سے اُسے علم کی دولت نصیب ہوئی۔ کوئی شخص استاد جیسی نعمت کو کمتر جانتے ہوئے اُس کی قدر و منزلت غیر ضروری سمجھے اور علم کی دولت کو بہتر جانتے ہوئے اس کی قدر و منزلت کی طرف زیادہ توجہ دے تو اس نے در اصل علم کی ناقدری کی ہے، اُستاد کی نہیں۔“

اگر ہمیں شب ِ قدر، شب ِ میلاد، شب ِ برأت، رمضان، جمعہ، قرآن اور ایمان ملا تو صرف مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صدقے۔ ایک حدیث ِ قدسی ہے لولاک لما خلقت الارض، لولاک لما خلقت الافلاک۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اگر تجھے پیدا نہ کرتا تو زمین نہ بناتا، اگر تجھے پیدا نہ کرتا تو آسمان نہ بناتا۔ اور اہلِ سنت بریلوی کا ایمان ہے کہ اگر رحمن بھی ملا تو مصطفےٰ کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے صدقے میں ملا۔ اسی حدیث کا اگلا حصہ ہے: لولاک لما اظہر ربوبیت، کنت کنزا مخفیا، فاحببت انا عرفا، فخلقت خلق نور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)۔ اگر تجھے پیدا نہ کرتا تو اپنا رب ہونا ظاہر نہ کرتا، میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، مجھے محبت ہو گئی، میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاں، تو میں نے نورِ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو تخلیق کیا۔

اس حدیث ِ قدسی کے متعلق مولانا حسن رضا بریلوی (رحمة اللہ تعالیٰ علیہ) فرماتے ہیں:

نہ کیوں آرائشیں کرتا خدا دنیا کے ساماں میں

تمہیں دولہا بنا کر بھیجنا تھا بزمِ امکاں میں

مصطفےٰ کو پایا خدا کہتے کہتے

خدا مل گیا مصطفےٰ کہتے کہتے

اس بات کو ادھر ہی ختم کرتے ہوئے واپس اپنے مضمون کی طرف چلتے ہیں۔ میں نے قرآن سے کہا کہ اے قرآن یہ بتا تجھ میں کیا کیا ہے؟ قرآن نے مجھے جواباً بتایا: الٓمّٓ ‌ۚ۝ ۱ ذٰلِكَ الۡڪِتٰبُ لَا رَيۡبَ‌ۖ ‌ۚۛ فِيۡهِ‌ۚۛ هُدًى لِّلۡمُتَّقِيۡنَ۔ الٓمّٓ۔ وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں اس میں ہدایت ہے ڈر والوں کو۔ (سورة البقرة، آیت 1-2)۔

وَنُنَزِّلُ مِنَ القُراٰنِ مَا ھُوَ شِفَآءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۙ ۔ اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔ (سورة بنی اسرائیل، آیت 82)۔

وَلَاۤ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَلَاۤ اَکْبَرَ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۔ اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ اس سے بڑی کوئی چیز نہیں جو ایک روشن کتاب میں نہ ہو۔ (سورة یونس، آیت 61)۔

وَلَاۤ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِکَ وَلَاۤ اَکْبَرُ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۔ اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ اس سے بڑی مگر ایک صاف بتانے والی کتاب میں ہے۔ (سورة سبا، آیت 3)۔

وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۔ اور نہ کوئی تر اور نہ خشک جو ایک روشن کتاب میں لکھا نہ ہو۔ (سورة الانعام، آیت 59)۔

وَکُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰه فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ۔ اور ہر چیز ہم نے گن رکھی ہے ایک بتانے والی کتاب میں۔ (سورة یٰس، آیت 12)۔

وَتَفْصِیْلَ الْکِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ اور لوح میں جو کچھ لکھا ہے سب کی تفصیل ہے اس میں شک نہیں ہے پروردگارِ عالم کی طرف سے ہے۔ (سورة یونس، آیت 37)۔ بامفسرین نے یہ ترجمے کئے ہیں کہ لوحِ محفوظ کی تفصیل قرآنِ کریم ہے۔

حضرت علی (کرم اللہ علیٰ وجہہ الکریم) سے کسی نے سوال کیاکہ قرآن میں لکھا ہے کہ ہر چھوٹی، بڑی اور خشک و تر کا ذکر اس میں موجود ہے۔ میری داڑھی میں کم بال ہیں اور آپ ؑ کی داڑھی گھنی ہے۔ کیا اِس کے بارے میں بھی قرآن میں لکھا ہوا ہے؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا کیا تم نے وہ آیت نہیں پڑھی جس میں لکھا ہوا ہے کہ جو زمین اچھی ہوتی ہے زیادہ اُگاتی ہے اور جو زمین پلید ہوتی ہے کم اُگاتی ہے؟ (سورة اعراف، آیت 58) وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَـخْرُجُ نَبَاتُه بِاِذْنِ رَبِّهٖ ۚ وَالَّذِیْ خَبُثَ لَا یَـخْرُجُ اِلَّا نَکِدًا ؕ۔ ترجمہ۔ اور جو اچھی زمین ہے اس کا سبزہ اللہ کے حکم سے نکلتا ہے اور جو خراب ہے اس میں نہیں نکلتا مگر تھوڑا بمشکل۔

اگر ہم قرآن کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ صحابیوں کے زمانے میں دو تفاسیر لکھی گئیں۔ ایک تفسیر عبیع ابن کعب (رضی اللہ عنہ) نے لکھی اور دوسری عبد اللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے لکھی۔ جو تفسیر حضرت عبیع ابن کعب (رضی اللہ عنہ) نے لکھی تھی ہماری بد نصیبی ہے کہ وہ ضائع ہو گئی اور وہ آج دنیا میں موجود نہیں۔ دوسری تفسیر جو دورِ صحابہ میں لکھی گئی وہ حضرت عبد اللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے لکھی تھی۔ جو کہ آج بھی موجود ہے۔ وہ ہے تو بہت مختصر لیکن اسے اُمُّ التفاسیر کہتے ہیں۔

ایک موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے حضرت عبد اللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) کو سینے سے لگایا اور کہا: ”اے اللہ اِسے تو قرآن کا فہم عطا فرما۔“ اور پھر انہیں اتنا علم ملا کہ آپ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں: ” مجھے قرآن میں وہ بینائی حاصل ہے کہ اگر میرے اونٹ کی گردن کی رسّی گم ہو جائے تو خدا کی قسم میں قرآن میں تلاش کر لوں گا۔

اور معتبر کتابوں میں ہے کہ حضرت علی (کرم اللہ علیٰ وجہہ الکریم) فرماتے ہیں: ”میں اگر بسم اﷲ کی تفسیر لکھنا شروع کروں تو قرآن کی اس آیت کی تفسیر کو لکھنے میں ستر (70) اونٹوں کو بوجھل کر دوں مگر تفسیر نہ ختم ہو۔“

