جمعہ، 7 دسمبر، 2012

توحید – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

باب چہارم  (4)
توحید اور فقر

 

توحید

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے معمولات میں یہ بات بھی تھی کہ حضور پاک روازنہ شب و روز مریدین کی رہنمائی‘ پختگی ٔ ایمان‘ تعلیم و تربیت اور ان کے جذبۂ عشق و محبت میں اضافہ کے لئے جو ہدایات فرماتے‘ حاصل عرفان ہوتیں۔ آپ سرکار  مریدین کو شریعت کے قوانین اور اسلامی معاشی اور تمدنی طریقوں سے آگاہ فرماتے۔ دین کے پہلو پر وضاحت سے روشنی ڈالتے کہ مریدوں کے دل تبلیغ حق سے پر نور ہو جاتے۔

 

وحدۃ الوجود

حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کے خطبات اور مواعظ کا نکتۂ خاص مبنی بر توحید ہوتا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس سے والہانہ پیار تھا۔ ہمہ وقت ذاتِ اقدس کے تصور سے سرشار رہتے۔ وَحدۃ الوجود نظریہ کے قائل تھے۔ نظریۂ وحدۃ الوجود یہ ہے کہ جو کچھ موجود ہے‘ سب اللہ تعالیٰ ہی کا ہے یعنی ہر سو اللہ ہی اللہ ہے اور تصوف میں اسے ہمہ اوست بھی کہتے ہیں۔ احدیت‘ وحدیت اور کثرت اس کی اشکال ہیں۔ یہ بھی فرماتے کہ کل کائنات مظہر ذات الٰہی ہے یعنی ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ گویا توحید کی اصل حقیقت نظریۂ وحدۃ الوجود ہے۔ قرآن میں هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ  (سورة الحديد، آية ۳) سے وحدۃ الوجود کی تصدیق ہوتی ہے۔ اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (سورة النور، آية ۳۵) سے بھی وحدۃ الوجود کی تائید ہوتی ہے۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے شعری کلام سے بھی اسی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے۔

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز فرماتے توحید یہ ہے کہ کثرت سمٹ جائے اور وحدت پھیل جائے۔ قرآنی آیاتِ مندرجہ ذیل اس کی تصدیق کرتی ہیں۔

جمعہ، 23 نومبر، 2012

معمولات اور طریقہ بیعت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

 

اگر کوئی شخص مرید ہونے کی خواہش ظاہر کرتا تو پہلے آپ اس کے دل کی توجہ خاص سے بارگاہِ ایزدی میں پیش کر کے منزہ کرتے‘ جس کے نتیجہ میں دل منور اور ذاکر ہو جاتا۔ دل واصل باللہ ہو جاتا۔ جب وہ شخص ان نوازشات کا حامل ہو کر اس کی تصدیق کرتا تو آپ اس کو بیعت فرماتے اور اس کے سابقہ گناہوں کی معافی کے لئے ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا فرماتے۔
آپ پنج گانہ نماز کی ادائیگی ہمیشہ پابندی سے فرماتے۔ نمازِ مغرب کی جماعت خود کرواتے۔ مریدین کے علاوہ اُمت ِ مسلمہ کے لئے خصوصی دعا فرماتے۔ اس کے بعد آپؒ اپنے وظائف پڑھنے میں مصروف ہو جاتے‘ جو نیم شب تک جاری رہتے۔ وظائف سے فراغت پا کر آپؒ مریدین کی مجلس میں تشریف لے آتے اور رات کا باقی حصہ رشد و ہدایت اور راہنمائی میں صرف فرماتے۔ مسائل کی عقدہ کشائی فرماتے‘ حاضرین کی مشکلات کے حل کے لئے دعا فرماتے‘ مریدین کی باطنی راہنمائی فرماتے ہوئے ان کو تصوّف و معرفت کے حقائق اور رموز سے آگاہ بھی فرماتے۔ آپ کے خطبات‘ ارشادات اور مواعظ سنہری حروف میں لکھنے کے لائق ہیں۔ آپ قرآنِ پاک کی آیاتِ مبارکہ کی جو تفسیر بیان فرماتے وہ بہت دقیق اور پراسرار ہوتی‘ علمائے ظاہر اور واعظین سے مختلف ہوتی۔ آپ اکثر فرماتے کہ قرآنِ پاک کے سِرِّی معانی بھی ہیں۔ ان باطنی معنوں کو سمجھے بغیر علمِ قرآن سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ راقم الحروف کو ان اَسرار و رموز کے سمجھنے اور سننے کی سعادت برابر حاصل رہی۔ فجر کی نماز سے پہلے آپ گھر تشریف لے جاتے اور رات کا رکھا ہوا باسی کھانا (تنوری روٹی اور سالن) بڑے شوق سے تناول فرماتے اور اپنے معمول کے وظائف کے بعد ایک گھنٹے کے لئے استراحت فرماتے۔ استراحت کے بعد تازہ وضو فرماتے‘ ایک پیالی چائے نوش فرماتے اور پھر معمولاتِ زندگی میں مصروف ہو جاتے۔ سارا دن فیض رسانی کا سلسلہ جاری رہتا۔ اسی دوران ظہر کے وقت دربار شریف میں آئے ہوئے ہزاروں عقیدت مندوں کے لئے فرداً فرداً دعا فرماتے۔

جمعہ، 9 نومبر، 2012

تبلیغ کا انوکھا انداز – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

تبلیغ کا انوکھا انداز

 

راقم الحروف نے تمام زندگی آپ کو چار پائی پر بستر لگا کر سوتے نہیں دیکھا۔ آپ سرکار نے ریاضت‘ عبادت‘ شب بیداری اور صوم و صلوٰۃ میں مثالی نشان قائم کئے۔ بیماری کی حالت میں کبھی دوا استعمال نہیں کی۔ ہمیشہ توکل پر بھروسہ کیا۔ صبح معمولی سا ناشتہ کرنے کے بعد آپ اپنی عبادت گاہ میں تخت پر ایک گھنٹے کے لئے استراحت فرمانے کے بعد اٹھ کر وضو فرماتے۔ چائے کی ایک پیالی نوشِ جاں فرماتے۔ پھر باہر مریدوں کے جھرمٹ میں تشریف لے آتے۔ تمام دن وعظ فرماتے‘ مریدوں کو رشد و ہدایت سے نوازتے‘ اپنی نگاہِ کرم سے ان کی باطنی راہنمائی فرماتے۔ ہر ایک کی التجا سن کر ان کی مراد پوری فرماتے۔ قبل دوپہر عام لوگوں کے لئے دعا فرماتے بلکہ ہر شخص کے لئے فرداً فرداً دعا فرماتے۔ دعا کے بعد جب سائل کی تسلی ہو جاتی تو اس کو جانے کی اجازت مرحمت فرماتے۔ تاکید کرتے کہ نماز پابندی سے ادا کرتے رہنا۔ اگر کوتاہی یا غفلت کرو گے تو تمہاری بیماری تمہیں دوبارہ پکڑ لے گی۔ یہ خوف اس لئے دلاتے کہ دعا کرانے والا شخص پابند ِ صلوٰۃ ہو جائے۔ اس طرح آپ سرکارِ عالی نے لاکھوں بندگانِ خدا کو نماز کا پابند بنا دیا۔ تبلیغ کا یہ انوکھا انداز تھا۔

جمعہ، 2 نومبر، 2012

حضرت سید صوف شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضرت سید صوف شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری

 

لاہور پہنچ کر آپؒ نے حضرت سیّد صوفؒ کے مزار‘ واقع بیرون مسجد وزیر خان‘ میں چلّہ کیا۔ صبح کے وقت آپ سیّد دیدار علی شاہ صاحب‘ خطیب مسجد وزیر خان‘ کے پاس رہتے اور رات ٹھہرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اگر کوئی اس کی اس کی خلاف ورزی کرے تو وہ مزار سے زندہ نہیں نکلتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شنید ہے رات کو شیر آتا ہے‘ جس کے خوف سے وہاں موجود شخص جان بحق ہو جاتا ہے۔ حضور سرکارِ عالی نے فرمایا میں یہاں مرنے کے لئے نہیں آیا، زندگی پانے کے لئے آیا ہوں۔ اپنی ذمہ داری پر رات مزار کے اندر ہی قیام کروں گا۔ مجاور دروازہ باہر سے مقفل کر کے چلے گئے۔ اگلی صبح معمول سے قبل ہی دروازہ کھولا تو آپ کو یادِ الٰہی میں مصروف پایا۔ ثابت ہوا کہ ولی کو کوئی خوف یا ملام نہیں ہوتا۔ اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ  سرکارِ عالی نے اپنی حیاتِ اقدس میں ریاضت کو انتہا تک پہنچا دیا۔

جمعہ، 26 اکتوبر، 2012

حضرت امام علی الحق رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر چلہ کشی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضرت امام علی الحق رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر چلہ کشی

 

ایک دفعہ آپؒ چلہ کرنے کی نیت سے حضرت امام علی الحق رحمۃ اللہ علیہ کے دربار پر تشریف لے گئے۔ نمازِ مغرب کے بعد مجاوروں نے زائرین کو باہر نکال کر دربار کا دروازہ مقفل کرنے کے لئے آپ سرکار رحمۃ اللہ علیہ سے باہر آنے کی درخواست کی اور بتایا کہ امام صاحب کے دربار میں رات کے وقت قیام نہیں کیا جا سکتا، یہ ناممکنات میں سے ہے۔ آج تک کوئی شخص یہ جرأت نہیں کر سکا۔ آپ ایسا خطرہ مول نہ لیں۔ لیکن ان کے اصرار کے باوجود حضور سرکارِ عالی رات بھر دربار کے اندر ہی عبادت گزار رہے۔ اگلی صبح مجاوروں نے جب دروازہ کھولا تو آپ سرکار  کو معرفِ عبادت پایا اور حیرت سے پوچھا کہ امام صاحب نے آپ کو رات کیسے بسر کرنے دی؟ آپؒ نے فرمایا اہلِ رضا کسی کو کچھ نہیں کہتے۔ اس طرح آپؒ نے پورے چالیس دن دربار کے اندر بیٹھ کر چلّہ پورا کیا۔ چلّے کی تکمیل پر امام صاحبؒ نے ارشاد فرمایا کہ آپ مغرب کی جانب چلے جائیں۔ جس جگہ مغرب کی اذان ہو جائے‘ وہیں ٹھہر جائیں۔ نیز فرمایا اگلی منزل کے بارے میں ہم بعد میں بتائیں گے۔

جمعہ، 19 اکتوبر، 2012

سیّاحی اور تبلیغِ دین – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

باب سوئم  (3)

سیاحت، تبلیغ اور
معمولات

سیّاحی اور تبلیغِ دین

 

حضور پاک رحمۃ اللہ علیہ نے ملازمت سے فراغت پا کر پہاڑوں کا رُخ کر لیا۔ آپ نے کوہِ مری سے نینی تال (انڈیا) تک پہاڑی سفر نو ماہ میں طے کیا۔ آپ پہاڑ کی چوٹی سے اتر کر پہاڑوں کے دامن میں واقع گھرانوں اور گاؤں والوں کو اکٹھا کر کے تمام وقت دینِ حق کی تعلیم دیتے اور انہیں نماز اور روزہ کے فوائد سے آگاہ فرماتے۔ آپؒ کے وعظ کا ان پر اتنا اثر ہوتا کہ وہ نماز کے پابند ہو جاتے اور عہد کرتے کہ ہم ہمیشہ نماز گزار رہیں گے۔ اس کے بعد آپؒ دوسرے گاؤں کا رُخ کرتے۔ اس طرح آپ نو ماہ مسلسل پہاڑوں کے دامن میں آباد باشندوں کو وعظ و رشد و ہدایت اور خطبات سے نوازتے رہے۔ آپؒ نے اس دوران مسلسل روزہ رکھا۔ صرف ایک پیالی چائے (صبح و شام) پیتے تھے۔ اس سفر کے دوران مختلف زبانیں بولنے والے لوگ اور قبیلے ملے‘ جن سے حضور نے ان کی مادری زبانوں میں پوری فصاحت اور بلاغت سے دین کی تبلیغ فرمائی۔ یہ بھی کم کمالِ ولایت نہ تھا۔ نو ماہ مسلسل تبلیغ کے بعد واپس راولپنڈی شیخ برادران کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ کا وجودِ مبارک بظاہر لاغر نظر آتا تھا۔ جب شیخ فضل کریم کو اتنے طویل عرصے کے فاقے کا علم ہوا تو اس نے کہا کہ وہ اپنے ہاتھ سے کھانا پکا کر حضور سرکار عالی کا روزہ افطار کرائے گا۔ آپؒ نے بھی معمول سے زیادہ کھانا تناول فرمایا۔ اگلی صبح آپ فراغت کے لئے نکلے۔ فراغت کے بعد لوٹا بیت الخلا میں چھوڑ آئے۔ شیخ فضل کریم لوٹا اٹھانے گئے تو دیکھا کہ اس جگہ کوئی بول براز نہ تھا بلکہ ہلکی ہلکی خوشبو سے بیت الخلا مہک رہا تھا۔ ماشاء اللہ۔ حضور سرکارِ عالی مادر زاد ولی تھے۔ بچپن سے ہی آپ کی کرامات کا ظہور شروع ہو گیا تھا۔ آپؒ نے ارشاد فرمایا کہ ارواح کو ربّ العزت نے اپنے خاص الخاص قرب کے لئے تخلیق فرمایا ہے‘ وہ ازل سے محرمِ راز ہوتی ہیں۔ وہ روحیں از خود اپنی منزل پر پرواز کرتی ہیں۔ ان کو ظاہری راہنمائی یا راہبر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دورانِ قیامِ انبالہ حضرت فتح علی شہباز صاحبؒ دو تین مرتبہ انبالہ تشریف لے گئے اور سرکارِ عالی کو ظاہری بیعت کے لئے ترغیب دیتے رہے کیونکہ سرکار کی کرامات کا ظہور ہونا شروع ہو گیا تھا۔ کافی اصرار کے بعد سرکار نے اپنے ماموں حضرت فتح علی شہباز منڈیرویرحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔

