جمعہ، 29 جون، 2012

عمر عزیز–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

عمر عزیز

حضور سرکار عالی قدس سرہٗ العزیز نے تریسٹھ سال کی عمر مبارک پائی۔ آپ جیسے محبوب کو یہ کیونکر گوارا ہوتا کہ ساری حیات مقدسہ نقشِ پائے رسالت مآب ﷺ ہو اور ظاہری طور پر وہ ان کے وقت حیات سے زیادہ پسند فرماویں۔ بے شک اہلِ ایقان میں سے کم ہی ایسے بزرگ ہوئے ہیں جنہیں یہ نسبت بھی عطا ہوئی ہو۔ آپ کا وصال ۱۳۸۰ھ؁ میں ہوا۔
 

جمعہ، 22 جون، 2012

لباس مبارک–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

لباس مبارک

آپ کا لباس بہت سادہ مگر نہایت صاف ستھرا ہوتا۔ آپ نے عمر کے آخری حصے میں عربی لباس زیب تن فرمایا، جس کے اوپر سبز یا سیاہ رنگ کا قبا ہمیشہ پہنتے تھے۔ آپ سیاہ اور سبز رنگ کی بہت تعظیم فرماتے۔ سیاہ رنگ کا جوتا کبھی نہ پہنتے۔ مریدین کی محافل میں زمین پر مسند لگا کر رونق افروز ہوتے۔ سفید رنگ کا لباس زیادہ پسند فرماتے۔ شیروانی بھی اکثر زیب تن فرماتے۔ آپ پیٹی باندھتے۔ پیٹی میں تلوار اور خنجر اور پستول‘ گلے مبارک میں قرآن مجید بھی حمائل ہوتا۔ دائیں دست ِ مبارک میں چاندی کی انگوٹھیاں بھی پہنتے۔ نگینہ عموماً یمنی یاقوت کا ہوتا۔ پاؤں میں سادہ مکیشن پہنتے۔ گولڈن چشمہ سادہ لگاتے۔ آپ کے استعمال کی چیزیں کنگھی، سرمہ دانی، لباس، مصلّٰے، تسبیح، قرآن مجید، انگوٹھیاں اور تمام تبرکات بحفاظت میرے پاس موجود ہیں۔

اتوار، 17 جون، 2012

Shab-e-Mairaj


شبِ معراج رسول نوں پروردگار پکاریا
عرشِ بریں اُتّے آ ذرا، میرے محمد پیاریا!
لگڑا درد پیار دا! عشق اے تیرے دیدار دا
درس دکھا ہُن آن کے‘ عرشِ بیرں دیا تاریا!
اَج معراج دی رات ہے‘ تیری میری اِک بات ہے
منگ لے جو اَج منگنا ایں‘ ماہِ جبیں ستاریا
آکھیا رب جلیل نے‘ منیاں جبرائیل نے
پاک نبی دے در اُتے‘ آن برّاق کھلہاریا
ستیاں سیکھ رسول نوں‘ اللہ دے مقبول نوں
جھل پراں نال مار کے‘ سرور نوں پیا جگا رہیا
پیراں نوں مل مل کےاپنے پر‘ خوابوں جگا لے نبی سرورؐ
ہون سوار برّاق تے‘ خالق اے اَج بلا رہیا
پہن پوشاک تیار ہوئے‘ پڑھ بسم اللہ سوار ہوئے
رب دا شکر گزار ہوئے‘ خودی دا دم نہ ماریا
پہنچے چوتھے آسمان جا‘ بولے پیمبر صلےٰ علیٰ
ہون مبارکاں یا نبیؐ! رب نے کاج سنواریا
صدقے نبیؐ تیری شان دے‘ صفت لکھی وچہ قرآن دے
تیں لئی وچہ جہان دے‘ رب قرآن اتاریا
جدوں گئے چھیویں فلک‘ جبرائیل بولے اَج تلک
ایدوں اگے ہُن یا نبیؐ! میں کدے دم نہ ماریا
جبرائیل نوں چھوڑ کر‘ واگ براق کی موڑ کر
شعلہ ڈٹھا اِک نور دا، اَگے نوں قدم الاریا
رحمتوں ربِ غفور دے پردے گئے لنگھ دور دے
آون آوازاں غیب تھیں‘ جھبدے آ مل پیاریا
پردہ ہے اِک میم دا، مالک ہے عرشِ عظیم دا
تیرا میرا اِک بھید ہے‘ کمبل پوش اُتاریا
جدوں ہوئی ملاقات سی‘ مل گئی ذات صفات سی
مخفی جیہڑی گل بات سی‘ ظاہر سی نظریں آ رہیا
ہو گیا وصل وصال جے‘ پایا نبیؐ نے جمال جے
اُمت دا کیتا سوال جے‘ بخش دے بخشنہاریا
نہ کرو امت دا غم ذرا، تاج شفاعت دا دتا پہنا
بخش دی سب امت تیری‘ میرے محبوب پیاریا
آئے عرش اُتے سیر کر‘ پاک نبیؐ خیر البشر
روشن ہویا اسلام سب‘ نعرہ توحید دا ماریا
بت خانے بت سجدہ کرن‘ کلمہ نبی دا پئے پڑھن
ملیا جو رب تھیں رحمتاں‘ پاک نبیؐ در تارہیا
بت خانے سب توڑ کے‘ کفر شرک چھوڑ کے
ہر ہر طرف رسول دا، مومن اے نام تہارہیا
جیہڑے پیتاں نبی سنگ لا لین گے‘ ولی اوہ مراداں پا لین گے
پیارا نبی خدا دی رحمتوں‘ اُمت دے بیرے ترا رہیا
حکم ہو رب غفور کیتا، پاک نبی منظور کیتا
کفر شرک سب دور کیتا، صاف قرآن دکھا رہیا
فرشیؔ عاجز گنہگار نوں‘ درس دیہو بھکھیار نوں
عشق تساڈڑا یا نبیؐ! لوں لوں دے وچہ سما رہیا

