جمعہ، 10 اگست، 2012

مہمان نوازی–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

مہمان نوازی

حضور سرکارِ عالی تمام مریدین و حاضرینِ دربار کی بہترین کھانوں سے تواضع فرماتے لیکن خود اپنے معمول کے کھانے پر اکتفا فرماتے۔ حاضرین کو ہر طرح کی آسائش بہم پہنچاتے۔ کھانا اور بستر وغیرہ ہر ایک کو مہیا فرماتے۔ آپ کی مہمان نوازی کا اہم نکتہ یہ تھا کہ آپ رات کا کھانا اس خیال سے تناول نہ فرماتے مبادا کوئی شخص رات کو دیر سے دربار شریف آئے تو کھانا کھائے بغیر نہ سوئے۔ اگر کبھی ایسی صورت پیدا ہوتی تو آپ اپنا کھانا لا کر اس شخص کو دے دیتے۔ اس اصول پر تمام عمر پابند رہے تاکہ روزِ محشر کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ وہ آپ کے دربار میں رات کو بھوکا سویا تھا۔ آپ کا یہ سنہری اصول اُسوۂ حسنہ کی بہترین مثال ہے۔

صوفی عبد العزیز ٹھیکیدار اور خلیفہ شیر محمد‘ کار میں نقص پیدا ہونے کی وجہ سے رات کے گیارہ بچے دربار شریف پہنچے۔ اس وقت لنگر تقسیم ہو چکا تھا۔ حضور سرکار عالی نے گھر سے اپنا کھانا لا کر ان کو کھلایا اور خود بھوکے رہے۔
ڈاکٹر احمد علی صاحب‘ پی۔ ایچ۔ ڈی‘ اپنی والدہ اور دوست‘ مجتبےٰ حسن صاحب‘ کے ہمراہ اس وقت دربار شریف پہنچے جب لنگر تقسیم ہو چکا تھا۔ یہ تینوں حضرات اس وقت حلقۂ غلامی میں شامل نہ تھے۔ حضور سرکارِ عالی نے مہمانوں کے لئے گھر سے اپنا اور بچوں کا کھانا لا کر انہیں دے دیا۔ اگلے روز ڈاکٹر صاحب کی والدہ نے ان کو بتایا کہ وہ کھانا بچوں کے لئے تھا جو حضور پاک نے لا کر مہمانوں کو دے دیا اور بچوں کو ان کی والدہ نے تھپک تھپک کر سلا دیا۔ اس سے بہتر ایثار اور مہمان نوازی کی مثال کیا ہو سکتی ہے؟ ما سوا خانودۂ رسالت مآب ﷺ کے‘ کسی دوسری جگہ اخلاق محمدی ﷺ کا یہ بہترین اور صحیح نمونہ نہیں ملے گا۔ ڈاکٹر صاحب کی والدہ نے یہ بھی بتایا کہ اُنہوں نے ایسی ایثار کی مثال ایران اور عراق میں بھی نہیں دیکھی۔ اس حسنِ اخلاق سے مثاثر ہو کر تینوں مہمانوں نے آپ کے دست ِ حق پر بیعت کر لی۔ ڈاکٹر احمد علی صاحب (پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور) اکثر اس واقع کا دوستوں میں ذکر کیا کرتے تھے۔

اے دل حضورِ حق میں عجز و نیاز ہو جا
دل نذرِ ناز کر دے اور دل نواز ہو جا
فطرت کوئی نتیجہ خود ہی نکال لے گی
بندہ اسی کا بن کر بندہ نواز ہو جا


جمعہ، 3 اگست، 2012

وسیع القلبی–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

وسیع القلبی

آپؒ کسی کے سوال کو کبھی رد نہ فرماتے۔ جس کی زندہ مثالیں یہ ہیں کہ آپ کے پاس ایک نہایت قیمتی بلجیم ساخت کی بندوق تھی۔ ایک روز صفائی کے لئے کو َر سے باہر نکالی۔ حاضرین میں سے چمپئین سٹور نیلا گنبد لاہور کے مالک کی نگاہ بندوق پر پڑی تو بندوق حاصل کرنے کے لئے اس کا دل للچایا۔ آپؒ پر اس کا حال دل منکشف ہوا تو آپؒ نے بلا تامل بندوق اس کے حوالے کر دی۔
آپؒ کے پاس ایک پارکر کا گولڈن قیمتی قلم تھا۔ آپؒ کے ایک مرید قاضی صاحب‘ پولیس سب انسپکٹر‘ نے چاہا کہ ایسا قلم اس کے پاس بھی ہونا چاہیے۔ ابھی وہ سوچ رہا تھا کہ بلا تاخیر وہ قلم اس کے سپرد کر دیا۔ دونوں مریدین کے پاس یہ تبرکات آج بھی موجود ہیں۔ دیگر ایسی لا تعداد مثالیں ہیں جو سرکارِ عالی  کی وسیع القلبی‘ سخاوت اور عطاء کا پتا دیتی ہیں۔