اور قرآنِ کریم ایک ایسی کتاب ہے کہ جس نے تمام دنیا کو تا قیامت ایک چیلنج دیا کہ اگر تو تم سمجھتے ہو کہ یہ کتاب اللہ نہیں تو ایسی ایک بھی آیت بنا کر لے آ۔ پہلے دس آیات کا حکم نازل ہوا لیکن عرب جیسا عقلمند معاشرہ اس چیلنج کو قبول نہ کر سکا تو پھر نیا چیلنج آیا کہ دس نہیں تو ایک ہی آیت بنا کر لے آؤ۔ وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّـمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهِ وَادْعُوْا شُھَدَآءَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اﷲِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آ اور اللہ کے سوا، اپنے سب حمایتیوں کو بلا لو، اگر تم سچے ہو۔ (سورة البقرة، آیت 23)۔

علّامہ پیر سیّد نصیر الدّین نصیر گیلانی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ اپنی تصنیف ”لفظ اللہ کی تحقیق“ میں لکھتے ہیں:۔

" بہرِ حال صاحب ِ مختصر المعانی کے نزدیک قول مختار و راجح ہے کہ سببِ اعجازِ قرآن فصاحتِ لفظی و بلاغتِ معنوی ہے، کیونکہ عرب کو اصحابِ فصاحت و اربابِ بلاغت اور رؤسائے بیان و مقتدر علی اللّسان ہونے کے باوجود جس چیز نے قرآنِ پاک کے معارضے سے عاجز و حیران کر دیا وہ اس کی فصاحت و بلاغت اور اس کا ایجاز ہے۔ چنانچہ جس وقت ایک اعرابی نے آیت فاصدع بِمَا تؤمرُ وَأعرِض عن الجاهلين سنی تو فوراً سر بسجدہ ہو گیا اور پکار اُٹھا کہ مجھے اس کلام کی فصاحت نے سجدہ ریز ہونے پر مجبور کر دیا۔ امامِ اصمعیؒ نے جب ایک عربی کنیز سے فصیح کلام (اشعار) سُن کر اظہارِ تعجب کیا تو اس نے جواب دیا کہ کیا قرآنِ پاک کی آیت "واوحينا الیٰ اُمّ موسیٰ ان ارضعيه“ کے بعد بھی اس قسم کے کلامِ مخلوق کی فصاحت پر تعجب کیا جا سکتا ہے؟ جب اس کی ایک مختصر سی آیت میں کمالِ بلاغت موجود ہے۔ جس میں دو امر (ارضعيه ، القيه) دو نہی (لا تـحافی ، ولا تحزنی) دو خبریں (اوحينا ، فاذاخفتِ) دو بشارتیں (انّار آدوهُ اور جاعلوه من المرسلين) جمع ہیں۔

قرآنِ مجید کے اسی سببِ اعجاز کی طرف اشارہ علّامہ تفتازانی ؒ یوں فرماتے ہیں۔

بهٖ يعرف ان القرآن معجز لکونه فی اعلیٰ مراتب البلاغة لاشتمالهٖ علی الدّقائـق والاسرار الـخارجة عن طوق البشر و هذا وسيلة الیٰ تصديق النبی عليه السلام و هو وسيلة الی الفوز بـجميع السعادات۔ یعنی اس علمِ بلاغت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قرآن عاجر کرنےوالا ہے کیونکہ وہ اعلیٰ مراتب ِ بلاغت پر ہے اور ہو ایسے باریک نِکات اور رموز پر مشتمل ہے جو انسانی قدرت سے باہر ہیں اور یہ معرفتِ اعجازِ قرآن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تصدیق کا وسیلہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تصدیق تمام دُنیوی اُخروی سعادتوں اور نیک بختیوں کا وسیلہ ہے۔

نظمِ قرآن اور اُس کی فصاحت و بلاغت کے مختصر بیان کے بعد اب نظمِ قرآن ہی سے یہاں ایک دو مثالیں دے کر بات سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اذا زلزلت الارض زلزالـها o واخرجت الارض اثقالـها o وقال الانسان مالـها o اِن آیات میں ایک بات کہی گئی مگر قافیہ کا حُسن دیکھئے کہ کس قدر سماعت کو لطف دے رہا ہے۔ ان آیات میں زلـزال اور اثقال دو لفظ ہیں، زلزال بہ صورتِ مصدر لایا گیا ہے جبکہ اثـقال ثقل کی جمع کی صورت میں لایا گیا، مگر دونوں کا قافیہ ایک ہے یعنی زلزالھا و اثقالھا، اب آگے دیکھئے وقال الانسان مالـها۔ اس میں مـا الگ لفظ ہے جو ما استفہامیہ بمعنٰی استعظام یا استعجاب ہے اور لهـا الک ایک لفظ ہے جو لام حرفِ جار اور لھا ضمیر مجرورسے مل کر بنا ہے۔

اب جب آیات پڑھی جائیں گی تو زلـزال،اثـقال کے بعد مـالها بھی اُسی انداز میں پڑھا جائے گا۔ اگرچہ زلـزال ، اثـقال کی طرح مـالهـا نہ مصدر ہے اور نہ کسی لفظ کی جمع ہے۔ مگر اِس لفظ کو اس خوبصورتی سے یہاں نگینے کی طرح جڑ دیا گیا ہے کہ فصحائے عرب انگشت بدندان ہو کر رہ گئے۔ ان تینوں الفاظ میں زلزاءاثقاءاور ما قافیہ قرار پاتا ہے اور لھا ردیف کی جگہ استعمال ہو رہی ہے یوں تو قرآنِ مجید میں اس قسم کی ہزار مثالیں موجود ہیں، مگر یہاں مختصراً بات سمجھانے کی حد تک ایک دوسری مثال پیش کی جاتی ہے:

ان آیاتِ مبارکہ میں وما سوّٰها تک تمام صیغے ماضی میں لائے گئے سوائے یغشیٰ کے کیوں کہ یہ مضارع معلوم کا صیغہ ہے اور اُن کے بعد هـا ضمیر مؤنث کے بار بار استعمال نے کیا لطف پیدا کر دیا اور پھر ذرا قوافی کا انداز بدل کر فا لهمها فجورها نے بیان کے کیا معجزانہ تیور دکھائے اور پھر آخر وتــقـوٰى هــا کے لفظ نے سابقہ چھ جملوں میں استعمال شدہ ماضی اور مضارع کے صیغوں کا دوبارہ وزن قائم کر کے قاری اور سامع کا محظوظ ہونا برقرار رکھا۔ اگرچہ تقوٰی ہا میں لفظِ تقوٰی مصدری صورت میں واقع ہوا، مگر چوں کہ اس کا قافیہ بھی الف کا تھا اور ماضی کے سابقہ تمام صیغوں کا قافیہ بھی الف مقصورہ آ رہا تھا اس لیے ماضی مضارع اور مصدر صوتی آہنگ میں مربوط ہونے کے سبب برابر کا لطف دے رہا ہے۔ اگرچہ قرآنِ مجید میں ایسی صورتیں جہاں بھی آتی ہیں اُن کو سجع بندی یا قافیہ و ردیف سے تعبیر نہیں کرتے تاکہ قرآنِ پاک کو شاعرانہ کلام یا محض شاعری نہ کہا جا سکے بلکہ اس طرح کی صورت قرآنِ پاک میں واقع ہو تو اس کو فاصلہ کہتے ہیں جس کی جمع فواصل آتی ہے۔ جیسا کہ مذکورہ سورة میں یا سورة الضحٰی وغیرہ میں ہے۔