جمعہ، 15 جون، 2012

صورت و سیرت پاک–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

صورت و سیرت پاک

حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی صورت اور سیرت مبارک آقائے نامدار رسالت مآبﷺ سے بہت مشابہہ تھی۔ آپ کی ذاتِ گرامی نہایت خوش طبع‘ قد دراز‘ نہایت موزوں تھا۔ رنگ سرخ و سفید مگر مصلحتاً دیکھنے میں قدرے گندمی محسوس ہوتا تھا۔ داڑھی مبارک گھنی اور پیشانی چوڑی تھی‘ سر کے بال گھنے اور سیاہ تھے‘ نہ زیادہ گھنگریالے اور نہ بالکل سیدھے۔ شانے گوشت سے بھرے ہوئے تھے۔ سینہ کشادہ اور فراخ تھا۔ ہتھیلیاں چوڑی اور کلائیاں لمبی تھیں۔ کندھوں‘ کلائیوں اور سینے پر بال تھے۔ پیشانی مبارک پر نورانی چاند تارا تھا۔ شانوں کے درمیان ابھرا ہوا گوشت تھا جس پر بال تھے۔ جسم گٹھا ہوا تھا، جوڑ بند مضبوط تھے‘ بدن کی ساخت اور جلد نرم و ملائم تھی۔ وجودِ اطہر سے نہایت عمدہ خوشبو آتی تھی۔ جن مریدین کو کبھی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا، ان کا کہنا ہے کہ اُن کے جسم سے ایسی خوشبو آتی تھی جس کے سامنے کستوری اور عنبر بھی ہیچ ہوتے۔
آپ کے چہرئہ اقدس پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی۔ قہقہہ مار کر کبھی نہ ہنستے۔ چہرۂ مبارک چودھویں رات کے چاند سے بھی زیادہ چمکدار اور روشن اور سفید ہوتا۔ جلوہ دیکھنے کی یہ سعادت اکثر مریدین کو نصیب ہوتی۔ آپ کی آواز بلند اور شیریں ہوتی۔ گفتگو ہمیشہ احسن طریق پر فرماتے۔ کلام میں فصاحت و بلاغت ہوتی۔ گفتگو میانہ روی سے کرتے۔ آپ کی رفتار عام لوگوں سے مختلف ہوتی۔ چلتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسے اونچائی سے نیچے کی طرف جا رہے ہیں۔ آپ چلتے تھے مگر آپ کے ساتھ چلنے والے لوگ بھاگ بھاگ کر آپ کا ساتھ دیتے۔ کوئی شخص آپ کے ساتھ قدم ملا کر نہ چل سکتا تھا۔
آپ نہایت مہربان اور رحم دل تھے ہر ایک سے محبت سے ملتے تھے۔ پہلی ملاقات میں ہر شخص آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔ نہایت سخی اور فیاض تھے۔ کسی کا سوال رد نہ فرماتے۔ خود بھوکے رہتے اور دوسروں کو کھلاتے۔
       

جمعہ، 8 جون، 2012

عہدِ شباب – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

عہدِ شباب

 

(1)    حضور سرکار عالی جوانی کے ایام میں تمام رات عبادتِ الٰہی میں مشغول رہتے۔ تمام دن ملازمت کے فرائض انجام دیتے۔ اکثر آنکھوں میں سرخ مرچیں ڈال لیتے تاکہ نیند نہ آئے۔ آپ کو سخت سردی کے موسم میں برف پر بیٹھ کر بھی یادِ الٰہی میں مصروف دیکھا گیا۔
(2)    ۱۹۱۴ء؁ میں حضور سرکار عالی نے تعلیم چھوڑ کر محکمہ واٹر ورکس سیالکوٹ میں ملازمت اختیار کر لی۔ ایک نئے تیار شدہ کنوئیں کی چیکنگ آپ کی ذمہ داری ٹھہری۔ آپ نے کوئیں میں نیچے جا کر ڈبکی لگائی اور ایک گھنٹے تک پانی کے اندر ہی رہے۔ اس پر لوگوں کو تشویش لاحق ہوئی لہٰذا آپ کی تلاش کے لئے غوطہ زن منگوائے گئے۔ وہ ابھی نیچے اترنے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ آپ پانی کی سطح پر نمودار ہو گئے یہ دیکھ کر لوگ محو حیرت رہ گئے۔ بعض افراد انجانے خوف کی وجہ سے بھاگ گئے۔ آپ کنوئیں سے باہر آ کر اطمینان سے بیٹھ گئے اور لوگوں کو آواز دے کر پاس بلایا اور ان لوگوں کے سامنے پھر یہ عمل دہرایا۔ اُن پر جب آپ کی کرامت ظاہر ہو گئی تو آپ نے استعفیٰ دے کر گھر کی راہ لی۔

