جمعہ، 27 اپریل، 2012

نذرِ نظر–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

نذرِ نظر

میرے لئے یہ بڑا عزاز ہے کہ میں بیسوی صدی کی ایک بزرگ ترین شخصیت کے بارے میں لکھی جانے والی کتاب "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" پر اظہارِ رائے کے لئے قلم اٹھا رہا ہوں۔ یہ مبارک لمحہ مجھے محترم صاحبزادہ سیّد مبارک علی شاہ‘ خَلفَ الرشید حضرت قبلہ سیّد افضال احمد حسین شاہ مدظلہ العالی‘ سے حاصل ہوا۔ مسودہ کتاب کے چند اوراق پڑھنے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں کسی ذات محبوب کا حصہ بن رہا ہوں۔ حالات و واقعات کے آئینہ میں مجھے صاف دکھائی دینے لگا کہ حضرت قبلہ محبوب ذات سیّد احمد حسین شاہ قدس سرہٗ العزیز اپنے دور کے مقبولِ خدا اور محبوبِ مصطفےٰ ﷺ بزرگ تھے۔ مجھے افسوس ہونے لگا کہ میں اس دور میں ہوتے ہوئے ان روحانی جلوت آرائیوں سے کیوں محروم رہا۔ لیکن فقیر کو یہ سعادت حاصل ہے کہ عکسِ محبوبِ ذاتحضرت قبلہ سیّد افضال احمد حسین شاہ سجادہ نشین دربار محبوبِ ذاتدامت برکاتہم العالیہ میرے کرم فرماؤں میں شامل ہیں۔ مجھے متعدد روحانی محفلوں میں ان کی زینت ِ پہلو بننے کا شرف حاصل ہو چکا ہے۔ حضرت قبلہ سیّد افضال احمد حسین شاہ صاحب مدظلہ العالی اس تصنیف ِ لطیف "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" کے مصنف ہیں۔ اس کتاب کا حرف حرف ان کے مشاہدات کا امین ہے اس لیے کہ آپ کی زندگی کے تمام لمحاتِ حیات بارگاہِ محبوبِ ذات ہی میں گزرے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے حضرت محبوبِ ذات‘ فخر سادات قبلہ سیّد احمد حسین شاہ گیلانی الحسنی کی عظمتِ روحانی اور ان کے شرفِ انسانی کا پتہ چلتا اور یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مقرّبِ الٰہی ہونا اس کے حصہ میں آتا ہے جو اپنے محبوب کی ذات کا حصہ بننے کے لئے اپنی ذات و صفات کو محبوبِ حقیقی کی صفات سے متصف کر دے۔ "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" کے مطالعہ سے روحانیت کے اَسرار و رموز کا پتہ چلتا ہے۔ شریعت ِ دین متین پر کاربند ہونے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اسلام کی حقانیت و نورانیت سے دل و دماغ منور ہو جاتے ہیں۔ اس کتاب کا مطالعہ نہ صرف مریدوں، عقیدت مندوں اور ارادتمندوں بلکہ ہر مسلمان کے لئے راہنما ہو سکتا ہے۔

علامہ اختر سدیدی

چیف ایڈیٹر روزنامہ سعادت فیصل آباد، لاہور

جمعہ، 20 اپریل، 2012

نذرانۂ تشکر۔ ہدیۂ تبریک–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

نذرانہ تشکر

 

ہم زبدۃُ العارفین، زینتَ السّالکین، راہبر و اصلین، سراج السّالکین، زیب و زینت سجّادہ دربار عالیہ، عکس "محبوبِ ذات" حضرت قبلہ و کعبہ سیّد افضال احمد حسین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے بے حد مشکور ہیں کہ آپ نے بالعموم تمام مسلمانوں اور بالخصوص تمام مریدین کی راہنمائی کے لئے "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" تصنیف فرمائی۔ ایسی تصنیف سے مسلمانوں میں علم الیقین‘ مومنین میں عین الیقین اور سالکین میں حق الیقین کا شعور بیدار ہوتا ہے۔ اور فرمانِ رسول ﷺ کے مطابق عند الذّکر الصّالِحين تَتَنَزَّل الرّحمة (صالحین کا تذکرہ کرنے سے رحمت الٰہی کا نزول ہوتا ہے)۔ انسان رحمتوں کے جھرمٹ میں آ جاتا ہے۔ اللہ کے محبوب بندوں سے محبت بڑھتی ہے۔

