جمعرات، 3 فروری، 2011

FARZANDAN-E-HAZRAT MEHBOOB-E-ZAAT by Sahibzada Syed Shahrukh Kamal Mukarram Gillani

To read/download this article in pdf, click here. یہ مضمون پی ڈی ایف فائل میں پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

اس مضمون کے جملہ حقوق بحق صاحبزادہ سیّد شاہ رُخ کمال گیلانی محفوظ ہیں۔

بغیر قلمی اجازت اس مضمون کا استعمال کسی بھی جگہ پر کسی بھی طریقے سے غیر قانونی ہے۔

یہ مضمون ماہنامہ سوہنے مہربان ماہِ ذی قعدہ، ذوالحجہ 1431ھ، ماہِ محرم الحرام اور صفر المظفر 1432ھ میں شائع ہوا

فرزندانِ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز

تحریر: صاحبزادہ سیّد شاہ رُخ کمال مکرّم گیلانی

 

حضرت سیّدنا محبوبِ ذات سیّد احمد حسین گیلانی المعروف سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کے چار شہزادے ہیں۔ حالانکہ چاروں شہزادے، مریدین میں کسی تعارف کے محتاج تو نہیں، لیکن دربارِ عالیہ قادریہ منڈیر شریف سیّداں سے نئے وابستہ لوگوں اور عقیدت مندوں کی معلومات کے لیے کچھ تحریر کرنا چاہتا ہوں۔سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کے چاروں شہزادوں کا مختصر تعارف سیّد ذوالفقار علی شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ نے اپنے شعر میں اس طرح دیا:۔

فضائلِ محبوبِ جہاں در سیّدِ افضالؓ

شوکت و چشمتِ شاہِ زماں در سیّدِ اقبال

عیاں جلوۂ نورِ رحماں در سیّدِ عالیؒ

معصومی و پاکئی پاکاں ظاہر در سیّدِ امجد

حضور سرکارِ عالی قدس سرہ  العزیز کے وصال کے بعد مریدین نے آپ کے تمام شہزادوں کو آپ قدس سرہ العزیز کا مشن اور نام بڑھاتے ہوئے کسی نہ کسی انداز میں پایا ہے۔ ایک شہزادہ صاحب نے سجادہ نشینی کے فرائض انجام دیتے ہوئے مریدین کو روحانیت میں راہنمائی فرمائی تو دوسرے شہزادہ صاحب نے اپنی پوری کوشش سے دربارِ عالیہ کی تعمیر و ترقی میں حصّہ لیا اور دربارِ عالیہ کو دنیا سے متعارف کروایا۔ اگر تیسرے شہزادہ صاحب نے اسلامی تعلیمات حاصل کر کے دربارِ عالیہ کی تاریخ و سادات اور عقائد کو اسلام سے ثابت کر کے تحریر کیا تو چوتھے شہزادہ صاحب نے اپنی شاعری اور خطبات کے ذریعہ سے دربارِ عالیہ کی پہچان کو مزید فروغ دیا۔

شہزادۂ اوّل سرکار سخیٔ کامل حضرت سیّد افضال احمد حسین گیلانی المعروف اوّل صاحب قدس سرہ  العزیز‘ حضرت محبوبِ ذات رضی اللہ عنہ کے بڑے بیٹے تھے۔ آپ کی پیدائش ۱۰ محرم الحرام۱۳۴۵ھ بمطابق 21 جولائی 1926ء کو بٹالہ شریف میں ہوئی۔

مرشدِ کامل حضرت سیّد افضال احمد حسین گیلانیؒ 1926ءبٹالہ (بھارت) میں پیدا ہوئے اور مختلف جگہوں پر ظاہری تعلیم حاصل کی۔ روحانی اور دینی اکتساب والدِ گرامی سے حاصل کیا۔“ بحوالہ (ظہور کاظمی روزنامہ نوائے وقت لاہور 24 اپریل 1998ء)۔ (تاریخِ سیالکوٹ، عرفائے سیالکوٹ (حصہ اوّل)، صفحہ نمبر 219)۔ بقولِ آصف جاہ

اے وارثِ کونین‘ اے شہزادۂ عالم

دلبند و جگرِ جانیٔ سلطانِ معظم

اے رشکِ قمر سیّد افضال جہاں دار

اے مملکتِ دیں کے بے مثل شہر یار

انوار ترے ہیں مہ و خورشید میں تاباں

جلوے ہیں تری دید کے فردوس بداماں

حضرت سخیٔ کامل سیّد افضال احمد حسین گیلانی نے اپنی تمام زندگی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ  العزیز کے قدموں میں گذار دی۔ زندگی کے پہلے 35 سال آپ قدس سرہ  العزیز حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ  العزیز کی تربیت و پرورش میں رہے۔ تقریباً 25 سال آپؒ نے حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ  العزیز کی بے حد خدمت کی۔ آپ خود اس دور کے بارے میں اپنی تصنیف ’ملفوظاتِ محبوبِ ذات قدس سرہ  العزیز‘ میں فرماتے ہیں:

حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ  العزیز کی حتی المقدور خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ آپؒ کے احکامات بجا لانے یعنی ان پر عمل کرنے کا طویل عرصہ تک شرف حاصل رہا۔ مجھے حضور پاکؒ کے ظاہری و باطنی فیوظات و برکات و تعلیمات سے فیضیاب ہونے کے مسلسل مواقع نصیب ہوئے۔ توحید کے اسرار و رموز پر حضور محبوبِ ذاتؒ کے خطبات و مواعظ بلا واسطہ سماعت کرنے کا شرف بھی تا عین حیات میسر رہا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم یعنی توفیق ایزدی سے مجھے حضور پاکؒ کی صحبت میں شب بیداری کا شرف تقریباً ربع صدی تک حاصل رہا جس کی وجہ سے مجھے حضور سرکارِ عالیؒ کی صحبت میں بیٹھنے اور آپؒ کی محافل سے اکتساب حاصل کرنے کے مواقع تواتر سے حاصل رہے۔“ (ملفوظاتِ محبوبِ ذات قدس سرہ  العزیز، صفحہ نمبر 22(

راقم الحروف کو حضور سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ  العزیز کے معاملات و معمولات کو بہت قریب سے مشاہدہ کرنے کا شرف حاصل ہے۔“ (ملفوظاتِ محبوبِ ذات قدس سرہ  العزیز، صفحہ نمبر 23(

میں نے "محبوبِ ذاتؒ" کو حسن ذاتِ محبوبیت کی صورت میں دیکھ کر اپنے حسنِ عقیدت کو نکھار لیا ہے۔“ (ملفوظاتِ محبوبِ ذات قدس سرہ  العزیز، صفحہ نمبر 24(

آپؒ کے اس طویل عرصۂ خدمت کے متعلق آپؒ کے فرزندان رقم طراز ہیں: ”سرکارِ عالی محبوبِ ذاتؒ (حضرت سیّد احمد حسین گیلانی) کے بھید عکسِ محبوبِ ذات ہی جانے جس نے اپنی ساری زندگی ان کے قدموں میں گزاری اور نظر آپؒ پر ہی رہی اور انوکھی عبادت فرمائی۔“ (ملفوظاتِ محبوبِ ذات قدس سرہ  العزیز، صفحہ نمبر 7(