جمعہ، 5 اکتوبر، 2012

ناگ کا پہرہ – ملفوظاتِ محبوبِ ذات


ناگ کا پہرہ

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے مری کے پہاڑوں اور جنگلات میں بھی کئی کئی راتیں عبادت میں گذاری ہیں۔ اُن دنوں وہ جنگلات اتنے گھنے تھے کہ وہاں شیروں، چیتوں اور دیگر خونخوار چوپاؤں نے بسیرا کر رکھا تھا مگر کوئی خونخوار جانور آپ  کے لئے باعث ِ زحمت نہ ہوتا۔ بلکہ لوئر ٹوپہ کے مقام پر ایک ناگ آپ  کی عبادت گاہ پر رات بھر پہرہ دیتا رہتا تاکہ عام لوگ اس طرف نہ آئیں۔ آپؒ کے وہاں سے تشریف لے جانے کے بعد وہ ناگ بھی غائب ہو گیا۔

پیر، 1 اکتوبر، 2012

عبادت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

عبادت

بزرگوں سے سنا تھا کہ آپ بچپن سے ہی صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ شب بیداری کرتے۔ آپ کے وضائف کئی گھنٹوں پر محیط ہوتے۔ بسا اوقات گھنٹے جنگلوں میں ذکر الہٰی میں راتیں گذارتے۔ کبھی بستر لگا کر چار پائی پر نہ سوتے۔ رضائی کبھی نہ استعمال کرتے؛ شدید سردی میں بھی صرف ایک کمبل پر اکتفا کرتے۔ فجر کی نماز کے بعد صرف ایک گھنٹہ اپنے تخت پر استراحت فرماتے؛ یہ حضور پاک کا شروع سے معمول تھا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کئی کئی ماہ لگاتار روزے رکھتے۔ صبح و شام چائے کی ایک پیالی اور حسب ِ طلب پانی پیتے۔ کھانا بالکل نہ کھاتے اور کوئی چیز بطورِ خوراک استعمال نہ کرتے۔ آپ ایامِ روزہ میں روز مرّہ کے معمول میں فرق نہ آنے دیتے۔
مسلسل روزوں کے باوجود کوئی تھکاوٹ یا اکتاہٹ محسوس نہ کرتے۔ نمازِ مغرب کے بعد اپنے وظائف پڑھتے جو نصف شب تک جاری رہتے۔ وظائف کے اختتام پر درود شریف کثرت سے پڑھتے۔ مریدین میں درود شریف کی فضیلت بیان کرتے اور سب کو درود شریف کا ورد کرنے کی تلقین فرماتے اور ان کی آگاہی کے لئے فرماتے کہ کوئی دعا بغیر درود شریف کے قبول نہیں ہوتی۔

پیر، 24 ستمبر، 2012

تقویٰ، پرہیزگاری اور طہارت–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

تقویٰ، پرہیزگاری اور طہارت

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے تمام عمر تقویٰ‘ پرہیزگاری‘ طہارت اور صفائی کو پیش نظر رکھا۔ تقویٰ اور طہارت کو خاص اہمیت دیتے تھے۔ احکاماتِ خداوندی پر سختی سے عمل کرتے کبھی کوئی عمل خلافِ شریعت نہ کرتے۔ قانونِ شریعت کی پاسداری کرتے اور اپنے مریدوں اور عقیدت مندوں کو شریعت کے قوانین پر عمل کرنے کی تلقین فرماتے۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے بے پناہ محبت کرتے۔ ان کو اپنے روحانی فیوض سے مستفیض فرماتے۔ آپ کی تعلیمات‘ خطبات‘ مواعظ اور ارشادات زیادہ تر توحید پر مبنی ہوتے۔ آپ ہر وقت اللہ ربّ العزت کے خاص الخاص مشاہدے میں رہتے۔ مریدین کو قرآن کی رو سے ہر صفت میں اللہ تعالیٰ کی موجودگی کا ثبوت فراہم کرتے۔ اللہ تعالیٰ سے خاص الخاص قربت کا یہ ثبوت ہے کہ جب گفتگو فرماتے تو یوں لگتا جیسے اللہ تعالیٰ خود آپ کی زبانِ اطہر سے گفتگو کر رہا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جب انسان اللہ کا ہو جاتا ہے تو انسان کا ہر فعل اُس کا اپنا فعل بن جاتا ہے۔ طہارت اور صفائی پسند تھے۔ کبھی کسی دوسرے شخص کی کوئی چیز استعمال نہ فرماتے اور نہ ہی آپ کے استعمال کی چیزیں کوئی دوسرا استعمال کرتا۔ طہارت اور پرہیزگاری کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ باوضو رہتے۔ فرماتے صفائی‘ تقویٰ‘ پرہیزگاری اور طہارت‘ سب ایمان کے جزو ہیں۔ جس میں ایمان نہیں‘ وہ جنت میں نہیں جا سکتا۔
ایک بار آپ  نے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ میری اس قدر احتیاط میں خود نمائی تو نہیں پائی جاتی تو صدائے غیبی نے نوازا کہ میرے محبوب یہ سب کچھ میری طرف سے ہے۔ آپ بے خوف اس عمل کو جاری رکھیں یہ سارے اوصاف میری ذات میں موجود اور نمایاں ہیں۔
آپ نہایت خوش پوش اور نفاست پسند تھے۔ جن اشیاء میں طہارت کا شائبہ تک ہوتا، ان کو ہر گز استعمال نہ کرتے بلکہ نفرت کا اظہار کرتے۔
آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے والہانہ پیار تھا۔ آپ  کا ہر سانس‘ اٹھنا، چلنا پھرنا، ذاتِ حق پر ہمہ وقت قربان تھا۔ ذات حق سے والہانہ محبت کے سوا آپ کو کسی اور چیز سے رغبت نہ تھی۔ یہاں تک کہ آپ جذبۂ عشق و محبت کے غلبے سے تمام رات جاگتے رہتے اور اللہ تعالیٰ سے لو لگائے رکھتے۔ آپ  نے اپنے جذبۂ عشق میں محبت کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے شعری کلام میں یوں فرمایا ہے کہ

بڑا ہی مہربان ہے تو بڑا ہی مہربان ہے
کبھی تو ہم کو بتا دے کیسا تو مہربان ہے

(سرکار عالی(

من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جان شدی
تاکس نہ گوید ازیں من دیگرم تو دیگری

(امیر خسرو)

آپ  ہمہ وقت ذاتِ حق کی محبت میں محو رہتے۔ بسا اوقت اس غلبۂ محبت کے اثرات سے حالت ِ جذب میں چلے جاتے۔

پیر، 17 ستمبر، 2012

علم – ملفوظاتِ محبوبِ ذات


علم    -    ولکن الراسخون فی العلم

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے ثانوی درجہ تک ظاہری تعلیم حاصل کی۔ باطنی تعلیم و تربیت کے لئے آپ کا کوئی استاد نہ تھا۔ مگر آپ کے کلام، گفتگو اور وعظ میں اس درجہ فصاحت و بلاغت پائی جاتی کہ بڑے بڑے علماء‘ فضلاء اس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکتے۔ حضور پاک قدس سرہٗ العزیز کے ایک دوست منشی محمد جان‘ جو خود بھی فاضل تھے‘ اکثر کہتے کہ میں نے آپ حضور جیسی فصاحت و بلاغت کسی دوسرے عالم یا شیخ میں نہیں دیکھی۔ گو دینی تعلیمات اور تدریسِ قرآن میں آپ کا کوئی استاد نہ تھا مگر آپ قرآنِ پاک کی تلاوت اور تفسیر اس انداز اور روانی سے فرماتے کہ سامعین کو گمان ہوتا کہ آپ کو قرآن حفظ ہے۔ قرآنی آیات کے معانی جو آپ بیان کرتے وہ علمائے ظاہر سے بہت مختلف ہوتے۔ آپ نے فرمایا کہ قرآنِ پاک کے ستر باطن ہیں‘ علماء ظاہر کو صرف ایک مفہوم کا علم ہوتا ہے۔ ان کی دسترس باطنی معانی تک نہیں ہوتی‘ وہ علم لدنّی سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں خود ارشاد فرمایا ہے کہ جن کو ہم نے علم لدنیٰ دیا ہے وہ عوام کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ  ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ (پارہ 3سورة آل عمرآن، آیت ۷)

تشریح:۔    اس کلامِ پاک کا ٹھیک علم اللہ کو معلوم ہے اور پختہ علم والوں (راسخون فی العلم) کو ہے‘ جو تعلق باللہ رکھتے ہیں‘ کیونکہ وہ علمِ معرفت جانتے ہیں۔ راسخون فی العلم کا مطلب ہے جو اپنے علم کا منبع ہوں۔

القرآن        لٰكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ        (سورۃ النسآء، آية ۱۶۲)

اللہ تعالیٰ علم لدنیٰ صرف برگزیدہ بندوں اور اولیائے عظام کو عطا فرماتے ہیں۔ جس کی تصدیق قرآنِ پاک میں حضرت موسیٰ ؈ اور حضرت خضر ؈ کے تذکرے سے ہوتی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے۔

اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا ؀      (سورة الکهف٫ آية ۶۵)