مانا کہ عمل قبر کا سرمایہ ہیں مگر

افضل ہے ہر عمل سے محبت حضورؐ کی

پھر یہی محبت عشق کی وادیوں میں لے جاتی ہے۔ بقول مولانا روم

دین سراپا سوختن اندر طلب

انتہائش عشق آغازش ادب

اور صحیح معنون میں انسان کامل کا نقشہ پیش کرتا ہے اور یہ نقشہ نقش پائے "محبوبِ ذات" کی عملی زندگی کو دل میں نقش کرنے سے مرتب ہوتا ہے۔

خلیفہ غلام علی (ٹوبہ ٹیک سنگھ)

ڈاکٹر عباس علی قادری (کمالیہ)

 

 

ہدیہ تبریک

 

"روحانی مراکز" کی تاریخ مرتب کرنا اور روحانی شخصیتوں کی یادوں کو محفوظ کرنا کارِ عظیم ہے اور یہ کارِ عظیم ایک شخص انجام نہیں دے سکتا۔ یہ سعادت عظیم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ پیش نظر کتاب "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" ایک عظیم روحانی اور قلمی شاہکار ہے۔ جو میرے پیر طریقت‘ مرشد ِ کامل‘ حضرت سیّد افضال احمد حسین شاہ گیلانی دامت برکاتہم العالیہ کے قلم کا اعجاز ہے۔ اس عظیم تاریخی اور روحانی قلمی شاہکار کے مطالعہ سے حضرت محبوبِ ذات کی ذاتِ والا صفات کا ایک ایک پہلو نگاہوں سے گذر کر دل کی دھڑکنوں میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ میرے مولا اور شیخ طریقت قبلہ سیّد افضال احمد حسین مدظلہ العالی ہزار مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے۔ جو ابد الآباد تک طالبینِ حق کے لئے مشعل راہ ثابت ہو گا۔

خلیفہ محمد نسیم

سمن آباد فیصل آباد

 

مہربان تیرا شکریہ                      مہربان تیرا شکریہ

مہربان تیرا شکریہ

خلیفہ محمد اسماعیل

سمن آباد، فیصل آباد

 

 

جمعہ، 13 اپریل، 2012

ہدیۂ تہنیت۔ شکریہ کے چند الفاظ–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ہدیہ تہنیت

 

سیّدی و مرشدی حضرت سیّد افضال احمد حسین دامت برکاتہم العالیہ نے "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" تصنیف کر کے سلسلۂ عالیہ قادریہ احمد حسینیہ کے وابستگان پر احسانِ عظیم فرمایا ہے کہ اس تصنیف لطیف میں "حضرت محبوبِ ذات" کے بارے میں تمام معلومات شرح وبسط کے ساتھ درج فرما دی ہیں اور اس میں کوئی پہلو تشنہ نہیں رہنے دیا۔ میرے نزدیک "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" شیخ طریقت و شریعت‘ واقف ِ حقیقت حضرت قبلہ سیّد افضال احمد حسین دامت برکاتہم العالیہ کی ایک "روحانی تخلیق" ہے۔ اس سے سلسلہ کے لوگوں کو یقیناً صحیح راہنمائی حاصل ہو گی۔ رشد و ہدایت کے سلسلہ میں اس روحانی تخلیق سے نہ صرف عام ارادتمند مستفید ہو گا بلکہ علماء و مشائخ عظام بھی اس سے استفادہ کر سکیں گے۔ میں اس تخلیق پر اپنے پیر طریقت و مرشد ِ کامل قبلہ سیّد افضال احمد حسین شاہ صاحب مدظلہ العالی کودل کی گہرائیوں سے ہدیہ تہنیت پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ہم مریدین پر احسانِ عظیم فرما کر اس کتاب کو مکمل فرمایا۔