والشمس و ضحٰٮهاo والقمر اذا تلٰٮهاo والنهار اذا جلّٰٮهاo

واليل اذا يغشٰٮهاo والسّمآء و ما بنٰٮهاo والارض وما طحٰٮهاo

ونفس وّما سوّٰٮها o فالـهمها فجورها و تقوٰٮها۔۔۔۔الخ

لیکن ہم نے فقط سمجھانے کے لیے مغلق اصطلاح کے بجائے عام فہم الفاظ قافیہ و ردیف کے حوالے سے بیان کیے ہیں۔ ان دو مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ نظم ہو یا نثر قافیہ اور ردیف جہاں بھی پائے جائیں سماعتوں کو محظوظ کیے بغیر نہیں چھوڑتے۔

اس کے بعد ہم ایک مثال حضور ا کی حدیث شریف سے دینا چاہتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ ا پوری کائنات میں افصح العرب و العجم اور استاذِ کُل ہیں۔

ایک مرتبہ بارش کی دعا میں فرمایا۔ الـلٰهـم حـوالینـا لا عـلینـا ، بل علٰی اٰکـام الجبال والا ودية اس مبارک جملے میں آپ نے دیکھا کہ فصاحت و بلاغت اور لسانی لوازم و محاسن کو کس نقطہء کمال پر لا کر بیانِ مدعا کیا گیا۔ حـوالینا اور لا عـلینا کے معجزانہ جملے پر تو فصحائے مشرکین بھی سر دُھنتے ہوں گے۔

بعض تنگ نظر ملاحدہ نے قرآنِ مجید کی آیات میں تضاد ثابت کرنا چاہا، مگر ہمارے ذہین و فطین اہلِ علم نے اُن کے ایسے دندان شکن جواب دیئے کہ پھر اُن کا قلم سنجیدگی سے اس موضوع پر نہ اُٹھ سکا۔ دوسرے اعتراضات کے علاوہ اُن کا یہ اعتراض بھی تھا کہ نعوذ باللہ آیات میں محض عبارت آرائی اور قافیہ پیمائی سے کام لیا گیا، حالانکہ وہی بات سادہ اور غیر مقّضٰی عبارت میں بھی کہی جا سکتی تھی، مگر اُن کے یہ سارے اعتراضات بے معنٰی اور لغو ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ بات کرنے کا ڈھنگ کیا ہوتا ہے۔ فصاحت کے کیا معنٰی ہیں اور بلاغت کسے کہتے ہیں اگر اُن کو عربی زبان کا کچھ بھی علم ہوتا اور الفاظ سے محظوظ ہونے کی ذرّہ بھر صلاحیت رکھتے تو اس قسم کے بے ہودہ اور کھوکھلے اعتراضات نہ کرتے۔ مگر اسلام دشمنی کی دبیز پٹّیاں جب آنکھوں پر چڑھ چکی ہوں تو پھر قرآنِ مجید جیسا کلام موجز و معجز بھی محض قافیہ پیمائی اور عبارت آرائی ہی نظر آتا ہے۔ قرآنِ مجید نے اِسی لیے اُس دور کے فصحائے عرب کو جو غیر مسلم تھے۔ فأتوا بسورة من مّثلهٖ کے الفاظ سے میدانِ بیان میں اترنے کا چیلنج دیا تھا۔ مگر آج تک تنگ نظر حاسدین اور اسلام دُشمن عناصر قرآنی اسلوبِ بیان کے مقابلے میں محض باتیں ہی بنا سکے، کوئی آیت جواباً پیش نہ کر سکے۔۔۔۔۔"

عرب اتنے عقلمند تھے کہ وہ کسی چیز کو لکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ کیا ہم اتنے ہی نالائق ہیں کہ ہمیں کچھ بھول جائے گا؟ اور ان کی شاعری کا یہ عالم تھا کہ ان کے بچے بھی فوراً شعر بنا کر کہہ دیتے۔ اتنے زبردست معاشرے کو جب ایک آیت کا چیلنج آیا تو عرب کے عزیم ترین شاعروں میں سے ایک شاعر نے ایک آیت بنائی اور اسے خانہ کعبہ کی دیوار پر لگا دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضور کی طرف ایک آیت وحی کی اور فرمایا کہ اسے لکھوا کر خانہ کعبہ کی دیوار پر لگوا دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے ایسا ہی کیا۔ جب وہی شاعر حرمِ کعبہ میں داخل ہوا اور وہ آیت پڑھی تو اُس کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے: ما ہذا کلام البشر۔ نہیں یہ بشر کا کلام۔

اِسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے فوراً بعد حضرت ابو بکر الصدیق (رضی اللہ عنہ) کی خلافت میں بھی کچھ جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ جیسا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی حدیث بھی اس بات کی پیشن گوئی کرتی ہے اور دیگر بےشمار احادیث سے بھی یہ ثابت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) آخری نبی ہیں (لا نبی بعدی) ۔ ”رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے فرمایا میری اُمت میں تیس (30) کذاب ہوں گے جن میں سے ہر ایک نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا حالانکہ میں خاتم النبیّین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (ابو داد ’کتاب الفتن‘)۔

مسلم شریف میں بھی ایک حدیث اسی طرح کی ہے جس کا مفہوم ہے کہ قیامت تب تک نہ آئے گی جب تک کہ تیس کذّاب دجّال نہ آ جائیں اور ان میں سے ہر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے گا۔

نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے فوراً بعد یمن سے اسود انسی نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ یہ قبیلہ انس کا سردار تھا۔ اس نے پڑوسی سرداروں کے ساتھ مل کر کافی بھاری فوج اکٹھی کی اور اسلام کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ اور اسے مسلمانوں سے شکست ہوئی اور قتل کر دیا گیا۔ چونکہ وہ بد صورت تھا اور اپنی بد صورتی کو چھوپانے کے لیے نقاب پہنتا تھا اس وجہ سے اسے نقاب پوش نبی بھی کہتے ہیں۔

ایک اور کذاب دجال نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی زندگی میں نبوت کا دعویٰ کیا جس کا نام طُلیحہ تھا۔ اس کا تعلق عرب کے شمالی علاقے میں ایک قبیلہ بنو اسد سے تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا وصال ہو گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی زندگی میں کوئی بھی فوج اس کے لیے روانہ نہ ہوئی۔ حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) کو اس کے مقابلے کے لیے بھیجا گیا اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ بعد میں طُلیحہ بھی مسلمان ہو گیا اور مسلمانوں کی فوج میں داخل ہو گیا اور حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے دورِ خلافت میں جنگوں میں بھی حصہ لیا۔