مزید علّامہ اختر سدیدی (چیف ایڈیٹر روزنامہ سعادت، فیصل آباد۔ لاہور) لکھتے ہیں: ”حضرت قبلہ سیّد افضال احمد حسین شاہ صاحب مدظلہ  العالی اس تصنیف لطیف "ملفوظاتِ محبوبِ ذاتؒ" کے مصنف ہیں‘ اس کتاب کا حرف حرف ان کے مشاہدات کا امین ہے۔ اس لیے کہ آپؒ کی زندگی کے تمام لمحاتِ حیات بارگاہِ محبوبِ ذات ہی میں گزرے۔“ (ملفوظاتِ محبوبِ ذات قدس سرہ  العزیز، صفحہ نمبر 14(

بیٹے کی حیثیت میں بھی آپؒ نے جو احترام پدرِ محترم کو دیا وہ بھی ایک مثال ہے۔ آپؒ نے تقریباً 35 سال مرشد پاک کی حیاتِ گرامی میں ان کے زیر سایہ گزارے۔ آپؒ نے وضو کے اہتمام سے لے کر والدِ گرامیٔ قدر کی خدمت میں ہر لمحہ حاضر اور پیش پیش رہ کر ان کی ضروریات کا خیال رکھا۔ بھر پور جوانی میں بھی رات رات بھر والدِ گرامی کے قدموں کی خاک پر بیٹھے رہتے۔ باقی ہر شے ثانوی خدمت میں گزارتے اور اطاعتِ مرشد ہر چیز پر بھاری۔ اپنے بیوی بچوں کے باوجود ترجیح خدمتِ پدر ہی کو دیتے اور ایک لمحہ بھی ان کی خدمت سے کوتاہی نہ برتتے۔ ایک بار حکمِ پدر ہوا نہیں کہ اطاعت لازم ہو گئی۔“ بحوالہ (ظہور کاظمی، روزنامہ نوائے وقت لاہور 24 اپریل 1998ء)۔ (تاریخِ سیالکوٹ، عرفائے سیالکوٹ (حصہ اوّل)، صفحہ نمبر 220)

راقم الحروف نے اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے منقبتِ حضرت سخیٔ کاملؒ میں ایک شعر کہا:

محبوب جو خدا کا تو اُس کا جگر پارا

عرصۂ عمر سارا خدمت میں ہی گزارا

میں نے جب بھی عکسِ محبوبِ ذات، حضرت سخیٔ کامل سیّد محمد افضال احمد حسین گیلانی قدس سرہ  العزیز کی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہا تو ہمیشہ آپ قدس سرہ  العزیز کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا؛ پہلا حصہ حضرت محبوبِ ذات رضی اللہ عنہ کی حیاتِ طیبہ میں اور دوسرا حصہ آپ رضی اللہ عنہ کے بعد کا۔ میں نے حضرت سخیٔ کامل قدس سرہ  العزیز کی زندگی کا جتنا بھی مطالعہ کیا مجھے آپؒ کی زندگی عکسِ محبوبِ ذات تو نظر آئی ہی مگر عکسِ مولا علی کرم اللہ علیٰ وجہہ الکریم بھی نظر آئی۔ اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے راقم الحروف نے ایک اور منقبتِ حضرت سخیٔ کاملؒ میں یہ شعر کہا:

تیرے آقاؓ سراپا محمد شبیہ

تو سراپائے رحمت و حیدرؑ شبیہ

وہی قد‘ قامت و قول و افعال بھی

وہ سخاوت‘ شجاعت‘ عبادت وہی

وہی صبر و تحمل‘ عدالت وہی

تیرا اُسوۂ کامل خدا کی رضا

حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ  العزیز کے مریدین اس چیز سے ناواقف نہیں کہ حضرت محبوبِ ذاتؒ کی تمام زندگی سنتِ نبوی پر گزری حتیٰ کہ آپؒ کی رنگت اور دنیا میں دورانیۂ قیام بھی عین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ تھا۔ جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے علی! تیرا جسم میرا جسم ہے، تیرا گوشت میرا گوشت ہے، تیرا خون میرا خون ہے، تیری روح میری روح ہے۔ اور اپنے آخری ایام میں فرمایا کہ جس شخص کا میں مولا اس کا علی ؑ مولا۔ اسی طرح حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ  العزیز نے بھی اپنے آخری ایام میں اپنے مریدین سے فرمایا: منم افضال یعنی میں افضال ہوں (میرے اور افضال میں کوئی فرق نہیں)۔ علاوہ ازیں آپ کو شہرت بھی حضرت علی علیہ السلام کی طرح ملی کہ آپ کو اس دنیائے فانی سے کوچ کیے ہوئے بھی 13 سال ہو گئے ہیں مگر کسی شخص کے منہ سے کوئی ایسا جملہ کم از کم میرے کانوں نے تو نہیں سنا کہ جو آپ کے خلاف سر زد ہوا ہو۔ امید کرتا ہوں کہ اگر میں اوپر درج شعر کے بعد کوئی تفصیل نہ بھی فراہم کروں تو میرے خیالات کی خوب ترجمانی کرتا ہے۔

حضرت سخیٔ کامل قدس سرہ  العزیز کی بزرگی اور روحانیت کے گیت تو آپ کے مریدین سے لے کر غیر مریدین اور قریبی رشتہ داروں سے لے کر تمام برادری گاتی ہے۔آپ کے برادرِ اصغر حضرت سیّد امجد علی امجد منقبتِ حضرت محبوبِ ذات میں فرماتے ہیں:

ع          افضال تیرے فیض کا چشمہ لُٹا رہا

حضرت سخیٔ کامل قدس سرہ  العزیز کی ابتدائی زندگی کو تاریخ کے آئینے میں دیکھنے کے لیے مندرجہ ذیل اقتباسات ملاحظہ ہوں۔

آپؒ کی بچپن سے جوانی اور جوانی سے روحانی درجات کے آخری دم تک زندگی بلاشبہ ایک مردِ مومن اور ولی کامل کی زندگی تھی۔ زمانہ طفولیت میں بھی آپؒ نے زندگی کو بازیچہ اطفال نہ بنایا اور عام بچوں کی سی حرکات آپؒ سے سرزد نہیں ہوئیں۔ آپؒ بااخلاق، باکردار اور شائستہ اطوار تھے۔ تعلیم و تدریس میں سارا وقت گزارتے۔ آپ نگاہ اور دعائے مرشد کے فیض سے سونا تو تھے ہی کندن بن گئے۔ جوانی کے ایام میں کھیتی باڑی کی۔ جود و سخا بااخلاق گفتگو، بلند کرداری اور کاشتکاری ساتھ ساتھ چلاتے رہے۔ فصل تیار ہوئی کٹائی کی گئی اور پھر تقسیم کا عمل سخاوت کے پیمانوں سے اللہ اللہ........ آپؒ اکثر فرماتے کہ میں کھیتی باڑی میں زیادہ فخر محسوس کرتا ہوں کیونکہ یہ سنت حضرت علی علیہ السلام ہے۔ حضرت سیّد افضال احمد حسین گیلانیؒ دن بھر کی تھکاوت کے باوجود عشاءکی نماز سے لے کر تہجد تک پدرِ عظیم کی خدمت میں رہتے اور آپؒ کی عظیم روحانی گفتگو، ارشادات اور ملفوظات سے مستفیض ہوتے اور رات کا کھانا اپنے پدرِ عظیم کے ساتھ دو بجے تناول فرماتے۔“ بحوالہ (ظہور کاظمی، روزنامہ نوائے وقت لاہور 24 اپریل 1998ء)۔ (تاریخِ سیالکوٹ، عرفائے سیالکوٹ (حصہ اوّل)، صفحہ نمبر 219-220)