(ترجمہ) جس کو دی تھی ہم نے اپنی رحمت اپنے پاس سے اور سکھایا تھا اپنے پاس سے علم لدنیٰ (حضرت خضر ؈ کو)۔
حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کو بھی اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا صفات سے نواز رکھا تھا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشادِ پاک ہے کہ اے لوگو! جب تمہیں کبھی قرآنِ پاک سمجھنے میں کوئی دقت پیش آئے یا الجھن پیدا ہو تو میرے بندوں کی طرف رجوع کرو جو میرے علم میں راسخ ہیں یعنی باطنی علم میں پکے ہیں، علم کا منبع ہیں جو راسخون فی العلم ہیں‘ جن کی تفصیل اوپر بیان ہو چکی ہے۔ چونکہ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز علمِ لدنیٰ کے حامل تھے اور راسخون فی العلم تھے‘ اس لئے آپ کے علم کی وسعت اور بلندی کا عام شخص اندازہ نہیں کر سکتا۔ حضرت محبوبِ ذات کی شان ہے کہ علوم پر ہادی تھے۔ آپ دنیا کی سب زبانیں جانتے اور بولتے تھے۔ آپ ہر شخص سے اس کی مادری زبان میں گفتگو فرماتے جو تمام حاضرین کی سمجھ میں نہ آتی۔ راقم الحروف نے آپ کو انگریزی‘ عربی‘ فارسی‘ پشتو‘ کشمیری‘ اردو‘ پنجابی زبانیں بولتے اکثر دیکھا۔ آپ بحرِ علوم تھے۔ بسا اوقات غیر مسلم لوگ بھی آپ سے مسائل سمجھنے اور ان کی تشریح کروانے آتے تو آپ ان کی مادری زبان میں گفتگو فرماتے اور ان کے سوالات کا تفصیلی جواب دے کر ان کو مطمئن کرتے اور وہ اپنے غلط اعتراضات اور اسلام پر بہتان تراشی پر نادم ہوتے۔ بیشتر غیر مسلم آپ کا عارفانہ کلام سن کر اتنے متاثر ہوتے کہ آپؒ کے دست ِ حق پرست پر اسلام قبول کر لیتے۔ آپ کے علم کی بلندی اور فصاحت و بلاغت کا اندازہ آریارؤں، ہندوؤں اور کٹر مشرکین کے متاثر ہونے سے بخوبی ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ انبالہ چھاؤنی میں چند اہلِ حدیث علماء نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ اعتراض کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا نور ہونا قرآنِ پاک سے ثابت نہیں ہوتا لہٰذا آپ بشر تھے۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے ان کو قرآنِ پاک کی وہ آیات پڑھ کر سنائیں جن میں قرآن اور حضور سرکار دو عالم ﷺ کو نور کہا گیا ہے۔ ان عالموں نے آپ کی علمی فضیلت کو تسلیم کیا اور یہ بھی تسلیم کیا کہ از روئے قرآن‘ حضورِ پاک ﷺ نور ہیں اور آپ ہی کے نور سے اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق فرمائی۔ انہوں نے آپ کے رو برو اقرار کیا کہ وہ آئندہ ایسی غلطی نہ دہرائیں گے۔ حضورِ پاک ﷺ کو بشر نہیں بلکہ نور سمجھیں گے۔ آپ کے علم کی وسعت کا عوام اندازہ نہیں کر سکتے۔ آپ محبوبِ ذات ہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کی باطنی راہنمائی ہمہ وقت حاصل رہتی۔ آپ کی فصاحت و بلاغت ظاہری علماء کے لئے باعث ِ حیرت تھی۔
ایک مرتبہ انبالہ چھاؤنی میں آریہ ہندوؤں نے آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر یہ اعتراض کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ بروئے قرآن قادر ہے تو اس نے اپنے محبوب ﷺ کو مکے سے ہجرت کا کیوں حکم دیا؟ نعوذ بالله یا قرآنِ پاک الہامی کتاب نہیں یا خدا قادرِ مطلق نہیں۔ آپؒ نے اپنے علم کی فراست سے مثالیں دے کر ثابت کیا کہ ان کا اعتراض لغو اور صریحاً غلط ہے۔ قرآنِ پاک الہامی کتاب ہے اور اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے۔ آپؒ نے حضور پاک ﷺ کی ہجرت میں جو مصلحت بیان فرمائی‘ اس سے وہ کٹر مشرکین اپنے ناپاک اور غلط اعتراض پر سخت نادم ہوئے اور عہد کیا کہ آئندہ ایسا بے ہودہ اعتراض کبھی نہ کریں گے۔ ان میں سے اکثر آپ کے محققانہ و عارفانہ کلام سے متاثر ہو کر مشرف بہ اسلام ہو گئے۔
ایسے بے شمار واقعات آپ کی زندگی میں پیش آئے۔ ایسے مسائل جنہیں علمائے ظاہر حل نہ کر سکے‘ آپ سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے ان اعتراضات کو علم لدنیٰ سے حل کر دیا۔ ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ ہم پتھر کی مورتی پوچتے ہیں لیکن مسلمان ہجر اسود (پتھر) کو پوجتے ہیں۔ آپ نے ان کو بتایا کہ مسلمان صرف حکم کی تعمیل میں ہجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں‘ معبود سمجھ کر پوجتے نہیں جبکہ ہندو پتھروں کی مورتیاں بنا کر پوجتے ہیں۔ اس وضاحت پر کافر مطمئن ہو گئے۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے لا تعداد دقیق مسائل حل کر کے کافروں کے ناپاک‘ غلط اعتراضات کو رد فرماتے ہوئے دینِ اسلام کی عظمت کو اجاگر کیا اور ہر جگہ دین کے دشمنوں (مشرکین) کے ناپاک حملوں کو ناکام بنایا بلکہ اپنے علم اور اسلام کی حقانیت کی بدولت ہزاروں غیر مسلموں کو مسلمان کر کے اسلام میں داخل فرمایا۔ آپ  اسلام کی سچائی اس طرح بیان فرماتے کہ سننے والے کے دل پر نقش ہو جاتی اور سننے والا اسلام کی چوکھٹ پر سر جھکانے کے لئے مجبور ہو جاتا۔

پیر، 10 ستمبر، 2012

توکّل علی الله – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

توکل علی اللہ

اپنے تمام معاملات اللہ کے سپرد کر دینا توکل ہے۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز تمام عمر اللہ تعالیٰ کے فرمان "ومن   يتوکل علی الله فهو حسبه" پر سختی سے کاربند رہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا پورا بھروسہ کرتے اور ہمیشہ فرماتے میرے لئے میرا اللہ ہی کافی ہے۔ آپؒ نے حیاتِ مقدسہ میں اپنی ذات کے لئے کسی قسم کی کوئی جائیداد نہ بنائی۔ اپنی مرضی سے کبھی کوئی چیز ذاتی استعمال کے لئے نہ خریدی۔ آپؒ کے پاس جو رقم یا سامان وغیرہ بطورِ نذر پیش ہوتا، تمام کا تمام راہِ خدا میں تقسیم کر دیتے اور کوئی روپیہ‘ پیسہ یا شے پس انداز نہ فرماتے۔ توکل پر پورا یقین رکھتے۔ فرماتے جس خدا نے آج دیا ہے‘ وہی کل بھی دیے گا۔ بسا اوقات اپنے تن کے کپڑے بھی اتار کر غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیتے اور فرماتے یہ مجھ سے زیادہ حاجت مند ہیں۔ میرا اللہ وارث ہے۔ آپ کا لنگر منڈیر شریف میں مسلسل جاری ہے۔ تمام حاضرینِ دربار کو بلا امتیازِ مسلک و عقیدہ‘ امیر غریب دونوں کو یکساں کھانا دیا جاتا ہے۔ سب مہمان اکٹھے ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ صبح اور دوپہر کے بعد چائے سے تواضع کی جاتی ہے۔ لنگر کے لئے خوردنی اشیاء کبھی ذخیرہ نہ کرتے‘ ہر روز نیا سامان خریدا جاتا۔ اگر کبھی لنگر پکانے کے لئے خوردنی اشیاء نہ ہوتیں تو فرماتے اللہ تعالیٰ کا یہ لنگر ہے‘ خود بخود انتظام کرے گا۔ اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا، سامان خود بخود لوگوں کے ذریعے پہنچ جاتا۔ ایسا لگتا کہ اللہ تعالیٰ نے باطنی مخلوق کے ذریعے سامان مہیا فرمایا ہے۔ خدا نخواستہ کبھی فاقے کی نوبت آ جاتی تو آپ کبھی شکوہ نہ کرتے اور یہ کہہ کر سب کو مطمئن کر دیتے کہ یہ (فاقہ) ہمارے بزرگوں کی اوّلین سنت ہے۔
بیماری کی حالت میں کبھی دوا استعمال نہ کرتے۔ فرماتے بیماری یا تکلیف منجانب اللہ ہے۔

مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ        (سورة التغابن، آية ١١)

کوئی تکلیف اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہیں آتی۔( تکلیف یا بیماری کا وقت مقرر ہوتا ہے‘ مقررہ وقت پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ختم ہو جاتی ہے۔)
آپ فرماتے دکھ سکھ‘ مصائب و آلام‘ بیماری اور تکلیف‘ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر وارد نہیں ہوتیں۔ اور ہر ایک کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔ ایسا تو کل معصومین اور محبوبین ہی کر سکتے ہیں۔ عام شخص کی قوتِ برداشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ اہل اللہ کی قوت برداشت عام مخلوق سے مختلف اور زیادہ ہوتی ہے جس کو عام لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ آپ حضور فرماتے توکل کی تین اقسام ہیں؛ اوّل انبیاء ؊ کا توکل‘ دوئم اولیاء عظام کا توکل‘ سوئم عام مخلوق کا توکل۔ انبیاء ؊‘ آئمہ مطہرّین اور معصومین ؊ کو جن مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا،عوام اسے برداشت تو کیا در کنار اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ آپ کا توکل اور تقویٰ‘ پرہیزگاریُ‘ صفائی اور طہارت اولیاء کی تقلید تھی۔ صفائی کے متعلق حدیث بیان فرماتے‘ یہ نصف ایمان ہے۔

جمعہ، 10 اگست، 2012

مہمان نوازی–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

مہمان نوازی

حضور سرکارِ عالی تمام مریدین و حاضرینِ دربار کی بہترین کھانوں سے تواضع فرماتے لیکن خود اپنے معمول کے کھانے پر اکتفا فرماتے۔ حاضرین کو ہر طرح کی آسائش بہم پہنچاتے۔ کھانا اور بستر وغیرہ ہر ایک کو مہیا فرماتے۔ آپ کی مہمان نوازی کا اہم نکتہ یہ تھا کہ آپ رات کا کھانا اس خیال سے تناول نہ فرماتے مبادا کوئی شخص رات کو دیر سے دربار شریف آئے تو کھانا کھائے بغیر نہ سوئے۔ اگر کبھی ایسی صورت پیدا ہوتی تو آپ اپنا کھانا لا کر اس شخص کو دے دیتے۔ اس اصول پر تمام عمر پابند رہے تاکہ روزِ محشر کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ وہ آپ کے دربار میں رات کو بھوکا سویا تھا۔ آپ کا یہ سنہری اصول اُسوۂ حسنہ کی بہترین مثال ہے۔

صوفی عبد العزیز ٹھیکیدار اور خلیفہ شیر محمد‘ کار میں نقص پیدا ہونے کی وجہ سے رات کے گیارہ بچے دربار شریف پہنچے۔ اس وقت لنگر تقسیم ہو چکا تھا۔ حضور سرکار عالی نے گھر سے اپنا کھانا لا کر ان کو کھلایا اور خود بھوکے رہے۔
ڈاکٹر احمد علی صاحب‘ پی۔ ایچ۔ ڈی‘ اپنی والدہ اور دوست‘ مجتبےٰ حسن صاحب‘ کے ہمراہ اس وقت دربار شریف پہنچے جب لنگر تقسیم ہو چکا تھا۔ یہ تینوں حضرات اس وقت حلقۂ غلامی میں شامل نہ تھے۔ حضور سرکارِ عالی نے مہمانوں کے لئے گھر سے اپنا اور بچوں کا کھانا لا کر انہیں دے دیا۔ اگلے روز ڈاکٹر صاحب کی والدہ نے ان کو بتایا کہ وہ کھانا بچوں کے لئے تھا جو حضور پاک نے لا کر مہمانوں کو دے دیا اور بچوں کو ان کی والدہ نے تھپک تھپک کر سلا دیا۔ اس سے بہتر ایثار اور مہمان نوازی کی مثال کیا ہو سکتی ہے؟ ما سوا خانودۂ رسالت مآب ﷺ کے‘ کسی دوسری جگہ اخلاق محمدی ﷺ کا یہ بہترین اور صحیح نمونہ نہیں ملے گا۔ ڈاکٹر صاحب کی والدہ نے یہ بھی بتایا کہ اُنہوں نے ایسی ایثار کی مثال ایران اور عراق میں بھی نہیں دیکھی۔ اس حسنِ اخلاق سے مثاثر ہو کر تینوں مہمانوں نے آپ کے دست ِ حق پر بیعت کر لی۔ ڈاکٹر احمد علی صاحب (پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور) اکثر اس واقع کا دوستوں میں ذکر کیا کرتے تھے۔

اے دل حضورِ حق میں عجز و نیاز ہو جا
دل نذرِ ناز کر دے اور دل نواز ہو جا
فطرت کوئی نتیجہ خود ہی نکال لے گی
بندہ اسی کا بن کر بندہ نواز ہو جا


جمعہ، 3 اگست، 2012

وسیع القلبی–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

وسیع القلبی

آپؒ کسی کے سوال کو کبھی رد نہ فرماتے۔ جس کی زندہ مثالیں یہ ہیں کہ آپ کے پاس ایک نہایت قیمتی بلجیم ساخت کی بندوق تھی۔ ایک روز صفائی کے لئے کو َر سے باہر نکالی۔ حاضرین میں سے چمپئین سٹور نیلا گنبد لاہور کے مالک کی نگاہ بندوق پر پڑی تو بندوق حاصل کرنے کے لئے اس کا دل للچایا۔ آپؒ پر اس کا حال دل منکشف ہوا تو آپؒ نے بلا تامل بندوق اس کے حوالے کر دی۔
آپؒ کے پاس ایک پارکر کا گولڈن قیمتی قلم تھا۔ آپؒ کے ایک مرید قاضی صاحب‘ پولیس سب انسپکٹر‘ نے چاہا کہ ایسا قلم اس کے پاس بھی ہونا چاہیے۔ ابھی وہ سوچ رہا تھا کہ بلا تاخیر وہ قلم اس کے سپرد کر دیا۔ دونوں مریدین کے پاس یہ تبرکات آج بھی موجود ہیں۔ دیگر ایسی لا تعداد مثالیں ہیں جو سرکارِ عالی  کی وسیع القلبی‘ سخاوت اور عطاء کا پتا دیتی ہیں۔