عرب میں سے ایک سُجّاح نامی دل کش عیسائی عورت تھی۔ اُس نے بھی نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے وصال کے فوراً بعد جب اس کو مُسیلمہ اور طُلیحہ کے اعلانِ نبوت کے بارے میں پتا چلا تو اس نے بھی اعلانِ نبوت کر دیا۔ اس کا تعلق بنی تمیم سے تھا۔ مُسیلمہ نے سُجّاح کو یمامہ میں دعوت دی اور فیصلہ کیا کہ فوجیں ملا لیں۔ سّجّاح نے مُسیلمہ کذّاب سے شادی کر لی۔ سُجّاح تین دن رکنے کے بعد واپس عراق چلی گئی اور جب مسلمانوں نے عراق فتح کیا تو اس نے دوسرے لوگوں کے ساتھ اسلام قبول کر لیا۔

عرب کے ایک قبلیہ بنو حنیفہ سے ایک مُسیلمہ بن حبیب نامی کذاب (جس کا ذکر اوپر بھی سُجّاح کے ساتھ آ چکا ہے) نبوت کا مدعی ہوا۔ یہ اسلام کا سب سے خطرناک دشمن تھا۔ اس نے نمازوں میں کمی کر دی اور اپنے ماننے والوں کو روزہ اور زکوٰة سے فارغ کر دیا اور شراب اور شہوت کو حلال قرار دے دیا۔ اس نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو خط بھیجا جب میں لکھا تھا اور درخواست کی تھی کہ جزیرئہ عرب کو دو حصّوں میں تقسیم کر دیا جائے جس میں سے آدھا مسلمانوں کے لیے ہو اور آدھا مُسیلمہ اور اس کے امتیوں کے لیے ہو۔ خط کے الفاظ ملاحظہ ہوں۔

”مسیلمہ رسول اللہ (معاذ اللہ) کی طرف سے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے لیے۔ اب زمین کو آدھی میری کر دیں اور آدھی آپ کی۔“

نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے اس سے کذاب کے نام سے خطاب کیا اور کہا کہ ساری زمین خدا کی ہے اور اُس نے اِس کی حکومت ان لوگوں کو دی ہے جسے اُس نے چاہا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے واپس جانے والے خط کے کچھ الفاظ درج ذیل ہیں:

”محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی طرف سے مسیلمہ الکذاب کے لیے۔ زمین خدا کی ہے۔۔۔“

حضرت ابو بکر (رضی اللہ عنہ) نے اپنے دورِ خلافت میں مُسیلمہ کے پاس پہلا لشکر ابو جہل کے بیٹے حضرت اکرمہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں بھیجا جسے بری طرح سے شکست ہوئی۔ پھر انہوں نے دوسرا لشکر حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) کی قیادت میں 12 ہجری میں بھیجا۔ اور مُسیلمہ کی فوج میں اُس وقت چالیس ہزار آدمی موجود تھے۔

مُسیلمہ سے جب لڑائی کرنے حضرت خالد بن ولیدؓ گئے تو اُس کذاب کے اُمتی پہنچے اور کہا کہ اے اللہ کے نبی (معاذ اللہ) کچھ وحی آ رہی ہے؟ اُس نے کپڑا اوڑا اور جھرجھری آئی۔ کپڑا اُٹھا کے کہا کہ ثابت قدم رہو۔ جب حضرت زید ابن خطابؓ نے پھاٹک کھول دیا اور فوج اند آ گئی تو اُس کے اُمتیوں نے پھر پوچھا۔ پھر اُسی طرح کپڑا اوڑا اور جھرجھری آئی۔ کپڑا اُٹھا کر کہا بھاگو اور اپنی جانیں بچا۔

اُس وقت حضرت وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ نے اُسی نیزے سے جس سے حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا اُسی انداز میں جس طرح حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا اُس کا قتل کر دیا اور کہا: ” ایک دن اُحد کے میدان میں میں نے دنیا کے سب سے اچھے انسان (حضرت امیر حمزہؓ) کا قتل کیا تھا اور آج میں نے دنیا کے سب سے بُرے شخص کا قتل کیا ہے۔“ اور خود بھی شہید ہو گئے۔

مُسیلمہ کذّاب سے جب جنگ جیت کر حضرت خالد بن ولیدؓ صدیقِ اکبرؓ کے پاس آئے تو حضرت ابو بکرؓ نے پوچھا کہ اُس جھوٹے نبی کا کوئی ایک نمونہ تو پیش کرو اُس کے الہام کا۔ خالد بن ولیدؓ نے سنایا۔ ”اے مینڈک! تو کتنا ا چھا مینڈک ہے۔ جب تو پانی میں بیٹھتا ہے۔ نہ تو کسی کو ستاتا ہے۔نہ تجھے کوئی ستاتا ہے۔“

آج تک بڑے شاعروں نے اور بڑے دانشوروں نے اس کتاب اللہ ’قرآنِ کریم‘ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی حتیٰ کہ ڈینمارک سے ایک کتاب چھپی جس کا نام فرقان الحق رکھا گیا۔ جس کی عربی بنائی اور انگریزی میں ترجمہ کیا اور اس کی 77 سورتیں ہیں۔ لیکن آج تک کوئی بھی قرآن کے چیلنج من مثلہ کو نہ پورا کر سکا۔

ابھی تک ہم نے دیکھا کہ قرآن کتنی عظیم کتابِ ناطق ہے کہ جس میںہر چیز موجود ہے۔ اب قرآن کے ترجموں کی طرف چلتے ہیں۔ ایک دور تھا کہ علماءکرام قرآن کا ترجمہ کرنے سے سخت منع کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہر آدمی اِس میں اپنا مقصد بیان کرے گا اور قرآن کے ساتھ زیادتی کرے گا۔ اگر کوئی قرآن کا مطلب جاننا چاہتا ہے تو پہلے عربی کا علم حاصل کرے اور پھر پڑھے۔ زیادہ دور نہیں کہ ایک سندھی عالم نے 270 ہجری میں قرآن کا پہلا ترجمہ سندھی زبان میں کیا۔ کچھ جگہ یہ پڑھنے کو بھی ملا کہ قرآن کا پہلا ترجمہ لاطینی زبام میں ہوا۔ اور قرآن کا روسی زبا ن میں ترجمہ جمال الدین افغانی کی کوششوں سے کیا گیا۔ قرآن مجید کا سپینی زبان میں ترجمہ الفا سونے 1844 عیسوی میں کروایا۔

جب اُردو کا دور شروع ہوا تو 1131 میں قاضی معظم سمبھلی نے قرآن کا اُردو زبان میں سب سے پہلے ترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ آج بھی بھوپال میں نور الحسن بھوپالی کے بڑے مشہور کتب خانہ میں موجود ہے۔

1150ھ میں ایک اُردو ترجمہ لکھا گیا۔ حیدر آباد میں دکن میں ایک بہت بڑی لائبرری ہے جس کا نام انڈین لائبرری (INDIAN LIBRARY) ہے۔ نظامِ دکن کے دور میں اس کو کتب خانہ آصفیہ کہتے تھے۔ وہاں اس ترجمے کا قلمی نسخہ حیدر آباد، دکن، کی زبان میں موجود ہے، جو کہ عام اُردو سے تھوڑی سی مختلف ہے۔ اس کا پہلا صفحہ پھٹ گیا ہے جس کی وجہ سے مترجم کا نام نہیں پتا لگ سکا۔