کاشتکاری: سرکارِ عالی کی حیاتِ طیبہ میں آپ کاشتکاری کرتے تھے۔“ (مرآة الرحمن، اشاعت سوم، تدوین اوّل، باب سوم، فصل سوم، مضمون حضور سرکارِ عالی کی آل و اولاد، صفحہ نمبر ۳۲۷

آپ کی حضور سرکارِ عالی سے اتنی انتہا درجے کی قربت تھی کہ ایک لمحہ آپ نظر نہ آتے تو حضور سرکارِ عالی قدس سرہ  العزیز بے چین ہو جاتے۔ اسی قرابت کی وجہ سے لوگوں نے آپ کو محبوبِ خاصِ حضرت محبوبِ ذات کا لقب دیا۔ آپ کا عقد مبارک ۱۶ رجب المرجب ۱۳۲۳ھ بمطابق 10 جولائی 1944ء یوم دو شنبہ ریاست کیورتھلہ میں ہوا۔ آپ کے چار بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں جن میں سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں شیر خواری میں ہی فوت ہو گئیں۔ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں نے چار بچے (اللہ تعالیٰ کو واپس) دے کر چار بچے رکھ لیے ہیں۔

سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ  العزیز کا وصال ۲۲ شعبان ۱۳۸۰ھ 8 فروری 1961ء بروز بدھ ہوا۔ حضرت میر غنی شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ نے حضرت سخیٔ کامل کو دستار بندی کے سلسلہ میں مغربی دربارِ عالیہ قادریہ منڈیر شریف سیّداں کا تاجِ سجادہ نشینی پہنایا۔ میر غنی شاہ صاحب، حضرت سیّد محمد فتح علی شہباز المعروف حضرت صاحب رحمة اللہ علیہ کے بعد سجادہ نشین دربارِ عالیہ مشرقی منڈیر شریف سیّداں تھے۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے حضرت سخیٔ کامل سیّد محمد افضال احمد حسین گیلانی قدس سرہ  العزیز کو مسند پر بیٹھنے کے لیے کہا۔ حضرت سخیٔ کامل قدس سرہ  العزیز نے ادب کو ملحوظِ خاطر رکھا اور اپنے والد و مرشد کی مسند کو بوسہ دیا اور اس پر تشریف فرما نہ ہوئے۔ بلکہ آپؒ نے اس کے ساتھ ایک گدی لگائی جس پر آپ تا دمِ آخر مسند آرا رہے۔ قربان جاں میں اُس پیکرِ ادب کے۔

حضور سرکارِ عالی کے وصال کے بعدآپؒ تقریباً چالیس سال دربارِ عالیہ منڈیر شریف سیّداں کے سجادہ نشین رہے۔ آپ نے تمام عمر حضور سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کی ایسے خدمت کی کہ تمام غلاموں کے لیے نمونہ ہے۔ آپ نہ صرف شکل و صورت بلکہ عادات میں بھی اپنے والدِ گرامی سے اتنی مماثلت رکھتے تھے کہ آپ کے القابات میں عکسِ محبوبِ ذات بھی شامل ہو گیا۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کے وصال کے بعد آپ کبھی پلنگ یا چار پائی پر نہ سوئے بلکہ زمین پر سوتے رہے اور نہ ہی آپ نے کبھی سرکارِ عالی قدس سرہالعزیز کی قبر انور کی طرف پشت نہ کی۔

دو واقعات میں نے خود حضرت سیّد محمد احسان علی گیلانی مدظلہ العالی کی زبان سے حضرت قبلہ سیّد محمد مبارک علی گیلانی مدظلہ العالی کی موجودگی میں سنے۔ مزید ان کی تصدیق سیّد عاصم گیلانی (المعروف مومن شاہ جی) نے کی کہ حضرت قبلہ محمد احسان علی گیلانی مدظلہ العالی نے یہ واقعات انہیں بھی سنائے تھا۔ حضرت قبلہ سیّد محمد احسان علی گیلانی مدظلہ العالی کا دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ پہلے کسی کتاب میں نہیں درج۔ پہلا واقعہ ماہِ رمضان المبارک میں ماہنامہ سوہنے مہربان میں پہلی دفعہ چھپا۔ دوسرا واقعہ اللہ تعالیٰ نے میرے قلم سے پہلی مرتبہ رقم کروانے کے لیے مجھے یہ شرف بخشا۔

(۱)         ایک دن حضرت سخیٔ کامل قدس سرہ العزیز داڑھی بنوانے لگے۔ نائی نے ابھی صابن منہ پر لگایا ہی تھا کہ سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز نے آواز دی: ”افضال!“جیسے ہی یہ آواز حضرت سخیٔ کامل کے کانوں میں پڑی، آپ قدس سرہ العزیز نے تولیہ اتار کر منہ صاف کیا اور یک قلم حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کی خدمت میں پہنچے۔ جب حکمِ پدر و مرشد سے فارغ ہوئے تو پھر آ کر باقی کی داڑھی بنوائی۔

(۲)        ایک دفعہ دربارِ عالیہ میں آسمانی بجلی گری۔ اس کے بعد تھوڑا عرصہ مرمت کا کام ہوتا رہا۔ اس دوران حضرت سخیٔ کامل قدس سرہ العزیز نے بھی بڑھ چڑھ کر کام میں حصہ لیا۔ ایک دن رات جب کھانا کھانے لگے تو حضرت سخیٔ کامل قدس سرہ العزیز ابھی کام سے فارغ ہو کر ہی آئے تھے۔ آپؒ کے سب سے چھوٹے بھائی حضرت قبلہ سیّد امجد علی امجد گیلانی دامت برکاتہم العالیہ نے محبتاً  آپ سے کہا کہ آپ ہاتھ دھو لیں۔ حضرت سخیٔ کامل قدس سرہ العزیز نے انہیں جواباً  کہا کہ میرے ہاتھوں پر تو سرکارِ عالی کے دربار کی مٹی لگی ہے۔ یہ مٹی بھی پاک ہے۔ اس لیے مجھے ہاتھ دھونے کی ضرورت نہیں۔