جمعہ، 27 جولائی، 2012

خدمتِ خلق–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

خدمتِ خلق

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے بر صغیر کے لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں کو‘ بلا امتیازِ مسلک و عقیدہ‘ اپنے ظاہری اور باطنی فیوض سے سرفراز فرمایا۔ کبھی کوئی سائل آپؒ کے در سے خالی نہ گیا۔ آپؒ رحیم و کریم ایسے تھے کہ آپؒ کے فیوض و برکات مریدین تک محدود نہ تھے بلکہ امتِ محمدیہ ﷺ کا ہر فرد ان کے خُلق عظیم سے فیضیاب ہوتا۔ آپؒ سب کی بخشش کے لئے دعا فرماتے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے کہ اے اللہ دین اسلام کو تمام دنیا میں پھیلا دے‘ تمام غیر مسلم خلقت کو اسلام میں داخل فرما تاکہ وہ دوزخ کے عذاب سے بچ جائیں۔ جمیع مریدین و معتقدین اور امت ِ محمدیہ ﷺ کے لئے دونوں جہانوں میں بہتری کی دعا فرماتے۔ یہ سخی ہونے کی دلیل ہے کیونکہ سخاوت صرف مریدین تک محدود نہ تھی‘ ہر ایک کے لئے یکساں تھی۔ مصیبت زدوں کو حوصلہ عطا کرنا یتیموں‘ غریبوں‘ بیواؤں اور بے سہارا لوگوں کو مالی امداد سے نوازنا آپ کا معمول تھا۔ سمادی آفات‘ جنگوں اور انقلابات کے وقت مصیبت زدہ اور بے گھروں کی دل کھول کر مالی امداد فرماتے۔ آپ کا لنگر ہر وقت جاری رہتا۔ بلا امتیازِ امیر و غریب‘ دو وقت ایک ہی دستر خوان پر بٹھا کر سب کو یکساں کھانا کھلاتے۔ مریدین کے علاوہ دربار آنے والے ہر فرد کو بھی کھانا ملتا؛ کسی سے کوئی باز پرس نہ کی جاتی۔ دربار میں آنے والے ہر سائل کی مدد کرتے۔ کوئی فرد بھی آپ کے در سے خالی نہ جاتا۔ بھوکوں اور حاجت مندوں کو کھانا دیتے‘ لاچار اور بے کسوں کو پارچہ جات دیتے‘ یتیموں اور بیواؤں کی مالی امداد فرماتے۔ آپ کے پاس جو رقم یا سامان بطورِ نذرانہ پیش ہوتا، شام تک حاجت مندوں میں تقسیم کر دیتے۔ تمام لواحقین کی ہر طرح سے مدد فرماتے۔

جمعہ، 20 جولائی، 2012

عجز و انکساری–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

عجز و انکساری

آپ عاجزی اور انکساری کے پیکر تھے۔ آپ کے کلام میں عاجزی اور انکساری ہمیشہ نمایاں ہوتی تھی۔ اس لئے آپ سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے اپنا تخلص عاجز رکھا تھا۔ آپ اکثر فرماتے عجز اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ کسی کی زبان سے آپ اپنی تعریف سننا کبھی گوارہ نہ کرتے اور فرماتے تعریف کی سزاوار اللہ تعالیٰ کی ذات مقدس ہے۔ میری کیا حیثیت؟ میں بے کس و مجبور کہ اپنے جسم پر بیٹھی ہوئی مکھی بھی نہیں اڑا سکتا۔
حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز ’’ محبوبِ ذات‘‘ کے درجے پر فائز ہونے کے باوجود ہمیشہ منکسر المزاج رہے۔ کبھی گھمنڈ نہ کیا، بڑا بول نہ بولا۔ کبھی اپنی تعریف پسند نہ فرمائی۔ کوئی تعریف کرتا تو آپ منع فرماتے۔ جس شخص میں انا موجود ہو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ انسان خود کو پہچانے تاکہ رب العزت کو پہچان سکے۔ آپ ہمیشہ حدیث ِ قدسی کے حوالے سے تلقین فرماتے۔
الحدیث    من عرف نفسه فقد عرف ربه
ترجمہ۔ جس نے اپنے نفس کو پہچانا گویا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ آپ فرماتے اللہ کی تعریف کرو جو سب تعریفوں کا مالک ہے۔ آپ غریبوں، یتیموں اور مسکینوں سے بے حد پیار کرتے ان کی ظاہری و باطنی ہر طرح سے امداد فرماتے۔ ہمیشہ زمین پر مسند لگا کر بیٹھتے۔ آپ کے عجز و انکسار کا اظہار شاعرانہ کلام سے بھی ہوتا ہے۔

جمعہ، 13 جولائی، 2012

حُسنِ سلوک–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حُسنِ سلوک

سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے معمولاتِ حسنہ میں یہ صفت بھی تھی کہ آپ اپنے لواحقین کے حتی المقدور روحانی‘ مادی اور دنیاوی تقاضے خندہ پیشانی سے پورے فرماتے۔ ان کے دکھ درد میں ہمیشہ معاونت فرماتے۔ اگر قرابت دار سے کوئی زیادتی ہو جاتی تو درگذر فرماتے۔ سب کو اپنے لطف و کرم سے نوازتے۔
مریدین سے حسنِ سلوک کی اس سے اچھی روایت اور کیا ہو سکتی ہے کہ آپ مریدین کو ہمیشہ دوست کہہ کر خطاب کرتے‘ انہیں اولاد سے بڑھ کر پیار دیتے؟ ہر فرد یہی دعویٰ کرتا ہے کہ جتنا پیار آپ نے اس سے کیا شاید ہی کسی دوسرے سے کیا ہو۔ اکثر فرماتے مریدین ہماری روحانی اولاد ہیں۔ مریدین کی غلطی پر کبھی سرزنش نہ کرتے۔ بردباری اور عفو و درگذر حضورِ سرکار عالی قدس سرہٗ العزیز کے اوصافِ حمیدہ کا زرین باب ہے کہ ان کی نگاہ میں مغایرت نام کی کوئی شے نہ تھی۔ وہ خلقِ خدا کے لئے سراپا راحت ِ جاں تھے۔
 

جمعہ، 6 جولائی، 2012

اخلاقِ کریمانہ–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

باب دوئم  (2)
اوصافِ حمیدہ 
  
مظہر اوصافِ احمد عطرتِ تطہیر ہے
جو عمل جو فعل ہے قرآن کی تفسیر ہے

 

اخلاقِ کریمانہ

آپ کے اوصافِ حمیدہ میں خُلق کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ آپ کبھی کسی مرید پر ناراض نہ ہوتے۔ غلطی یا کوتاہی پر عفو و درگذر فرماتے بلکہ لطف و کرم سے نوازتے۔ آپ کا لواحقین سے بھی حُسنِ سلوک ایسا تھا کہ کبھی کسی سے انتقامی جذبہ نہ رکھتے۔ اگر کسی قرابت دار سے زیادتی ہو جاتی تو نہ صرف درگذر فرماتے بلکہ ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ حاجت مند قرابت داروں کی دل کھول کر مالی امداد فرماتے۔ آپ نے کئی مستحقین کے در پردہ وظیفے مقرر کر رکھے تھے۔ لواحقین کی باطنی راہنمائی بھی فرماتے۔ اکثر کو بقا کی منزل سے ہمکنار کیا۔ ان کے دکھ درد میں برابر شریک ہوتے۔ اگر کوئی رشتہ دار بیمار ہو جاتا تو اس کی عیادت خود کرتے۔
ایسے خُلقِ عظیم کا مالک اور محبّ ِ انسانیت اب کہاں! حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز سیرت و کردار‘ خوش اخلاقی‘ خوش پوشی‘ فراخ دلی‘ کریم النفسی‘ تواضع و انکساری میں اپنی مثال آپ تھے۔ اہل اللہ کی علامات میں ایک علامت یہ ہے کہ ولی اللہ ہمیشہ سخی ہو گا، خوش اطوار ہو گا، مہربان اور شفقت کرنے والا ہو گا، اخلاق کریمانہ کا مظہر ہو گا۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز اوصافِ حمیدہ کے پیکر تھے۔ ان کا اندازِ گفتگو دلبرانہ‘ ان کا طریقِ اصلاح ناصحانہ تھا۔ ایک بار آپ کا جس سے بھی سامنا ہو جاتا حضور سرکار عالی اس کے دل پر نقش ہو جاتے۔ پھر بتدریج نکھرتا چلا جاتا، یہاں تک کہ خود آدمی ان کا نقش بن کر رہ جاتا۔ آج بھی ان کے ایسے نقوش دنیا میں زندہ و تابندہ ہیں اور ان کی عظمت کا اعلان کر رہے ہیں۔
 


جمعہ، 29 جون، 2012

عمر عزیز–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

عمر عزیز

حضور سرکار عالی قدس سرہٗ العزیز نے تریسٹھ سال کی عمر مبارک پائی۔ آپ جیسے محبوب کو یہ کیونکر گوارا ہوتا کہ ساری حیات مقدسہ نقشِ پائے رسالت مآب ﷺ ہو اور ظاہری طور پر وہ ان کے وقت حیات سے زیادہ پسند فرماویں۔ بے شک اہلِ ایقان میں سے کم ہی ایسے بزرگ ہوئے ہیں جنہیں یہ نسبت بھی عطا ہوئی ہو۔ آپ کا وصال ۱۳۸۰ھ؁ میں ہوا۔
 

جمعہ، 22 جون، 2012

لباس مبارک–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

لباس مبارک

آپ کا لباس بہت سادہ مگر نہایت صاف ستھرا ہوتا۔ آپ نے عمر کے آخری حصے میں عربی لباس زیب تن فرمایا، جس کے اوپر سبز یا سیاہ رنگ کا قبا ہمیشہ پہنتے تھے۔ آپ سیاہ اور سبز رنگ کی بہت تعظیم فرماتے۔ سیاہ رنگ کا جوتا کبھی نہ پہنتے۔ مریدین کی محافل میں زمین پر مسند لگا کر رونق افروز ہوتے۔ سفید رنگ کا لباس زیادہ پسند فرماتے۔ شیروانی بھی اکثر زیب تن فرماتے۔ آپ پیٹی باندھتے۔ پیٹی میں تلوار اور خنجر اور پستول‘ گلے مبارک میں قرآن مجید بھی حمائل ہوتا۔ دائیں دست ِ مبارک میں چاندی کی انگوٹھیاں بھی پہنتے۔ نگینہ عموماً یمنی یاقوت کا ہوتا۔ پاؤں میں سادہ مکیشن پہنتے۔ گولڈن چشمہ سادہ لگاتے۔ آپ کے استعمال کی چیزیں کنگھی، سرمہ دانی، لباس، مصلّٰے، تسبیح، قرآن مجید، انگوٹھیاں اور تمام تبرکات بحفاظت میرے پاس موجود ہیں۔

اتوار، 17 جون، 2012

Shab-e-Mairaj


شبِ معراج رسول نوں پروردگار پکاریا
عرشِ بریں اُتّے آ ذرا، میرے محمد پیاریا!
لگڑا درد پیار دا! عشق اے تیرے دیدار دا
درس دکھا ہُن آن کے‘ عرشِ بیرں دیا تاریا!
اَج معراج دی رات ہے‘ تیری میری اِک بات ہے
منگ لے جو اَج منگنا ایں‘ ماہِ جبیں ستاریا
آکھیا رب جلیل نے‘ منیاں جبرائیل نے
پاک نبی دے در اُتے‘ آن برّاق کھلہاریا
ستیاں سیکھ رسول نوں‘ اللہ دے مقبول نوں
جھل پراں نال مار کے‘ سرور نوں پیا جگا رہیا
پیراں نوں مل مل کےاپنے پر‘ خوابوں جگا لے نبی سرورؐ
ہون سوار برّاق تے‘ خالق اے اَج بلا رہیا
پہن پوشاک تیار ہوئے‘ پڑھ بسم اللہ سوار ہوئے
رب دا شکر گزار ہوئے‘ خودی دا دم نہ ماریا
پہنچے چوتھے آسمان جا‘ بولے پیمبر صلےٰ علیٰ
ہون مبارکاں یا نبیؐ! رب نے کاج سنواریا
صدقے نبیؐ تیری شان دے‘ صفت لکھی وچہ قرآن دے
تیں لئی وچہ جہان دے‘ رب قرآن اتاریا
جدوں گئے چھیویں فلک‘ جبرائیل بولے اَج تلک
ایدوں اگے ہُن یا نبیؐ! میں کدے دم نہ ماریا
جبرائیل نوں چھوڑ کر‘ واگ براق کی موڑ کر
شعلہ ڈٹھا اِک نور دا، اَگے نوں قدم الاریا
رحمتوں ربِ غفور دے پردے گئے لنگھ دور دے
آون آوازاں غیب تھیں‘ جھبدے آ مل پیاریا
پردہ ہے اِک میم دا، مالک ہے عرشِ عظیم دا
تیرا میرا اِک بھید ہے‘ کمبل پوش اُتاریا
جدوں ہوئی ملاقات سی‘ مل گئی ذات صفات سی
مخفی جیہڑی گل بات سی‘ ظاہر سی نظریں آ رہیا
ہو گیا وصل وصال جے‘ پایا نبیؐ نے جمال جے
اُمت دا کیتا سوال جے‘ بخش دے بخشنہاریا
نہ کرو امت دا غم ذرا، تاج شفاعت دا دتا پہنا
بخش دی سب امت تیری‘ میرے محبوب پیاریا
آئے عرش اُتے سیر کر‘ پاک نبیؐ خیر البشر
روشن ہویا اسلام سب‘ نعرہ توحید دا ماریا
بت خانے بت سجدہ کرن‘ کلمہ نبی دا پئے پڑھن
ملیا جو رب تھیں رحمتاں‘ پاک نبیؐ در تارہیا
بت خانے سب توڑ کے‘ کفر شرک چھوڑ کے
ہر ہر طرف رسول دا، مومن اے نام تہارہیا
جیہڑے پیتاں نبی سنگ لا لین گے‘ ولی اوہ مراداں پا لین گے
پیارا نبی خدا دی رحمتوں‘ اُمت دے بیرے ترا رہیا
حکم ہو رب غفور کیتا، پاک نبی منظور کیتا
کفر شرک سب دور کیتا، صاف قرآن دکھا رہیا
فرشیؔ عاجز گنہگار نوں‘ درس دیہو بھکھیار نوں
عشق تساڈڑا یا نبیؐ! لوں لوں دے وچہ سما رہیا