جب اُردو تھوڑی بہتر ہوئی تو 1190ھ یعنی 1776ئ میں حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلویؒ نے دہلی سے سب سے پہلا تحت اللفظ ترجمہ کیا۔ چونکہ عربی لفظ کے نیچے اس کا اُردو ترجمہ تھا اس وجہ سے یہ ترجمہ عموماً مناظروں میں استعمال ہوتا۔ اس کے 15 سال بعد 1205ھ میں ان کے بھائی شاہ عبد القادر محدث دہلویؒ نے اور آسان زبان میں ترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ شاہ ولی اللہؒ کے بیٹوں کے دور کا آخری اُردو ترجمہ تھا۔

اپریل 1970ئ تک برِّ صغیر میں اُردو کے 257 مکمل ترجمے ہو چکے تھے اور 436 نامکمل ترجمے ہو چکے تھے۔ یعنی 1970 تک بر صغیر میں اُردو ترجموں کی تعداد 693 تک پہنچ گئی۔ اور اب تک 700 سے اوپر ہیں۔

امامِ اہل سنت، اعلیٰ حضرت، الشاہ احمد رضا خان بریلوی (رحمة اللہ علیہ) کو صدرشریعت، حضرت علامہ مولانا امجد علی اعظمی (رحمة اللہ علیہ)، مصنف بہارِ شریعت، نے کہا کہ اُردو میں کافی ترجمے آ چکے ہیں۔ آپ ایک آسان اور جامع ترجمہ لکھیں کہ لوگوں کو رہنمائی ملے۔ اعلیٰ حضرت (رحمة اللہ علیہ) نے جواب دیا کہ ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اعلیٰ حضرت (رحمة اللہ علیہ) کا معمول اگر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ آپ (رحمة اللہ علیہ) صرف دو سے تین گھنٹے سوتے تھے اور باقی سارا وقت نماز، اوراد اور فتاویٰ نویسی میں گزر جاتا مولانا اعظمی (رحمة اللہ علیہ) کے بہت اسرار کے بعد اعلیٰ حضرت (رحمة اللہ علیہ) نےکہا کہ عصر کے بعد اور مغرب سے پہلے میرے پاس تھوڑا سا وقت ہوتا تو آپ روزانہ کاغذ، قلم لے کر تیار رہا کریں اور میں آ جایا کروں گا۔ جن لوگوں کے سامنے یہ ترجمہ ہوا وہ کہتے ہیں کہ مولانا اعظمیؒ کاغذ اور قلم لے کر تیار رہتے اور اعلیٰحضرتؒ دو منٹ میں ایک رکوع کا ترجمہ کر دیتے اور مولانا اعظمیؒ فوراً اسے لکھ لیتے۔ اسی طرح کبھی پانچ منٹ تو کبھی دم منٹ مل جاتے۔ کبھی دو رکوع کا کبھی پانچ کا کبھی آدھے رکوع کا ترجمہ ہوتا تو کبھی ترجمہ ہوتا ہی نہیں تھا۔

مولانا امجد علی اعظمی (رحمة اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ جو ترجمہ اعلیٰ حضرتؒ دو منٹ میں کرتے جب میں اس کو کتب خانہ میں جا کر دو، تین گھنٹے لگا کر دوسری کتب کی روشنی میں دیکھتا تو نتیجہ وہی نکلتا جو اعلیٰ حضرتؒ نے دو منٹ میں لکھوا دیا ہوتا۔

اسی طرح ایک وقت آیا کہ قرآن کا ترجمہ مکمل ہو گیا اور اس کا نام کنز الایمان رکھا گیا۔ پھر وہ ترجمہ صدر الافاضل، مفتی سید نعیم الدین مراد آبادی (رحمة اللہ علیہ) مولانا اعظمی (رحمة اللہ علیہ) سے مانگ کر مراد آباد لے گئے۔ پھر اس پر اپنی تفسیر اور ہاشیہ لکھا اور چھاپ دیا۔ سب سے پہلا کنزالایمان کا ترجمہ مراد آباد سے صدر الافاضل (رحمة اللہ علیہ) کے ہاشیئے کے ساتھ چھپا۔

اب دیکھتے ہیں کہ اس ترجمے میں کیا خاص بات ہے کہ یہ ترجمہ دیگر تراجم سے منفرد ہے؟

(سورة یوسف، آیت 8۔) (شیخ الہند، محمود الحسن صاحب) البتہ ہمارا باپ صریح خطا پر ہے۔

(ابو الاعلیٰ، مودودی صاحب) سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابا جان بالکل ہی بہک گئے۔

(اشرف علی تھانوی) واقعی ہمارے باپ کھلی غلطی میں ہیں۔

(فتح محمد جالندھری) کچھ شک نہیں، ابا صریح غلطی پر ہیں۔

(سلیم الدین شمسی) واقعی ہمارے والد صریح خطا پر ہیں۔

(عبد الماجد دریا بادی) بیشک ہمارے باپ تو بالکل ہی بہک گئے۔

(عبد الستار دہلوی اہلحدیث) باپ ہمارا البتہ بیچ غلطی ظاہر کے ہے۔

کیا نبی کے بیٹے اپنے باپ کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ تو غلطی پر ہے؟ نبی تو معصوم ہوتے ہیں۔ اب اعلیٰ حضرتؒ کا ترجمہ دیکھیں کہ حضرت یعقوبؑ کے بیٹوں نے ان سے کیا کہا۔ قرآن میں آپ دیکھیں کہ حضرت یعقوبؑ زیادہ پیار حضرت یوسف ؑ سے کرتے تھے۔

(اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ، کنز الایمان) بیشک ہمارے باپ صراحةً ان کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

(سورة یوسف، آیت 110) (شیخ الہند، محمود الحسن) یہاں تک کہ جب ناامید ہونے لگے رسول اور خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا تو پہنچی ان کو ہماری مدد پھر بچا دیا جس کو ہم نے چاہا۔

(ابو الاعلیٰ مودودی) پیغمبروں کو پہنچ گئی پھر جب ایسا موقع آ جاتا ہے تو ہمارا وعدہ یہ ہے کہ ہم جسے چاہتے ہیں بچا لیتے ہیں۔

(فتح محمد جالندھری) یہاں تک کے کہ جب پیغمبر ناامید ہو گئے اور انہوں نے خیال کیا کہ اپنی نصرت کے بارے میں جو بات انہوں نے کہی تھی اُس میں وہ سچے نہیں نکلے۔

(سلیم الدین شمسی) یہاں تک کے کہ جب رسول ناامید ہو گئے اور خیال کرنے لگے اپنی نصرت کے بارے میں جو بات انہوں نے کہی تھی اس میں وہ سچے نہیں نکلے۔

(اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ، کنز الایمان) یہاں تک جب رسولوں کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی اور لوگ سمجھے کہ رسولوں نے غلط کہا تھا اس وقت ہماری مدد آئی تو جسے ہم نے چاہا بچا لیا گیا اور ہمارا عذاب مجرموں سے پھیرا نہیں جاتا۔