حضور شہزادۂ معظم، اوّل صاحب سجادہ نشین ہیں۔ دورِ حاضر کا باطنی نظام آپ کو تفویض ہے۔ خد و خال، رنگ و روپ، شکل و شباہت، صورت و سیرت، عصمت و طہارت، سخاوت و شجاعت میں اپنے والدِ محترم ذی جاہ حضور محبوبِ ذات قدس سرہ  العزیز کا کامل نمونہ ہیں۔ آپؒ حضور پاک کی ہر سنت پر پابندی سے عمل پیرا ہیں۔ شب بیداری، کم خفتن و کم خوردن آپؒ کا دائمی معمول ہے۔ روضۂ اقدس کے سامنے زمین پر مسند لگا کر رات بھر جاگنا، محویت و استغراق اور عبادتِ الٰہی آپؒ کا شیوہ ہے۔ سنت کے مطابق معمولی سا کھانا شب و روز میں صرف ایک مرتبہ تناول فرماتے ہیں۔ اپنے والدِ محترم حضور محبوبِ ذات قدس سرہ  العزیز کے نورانی دنیا میں منتقل ہونے کے بعد آج تک پلنگ پر نہیں سوئے۔ اپنے دینی و دنیاوی فرائض کی انجام دہی کے بعد خلقِ خدا کے لیے باقاعدگی سے روزانہ دعا فرماتے ہیں۔ سب کی جھولیاں مرادوں سے بھرتے ہیں۔ آپؒ کی ہر دعا مستجاب ہوتی ہے۔ ہمہ وقت ظاہری اور باطنی فیوض سے زائرین، معتقدین و مریدین کو سیراب فرماتے ہیں۔ متعدد خواہش مند حضرات کو روزانہ خاندانِ قادریہ عالیہ میں آپؒ کے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ آپؒ بیعت کا اقرار لینے سے قبل سب کے دلوں کی منظوری بارگاہِ رب العزت سے حاصل کرتے ہیں۔ وہ لوگ بہت خوش نصیب ہیں جن کو ان کی حلقۂ غلامی میں آنے پر یہ سعادت نصیب ہوتی ہے اور سالہا سال کی طویل منازل سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔“ (مرآة الرحمن، باب سوم، فصل سوم، مضمون ’اولادِ نرینہ‘، صفحہ نمبر ۳۲۵۔۳۲۶)

جب پدرِ عظیم حضرت سیّد احمد حسین گیلانی محبوبِ ذاتؒ نے پردہ کیا تو آپؒ نے وصال کے بعد سجادہ نشینی کے فرائض منصبی سنبھالے اور دنیا کو دکھا دیا کہ حقِ نیابت کیسے ادا ہوتا ہے۔ آپ نے 37 برس اپنے والدِ محترم حضرت محبوبِ ذاتؒ کے مزار اقدس کے سامنے چٹائی پر گزار دیئے۔ عاجزی و فروتنی اور خاکساری جیسے تینوں الفاظ حقیقتاً آپؒ کی شخصیت کے جزو بن گئے۔ باوقار اسلوب سے آپؒ نے روحانی سربراہی کے فرائض سر انجام دیئے۔“ بحوالہ (ظہور کاظمی روزنامہ نوائے وقت لاہور 24 اپریل 1998ء)۔ (تاریخِ سیالکوٹ، عرفائے سیالکوٹ (حصہ اوّل)، صفحہ نمبر 219(

عجز و انکساری:          عجز و انکساری آپؒ کی ذات کا طرّہ امتیاز رہا۔ آپؒ تمام عمر حضور سرکارِ عالیؒ کے روضہ مبارک کے سامنے تمام رات بر آمدے یا کمرے میں چٹائی پر لیٹے رہتے۔ کبھی کوئی آپؒ کی تعریف کرتا تو آپؒ فرماتے یہ میرے مرشد کی کرم نوازی ہے۔ یہ انہی کا فیض ہے۔ میرا کوئی کمال نہیں۔“ (مرآة الرحمن، اشاعت سوم، تدوین اوّل، باب سوم، فصل سوم، مضمون حضور سرکارِ عالی کی آل و اولاد، صفحہ نمبر ۳۲۷

حقوق العباد کی ادائیگی کو آپؒ نے کبھی پس پشت نہ ڈالا۔ حضرت سیّد افضال احمد حسین گیلانی کا انداز جداگانہ نوعیت کا رہا ہے۔ آپؒ کی انفرادیت، عبادت و ریاضت میں نمایاں ہوئی ہے کہ ہر لمحہ ہر سانس عشقِ رسول کی سلک سے منسلک تھا۔ مریدین کو فرماتے، پھر حکمِ عمل دیتے کہ آپؒ کے گفتار و کردار میں بغض نہیں تھا۔ ہزاروں نہیں لاکھوں افراد نے حضرت سیّد افضال احمد حسین گیلانیؒ کے دستِ حق پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ اور فرمایا کہ بیعت میری نہیں بلکہ مرشد پاک کی ہے۔ وہی مرشد کامل ہیں۔ یہ سب کچھ ان کی عطا ہے۔ احترامِ مرشد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپؒ نے پوری زندگی سوتے جاگتے پھرتے مرشد عالی مقام محبوبِ ذاتؒ کے مزارِ اقدس کی طرف پشت نہیں کی۔ ہر لمحہ اپنے مرشد پاک کا تصور آپؒ کے پیش نظر رہتا۔ ہمیشہ اپنی نفی کرتے اور فرماتے سب میرے مالک مہربان کا فیض ہے۔“ بحوالہ (ظہور کاظمی روزنامہ نوائے وقت لاہور 24 اپریل 1998ء)۔ (تاریخِ سیالکوٹ، عرفائے سیالکوٹ (حصہ اوّل)، صفحہ نمبر 220)

سخاوت و ایثار           آپؒ کی سخاوت و ایثار قابلِ دید تھی۔ آپؒ غرباء‘ مساکین اور قریبی رشتہ داروں کی ہر طرح مدد فرماتے بلکہ ڈیرے والوں کو خصوصی طور پر نوازتے۔ ان کی رہائش اور بود و باش کا بہت خیال فرماتے۔“ (مرآة الرحمن، اشاعت سوم، تدوین اوّل، باب سوم، فصل سوم، مضمون حضور سرکارِ عالی کی آل و اولاد، صفحہ نمبر ۳۲۷)

آپؒ اکثر و پیشتر منڈیر شریف سے سیالکوٹ تشریف لے جاتے۔ راستہ میں کھڑے ضرورت مند آپؒ کے انتظار میں ہوتے۔ آپؒ نے کئی گھرانوں کے وظائف لگا رکھے تھے۔ اکثر اوقات چپکے سے نقدی، اشیاء‘ خورد و نوش‘ کپڑے‘ جوتے اور دیگر ضروریاتِ زندگی ان کی ضرورت کے مطابق بھجواتے۔ آپؒ کے حلقۂ ارادت میں غیر مذاہب کے لوگ بھی ہوتے۔ ایک عیسائی جو کہ روزانہ آپؒ سے خیرات وصول کرتا۔ وہ چمٹا بجاتے ہوئے آپؒ کی گاڑی کے قریب پہنچتا تو آپؒ اس کی مدد اس احتیاج سے پوری کرتے کہ فی الواقعی دائیں سے بائیں کو خبر نہ ہوتی۔ ایک روز وہ بیمار ہو گیا اور راستہ میں نہ ملا تو آپؒ اس کی تیمار داری کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے۔ آپؒ نے دعا فرمائی اور مالی امداد کر کے واپس تشریف لائے۔ اسی طرح رشتہ داروں کی شادی بیاہ کے موقع پر طعام و اہتمام خود فرماتے۔ کبھی کسی کو ناراض نہ ہونے دیتے۔ اگر کوئی بھائی یا بچوں سے ناراض بھی ہو جاتا تو خود اس کے پاس تشریف لے جاتے اور فرماتے کہ عزیز میں تو آپ کا غلام ہوں۔ حلم وہی ہے کہ طاقت ہوتے ہوئے بھی درگزر کیا جائے۔ اقتدار ہوتے ہوئے بھی عفو کو پیش نظر رکھا جائے۔ آپؒ نے کبھی عفو اور اشقالی کیفیت کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیا۔ آپ اطمینانِ قلبی‘ حوصلہ اور صبر کے پیکر تھے۔ مریدین سے نرمی اور شفقت برتتے۔ انہیں دوست، عزیز کہہ کر پکارتے۔ غلطی و خطا کی صورت میں پکڑ نہیں درگزری آپؒ کا شیوہ تھا۔ فرماتے سوہنیو تہانوں معافی ہی معافی اے ........ میری خیر ہے۔ جب بھی کوئی مرید آپؒ کو پیسے وغیرہ دیتا تو آپؒ قبول نہ فرماتے اور فرماتے سوہنیو آستانہ کی فیس پانچ وقتی نماز ہے۔ عقیدت مندوں سے محبت، شفقت کا سلوک دمِ آخر تک رہا۔ امیر اور غریب میں امتیاز کے بغیر احترامِ آدمیت‘ عزتِ نفس کو پیشِ نظر رکھتے۔ کوئی بغرضِ دید آیا ہو، حاجت مند ہو یا طالبِ دعا، ہر وقت جم غفیر ہوتا۔ ولی اکمل کا رویہ وہی شفقتوں‘ رحمتوں کا آئینہ دار‘ سب کے لیے شجر کا سایہ دار۔ آپؒ اکثر فرماتے: سوہنیو سنو! عشق باعثِ وجودِ کائنات ہے۔ رب العزت نے بھی جمالِ ذات، صورتِ آقائے تاجدار، محمد سرورِ کائنات سے عشق کیا اور پھر آقائے نامدار کے صدقہ میں دنیا کا قیام و انصرام ہوا۔ لہٰذا عشق کرو تو خدا سے عشق کرو اور اس کے رسول سے۔ ہوس اور صلہ کی خواہش بیچ میں نہ رکھو۔ پھر دیکھو کیا کیا بن مانگے ملتا ہے۔“ بحوالہ (ظہور کاظمی روزنامہ نوائے وقت لاہور 24 اپریل 1998ء)۔ (تاریخِ سیالکوٹ، عرفائے سیالکوٹ (حصہ اوّل)، صفحہ نمبر 220-222)