جمعہ، 15 جون، 2012

صورت و سیرت پاک–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

صورت و سیرت پاک

حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی صورت اور سیرت مبارک آقائے نامدار رسالت مآبﷺ سے بہت مشابہہ تھی۔ آپ کی ذاتِ گرامی نہایت خوش طبع‘ قد دراز‘ نہایت موزوں تھا۔ رنگ سرخ و سفید مگر مصلحتاً دیکھنے میں قدرے گندمی محسوس ہوتا تھا۔ داڑھی مبارک گھنی اور پیشانی چوڑی تھی‘ سر کے بال گھنے اور سیاہ تھے‘ نہ زیادہ گھنگریالے اور نہ بالکل سیدھے۔ شانے گوشت سے بھرے ہوئے تھے۔ سینہ کشادہ اور فراخ تھا۔ ہتھیلیاں چوڑی اور کلائیاں لمبی تھیں۔ کندھوں‘ کلائیوں اور سینے پر بال تھے۔ پیشانی مبارک پر نورانی چاند تارا تھا۔ شانوں کے درمیان ابھرا ہوا گوشت تھا جس پر بال تھے۔ جسم گٹھا ہوا تھا، جوڑ بند مضبوط تھے‘ بدن کی ساخت اور جلد نرم و ملائم تھی۔ وجودِ اطہر سے نہایت عمدہ خوشبو آتی تھی۔ جن مریدین کو کبھی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا، ان کا کہنا ہے کہ اُن کے جسم سے ایسی خوشبو آتی تھی جس کے سامنے کستوری اور عنبر بھی ہیچ ہوتے۔
آپ کے چہرئہ اقدس پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی۔ قہقہہ مار کر کبھی نہ ہنستے۔ چہرۂ مبارک چودھویں رات کے چاند سے بھی زیادہ چمکدار اور روشن اور سفید ہوتا۔ جلوہ دیکھنے کی یہ سعادت اکثر مریدین کو نصیب ہوتی۔ آپ کی آواز بلند اور شیریں ہوتی۔ گفتگو ہمیشہ احسن طریق پر فرماتے۔ کلام میں فصاحت و بلاغت ہوتی۔ گفتگو میانہ روی سے کرتے۔ آپ کی رفتار عام لوگوں سے مختلف ہوتی۔ چلتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسے اونچائی سے نیچے کی طرف جا رہے ہیں۔ آپ چلتے تھے مگر آپ کے ساتھ چلنے والے لوگ بھاگ بھاگ کر آپ کا ساتھ دیتے۔ کوئی شخص آپ کے ساتھ قدم ملا کر نہ چل سکتا تھا۔
آپ نہایت مہربان اور رحم دل تھے ہر ایک سے محبت سے ملتے تھے۔ پہلی ملاقات میں ہر شخص آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔ نہایت سخی اور فیاض تھے۔ کسی کا سوال رد نہ فرماتے۔ خود بھوکے رہتے اور دوسروں کو کھلاتے۔
       

جمعہ، 8 جون، 2012

عہدِ شباب – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

عہدِ شباب

 

(1)    حضور سرکار عالی جوانی کے ایام میں تمام رات عبادتِ الٰہی میں مشغول رہتے۔ تمام دن ملازمت کے فرائض انجام دیتے۔ اکثر آنکھوں میں سرخ مرچیں ڈال لیتے تاکہ نیند نہ آئے۔ آپ کو سخت سردی کے موسم میں برف پر بیٹھ کر بھی یادِ الٰہی میں مصروف دیکھا گیا۔
(2)    ۱۹۱۴ء؁ میں حضور سرکار عالی نے تعلیم چھوڑ کر محکمہ واٹر ورکس سیالکوٹ میں ملازمت اختیار کر لی۔ ایک نئے تیار شدہ کنوئیں کی چیکنگ آپ کی ذمہ داری ٹھہری۔ آپ نے کوئیں میں نیچے جا کر ڈبکی لگائی اور ایک گھنٹے تک پانی کے اندر ہی رہے۔ اس پر لوگوں کو تشویش لاحق ہوئی لہٰذا آپ کی تلاش کے لئے غوطہ زن منگوائے گئے۔ وہ ابھی نیچے اترنے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ آپ پانی کی سطح پر نمودار ہو گئے یہ دیکھ کر لوگ محو حیرت رہ گئے۔ بعض افراد انجانے خوف کی وجہ سے بھاگ گئے۔ آپ کنوئیں سے باہر آ کر اطمینان سے بیٹھ گئے اور لوگوں کو آواز دے کر پاس بلایا اور ان لوگوں کے سامنے پھر یہ عمل دہرایا۔ اُن پر جب آپ کی کرامت ظاہر ہو گئی تو آپ نے استعفیٰ دے کر گھر کی راہ لی۔

پیر، 4 جون، 2012

Wiladat-e-Maula Ali (13th Rajab)

جشنِ ولادتِ مولا علی کرم اللہ وجہہ مبارک ہو۔

کسے را میسر نشد ایں سعادت

بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت

علی حق کے پیارے ید اللہ علی ہیں

 

IMG_0060

جمعہ، 1 جون، 2012

ملفوظاتِ محبوبِ ذات–عہدِ طفولیت

عہدِ طفولیت

حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز مادر زاد ولی تھے۔ بچپن ہی سے آپ کی کرامات کا ظہور شروع ہو گیا تھا۔ تبرکاً دو تین کرامات درج ہیں:۔
(1)    بچپن میں آپ برادری کے تمام گھروں کی بالائی کھا لیا کرتے تھے۔ جس روز پابندیوں کی وجہ سے ایسا نہ کرتے تو کسی کے گھر مکھن نہ نکلتا۔ اس لیے اہلِ قرابت نے پابندیاں ختم کر دیں اور مکھن نکلتا رہا۔
(2)    منڈیر شریف سے قریب تر قصبہ روڑس میں پرائمری اسکول تھا۔ لہٰذا سکول کی عمر کو پہنچنے پر اسی اسکول میں بزرگوں نے داخل کروا دیا۔ داخلے کے بعد ماسٹر صاحب نے سبق پڑھانا شروع کیا تو روائتی انداز میں کلاس سے کہا پڑھیں الف، آم۔ آپ خاموش رہے۔ ماسٹر صاحب نے دو تین بار ان الفاظ کو دھرایا۔ لیکن آپ پھر بھی خاموش رہے۔ اس پر ماسٹر صاحب نے آپ سے الف، آم پڑھنے کو کہا تو آپ نے فرمایا کہ الف آم نہیں الف اللہ ہے۔ یہ کہتے ہی زبان پر اللہ اللہ کا ورد جاری ہو گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جماعت کے تمام طلبہ اور ہندو ماسٹر بھی ذکر میں شامل ہو گئے۔ آدھ گھنٹے تک اللہ کا ذکر جاری رہا۔ سب حاضرین مدہوش ہو گئے۔ حضور پاک چپکے سے اٹھے اور گھر آ گئے۔ کئی روز بعد دوبارہ مدرسے گئے سب نے آپ کی تعظیم و تکریم کی۔ اس واقعہ کے بعد یہ عالم ہوا کہ آپ جن راہوں سے گذرتے وہاں پر موجود خورد و کلاں‘ مرد و زناں‘ جوان‘ سبھی احتراماً کھڑے ہو جاتے۔
(3)    ایک گھگو گھوڑے بیچنے والی نے آپ سرکار عالی کے کانوں میں سونے کی بالیاں دیکھ کر حسرت سے کہا کاش وہ بھی اپنی بیٹی کو ایسی بالیاں پہنا سکتی۔ یہ سنتے ہی آپ نے بالیاں اتار کر اس کے حوالے کر دیں اور اس کی تمنا پوری کر دی۔ آپ کے قلب فطرت شناس پر یہ راز فشاں تھا کہ انسانی خواہش سونے سے زیادہ قیمتی ہے۔
(4)    آپ کو جو خرچہ گھر سے ملتا وہ غریب طالب علموں میں تقسیم فرما دیتے۔ اکثر اوقات کرایہ بھی حاجت مندوں کو دے دیتے اور خود سیالکوٹ سے پیدل چل کر گھر آتے۔ روڑس سے پرائمری تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ سیالکوٹ شہر کے مشن ہائی سکول میں داخل ہو گئے۔
(5)    سرکار کے والد ماجد بچپن میں آپ کو داغ مفارقت دے گئے۔ آپ نے یتیمی کی حالت میں تقریباً آٹھ سال اپنے نانا محترم کی کفالت میں گذارے۔ نانا محترم کا چار ذوالحجہ کو وصال ہو گیا۔ ۱۰ سال کی عمر میں آپ کی والدہ محترمہ بھی رحلت فرما گئیں۔ ان کے بعد آپ کے دادا محترم سیّد حیدر علی شاہ بھی ملک عدم سدھارے۔ اس کے بعد آپ کی کفالت آپ کی دادی محترمہ‘ جو بہت بوڑھی تھیں‘ کے سپرد ہوئی۔ وہ بھی تھوڑے ہی عرصے بعد انتقال فرما گئیں۔ اس طرح حضرت محبوبِ ذات نے محبوبِ حقﷺ کی طرح اپنا بچپنا یتیمی میں گذارا کہ یتیمی حسنِ ذات بن گئی۔

جمعہ، 25 مئی، 2012

ملفوظاتِ محبوبِ ذات–حسن ذات محبوبیت

باب اوّل   (1)
حسنِ ذاتِ محبوب

 

حسنِ ذاتِ محبوبيت﷽

    الحمد لله رب العالمين والعاقبة المتقين نحمده ونصلی علی رسوله الکريم والصلوة والسلام علی اشرف الخلائق سيد الانبياء والمرسلِين خير المبشرِين والمنذرِين محبوب رب المشرقَين ورب المغربَين امام القبلتَين جد الحسن و الحسين سيدنا ونبينا ومولانا ومولاالثقلَين ابو القاسم محمد ابن عبد الله صلی الله عليه وسلم وعلی آله طيبين الطاهرين وعلی اصحابه اجمعين وآخر الدعونا ان الحمد لله رب العالمين۔
حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی حتی المقدر خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ آپ کے احکامات کو بجا لانے یعنی ان پر عمل کرنے کا طویل عرصہ تک شرف حاصل رہا۔ مجھے حضور پاک  کے ظاہری و باطنی فیوظات و برکات و تعلیمات سے فیضیاب ہونے کے مسلسل مواقع نصیب ہوئے۔ توحید کے اَسرار و رموز پر حضور محبوبِ ذات کے خطبات و مواعظ بلا واسطہ سماعت کرنے کا شرف بھی تاعین حیات میسر رہا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم یعنی توفیقِ ایزدی سے مجھے حضور پاک کی صحبت میں شب بیداری کا شرف تقریباً ربع صدی تک حاصل رہا جس سے مجھے حضور سرکار عالی کی صحبت میں بیٹھنے اور آپ کی محافل سے اکتساب فیض کرنے کے مواقع تواتر سے حاصل ہیں۔
حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کے خطبات و وعظ قرآنی تعلیمات پر مبنی ہوتے۔ آپ حضور کا حسنِ سلوک‘ اخلاق و کردار حضور اکرم ﷺ کے خُلقِ عظیم اور اُسوئہ حسنہ کا آئینہ دار ہوتا۔ آپ احکاماتِ خداوندی و قوانین شریعت و طریقت کی خود سختی سے پابندی فرماتے اور مریدین کو ان پر سختی سے پابند رہنے کی تلقین فرماتے۔ کبھی کوئی فعل یا عمل خلافِ شریعت
سر زد نہ ہوا۔ صوم و صلوٰۃ کی پابندی فرماتے کہ بیماری کی حالت میں بھی اسے ترک نہ فرماتے۔ ان کے نزدیک نماز اور روزہ ہی اصل اسلام ہیں کیونکہ یہ دونوں عبادتیں خدا کی ذات کے لیے مختص ہیں۔ پھر بھلا محبوب ذات ان سے گریز کیوں فرماتے؟ اکثر اوقات فاقہ کرتے۔ چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک مرتبہ فجر کے بعد برائے نام ناشتہ فرماتے اور وہ بھی باسی تنوری روٹی کے ٹکرے پر مشتمل ہوتا جسے سالن کے ساتھ حرارتِ حیات بناتے اور اس کے بعد آپ بڑے اطمینان کے ساتھ ہمہ وقت عبادت الٰہی میں مشغول رہتے۔ آپ کے وظائف کئی پہروں کے لئے وقف رہتے۔ خدمت ِ خلق کے لئے اپنی دنیاوی مصروفیات اور آرام و آسائش تک کو قربان کر دیتے۔ آپ حضور اکثر فرماتے کہ کوئی شخص اس وقت تک خدمت ِ عوام کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنی تمام تر مصروفیات اور آرام و آسائش کو قربان نہ کر دے اور خلقِ خدا کو اپنی ذاتی ضروریات پر ترجیح نہ دے۔