یہاں ظَنُّوْٓا کا فاعل انبیاءنہیں ہیں۔ اس کا فاعل عوام ہے۔ لیکن بڑے سے بڑے عالموں نے یہی غلطی کی کہ اس کا فاعل انبیاءکو سمجھا اور ترجمہ غلط کر دیا۔ نبی تو یہ گمان بھی نہیں کر سکتا کہ اس سے جھوٹ کہا گیا ہے۔ اعلیٰ حضرت (رحمة اللہ علیہ) کا ترجمہ وہ پہلا اُردو کا ترجمہ ہے کہ جو غلطیوں سے پاک ہے۔ ابھی ماضی میں ہی ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے بھی ایک ترجمہ لکھا جس کا نام عرفان القرآن ہے۔ مگر وہ ایک تفسیری ترجمہ ہے جبکہ کنز الایمان ایک مختصر اور جامع ترجمہ ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی محنت کہ انہوں نے قرآن کا سائنسی ترجمہ کیا اور جن جگہوں پر ترجمہ دوسرے تراجم سے اختلاف کرتا وہاں حوالہ دے دیامگر حقیقت تو یہ ہے کہ کنز الایمان ہی وہ پہلا ترجمہ ہے جو کہ بالکل صحیح اور اہل سنت کے عقائد کی تصدیق کرتا ہے۔

(سورة الانبیاء، آیت 87) (شیخ الہند، محمود الحسن) اور مچھلی والے کو جب چلا گیا غصے ہو کر پھر سمجھا کہ ہم نا پکڑ سکیں گے اس کو۔

کسی نے ترجمہ کیا: اللہ کے نبی نے یہ گمان کیا کہ ہم اس کو پکڑ نہیں سکیں گے۔

کسی نے ترجمہ کیا: ہم اس کے پکڑنے پر قدرت نہیں رکھتے

کسی نے ترجمہ کیا: اور ذوالنون کو دیکھو مچھلی والے کو جب وہ چلا غصے بھرا گمان کیا کہ ہم اس کے پکڑنے پر قادر نہیں۔

(اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ، کنز الایمان) اور ذوالنون کو یاد کرو جب چلا غصہ میں بھرا تو گمان کیا کہ ہم اس پر تنگی نہیں کریں گے۔

کیا حضرت یونس (علیہ السلام) جو اللہ کے نبی تھے وہ یہ گمان کر سکتے تھے کہ اللہ انہیں نہیں پکڑ سکتا؟ ہر گز نہیں! کیوں کہ نبی کا تو مطلب ہی غیب کہ خبریں دینے والا اور نبی معصوم ہوتے ہیں اور گناہ سے پاک ہوتے ہیں۔

کا لوگوں نے کیا ترجمہ کیا۔

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام کے ساتھ

شروع کرتا ہوں ساتھ نام اللہ کے

اگر یہ ترجمہ کوئی عورت پڑھے تو کیا پڑھے؟ اگر تو وہ کہے شروع کرتی ہوں تو وہ ترجمہ اس کا اپنا ہو جائے گا۔ لیکن اعلیٰ حضرت کا ترجمہ اتنا جامع ہے کہ میرے خیال میں اگر قرآن میں ہر چیز کا علم موجود ہے تو کنز الایمان اور قرآن میں کوئی فرق نہیں اور کنز الایمان میں بھی وہ جامع الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس سے قرآن کے ایک ایک نقطے کا اُردو ترجمہ ہوا ہے۔ اعلیٰ حضرت نے ترجمہ کیا: اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان، رحمت والا۔اب یہ ترجمہ عورت بھی پڑھے اور مرد بھی پڑھے۔ اور شاید یہ بسم اللہ کا پہلا ایسا ترجمہ ہے۔

وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَهَدٰی۔ (سورة الضحٰی، آیت 7)

ترجمہ: اور پایا تجھ کو بھٹکتا ہوا۔ پھر راہ دی۔ (شاہ عبدالقادرؒ)

اور پایا تجھ کو راہ بُھولا ہوا پس راہ دکھائی۔ (شاہ رفیع الدینؒ)

دریافت ترا راہ گم کردہ یعنی شریعت نمی دانستی پس رہ نمود۔ (شاہ ولی اللہؒ)

اور آپ کو بے خبر پایا، سو رستہ بتایا۔ (عبد الماجد دریا بادی)

اور تمہیں گم کردہ راہ پایا تو کیا (تمہیں) ہدایت (نہیں) کی؟ (مرزا حیرت دہلوی)

اور تم کو دیکھا کہ راہِ حق کی تلاش میں بھٹکے بھٹکے پھر رہے ہو تو تم کو دین اسلام کا سیدھا راستہ دکھایا۔ (ڈپٹی نذیر احمد)

(اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ، کنز الایمان) اور تمہیں اپنی محبت میں خود یافتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی۔

تمام مترجمین کرام نے ضَآلاً کا ترجمہ بھٹکا ہوا، گمراہ وغیرہ کیا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں سورة النجم میں آیت نمبر 2 میں فرماتا ہے۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی۔ آپ کے صاحب (محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نہ گمراہ ہوئے اور نہ بے راہ چلے۔

اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَـتْحًا مُّبِیْنًا ۙ۔ لِّـیَـغْفِرَ لَــکَ اﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ۔ (سورة الفتح، آیت 1-2)

ترجمہ: ہم نے فیصلہ کر دیا تیرے واسطے صریح فیصلہ تا معاف کرے تجھ کو اللہ جو آگے ہوئے تیرے گناہ اور جو پیچھے رہے۔ (شاہ عبد القادرؒ)

تحقیق فتح دی ہم نے تجھ کو جتح ظاہر تاکہ بخشے واسطے تیرے خدا جو کچھ ہوا تھا پہلے گناہوں سے تیرے اور جو کچھ پیچھے ہو۔ (شاہ رفیع الدینؒ)

ہر آئینہ ما حکم کر دیم برائے تو بفتح ظاہر عاقبت فتح آنست کہ بیا مرز د ترا خدا آنچہ کہ سابق گذشت از گناہِ تو د آنچہ پس ماند۔ (شاہ ولی اللہؒ)

بے شک ہم نے آپ کو کُھلم کھلا فتح دی تاکہ اللہ آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دے۔ (عبد الماجد دریا بادی)

اےاے پیغمبر یہ حدیبیہ کی صلح کیا ہوئی۔ در حقیقت ہم نے تمہاری طرف کھلم کُھلا فتح دی تاکہ تم اس فتح کے شکریہ میں دین حق کی ترقی کے لئے اور زیادہ کوشش کرو اور خدا اس کے صلے میں تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کرے۔ (ڈپٹی نذیر احمد)

بے شک ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی تاکہ اللہ آپ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دے۔ (اشرف علی تھانوی)

بے شک اے نبی ہم نے تمہیں ایک فتح ظاہر عنایت کی اللہ تعالیٰ تمہارے اگلے پچھلے گناہوں کو بخش دے۔

(اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ، کنز الایمان) بے شک ہم نے تمہارے لئے روشن فتح دی تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے۔

"Surely we have given thee (you) a manifest victory, that God may forgive thee (you) The former and the latters sins. (A. J. Arberry).