آپ ہمیشہ بڑوں اور چھوٹوں سے محبت فرماتے اور سب کا احترام کرتے۔ آپ میں انتہا درجے کا عجز و انکسار تھا۔ آپ کی سخاوت کی وجہ سے لوگوں نے آپ کا نام سخیٔ کاملؓ رکھ دیا۔ آپ نے عارفانہ کلام بھی لکھا۔ آپ کا تخلص افضال تھا۔

محبت و اخوت:         آپؒ سب سے محبت کرتے۔ خصوصی طور پر اپنے بھائیوں اور بھتیجوں سے بہت پیار کرتے اور ہمیشہ ان کو ایک نظر سے دیکھتے۔ سب بھتیجوں کے لیے یکساں جیب خرچ مہیا فرماتے۔ ایک جیسے کپڑے اور جوتے منگواتے اور کسی بھی معاملے میں اولاد کو فوقیت نہ دیتے بلکہ بھتیجوں اور اولاد کو ایک جیسا سمجھتے اور سب پر ایک جیسی مہربانی فرماتے۔

لنگر کا انتظام: سرکارِ عالیؒ کے زمانہ سے بھی آپؒ لنگر کا انتظام فرماتے۔“ (مرآة الرحمن، اشاعت سوم، تدوین اوّل، باب سوم، فصل سوم، مضمون حضور سرکارِ عالی کی آل و اولاد، صفحہ نمبر ۳۲۷)

اسی بات سے مجھے ایک واقعہ بھی یاد آ گیا جو میں نے سیّد عاصم گیلانی صاحب (المعروف مومن شاہ جی) کی زبان سے سنا۔ آپ بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت سخیٔ کامل کے پاس ایک مرید آپؒ کے دونوں شہزادوں کے لیے دو پین (قلم) بطورِ تحفہ لایا۔ حضرت سخیٔ کامل نے اسے کہا کہ یہ قلم واپس لے جا یا ایسے گیارہ اور (بھتیجوں کے لیے) لے کر آ۔ اس مرید نے کہا کہ حضور چلیں ایک میں واپس لے جاتا ہوں مگر جناب شاہ کمال صاحب چھوٹے ہیں اس لیے ان کا قلم واپس نہیں لے کر جاتا۔ حضرت سخیٔ کامل نے اسے ارشاد فرمایا کہ اگر قلم لانے ہیں تو تیرہ لا تاکہ پہلے بھتیجوں کو دوں اور بعد میں اپنے بیٹوں کو دوں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے کبھی اپنی اولاد کو اپنے بھتیجوں پر فوقیت نہ دی بلکہ ہر ایک کو یکساں رکھا۔

آپؒ احکاماتِ شرعیہ کی سخت پابندی کرتے ہیں اور مریدین سے کرواتے ہیں۔ بیشتر نمازوں کی امامت کا فریضہ خود ادا فرماتے ہیں۔ حضور محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کی ظاہری اور باطنی سخاوت کی فیض رسانی بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فیض رسانی میں آپؒ نے کوئی کمی نہیں آنے دی۔ بیعت کا سلسلہ حسبِ ما سابق فروغ پا رہا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو آخر آپ محبوبِ ذات کے محبوب ہیں۔ عادات و فضائل میں اپنے والدِ محترم حضور محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کا کامل نمونہ ہیں۔ دربارِ گوہر بار میں لنگر شب و روز جاری ہے جس کی نگرانی و انصرانی و انتظام آپ خود کرتے ہیں۔ آپؒ کو حضور محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز سے والہانہ عشق ہے۔ آپؒ اس نوری شمعِ ہدایت پر دل و جان سے قربان ہیں۔ ان کی محبت کا انداز تحریر میں نہیں دیا جا سکتا اور ہمارے ادراک میں بھی نہیں آ سکتا۔“ (مرآة الرحمن، باب سوم، فصل سوم، مضمون ’اولادِ نرینہ‘، صفحہ نمبر۳۲۶)

آپ نے ۰۲ ذیقعد ۱۴۲۰ھ بمطابق 20 مارچ 1998ء کو بروز جمعة المبارک وصال فرمایا۔ آپ کے بعد آپ قدس سرہالعزیز کے شہزادۂ اوّل حضرت سیّد محمد مبارک علی گیلانی مدظلہ العالی بخوبی سجادہ نشینی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں عمرِ خضر عطا کرے تاکہ وہ لوگوں کی روحانیت میں راہنمائی کرتے رہیں اور اپنے فرائض سر انجام دیتے رہیں۔

 

 

شہزادۂ دوئم حضرت سیّد اقبال احمد حسین گیلانی دامت برکاتہم العالیہ، حضور سرکارِ عالی قدس سرہالعزیز کے دوسرے بیٹے ہیں۔ آپ کی پیدائش ۶ ذیقعد ۱۳۴۹ھ بمطابق 26 مارچ 1931ء بروز جمعرات بمقام جبل پور ہوئی۔ آپ کا عقد مبارک ۲۶ شوال المکرم ۱۳۶۹ھ بمطابق 10 اگست 1950ء یوم پنجشنبہ منڈیر سیّداں میں ہوا۔ آپ کے چار بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں۔ آپ نے 1969ء میں اپنے برادرِ اصغر حضرت سیّد افتخار احمد حسین گیلانی رحمة اللہ علیہ کے ساتھ حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ بعد میں آپ نے عمرے بھی ادا کئے۔ ابھی گذشتہ برس سنہ 2008ء میں عمرہ اور زیارتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سعادت حاصل کی۔ آپ کی ان گنت بے لوث سماجی خدمات ہیں۔ آپ کی خدمات میں ٹیلی فون اور بجلی کی سہولت، سڑک کی تعمیر، سکولوں کی تعمیر اور دیگر بے شمار خدمات شامل ہیں۔ دربارِ عالیہ کی تعمیر و ترقی میں آپ کا نمایاں کردار نظر آتا ہے۔ 1968ء میں دربارِ عالیہ میں ٹیلی فون کی سہولت فراہم کروائی۔ آپ کے بارے میں شیر محمد صاحب رقم طراز ہیں:

”حضور ثانی صاحب حضرت سیّد اقبال احمد حسین شاہ صاحب حضور محبوبِ ذات قدس سرہالعزیز کے دوسرے چشم و چراغ ہیں۔ معرفت کے انتہائی درجات سے ممتاز اور اعلیٰ کردار کے حامل ہیں۔ ہر طبقے کے لوگوں میں ہر دلعزیز ہیں۔ مخلوقِ خدا کی بے لوث خدمت اور رہنمائی آپ کا نصب العین ہے۔ آپ دربارِ عالیہ کا نظم و نسق سنبھالے ہوئے ہیں اور سب کام نہایت خوش اسلوبی اور تن دہی سے سر انجام دیتے ہیں۔ آپ اپنی زمینوں پر مشینی آلات کے ذریعے خود کاشت کرواتے ہیں اور خوردنی اجناس سے لنگر پاک کی خدمت کرتے ہیں۔ آپ نے دربارِ عالیہ کی تعمیر و تکمیل بڑی محنت اور لگن سے کروائی ہے۔

”آپ نے منڈیر سیّداں کے علاقے کی گرانقدر خدمات سر انجام دی ہیں اور دور دراز دیہی علاقے میں بجلی۔ ٹیلیفون‘ ٹیوب ویل۔ اشتمال اراضی اور پختہ سڑک وغیرہ آپ کی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ چونکہ آپ کی بصیرت و مشاہدہ قومی و ملّی مسائل پر بھی محیط ہے اس لیے ارباب حل و عقد پر اور اعلیٰ حلقوں میں آپ کا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ آپ خدمتِ خلق کے اہم جذبے سے ہمیشہ سرشار رہتے ہیں۔“

”آپ افسرانِ ضلع اور حکومت سے ہمیشہ تعاون کرتے ہیں۔ آپ ان کی صحیح سمت رہنمائی بھی کرتے ہیں اور اکثر مفید مشورے بھی دیتے ہیں۔ ضلع کے افسرانِ اعلےٰ کی آپ کے متعلق ہمیشہ یہی رائے رہی ہے کہ سارے ضلع میں آپ جیسا مخلص‘ با مروت‘ دیانت دار‘ حق گو‘ بلند کردار اور اعلیٰ خصائص کا حامل کوئی دوسرا شخص نہیں ہے۔ آپ کثیر التعداد اعزازی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔“

”غریبوں‘ مسکینوں‘ مصیبت زدوں‘ حاجب مندوں اور بے سہارا لوگوں کی اعانت کرنا آپ کا معمول ہے۔ سماوی آفات۔ جنگ یا سیلاب کے متاثرین کی امداد اپنی گرہ سے فی سبیل اللہ کرتے رہتے ہیں۔ اُجڑے ہوئے لوگوں کو دربارِ عالیہ میں پناہ دیتے ہیں۔ یہ تمام اوصافِ حمیدہ آپ کو اپنے والدِ محترم حضور محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز سے ورثے میں ملے ہیں۔“ (مرآة الرحمن، باب سوم، فصل سوم، مضمون ’اولادِ نرینہ‘، صفحہ نمبر۳۲۷۔۳۲۹)

آپ کے پاس جو اعزازی عہدے رہے تھے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

            ۱۔ السیّد سیشن کورٹ سیالکوٹ

            ۲۔ وائس چیئر مین علامہ اقبال کالج

            ۳۔ آر گنائزر انجمن کاشتکاراں پاکستان

            ۴۔ نان آفیشل وزیٹر ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ

            ۵۔ وائس چیئر مین کو اپریٹو بینک سیالکوٹ

            ۶۔ ممبر ایگریکلچر ایڈوائزری کمیٹی گوجرانوالہ ڈویژن و ضلع سیالکوٹ

            ۷۔ ممبر ایڈوائزری کمیٹی شوگر ملز پسرور

            ۸۔ ممبر کمیٹی برائے پٹریانہ مری

            ۹۔ مشیر محتسب ِ اعلیٰ پاکستان

سرکار سخیٴ کامل قدس سرہ العزیز کے بعد تمام خاندانِ احمد حسینیہ نے آپ کو اپنا سربراہ تسلیم کیا۔ حتیٰ کہ حضرت سجادہ نشین کے تمام اقدامات آپ کی سرپرستی میں ہی ہوتے ہیں۔ خاندانِ احمد حسینیہ کے علاوہ دیگر برادری بھی آپ کی ہدایات اور مشوروں سے ہی کام کرتی ہے۔

حضرت قبلہ سیّد اقبال احمد حسین گیلانی دامت برکاتہم العالیہ ہم جیسے منڈیر شریف سیّداں کے موٴرخوں کے لیے بھی ایک خوبصورت سرمایہ ہیں۔ مجھے آپ سے اکثر مقامات پر مختلف موضوعات پر تاریخی حقائق جاننے کا شرف حاصل رہا ہے۔ چونکہ آپ نے حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کافی طویل عرصہ تک آپ قدس سرہ العزیز کی صحبت میں رہے اس لیے آپ کی روایات اسنادِ صحیح کی تمام شرائط کو پورا کرتی ہیں۔ میں اکثر یہ خواہش کرتا ہوں کہ کاش حضرت سخیٴ کامل قبلہ سیّد محمد افضال احمد حسین گیلانی (سجادہ نشین دربارِ عالیہ( قدس سرہ العزیز کے ملفوظاتِ عالیہ کو اپنی ہوش میں طویل عرصہ تک سن پاتا تو شاید ایک بہت عظیم ذخیرہ صحیح اسناد کے ساتھ جمع ہو جاتا مگر اب بھی اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ حضرت قبلہ سیّد اقبال احمد حسین گیلانی دامت برکاتہم العالیہ جیسے لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں کہ جن سے ہمیں بہت فائدہ حاصل ہوتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عمرِ نوح عطا کرے تاکہ آپ ہمیشہ خاندانِ احمد حسینیہ کی سربراہی کرتے رہیں۔

      

 

حضرت سیّد افتخار احمد حسین گیلانی رحمة اللہ علیہ مفتی تھے۔ آپ تمام عمر اپنے برادرِ اکبر سرکار سخیٴ کامل قدس سرہ العزیز کے ساتھ رہے اور آپ کے ساتھ ہی مسند آرا ہوتے تھے۔ سرکار سخیٴ کامل قدس سرہ العزیز لوگوں کی روحانی رہنمائی فرمایا کرتے اور تصوف سمجھایا کرتے جس طرح آپ نے اپنے والد سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز سے سیکھا۔ اور حضرت سیّد افتخار احمد حسین گیلانی رحمة اللہ علیہ لوگوں کی ظاہری رہنمائی فرمایا کرتے۔ آپ لوگوں کو درسِ قرآن اور حدیث دیتے۔