راقم الحروف کو حضور سرکار عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کے معاملات و معمولات کو بہت قریب سے مشاہدہ کرنے کا شرف حاصل ہے۔ اسی وجہ سے مریدین باصفا نے مجھے حضور محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی صحبت اور حاضری‘ آپ کی تعلیمات و فقر و معرفت کے اَسرار و رموز قلم بند کرنے کی طرف راغب کیا تاکہ انہیں حضور محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کے خطبات و فرمودات کتابی صورت میں میسر آ جائیں‘ اور انہیں زندگی میں ان سے عملاً استفادہ کرنے کی سعادت حاصل رہے‘ اور وہ حضور پاک کی تعلیمات سے پوری طرح مستفیض ہو سکیں‘ اور ان کے قلب و نظر میں نورِ روحانیت کا اضافہ ہو۔

الحمد للہ میں نے مریدین کے تقاضوں کو پورا کر دیا ہے۔ رب کائنات اور حاصل کائنات حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے توفیق عطا فرمائی اور یہ کتاب’’ ملفوظاتِ محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز‘‘ ضبطِ تحریر میں آئی جو شائع ہو کر مریدین باصفا یعنی حلقۂ "محبوبِ ذات " کے عاشقان تک پہنچ گئی ہے۔ میں نے "محبوبِ ذات" کو حسنِ ذاتِ محبوبیت کی صورت میں

دیکھ کر اپنے حسنِ عقیدت کو نکھار لیا ہے۔ مریدین و معتقدین اور متوسِّلین پر بھی فرض عائد ہوتا ہے کہ "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" سے مکمل استفادہ کریں‘ اسے حرزِ جان بنائیں اور اسے اپنے لئے راہنما اصول بناتے ہوئے اپنی آخرت و مغفرت کا سامان بنائیں۔ اس لئے کہ محض علم، لاحاصل ہے جب تک اس پر عمل نہ کیا جائے۔ خدا ہم سب کو اپنے مرشد کامل کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

خادم در محبوبِ ذات
سیّد افضال احمد حسین شاہ گیلانی
سجادہ نشین دربار عالیہ قادریہ احمد حسینیہ
منڈیر سیداں شریف

اتوار، 20 مئی، 2012

ملفوظاتِ محبوبِ ذات - حمد ربِ ذو الجلال از سالک

حمد رب ذو الجلال

اے خالق و مالک ربّ علیٰ، سبحان اللہ سبحان اللہ
تو رب ہے میرا میں بندہ تیرا سبحان اللہ سبحان اللہ
ہم مانگتے ہیں تو معلیٰ ہے، ہم بندے ہیں تو مولیٰ ہے
محتاج تیرا ہر شاہ و گدا سبحان اللہ سبحان اللہ
ہم جرم کریں تو عفو کرے، ہم قہر کریں تو مہر کرے
گھیرے ہے جہاں کو فضل تیرا سبحان اللہ سبحان اللہ
تو والی ہے ہر بے کس کا تو حامی ہے ہر بے بس کا
ہر اک کے لئے در تیرا کھلا سبحان اللہ سبحان اللہ
ہم عیبی ہیں ستار ہے تو، ہم مجرم ہیں غفار ہے تو
بدکاروں پر بھی ایسی عطا سبحان اللہ سبحان اللہ
تیرے عشق میں روئے مرغ سحر تیرا نام ہے مرہم زخم جگر
تیرے نام پہ میری جان فدا سبحان اللہ سبحان اللہ
یہ سالکؔ مجرم آیا ہے اور خالی جھولی لایا ہے
دے صدقہ رحمت عالم کا سبحان اللہ سبحان اللہ

سالکؔ

ہفتہ، 19 مئی، 2012

ملفوظاتِ محبوبِ ذات - آئينه تعارف

آئينه تعارف

حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز

 


ولادت باسعادت: 12 ربیع الاوّل 1317ھ بروز جمعۃ المبارک بمطابق 21 جولائی 1899ء
اسم مبارک: سیّد احمد حسین (قدس سرہٗ العزیز)
کنیت: ابو محمد
القابات: محبوبِ ذات، موئید الدین، نور اللہ
خطابات: سخی، لجپال، مہربان
تخلص:عاجزؔ
نسب: الحسنی والحسینی گیلانی
وصال مبارک: 21 شعبان 1380ھ بروز بدھ بمطابق 8 فروری 1961ء

جمعہ، 11 مئی، 2012

ترمیم و تدوین کی ضرورت کیوں پیش آئی؟–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

 

ترمیم و تدوین کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

 

نَحمد ہ وَ نصَلی عَلٰی رَسو لہ الکریم۔ امّا بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم۔

۔

قبل از ۲۰۰۳ء؁‘ ہم ’’ملفوظاتِ محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز‘‘ سے بالکل ناواقف تھے۔ ۲۰۰۳ء؁ کے بعد ہمیں ملفوظاتِ محبوبِ ذات کے بارے میں علم ہوا اور ہم نے بھی‘ دیگر معتقدین و مریدین کی طرح‘ بہت شوق سے اس کتاب کو خریدا۔ بہت دیر تک اسے نہ پڑھ سکے۔ ہمیشہ ہماری یہ ہی خواہش رہتی کہ اسے پڑھا جائے۔ چونکہ پہلے اسکول کے علاوہ کوئی کتاب نہ پڑھی تھی‘ اس لیے کتاب پڑھنا ہمارے لیے ایک مشکل ترین عمل تھا۔ اب جب بھی کبھی کوئی پرانا قصہ یاد آ جائے تو سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔

۲۰۰۷ء؁ سے قبل بہت دفعہ اس کتاب کو پڑھنے کی کوشش بھی کی ہو گی مگر پوری طرح کامیاب نہیں۔ پھر ایک دن سوچا کہ کیوں نہ یہ کتاب کمپیوٹر پر لکھی جائے تاکہ کل کو ویب سائٹ (website) پر بھی دی جا سکے۔ یوں تو پرانے ایڈیشن بھی کمپیوٹر پر ہی لکھے ہوئے تھے مگر ہم اس کو یونیکوڈ (Unicode) میں کرنا چاہتے تھے تاکہ بآسانی‘ کسی بھی شخص کے لیے‘ کچھ بھی تلاش کرنے کے لیے سہولت دستیاب رہے۔ ہم نے اس کتاب کو ایسے گہرے خیالات کی وادی میں اتر کر پڑھنا شروع کر دیا کہ یوں ہی محسوس ہوتا تھا کہ حضرت سخیٔ کامل سیّد محمد افضال احمد حسین گیلانی قدس سرہٗ العزیز (مصنف کتابِ ہذا) خود اس کتاب کو پڑھ کر سنا رہے ہوں۔ اسی دوران ایسے ایسے واقعات بھی رونما ہوئے کہ جنہیں یہاں پر زیرِ تحریر لانا ہمیں مناسب نہیں لگتا۔ ہمیں امید ہے کہ اگر آپ بھی اس کتاب کا عقیدت سے مطالعہ کریں گے تو آپ پر بھی عنایات کے بادلوں سے برکات کی بارش کا نزول ہو گا۔

 

 

۲۰۰۸ء؁ تک تو یہ کام مسلسل آرام سے چلتا رہا مگر اس کے بعد اس کا تسلسل بھی ٹوٹ گیا۔ کبھی اگر یاد آ جاتا تو اس کام کو دوبارہ جاری کر لیتے‘ ورنہ یہ اسی طرح ایک کونے میں پڑا رہتا۔ ہمارے ذہن میں تو شاید اگلے پانچ سالوں تک اس کی تکمیل کا نقشہ تک نہ تھا۔ ابھی تو صرف اسی طرح لکھی جا رہے تھے جس طرح یہ پہلے بے شمار چھوٹی چھوٹی اغلاط سے بھری پڑی تھی۔ چونکہ آیاتِ قرآنیہ بمع اعراب ایک مشکل کام تھا، اس لیے ایک کمپیوٹر میں لکھے ہوئے قرآن سے آیات نقل کرتے اور اس کتاب میں جوڑ دیتے۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ بعد میں آیات کے اعراب‘ پھر تصحیح اور پھر نظرِ ثانی کا کام جاتا رہا۔ چونکہ وہ قرآن کسی تنظیم نے نہیں لکھا تھا اور نہ ہی اس کی تصدیق کسی عالم یا ادارے نے کی تھی‘ اس لیے ان آیات کی بھی‘ قرآن سے دیکھ کر تصدیق ضروری تھی۔ گو یہ اُن صاحب کی بہت اچھی کاوش تھی مگر پھر بھی آخری چار سپاروں میں چند اغلاط موجود تھیں۔ اس کمپیوٹر میں لکھے ہوئے قرآن کو استعمال کرنے کا یہ بھی فائدہ ہوا کہ جن آیاتِ قرآنیہ کے حوالے پہلے کتاب میں موجود نہ تھے‘ وہ بھی بآسانی تلاش کر لی گئیں اور وہ حوالے بھی درج کر دیئے گئے تاکہ لوگوں کو تلاش کرتے ہوئے کوئی مشکل پیش نہ آئے اور تصدیق کرتے وقت بھی آیات تک بآسانی پہنچا جا سکے۔

          چونکہ ہمارا خیال تھا کہ اسے ابھی دو تین مرتبہ صرف اپنے لیے چھاپا جائے اور دو تین دفعہ تصحیح کے بعد پڑھا جائے‘ اس لیے اس کی اشاعت کا خیال تو ابھی ذہن کے کسی کونے میں بھی دور دور تک نہ تھا۔ ہمارا شروع سے ہی یہ خیال رہا ہے کہ غلطی انسان کی فطرت میں شامل ہے اور غلطی سرزد ہونا کوئی غیر معمولی عمل نہیں۔ اس لیے ہمیں ایک شے کو بار بار صحیح کرنا چاہیے اور مختلف اشخاص سے یہ عمل کروانا چاہیے۔ کافی مرتبہ‘ لکھنے والا بے حد احتیاط کے باوجود چند اغلاط کو تسلسل میں پڑھتے ہوئے نظر انداز کر دیتا ہے کیونکہ وہ تمام چیز اُس کے دماغ میں پہلے ہی بیٹھی ہوتی ہے۔ دوسرے شخص کے لیے یہ چیز پوری طرح نئی ہوتی ہے اور وہ اس کی عبارت اور متن سے ناواقفیت کی وجہ سے زیادہ احتیاط سے اغلاط کی نشاندہی کرتا ہے۔

چند اشخاص کے علم میں یہ بات تو آ چکی تھی کہ ملفوظاتِ محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز میں بہت سی ایسی اغلاط موجود ہیں کہ جن کی تصحیح لازمی ہے۔ مثلاّ:۔ آیاتِ قرآنیہ پر اعراب کی اغلاط وغیرہ۔ اکثر ہم نے ان اغلاط کے بارے میں حضرتِ سجادہ نشین کو مطلع کیا اور ان سے کہتے رہے کہ ہم نے بہت سی اغلاط کی نشاندہی کر لی ہے اور اس کتاب کی دوبارہ اشاعت سے قبل ہم سے ضرور رابطہ کریں۔ ایک دن حضرتِ سجادہ نشین نے اس کے متعلق پوچھا تو ہم نے کہا کہ ابھی پوری کتاب نہیں لکھی اور ہم نے اغلاط بھی کتاب کے اوپر لگائیں ہیں‘ کمپیوٹر پر نہیں۔ ہم سے وہ کتاب وصول کر لیں اور ان اغلاط کی تصحیح کروا لیں۔ لیکن حضرتِ سجادہ نشین نے کہا کہ ہم خود ہی‘ فارغ ہو کر‘ اس کتاب کو مکمل کر دیں۔ اس وقت تک ہمارا خیال تھا کہ جب ہم وہ کتاب تیار کر کے دیں گے‘ اس کے بعد اشاعت کا کام شروع ہو گا۔