(1) Lo! We have given thee (O Muhammad) a signal victory,

(2) That Allah may forgive thee of that sin, that which is past and that which is to come." (Marmaduke Pickthall).

(Ala Hazrat Imam Ahmad Raza Khan Barelvi, Kanz-ul-Iman in English):

1. Undoubtedly, We have granted you a clear victory.

2. That Allah may forgive the sins of your farmers and of your lathers on account of you and may complete His favours upon you and may show you straight path.

ان تمام تراجم سے تو یہ ثابت ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)، جو کہ سید الانبیاءہیں، گنہگار ہیں (نعوذ باللہ من ذلک)۔ جبکہ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاءمعصوم ہوتے ہیں۔ صدر الشریعة حضرت علامہ مفتی حکیم ابو الاعلیٰ محمد امجد علی قادری رضوی اعظمی (رحمة اللہ علیہ) اپنی تصنیف بہارِ شریعت کے حصہ اول ’اسلامی عقائد‘ میں باب نمبر 3 ’عقائدِ متعلّقہ نبوت‘ میں عصمتِ انبیاءمیں عقیدہ نمبر 7 میں لکھتے ہیں: انبیاءعلیہم السلام شرک و کفر اور ہر ایسے امر سے جو خلق کے لئے باعثِ نفرت ہو جیسے کذب و خیانت و جہل وغیرہ باصفات ذمیمہ نیز ایسے افعال سے جو وجوہات اور مروّت کے خلاف ہیں قبل نبوت اور بعد نبوت بالاجماع معصوم ہیں اور کبائر سے بھی مطلقاً معصوم ہیں اور حق یہ ہے کہ تعمداً صغائر سے بھی قبل نبوت اور بعد نبوت معصوم ہیں۔ (اصول بزدوی، ص 167) سوائے اعلیٰ حضرت کے، سارے مترجموں نے سید الانبیاءکو گنہگار بنا دیا۔ تو پھر اعلیٰ حضرت کا ہی ایک ایسا ترجمہ ہے جو کہ قرآن کی ہر آیت کا صحیح صحیح اور جامع ترجمہ ہے۔

فَاِنْ یَّشَاِ اﷲُ یَـخْتِمْ عَلٰی قَلْبِکَ ؕ (سورة شوریٰ، آیت 24)

ترجمہ: پس اگر خواہد خدا مُہر بر دل تو (شاہ ولی اللہؒ)

پس اگر چاہتا اللہ مُہر کر دے تیرے دل پر (شاہ رفیع الدینؒ)

سو اگر چاہے مُہر کر دے تیرے دل پر (شاہ عبد القادرؒ)

سو اگر اللہ چاہے تو آپکے قلب پر مُہر لگا دے (عبد الماجد دریا بادی)

سو خدا اگر چاہے تو آپ کے دل پر بند لگا دے (اشرف علی تھانوی)

(اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ، کنز الایمان) اور اگر اللہ چاہے تو تمہارے دل اپنی رحمت و حفاظت کی مُہر لگا دے۔

سوائے اعلیٰحضرت بریلویؒ کے تمام ترجموں سے پڑھنے والا یہی نتیجہ اخذ کرے گا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے دلِ اطہر پر مُہر لگانے کا ارادہ کیا تھا لیکن پھر کچھ سوچ کر چھوڑ دیا ورنہ مہر لگا دیتا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نبی ہونا کوئی غیر معمولی اور بڑی بات نہیں (نعوذ باللہ من ذلک)۔ بھلا جس کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے لئے اور وہ بھی جس پر نبوت کا خاتمہ ہو منتحب کرے اور پھر خود ہی اس کو بار بار سرزنش کرے کیونکر ہو سکتا ہے؟

وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْٓ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللّٰهَ وَتُـخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا اللّٰهُ مُبْدِیْهِ وَتَـخْشَی النَّاسَ وَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَـخْشٰهُ۔ (سورة الاحزاب، آیت 37)

ترجمہ: اور جس وقت کہ کہتا تھا تو واسطے اس شخص کے کہ نعمت رکھی ہے اللہ نے اوپر اس کے اور نعمت رکھی ہے تو نے اوپر اس کے تھام رکھ اوپر اور اپنے بی بی اپنی کو اور ڈر خدا سے اور چھپاتا تھا تو بیچ جی اپنے کے جو کچھ کہ اللہ ظاہر کرنے والا ہے اس کا اور ڈرتا تھا تو لوگوں سے اور اللہ بہت لائق ہے اس کا کہ ڈرے تو اس سے۔ (شاہ عبد القادرؒ)

اور جب تو کہنے لگا اس شخص کو جس پر اللہ نے احسان کیا اور تو نے احسان کیا رہنے دے اپنے پاس اپنی جورو کو اور ڈر اللہ سے اور تو چھپاتا تھا اپنے دل میں ایک چیز جس کو اللہ کھولا چاہتا ہے اور ڈرتا تھا لوگوں سے اور اللہ سے زیادہ چاہیے ڈرنا رتجھ کو۔(شیخ الہند، محمود الحسن)

اے نبی یاد کرو وہ موقع جب تم اُس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑ اور اللہ سے ر اُس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ کھولنا چاہتا تھا تم لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ اُسے کا زیادہ حقدار ہے۔ (ابو الاعلیٰ مودودی)

اور جب تم اُس شخص سے جس پر خدا نے احسان کیا اور تم نے بھی احسان کیا یہ کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دے اور خدا سے ڈر اور تم اپنے دل میں وہ بات پوشیدہ کرتے تھے جس کو خدا ظاہر کرنے والا تھا اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے حالانکہ خدا ہی اس کا زیادہ مستحق ہے۔ (فتح محمد جالندھری)

اور جب فرماتے تھے آپ واسطے اُس کے کہ انعام فرمایا اللہ نے پر جس اور انعام کیا آپ نے پر اُس روک رکھو تو اوپر اپنے بیوی اپنی کو اور ڈر تو اللہ سے اور چھپاتے تھے آپ میں دل اپنے وہ بات جو کہ اللہ ظاہر فرمانے والا تھا اُس کو اور خوف رکھتے تھے آپ لوگوں سے اور اللہ زیادہ حق دار ہے۔ (مفتی محمد رضا المصطفےٰ)

اور اے نبی اس وقت کو یاد کریں جب آپ اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے انعام کیا ہے اور آپ نے عنایت کی ہے کہ وہ اپنی بیوی کو روکے رکھے اور اللہ سے ڈرے اور آپ اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا آپ اس معاملے میں لوگوں سے ڈر رہے تھے حالاں کہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔ (محمد رفیق چوہدری)

اور یاد کیجئے جب آپ نے فرمایا اُس شخص کو جس پر اللہ نے بھی احسان فرمایا اور آپ نے بھی احسان فرمایا اپنی بی بی کو زوجیت میں رہنے دے اور اللہ سے ڈر اور آپ مخفی رکھے ہوئے تھے اپنے جی میں وہ بات جسے اللہ ظاہر فرمانے والا تھا اور آپ کو اندیشہ تھا لوگوں کے طعن و شبیہ کا حالانکہ اللہ تعالیٰ زیادہ حق دار ہے۔(پیر کرم شاہ صاحبؒ)