آپ کی تعلیم کے بارے میں شیر محمد صاحب، مرآة الرحمن (تصنیف حضرت سیّد افتخار احمد حسین رحمة اللہ علیہ( ، میں ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:۔ ”آپ نے درسِ قرآن اور دورِ حدیث کی اسناد وزیر آباد۔ دار النعمانیہ اور دار النعیمیہ لاہور سے حاصل کی ہیں۔ آپ کا فتاویٰ جاری و ساری ہے۔“ (مرآة الرحمن، باب سوم، فصل سوم، مضمون ’اولادِ نرینہ‘، صفحہ نمبر ۳۲۹)

مرآة الرحمن کی اشاعتِ سوم اور پہلی تدوین میں حضرت ڈاکٹر صاحبزادہ سیّد مسعود السیّد، حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کی اولادِ نرینہ کے بارے میں لکھتے ہوئے حضرت سیّد افتخار احمد حسین گیلانی رحمة اللہ علیہ کے بارے میں رقم طراز ہیں:۔ ”آپ جمعة المبارک اور عیدین کے موقع پر بھی خطبات فرماتے۔“ (مرآة الرحمن، اشاعت سوم، تدوین اوّل، باب سوم، فصل سوم، مضمون حضور سرکارِ عالی کی آل و اولاد، صفحہ نمبر ۲۳۳)۔

شیر محمد صاحب تھوڑا آگے چل کر رقم طراز ہیں:۔ ”آپ جمعة المبارک کے روز نمازِ جمعہ سے قبل درس اور خطبہ دیتے ہیں۔ آپ کے خطباتِ عارفانہ اور توحید و رسالت مآب پر مبنی ہوتے ہیں جن کا محو قرآنی آیات اور احادیث نبوی (صلعم) ہوتا ہے۔ آپ صوم و صلوٰة کے پابند اور احکاماتِ شرعیہ پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔ لوگوں کو ان احکامات کے احترام اور عمل کی تلقین فرماتے ہیں۔ آپ زائرین بالخصوص مریدین کو اپنے ظاہری و باطنی علوم و عرفان کے خزانوں سے مستفیض فرماتے رہتے ہیں۔ آپ اپنے وظائف و عبادات سے فراغت پا کر زیادہ وقت دینِ اسلام کی تبلیغ و نشر و اشاعت پر صرف کرتے ہیں۔ آپ کی لائبریری میں تفسیر، احادیث، فقہہ اور دین کے ہر شعبے کی تقریباً سات صد کتب موجود ہیں ہر زبان میں مترجم قرآن پاک کے متعدد نسخے ہیں۔ آپ نے شب و روز کی محنتِ شاقہ اور تلاش و تحقیق کے کَٹھن مراحل سے گذر کر شجرہ ہائے نسبتی و نسبی اور پیرانِ طریقت و خاندانی بزرگوں کے حالات و معمولات پر مبنی مندرجہ ذیل کتب تصنیف فرمائی ہیں جو سلسلہ قادریہ عالیہ اور خاندان کی گرانقدر خدمت ہے اور قارئین و مریدین کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

۱۔          حدیقہٴ مصطفےٰ۔                      ۲۔         مشعلِ راہ۔

۳۔         راہ ہدایت۔                         ۴۔         شجرة النبی۔

۵۔         علمِ شریعت

۶۔         مرآة الرحمن --- اس تصنیف کو آپ نے محنت اور لا متناہی مشقت سے مجتمع کر کے افادئہ سالکین و طالبین فرمایا ہے۔“ (مرآة الرحمن، باب سوم، فصل سوم، مضمون ’اولادِ نرینہ‘، صفحہ نمبر ۳۲۹ تا ۳۳۰)۔

چونکہ مندرجہ بالا اقتباس مرآة الرّحمن کی اشاعتِ اوّل سے نقل ہوا ہے، اس لیے مضمون کی عبارت میں زمانہ ماضی کی بجائے حال ہے۔

آپ کا عقد مبارک ۱۰ رجب المرجب ۱۳۷۹ھ بمطابق 10 جنوری 1960ء کو ہوا۔ آپ کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ آپ کا عقد مبارک مظہر حسین رضوی شاہ صاحب کی دختر سے ہوا۔آپ کے بڑے بیٹے کے نام سے آپ کی کنیت ابو المسعود ہے۔ آپ کے بڑے بیٹے کی تفصیل مندرجہ ذیل ہیں:۔

٭         ڈاکٹر صاحبزادہ سیّد مسعود السیّد۔ آپ سیّد افتخار احمد حسین گیلانی رحمة اللہ علیہ کے بڑے بیٹے ہیں۔ آپ ۱۹ رجب المرجب ۱۳۸۰ھ بمطابق 7 جنوری 1961 یوم شنبہ پیدا ہوئے۔ آپ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ دینی خدمات بھی سر انجام دیتے ہیں۔ آپ انجمن خدام الاولیاء(رجسٹرڈ) سالکوٹ، کے بھی ناظم اعلیٰ رہے اور باب العلوم المدرسة الاولیاءمنڈیر شریف، سیالکوٹ کے بھی مہتمم اعلیٰ رہے۔ مزید:

            سرپرست اعلیٰ۔ اتحاد المشائخ، پنجاب، پاکستان

            ناظم اعلیٰ۔ بزم الخیر (رجسٹرڈ( پاکستان

            صدر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (سیالکوٹ)

آپ نے اُردو میں بھی سائنس، میڈیکل اور اسلام کے حوالہ سے کتب تحریر کیں مثلاً قرآن و سنت میں حقوقِ اطفال، اسرارِ ربّانی فی علومِ قرآنی وغیرہ۔ آپ نے لاہور، کوئٹہ، اسلام آباد، نیو یارک (New York)، لاڑکانہ، پشاور، کراچی، فیصل آباد، بوربان، حیدر آباد وغیرہ جا کر میڈیکل کانفرنسوں میں شرکت کی۔ اور آپ نے اکثر جگہوں پر اپنی تحقیقات بھی پیش کیں۔ آپ نے P.M.A. اور P.P.A. کے 150 سے زائد سائنسی حصوں، کلینیکل سیمینار اور میٹنگ منعقد کروائیں۔ سیالکوٹ اور بنگہ دیش میں مفت میڈیکل کیمپ لگائے۔ آپ نے ایک کتابچہ ”آپ دربار شریف کیوں آتے ہیں“ کے نام سے چھپوایا۔ چشمہٴ نور آپ کا منظوم کلام ہے۔

1969ء میں حضرت سیّد افتخار احمد حسین گیلانی رحمة اللہ علیہ نے اپنے برادرِ اکبر کے ساتھ حجِ بیت اللہ کی سعادت کا شرف حاصل کیا۔ اس کے متعلق شیر محمد صاحب مرآة الرحمن میں لکھتے ہیں:۔ ”آپ کو اپنے برادرِ کلاں حضرت سیّد اقبال احمد حسین شاہ صاحب کے ہمراہ حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل ہے۔“ (مرآة الرحمن، باب سوم، فصل سوم، مضمون ’اولادِ نرینہ‘، صفحہ نمبر ۳۳۰)۔