آج کل کی تکنالوجی کی دنیا میں ان اغلاط کی وجہ تحریر کرنا کوئی ضروری چیز تو نہیں کیونکہ تقریباً ہر شخص اس سے آگاہ ہی ہوتا ہے مگر پھر بھی ہم چاہیں گے کہ یہاں اس چیز کی بھی تفصیل بیان کر دیں تاکہ ان لوگوں کو بھی اس کے بارے میں علم ہو جائے جو کمپیوٹر اور کمپیوٹر کے دور کی کتابت و اشاعت سے ناواقف ہیں۔ کمپیوٹر کی کتابت روایتی کتابت کی طرح نہیں۔ روایتی کتابت میں کاتب کے ہاتھ کو یہ علم ہوتا ہے کہ وہ کیا لکھ رہا ہے (جب تک اُس کا دماغ پوری طرح کتابت کی طرف ہو)جبکہ کمپیوٹر میں ہر بٹن ایک حرف کے لیے مخصوص ہے۔ عربی یا فارسی رسم الخط، لاطینی رسم الخط سے بہت زیادہ پیچیدہ ہے جس کی وجہ سے کمپیوٹر میں ایسی زُبانیں ابھی اتنی ترقی یافتہ نہیں جتنی لاطینی رسم الخط کی زبانیں ترقی یافتہ ہیں‘ گو کہ اب اردو بھی بہت ترقی کر چکی ہے۔ اس وجہ سے اردو میں اغلاط کا امکان لاطینی زبانوں سے بہت زیادہ ہوتا ہے‘ گو کہ دونوں زبانوں کے ٹائپسٹ (typist) یعنی لکھنے والے اغلاط تو ایک جتنی ہی کرتے ہیں۔

کتاب میں اغلاط کا سب سے پہلا ذمہ دار مصنف نہیں بلکہ ٹائپسٹ ہوتا ہے۔ پرانے وقتوں میں اس کام کو بخوبی انجام دینے کے لیے ہاتھ کو قابو میں رکھنا ہوتا تھا جبکہ آج کل اس کام کو بخوبی انجام دینے کے لیے ذہن کو قابو میں رکھنا ہوتا ہے۔ اردو میں تو جو اغلاط آتی ہیں سو آتی ہیں‘ قرآن کی آیات بھی اتنی ہی تیز رفتار میں لکھی جاتی ہیں‘ جس کی وجہ سے اعراب کا مسئلہ تو عام ہے۔ رسالہ ماہنامہ سوہنے مہربان کےلیے مفتی شفیع گولڑوی صاحب نے رائے دی تھی کہ آیات اور احادیث پر اعراب نہ لگائے جائیں۔ اس کے برعکس ہماری یہ رائے تھی کہ احادیث پر تو ٹھیک ہے مگر آیات پر اعراب لازماً لگائے جائیں تاکہ کوئی شخص انہیں غلط نہ پڑھے۔

اس غلطی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ چونکہ ہم لوگ عربی نہیں‘ اس وجہ سے ہمیں غور سے پڑھ کر بھی‘ قرآن کو ساتھ رکھے بغیر یہ سمجھ نہیں لگ سکتی کہ آیت میں غلطی کہاں ہے۔ اس غلطی سے بچنے کا ایک حل یہ ہے کہ ہمیں قرآنی آیات کے معاملہ میں کم از کم اپنے حافظے پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے اور کلامِ پاک کو کھول کر تصدیق کرنے کی بھی زحمت کر لینی چاہیے۔ یہ غلطیاں اگر عام ہیں تو یقیناً ملفوظاتِ محبوبِ ذات کے پرانے ہر ایڈیشن میں آئی ہیں اور اسی وجہ سے ہم انہیں یہاں تفصیل سے بیان کر رہے ہیں۔

دوسری طرح کی غلطی جو عام ہے وہ یہ ہے کہ ٹائپسٹ فقط اپنی جان چھڑانے کے لیے یا کتاب کی خوبصورتی کےلیے ضروری علامات مثلاً وقفہ اور فاصلہ وغیرہ نہیں لگاتے یا پھر یہ علامات بے جا لگا دیتے ہیں۔ در اصل پرانے زمانہ میں کاتب سطر میں چند الفاظ کو کشش کے ذریعے کھینچ کر حاشیہ برابر رکھتے تھے اور خوبصورتی برقرار رکھتے تھے کیونکہ فارسی رسم الخط میں الفاظ کے درمیان خالی جگہ نہیں ہوتی (جس طرح لاطینی رسم الخط میں ہر لفظ کے درمیان دیکھنے کو ملتی ہے) اور یہ خالی جگہ فارسی رسم الخط کی خوبصورتی کو کم کر دیتی ہے۔مگر گو کہ کمپیوٹر میں کشش کی سہولت بھی موجود ہے‘ ہم لوگوں کو ہزاروں روپیوں کی اصل سی۔ ڈی کی بجائے پندرہ یا بیس روپے کی نقلی سی۔ڈی خریدنا زیادہ آسان لگتا ہے۔ اس وجہ سے اُن پروگراموں میں کشش کی سہولت استعمال نہیں ہو سکتی جس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ٹائپسٹ بے جا علامات لگا دیتا ہے‘ اس چیز سے بے خبر کہ یہ عبارت کے معنی کو بھی بدل سکتی ہیں۔

ابھی ہمارے امتحانات شروع بھی نہ ہوئے تھے کہ حضرتِ سجادہ نشین فیصل آباد گئے تو پریس پر بھی تشریف لے گئے۔ وہاں جا کر آپ نے ہماری بات پریس والوں سے کروائی اور پھر ہمیں معلوم ہوا کہ نہ تو اس کتاب کی کوئی پرانی کمپیوٹر فائل موجود ہے اور نہ ہی یہ کتاب اتنی تعداد میں موجود ہے کہ عرس شریف کے موقع پر تقسیم کی جا سکے۔ مئی کے آغاز تک ہم نے اس کتاب کو مکمل کیا اور مئی کے اختتام پر لاہور‘ مرزا سعید صاحب کے پاس‘ گئے اور اسے نئے ڈیزائن میں تیار کیا اور اغلاط کی تصحیح کی پوری پوری کوشش کی۔ جولائی میں ملفوظاتِ محبوبِ ذات کا چوتھا ایڈیشن شائع ہو گیا۔

ایڈیشن چہارم کی تین خاص چیزیں‘ جو اسے مزید خوبصورت بناتی ہیں‘ وہ مندرجہ ذیل ہیں:

۱)       اردو میں کشش کا استعمال کیا گیا۔

۲)       قرآن کی آیات کے لیے وہی خط استعمال کیا گیا جو عموماً قرآنِ مجید کے پاکستانی نسخوں میں ملتا ہے۔ ایک تو لوگوں کو عادت کی وجہ سے اس خط میں پڑھنے میں آسانی ہو گئی اور آیات و اعراب بھی واضح ہو گئے‘ دوسرا یہ ہے اس میں نکتے کے بغیر والے شوشے اور بڑی چھوٹی‘ دونوں طرح کی‘ مد بھی لگی ہوئی تھی جو پرانے ایڈیشن میں نہ تھی۔

۳)       اس ایڈیشن میں حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کا سارا کلام شامل کر دیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ‘ قارئین کرام یہ باتیں پانچویں ایڈیشن میں بھی پائیں گے اور ان شاء اللہ‘ پانچویں ایڈیشن کو چوتھے ایڈیشن سے بہتر اور خوبصورت پائیں گے۔

چوتھے ایڈیشن سے لکھائی بھی چھوٹی کر دی گئی تھی تاکہ یہ کتاب اشتہار کم اور کتاب زیادہ لگے۔ گو کہ ہمیں اس چیز کا خیال ہے کہ بزرگوں کو کتاب پڑھنے میں دشواری ہو گی مگر ہم لوگ یہ بات بھی جانتے ہیں کہ جن بزرگوں کو پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے‘ وہ چشمہ بھی لگاتے ہیں جبکہ کتاب کی لکھائی بڑی رکھنے سے کتاب کی خوبصورتی میں کمی آ جاتی ہے۔ پھر بھی انسان ہونے کی حیثیت سے ہمارے خیالات غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ اختلافی صورت میں ہمیں آگاہ ضرور کریں۔

قبل از ایڈیشن چہارم‘ خلیفہ غلام مرتضیٰ صاحب نے ایک تجویز پیش کی تھی جو مجھے بہت پسند آئی۔ آپ نے فرمایا کہ آج کل کے نوجوان فارسی گنتی سے ناواقف ہیں۔ اس لیے جہاں فارسی گنتی ہے‘ وہاں ہندی گنتی لکھ دی جائے۔ چوتھے ایڈیشن میں فارسی گنتی کے ساتھ‘ قوسین کے اندر‘ ہندی گنتی بھی لکھ دی گئی ہے۔

علاوہ ازیں‘ ایک دو مقامات پر عبارت پڑھ کر‘ کم از کم مجھ سے‘ وہ معنی اخذ نہیں ہوتا جو اس کا مقصد ہے۔ ایک دفعہ تو شیطان بہکانے میں کامیاب بھی ہو گیا تھا۔ مثلاً فقر کے مقامات نیچے سے اوپر کی طرف جا رہے تھے جبکہ تیسرے درجہ پر پہلے رسول اللہ ﷺ کے درجہ کا ذکر آ گیا اور بعد میں حضرت محبوبِ ذات کے درجہ کا ذکر آیا اور ان الفاظ کے ساتھ آیا: ’’حبیب کے بعد محبوب کا درجہ ہے‘‘۔ یہ بات میرے لیے پریشانی کا باعث بن گئی کہ حبیب اور محبوب ایک ہی درجہ میں شامل ہیں اور حبیب کے بعد محبوب کا درجہ آتا ہے۔ علاوہ ازیں‘ یہ درجہ محبوب کو تو مل رہا ہے مگر انبیاء کو نہیں مل رہا۔ ہم‘ اس پریشانی سے باہر ایک قرآن کی آیت اور ایک حدیث کی مدد سے نکلے۔ پہلے تو وہ حدیث یاد آئی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے علمائے فقہ‘ بنی اسرائیل کے انبیاء کے برابر ہیں۔ اگر ایک عام عالمِ فقہ کا یہ حال ہے تو اولیاء کا کیا مقام ہو گا اور پھر اُن میں محبوبین کا کیا مقام ہو گا جن میں بارہ امام‘ غوث الاعظم اور محبوبِ الٰہی بھی آ جاتے ہیں۔ دوسری بات قرآنِ کریم کی اُس آیت سے سمجھ آ گئی جس میں اولو العزم نبیوں سے میثاق کا ذکر ہے۔ اُس میں صرف رسول اللہ ﷺ کا ذکر پہلے لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ترتیب ِ فضیلت سے کام لیا اور اُس کے بعد دیگر چاروں نبیوں کے نام ترتیب ِ بعثت کے مطابق لیے۔ اسی طرح اس کتاب میں بھی جب مصنف کا قلم تیسرے درجۂ فقر پر پہنچا تو پہلے حبیب کا تذکرہ آیا اور بعد میں محبوب کا تذکرہ آیا۔ اسی مناسبت سے وہاں جو لفظ ’’بعد‘‘ استعمال ہوا ہے‘ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ نیچے سے اوپر جاتے ہوئے حبیب کے بعد محبوب کا درجہ ہے۔ اسی لیے وہاں بعد کے ساتھ قوسین میں ’’نیچے‘‘ لکھ دیا گیا ہے تاکہ یہ نکتہ واضح رہے۔

اسی طرح ایک منقبت (کھینچی ہے خالق نے کیا تصویر میرے پیر کی) دیکھنے میں یوں لگتی ہے کہ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز نے اپنے پیر حضرت سیّد فتح علی شہباز صاحب کے لیے لکھی جس طرح باقی دو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے لیے لکھیں۔ مگر یہ منقبت حضرت محبوبِ ذات نے ظاہری بیعت سے پہلے لکھی۔ اس کی وضاحت نیچے نوٹ میں درج کر دی گئی ہے۔

چوتھے ایڈیشن کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس میں جگہ کو بچانے کی پوری پوری کوشش کی گئی ہے تاکہ کاغذ کا فضول استعمال نہ ہو اور اگر ہم ماحول کو بہتر نہیں بنا سکتے تو کم از کم اسے بد تر بنانے میں تاخیر سے کام لیں۔ اگر سرکارِ عالی رضی اللہ عنہ کا تمام کلام پرانے ایڈیشن میں‘ اُسی ڈیزائن میں‘ شامل کیا جاتا تو شاید وہ نئے ایڈیشن سے کئی زیادہ صفحات لیتا۔