اور (اے حبیب!) یاد کیجئے جب آپ نے اس شخص سے فرمایا جس پر اللہ نے انعام فرمایا تھا اور اس پر آپ نے (بھی) اِنعام فرمایا تھا کہ تُو اپنی بیوی (زینب) کو اپنی زوجیت میں روکے رکھ اور اللہ سے ڈر اور آپ اپنے دل میں وہ بات ٭ پوشیدہ رکھ رہے تھے جِسے اللہ ظاہر فرمانے والا تھا اور آپ (دل میں حیاءً) لوگوں (کی طعنہ زنی) کا خوف رکھتے تھے۔ (اے حبیب! لوگوں کو خاطر میں لانے کی کوئی ضرورت نہ تھی) اور فقط اللہ ہی زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس کا خوف رکھیں (اور وہ آپ سے بڑھ کر کس میں ہے؟)۔

٭ : (کہ زینب کی تمہارے ساتھ مصالحت نہ ہو سکے گی اور منشاءایزدی کے تحت وہ طلاق کے بعد ازواجِ مطہرات میں داخل ہوں گی)۔ (ڈاکٹر محمد طاہر القادری)

(اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ، کنز الایمان) اور اے محبوب! یاد کرو جب تم فرماتے تھے اس سے جسے اللہ نے اسے نعمت دی اور تم نے اسے نعمت دی کہ اپنی بی بی اپنے پاس رہنے دے اور اللہ سے ڈر اور تم اپنے دل میں رکھتے تھے وہ جسے اللہ کو ظاہر کرنا منظور تھا اور تمہیں لوگوں کے طعنہ کا اندیشہ تھا اور اللہ زیادہ سزاوار ہے کہ اُس کا خوف رکھو۔

سوائے اعلیٰ حضرت فاضل بریلویؒ کے صرف پیر کرم شاہ صاحبؒ نے بھی ایسا ترجمہ کیا۔ باقی سب نے لکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو لوگوں کا خوف یا لوگوں کا ڈر تھا۔ پیر کرم شاہ صاحبؒ نے ترجمہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو طعنہ کو اندیشہ تھا۔ اولیاءاگر انبیاءسے کم رتبے پر ہیں اور اُن کے لیے قرآنِ کریم میں ارشاد ہے الآ ان اولياءاﷲ لا خوف عليهم ولا هم يحزنون۔ کہ انہیں کوئی خوف اور ڈر نہیں تو ایسا کیسے ممکن ہے کہ انبیاءاور وہ بھی سیّد الانبیاءکو کسی چیز کا خوف ہو؟

وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُم بَعْدَ الَّذِیْ جَآءَکَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَــکَ مِنَ اﷲِ مِنْ وَّلِیِّ وَّلَا نَصِیْرٍ۔ (سورة البقرة، آیت 120)

ترجمہ: اور کبھی چلا تو ان کی پسند پر بعد اس علم کے جو تجھ کو پہنچا تو تیرا کوئی نہیں اللہ کے ہاتھ سے حمایت کرنے والا نہ مددگار۔ (شاہ عبد القادرؒ)

اور البتہ اگر پیروی کرے گا تو خواہشوں ان کے پیچھے اس چیز کے آئی تیرے پاس علم سے نہیں واسطے تیرے اللہ سے کوئی دوست اور نہ مددگار۔ (شاہ رفیع الدینؒ)

اگر پیروی کر دی آرزوئے باطل ایشاں را پس آنچہ آمدہ است بتواز دانش نہ باشد ترا برائے اخلاص از عذاب خدا ہیچ دوستی و نہ یارے دہند۔ (شاہ ولی اللہؒ)

اور اگر آپ بعد اس کے جو آپ کو پہنچ چکا ہے انکی خواہشوں کی پیروی کرنے لگے تو آپ کے لئے اللہ کی گرفت کے مقابلے میں نہ کوئی یار ہو گا نہ مددگار۔ (عبد الماجد دریا بادی)

اور اے پیغمبر اگر تم اس کے بعد کہ تمہارے پاس علم یعنی قرآن آچکا ہے۔ ان کی خواہشوں پر چلے تو پھر تم کو خدا کے غضب سے بچانے والا نہ کوئی دوست ہو گا اور نہ مددگار۔ (ڈپٹی نذیر احمد)

اور اگر آپ اتباع کرنے لگیں ان کے غلط خیالات کا علم قطعی ثابت با لَوحی آ چکنے کے بعد تو آپ کا کوئی خدا سے بچانے والا یار نکلے نہ مددگار۔ (اشرف علی تھانوی)

(اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ، کنز الایمان) اور (اے سننے والے کے باشد) اگر تو ان کی خواہشوں کا پیرو ہوا بعد اس کے کہ تجھے علم آ چکا تو اللہ سے کوئی رتیرا بچانے والا ہوگا اور نہ مددگار۔

سوائے اعلیٰحضرت بریلویؒ کے ان تمام ترجموں سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس بات پر زجر و توبیخ کی جا رہی ہے کہ تم قرآنی علم آ جانے کے بعد ان کی پیروی کرو گے (نعوذو باللہ) لہٰذا اگر ایسا کیا تو خبردار تم کو ایسی پکڑ پکڑیں گے کہ کوئی چھڑا نہ سکے گا۔ بھلا بتائیے یہ کیا بات ہوئی حالانکہ تفسیر خازن (جلد اوّل، ص: 87) میں ہے کہ اِنّه خطاب لنّبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم والمراد به امته یہ خطاب تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہے لیکن اس سے مراد اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمہے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا تھا تو ان حضرات کو ترجموں میں یہ بات واضح کرنی چاہیے تھی کہ نہ ایسا ترجمہ کرتے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تفتیص ہوئی ہو۔ اعلیٰحضرت بریلویؒ نے اس لفظ کے ترجمے میں یہ کمال کیا کہ ترجمہ وہ کر دیا جو منشائے مولیٰ اور تقاضائے اَدب تھا۔ میرے خیال میں اس سے مختصر اور جامع ترجمہ آج تک کسی سے نہیں بن سکا۔ جو تراجم منشائے مولیٰ سے خالی اور گستاخی سے بھرے ہوتے ہیں کافروں کو اسلام پر انگلی اٹھانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ اور جو کوئی منشائے مولیٰ کے خلاف ترجمہ کر کے قرآن کے ساتھ زیادتی کرے اور عدل و انصاف نہ کرے تو اس کے لیے خسارے کے علاوہ قرآن میں کچھ بھی نہیں۔

ہم میں سے اکثر لوگ شادی بیاہ پر یا ویسے ہی کسی تقریب پر قرآنِ کریم بمع ترجمہ تحفے کے طور پر دینا پسند کرتے ہیں۔ تو میری ان لوگوں سے گزارش ہے کہ ہمیشہ کنز الایمان کا ترجمہ ہی تحفے میں دیں اور خود بھی وہی ترجمہ پڑھیں تا کہ ہمیں قرآن کا اصل مطلب و مقصد پتا چل سکے اور ہم گستاخی سے بچ سکیں۔ وَمَا عَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلٰـغُ الْمُبِیْنُ۔

//