حضرت سیّد افتخار احمد حسین گیلانی رحمة اللہ علیہ کی زندگی پر حضرت ڈاکٹر صاحبزادہ سیّد مسعود السیّد مختصراً روشنی ڈالتے ہوئے مرآة الرحمن کی تیسری اشاعت اور پہلی تدوین میں لکھتے ہیں:۔

”سنت نبوی ﷺ:    آپ کی تمام حیات پاک سنت نبوی ﷺ کے مطابق گزری، سادگی توکل اور قناعت آپ کی زندگی کا طرئہ امتیاز رہا۔

حق گوئی و بےباکی:    حق گوئی و بےباکی سے آپ کو کوئی نہ روک سکا۔ آپ حق بات منہ پر کہہ دیتے چاہے اس سے لوگ ناراض ہو کر آپ کے خلاف ہو جاتے۔ لیکن آپ کوئی پروا نہ کرتے۔“ (مرآة الرحمن، اشاعت سوم، تدوین اوّل، باب سوم، فصل سوم، مضمون حضور سرکارِ عالی کی آل و اولاد، صفحہ نمبر ۳۳۲)۔ڈاکٹر صاحب مزید رقم طراز ہیں:۔

”نظام مصطفی ﷺ:   نفاذ نظام مصطفی ﷺ کے سلسلہ میں آپ نے عملی خدمات سر انجام دیں اس سلسلے میں آپ نے جمیعت العلمائے پاکستان کے قیام میں بنیادی کردار ادا فرمایا۔“(مرآة الرحمن، اشاعت سوم، تدوین اوّل‘ باب سوم، فصل سوم، مضمون حضور سرکارِ عالی کی آل و اولاد، صفحہ نمبر ۳۳۲)۔

جب دربار کی تعمیر کے کام حضرت سیّد اقبال احمد حسین گیلانی دامت برکاتہم العالیہ سر انجام دے رہے تھے تو حضرت سیّد افتخار احمد حسین گیلانی رحمة اللہ علیہ نے دربار میں کھڑے ہو کر دربار میں ہونے والی خطاطی کی نگرانی کی اور ہدایات دیں۔ آپ نے دربارِ عالیہ میں سرکار غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے مشہور قصائد (قصیدہ غوثیہ اور قصیدہ روحی) کے چند اشعار لکھوائے۔ 1981ء میں لکھی گئی مرآة الرّحمن تمام ساداتِ منڈیر شریف سیّداں کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔

حضرت سیّد افتخار احمد حسین گیلانی رحمة اللہ علیہ گرمیوں میںسوار گلی، نزد جنگلاتِ باڑیاں، مری تشریف لے جاتے۔ 1968ء سے لے کر 1974ء تک باقاعدہ ہر سال سیاحت کے لیے مری جاتے رہے اور مسورٹ میں ٹھہرتے۔ آپ کے ایک عقیدت مند نے کہیں ان سالوں کا تذکرہ کیا: ”۱۹۶۸ء سے لے کر ۱۹۷۰ء تک گرمیوں میں سنی بنک مری میں قیام فرمایا۔ پھر ۱۹۷۱ء میں سوار گلی میں ایک مکان تعمیر کروایا۔ اسی دوران کچھ عرصہ خلیفہ تاج عباسی کو شرف میزبانی بخشا اور پھر کچھ عرصہ خلیفہ محمد اسلم صاحب المعروف (بڑے اسلم صاحب) کو بھی شرف میزبانی بخشا۔ پھر اس کے بعد ۱۹۷۱ء سے ۱۹۷۴ء تک اپنے مکان میں سکونت پذیر ہوئے۔“ مزید آگے چل کر راقم نے لکھا کہ ان ایام میں آپ کے برادرِ اصغر حضرت سیّد امجد علی امجد گیلانی دامت برکاتہم العالیہ بھی بمعہ اہل و عیال آپ کے ساتھ تشریف لے جاتے۔

حضرت سیّد افتخار احمد حسین گیلانی رحمة اللہ علیہ یکم جون 2000ء ایک بج کر 15 منٹ پر اسلام آباد میں فوت ہوئے۔ آپ کو غسل ڈاکٹر صاحبزادہ سیّد مسعود السیّد، سیّد نور حسین اور خلیفہ تنویر الحق نے دیا۔ آپ کے چہلم کا ختم 2 جولائی 2000ء کو بروز اتوار ہوا۔ چہلم پر آپ کے بڑے بیٹے ڈاکٹر صاحبزادہ سیّد مسعود السیّد کی دستار بندی کر کے انہیں اپنے گھر کا سربراہ مقرر کیا۔

حضرت ڈاکٹر صاحبزادہ سیّد مسعود السیّد گیلانی آپ کی وفات کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت مفتی سیّد افتخار احمد حسین گیلانی رحمة اللہ علیہ ہر سال حسبِ معمول مری کے جنگلات میں حضور سرکارِ عالی قدس سرہ العزیز کی چلّہ گاہ کی زیارت کرنے تشریف لے جاتے۔ حسبِ معمول مسوٹ میں قیام کے دوران آپ کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تو آپ اپنے برادرِ اصغر حضرت سیّد امجد علی امجد گیلانی دامت برکاتہم العالیہ کے پاس تشریف لے گئے۔ بروز بدھ دوپہر کے وقت غسل فرمایا اور عشاءتک تمام نمازیں حسبِ معمول ادا کیں۔ بعد ازاں، غرضِ سیر و سیاحت، گھر سے باہر تشریف لے گئے۔ رات ساڑھے دس بجے کے قریب حضرت سیّد امجد علی امجد گیلانی دامت برکاتہم العالیہ کے بڑے بیٹے حضرت صاحبزادہ ڈاکٹر سیّد سہیل احمد صاحب آپ کو (PIMS) پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں لے گئے۔ رات ایک بجے آپ نے اپنے بیٹوں سے پوچھا میں سو جاں؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ آرام فرما لیں، صبح ہسپتال سے چھٹی لے کر گھر چلے جائیں گے۔ آپ نے کروٹ کی لی اور آنکھیں بند کر لیں۔ رات ایک بج کر پندرہ منٹ پر آپ فوت ہو گئے۔

اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ

 

 

شہزادۂ چہارم حضرت سیّد امجد علی امجد گیلانی مدظلہ العالی، حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز کے چوتھے بیٹے ہیں۔ آپ کی پیدائش ۱۸ رجب المرجب ۱۳۶۰ھ بمطابق 12 اگست 1941ء یوم سہ شنبہ بمقام منڈیر سیّداں ہوئی۔ آپ کا عقدِ اوّل ۱۹ شعبان المعظم ۱۳۸۳ھ بمطابق 5 جنوری ۱۹۶۴ء یوم یکشنبہ کو ہوا۔ اس سے آپ کی ایک بیٹی ہوئیں۔ عقدِ ثانی سے آپ کے دو بیٹے ہوئے۔ آپ کو ادب سے کافی لگا ہے اور آپ بلند پایہ کے شاعر ہیں۔ آپ کا تخلص امجد ہے۔ آپ نے بے شمار حمد، نعت، مناقب اور مرثیہ لکھے۔ آپ ابھی تک اپنی شاعری کے ذریعے دربار عالیہ کا پیغام یعنی توحید و میلادِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، نمازِ پنجگانہ اور محبت ِ اہل بیت اور اولیاءلوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عمرِ دراز عطا فرمائے تاکہ آپ خاندانِ احمد حسینیہ کے چھوٹوں کی رہنمائی فرماتے رہیں۔