چوتھا ایڈیشن ایک نیا اور خوبصورت ایڈیشن تھا مگر ابھی بھی ہمارے مطابق نہ تھا۔ اس میں دو حصوں میں دو طرح کی اغلاط ابھی بھی موجود تھیں۔ جو حصہ ہم اس سال سے پہلے لکھ چکے تھے‘ اس میں وہی اغلاط موجود تھیں جو پرانے ایڈیشن میں موجود تھیں اور ان میں سے بیشتر چوتھے ایڈیشن میں بھی آ گئیں۔ دوسرا حصہ‘ جو بعد میں لکھا، اس میں الفاظ کی اغلاط موجود تھیں جو پہلے ایڈیشن میں نہ تھیں کیونکہ اس پر نظرِ ثانی بھی ’’ثانی‘‘ کے لغوی معنوں میں ہی ہوئی تھی یعنی دوسری دفعہ سے زیادہ نہ ہوئی اور نہ ہی ہماری نظروں کو یہ موقع نصیب ہو سکا۔ پانچویں ایڈیشن میں‘ ہم نے وہ اغلاط نکالنے کی پوری پوری کوشش کی ہے۔

اس کے باوجود ہم دو باتیں عرض کرنا چاہیں گے۔ ایک تو یہ کہ غلطی انسان کی فطرت ہے اور انسان اتنا باریک بین نہیں کہ ہر غلطی کو پکڑ سکے۔ دوسری یہ کہ ہر انسان‘ ہر وقت‘ ہر پہلو پر غور نہیں کر سکتا۔ اس لیے ہماری آپ لوگوں سے گذارش ہے کہ اگر کوئی غلطی ہماری نگاہ سے بچ گئی ہو اور آپ لوگوں کو نظر آ جائے تو خدارا اُسے کتاب کی زینت ہی نہ بنے رہنے دیں۔ یہی سمجھ کر ہمیں اطلاع دے دیجئے گا کہ ہم بھی آپ کے بھائی ہیں اور بھائیوں کی غلطیوں کو درست کرنا بھی ایمان ہے‘ ہم ان غلطیوں کو ضرور درست کریں گے۔

آخری مسئلہ جو چوتھے ایڈیشن میں قارئین کرام کو پیش آیا ہو گا، وہ چند آیات کو پڑھنے میں دشواری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ الفاظ ٹوٹ گئے ہیں۔ حرف کا لفظ سے جدا ہونے اور الفاظ کے ٹوٹنے میں فرق ہے۔ الحمد للہ‘ پانچویں ایڈیشن میں اس مسئلہ کو بھی دور کرنے کی پوری پوری کوشش کی گئی ہے۔ یہاں میں قارئین کرام سے گذارش کرنا چاہوں گا کہ اگر کسی کو یہ دشواری پیش آ رہی ہے تو وہ چوتھا ایڈیشن واپس کر کے‘ اس کے بدلے میں پانچواں ایڈیشن حاصل کر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں‘ کتاب کے شروع میں مضامین کی فہرست بھی بنا دی گئی ہے۔

آخر میں پھر سے قارئین کرام سے گذارش کرتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا پہلو جو کتاب کی خوبصورتی میں یقیناً اضافہ کر سکتا ہو اور ہمارے ذہن میں نہ آیا ہو‘ بلا تکلف ہمیں بتائیں تاکہ آپ لوگوں کے مشوروں سے کتاب کو بہتر بنایا جا سکے۔ مصنف کتابِ ہذا، دربارِ عالیہ‘ اس کے مشائخ عظام اور اس کتاب پر محنت کرنے والے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کسی ایک عمل یا نیک ہستی کے صدقے میرے گناہ معاف فرمائیں۔

گناہ گار و سگ ِ دربار

سیّد شاہ رُخ کمال عفی عنہ

جمعہ، 4 مئی، 2012

تیرا سکھ وسے دربار منڈیراں والڑیا–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

تیرا سُکھ وَسّے دربار منڈیراں والڑیا

 

 مرشد دوراں‘ رہبر کامل حضرت سیّد افضال احمد حسین شاہ صاحب گیلانی قدس سرہٗ العزیز کی چشمِ اوّل‘ دکھی دلوں کے سہارے، درگاہ محبوبِ ذات کے تابندہ ستارے، گلشن سادات کے شجر سایہ دار، پھل پُھل دار‘ حضرت سیّد مبارک علی شاہ صاحب گیلانی اور میرے پیارے آقا کی چشمِ ثانی‘ حضرت سیّد شاہ کمال گیلانی سرکار نے "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" کی دوبارہ اشاعت کے لئے جب ہماری ڈیوٹی لگائی تو سر چکرا گیا کہ اتنی بڑی ذمہ داری کیسے نبھائی جائے گی۔ "من آنم کہ من دانم" والا معاملہ تھا۔ اپنی کم علمی اور کم مائیگی پیش نظر تھی۔ لیکن پاسِ ادب بھی ملحوظِ خاطر تھا۔

بہر حال آپ شہزادگانِ عالی مرتبت دامت برکاتہم العالیہ کی دعاؤں اور تعاون سے دوسرا ایڈیشن آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ قارئینِ محترم کی نظر میں اس کتاب کی اشاعت و کتابت میں جو غلطی اور کوتاہی پائی جائے اس کے لئے ہم پیشگی معذرت خواہ ہیں اور اس کتاب کے بین السطور میں میرے اور آپ کے آقا و مولیٰ حضرت سیّد افضال احمد حسین شاہ صاحب گیلانی قدس سرہٗ العزیز نے جو نورانیت بھری ہے، محبت کے جو دبوستان کھلائے ہیں اور حکمت و معرفت کے جو موتی بکھیرے ہیں‘ ان کو اپنے دامن میں سمیٹ کر فلاحِ دارین حاصل کیجئے۔ "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" کا کمال یہ ہے کہ آپ اس کتاب کا جتنی مرتبہ بھی مطالعہکریں گے نئی سے نئی شان ظاہر ہو گی‘ نئے جلوے ہوں گے‘ نئی لذت ملے گی اور ہر بات کے نئے سے نئے معانی آپ پر القا ہوں گے اور بے ساختہ آپ کی روح پکار اٹھے گی۔

تیرا سکھ وسے دربار منڈیراں والڑیا

تیرا وسدا روے گھر بار منڈیراں والڑیا

خاک در مہربان

خلیفہ محمد سعید مرزا قادری کمالیہ

حافظ محمد اسلم قادری

جمعہ، 27 اپریل، 2012

نذرِ نظر–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

نذرِ نظر

میرے لئے یہ بڑا عزاز ہے کہ میں بیسوی صدی کی ایک بزرگ ترین شخصیت کے بارے میں لکھی جانے والی کتاب "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" پر اظہارِ رائے کے لئے قلم اٹھا رہا ہوں۔ یہ مبارک لمحہ مجھے محترم صاحبزادہ سیّد مبارک علی شاہ‘ خَلفَ الرشید حضرت قبلہ سیّد افضال احمد حسین شاہ مدظلہ العالی‘ سے حاصل ہوا۔ مسودہ کتاب کے چند اوراق پڑھنے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں کسی ذات محبوب کا حصہ بن رہا ہوں۔ حالات و واقعات کے آئینہ میں مجھے صاف دکھائی دینے لگا کہ حضرت قبلہ محبوب ذات سیّد احمد حسین شاہ قدس سرہٗ العزیز اپنے دور کے مقبولِ خدا اور محبوبِ مصطفےٰ ﷺ بزرگ تھے۔ مجھے افسوس ہونے لگا کہ میں اس دور میں ہوتے ہوئے ان روحانی جلوت آرائیوں سے کیوں محروم رہا۔ لیکن فقیر کو یہ سعادت حاصل ہے کہ عکسِ محبوبِ ذاتحضرت قبلہ سیّد افضال احمد حسین شاہ سجادہ نشین دربار محبوبِ ذاتدامت برکاتہم العالیہ میرے کرم فرماؤں میں شامل ہیں۔ مجھے متعدد روحانی محفلوں میں ان کی زینت ِ پہلو بننے کا شرف حاصل ہو چکا ہے۔ حضرت قبلہ سیّد افضال احمد حسین شاہ صاحب مدظلہ العالی اس تصنیف ِ لطیف "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" کے مصنف ہیں۔ اس کتاب کا حرف حرف ان کے مشاہدات کا امین ہے اس لیے کہ آپ کی زندگی کے تمام لمحاتِ حیات بارگاہِ محبوبِ ذات ہی میں گزرے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے حضرت محبوبِ ذات‘ فخر سادات قبلہ سیّد احمد حسین شاہ گیلانی الحسنی کی عظمتِ روحانی اور ان کے شرفِ انسانی کا پتہ چلتا اور یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مقرّبِ الٰہی ہونا اس کے حصہ میں آتا ہے جو اپنے محبوب کی ذات کا حصہ بننے کے لئے اپنی ذات و صفات کو محبوبِ حقیقی کی صفات سے متصف کر دے۔ "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" کے مطالعہ سے روحانیت کے اَسرار و رموز کا پتہ چلتا ہے۔ شریعت ِ دین متین پر کاربند ہونے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اسلام کی حقانیت و نورانیت سے دل و دماغ منور ہو جاتے ہیں۔ اس کتاب کا مطالعہ نہ صرف مریدوں، عقیدت مندوں اور ارادتمندوں بلکہ ہر مسلمان کے لئے راہنما ہو سکتا ہے۔

علامہ اختر سدیدی

چیف ایڈیٹر روزنامہ سعادت فیصل آباد، لاہور

جمعہ، 20 اپریل، 2012

نذرانۂ تشکر۔ ہدیۂ تبریک–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

نذرانہ تشکر

 

ہم زبدۃُ العارفین، زینتَ السّالکین، راہبر و اصلین، سراج السّالکین، زیب و زینت سجّادہ دربار عالیہ، عکس "محبوبِ ذات" حضرت قبلہ و کعبہ سیّد افضال احمد حسین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے بے حد مشکور ہیں کہ آپ نے بالعموم تمام مسلمانوں اور بالخصوص تمام مریدین کی راہنمائی کے لئے "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" تصنیف فرمائی۔ ایسی تصنیف سے مسلمانوں میں علم الیقین‘ مومنین میں عین الیقین اور سالکین میں حق الیقین کا شعور بیدار ہوتا ہے۔ اور فرمانِ رسول ﷺ کے مطابق عند الذّکر الصّالِحين تَتَنَزَّل الرّحمة (صالحین کا تذکرہ کرنے سے رحمت الٰہی کا نزول ہوتا ہے)۔ انسان رحمتوں کے جھرمٹ میں آ جاتا ہے۔ اللہ کے محبوب بندوں سے محبت بڑھتی ہے۔

مانا کہ عمل قبر کا سرمایہ ہیں مگر

افضل ہے ہر عمل سے محبت حضورؐ کی

پھر یہی محبت عشق کی وادیوں میں لے جاتی ہے۔ بقول مولانا روم

دین سراپا سوختن اندر طلب

انتہائش عشق آغازش ادب

اور صحیح معنون میں انسان کامل کا نقشہ پیش کرتا ہے اور یہ نقشہ نقش پائے "محبوبِ ذات" کی عملی زندگی کو دل میں نقش کرنے سے مرتب ہوتا ہے۔

خلیفہ غلام علی (ٹوبہ ٹیک سنگھ)

ڈاکٹر عباس علی قادری (کمالیہ)

 

 

ہدیہ تبریک

 

"روحانی مراکز" کی تاریخ مرتب کرنا اور روحانی شخصیتوں کی یادوں کو محفوظ کرنا کارِ عظیم ہے اور یہ کارِ عظیم ایک شخص انجام نہیں دے سکتا۔ یہ سعادت عظیم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ پیش نظر کتاب "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" ایک عظیم روحانی اور قلمی شاہکار ہے۔ جو میرے پیر طریقت‘ مرشد ِ کامل‘ حضرت سیّد افضال احمد حسین شاہ گیلانی دامت برکاتہم العالیہ کے قلم کا اعجاز ہے۔ اس عظیم تاریخی اور روحانی قلمی شاہکار کے مطالعہ سے حضرت محبوبِ ذات کی ذاتِ والا صفات کا ایک ایک پہلو نگاہوں سے گذر کر دل کی دھڑکنوں میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ میرے مولا اور شیخ طریقت قبلہ سیّد افضال احمد حسین مدظلہ العالی ہزار مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے۔ جو ابد الآباد تک طالبینِ حق کے لئے مشعل راہ ثابت ہو گا۔

خلیفہ محمد نسیم

سمن آباد فیصل آباد

 

مہربان تیرا شکریہ                      مہربان تیرا شکریہ

مہربان تیرا شکریہ

خلیفہ محمد اسماعیل

سمن آباد، فیصل آباد