پیر، 4 جون، 2012

Wiladat-e-Maula Ali (13th Rajab)

جشنِ ولادتِ مولا علی کرم اللہ وجہہ مبارک ہو۔

کسے را میسر نشد ایں سعادت

بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت

علی حق کے پیارے ید اللہ علی ہیں

 

IMG_0060

جمعہ، 1 جون، 2012

ملفوظاتِ محبوبِ ذات–عہدِ طفولیت

عہدِ طفولیت

حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز مادر زاد ولی تھے۔ بچپن ہی سے آپ کی کرامات کا ظہور شروع ہو گیا تھا۔ تبرکاً دو تین کرامات درج ہیں:۔
(1)    بچپن میں آپ برادری کے تمام گھروں کی بالائی کھا لیا کرتے تھے۔ جس روز پابندیوں کی وجہ سے ایسا نہ کرتے تو کسی کے گھر مکھن نہ نکلتا۔ اس لیے اہلِ قرابت نے پابندیاں ختم کر دیں اور مکھن نکلتا رہا۔
(2)    منڈیر شریف سے قریب تر قصبہ روڑس میں پرائمری اسکول تھا۔ لہٰذا سکول کی عمر کو پہنچنے پر اسی اسکول میں بزرگوں نے داخل کروا دیا۔ داخلے کے بعد ماسٹر صاحب نے سبق پڑھانا شروع کیا تو روائتی انداز میں کلاس سے کہا پڑھیں الف، آم۔ آپ خاموش رہے۔ ماسٹر صاحب نے دو تین بار ان الفاظ کو دھرایا۔ لیکن آپ پھر بھی خاموش رہے۔ اس پر ماسٹر صاحب نے آپ سے الف، آم پڑھنے کو کہا تو آپ نے فرمایا کہ الف آم نہیں الف اللہ ہے۔ یہ کہتے ہی زبان پر اللہ اللہ کا ورد جاری ہو گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جماعت کے تمام طلبہ اور ہندو ماسٹر بھی ذکر میں شامل ہو گئے۔ آدھ گھنٹے تک اللہ کا ذکر جاری رہا۔ سب حاضرین مدہوش ہو گئے۔ حضور پاک چپکے سے اٹھے اور گھر آ گئے۔ کئی روز بعد دوبارہ مدرسے گئے سب نے آپ کی تعظیم و تکریم کی۔ اس واقعہ کے بعد یہ عالم ہوا کہ آپ جن راہوں سے گذرتے وہاں پر موجود خورد و کلاں‘ مرد و زناں‘ جوان‘ سبھی احتراماً کھڑے ہو جاتے۔
(3)    ایک گھگو گھوڑے بیچنے والی نے آپ سرکار عالی کے کانوں میں سونے کی بالیاں دیکھ کر حسرت سے کہا کاش وہ بھی اپنی بیٹی کو ایسی بالیاں پہنا سکتی۔ یہ سنتے ہی آپ نے بالیاں اتار کر اس کے حوالے کر دیں اور اس کی تمنا پوری کر دی۔ آپ کے قلب فطرت شناس پر یہ راز فشاں تھا کہ انسانی خواہش سونے سے زیادہ قیمتی ہے۔
(4)    آپ کو جو خرچہ گھر سے ملتا وہ غریب طالب علموں میں تقسیم فرما دیتے۔ اکثر اوقات کرایہ بھی حاجت مندوں کو دے دیتے اور خود سیالکوٹ سے پیدل چل کر گھر آتے۔ روڑس سے پرائمری تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ سیالکوٹ شہر کے مشن ہائی سکول میں داخل ہو گئے۔
(5)    سرکار کے والد ماجد بچپن میں آپ کو داغ مفارقت دے گئے۔ آپ نے یتیمی کی حالت میں تقریباً آٹھ سال اپنے نانا محترم کی کفالت میں گذارے۔ نانا محترم کا چار ذوالحجہ کو وصال ہو گیا۔ ۱۰ سال کی عمر میں آپ کی والدہ محترمہ بھی رحلت فرما گئیں۔ ان کے بعد آپ کے دادا محترم سیّد حیدر علی شاہ بھی ملک عدم سدھارے۔ اس کے بعد آپ کی کفالت آپ کی دادی محترمہ‘ جو بہت بوڑھی تھیں‘ کے سپرد ہوئی۔ وہ بھی تھوڑے ہی عرصے بعد انتقال فرما گئیں۔ اس طرح حضرت محبوبِ ذات نے محبوبِ حقﷺ کی طرح اپنا بچپنا یتیمی میں گذارا کہ یتیمی حسنِ ذات بن گئی۔