خلیفہ ایم۔ ایم۔ صلاح الدین‘ فیصل آباد

شکریہ کے چند الفاظ

 

بندئہ ناچیز اللہ ربُّ العزت کا شکر گذار ہے کہ اس نے اسے "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" کے لئے کچھ عرض کرنے کی سعادت عطا فرمائی۔ یہ کتاب حسن و کردارِ "محبوبِ ذات" کی آئینہ دار ہے اور اسے سینہ قرطاس پر نقش کرانے کے لئے آپ یعنی حضرت "محبوبِ ذات" نے دستگیرِ مریداں، راہنمائے ظاہر و باطن، راہبر دین و دنیا، منبع ولادت و سخاوت، صاحب عرفان، پیر کامل، دلبندِ "محبوبِ ذات" مولا و مرشدی جناب سیّد افضال احمد حسین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ کو ہی افضلیت عطا فرمائی۔ واللہ یہ بے سبب نہ تھا، آخر مسند پاک انہیں عطا کی گئی تھی۔ پھر کیسے ممکن تھا کہ کمالات و برکاتِ مسند سے نہ نوازے جاتے۔ آپ یقیناً پَرتو ِ محبوبِ ذات ہیں۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشند خدائے بخشندہ

اس کتاب کے مطالعہ کے بعد اور شرفِ غلامی کے ناطے یہی درس ملا کہ سب سے بڑی عبادت مخلوقِ خدا کی خدمت ہے اور سب سے بڑا جہاد اپنی رضا کو خدا کے تحت رکھنا ہے۔ یہی سبق حضور سرور کونین ﷺ نے اپنی صحبت، اپنی عبادت، اپنی جلوت، اپنی خلوت، اپنی سخاوت اپنی ریاضت، اپنی قناعت، اپنے علم، اپنے حلم، اپنے صبر اور اپنے سلوک میں عملی مظاہر کر کے دیا۔ پھر یہ سبق محبوبین نے ورثہ میں پایا اور مخلوقِ خدا تک پہنچا کر اپنے آخری سانس تک خدا کی رضا پر لبیک کہا۔ مجھے ظاہری دیدار حاصل نہ ہو سکا کیونکہ غلامی کا شرف 1979-80ء؁ میں حاصل ہوا۔ جبکہ حضرت "محبوبِ ذات" 1961ء؁ میں واصل ذات ہوئے۔ لیکن غلامی کے بعد حضرت "محبوبِ ذات" جب بھی کرم فرمائیں ملاقات اور گفتگو کا شرف حاصل ہوتا رہتا ہے اور انشاء اللہ ہوتا رہے گا۔ سو یہ بات کسی شبہ کے بغیر ثابت ہے کہ حضور کا ظاہری اور باطنی فیض ابھی تک جاری و ساری ہے۔

ایسی عظیم ہستی کے شب و روز جہاں تک ممکن ہو سکا اس کتاب میں درج کئے گئے ہیں جو عشق والوں کے لئے خصوصی طور پر جبکہ اُمّتِ مسلمہ کے لئے عمومی طور پر مشعلِ راہ ہیں۔ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ حلفاً عرض کرتا ہوں کہ حضرت نے لا تعداد کافروں کو مسلمان کیا اور بے شمار مسلمانوں کو مومن کے مقام تک پہنچایا اور پہنچا رہے ہیں۔

اوپر کے چند کلمات اس بات کے متقاضی ہیں کہ بندئہ ناچیز، مرشد دوراں، راہبر اَسرارِ خفی و جلی، اعلیٰ حضرت جناب سیّد افضال احمد حسین شاہ صاحب مدظلہ العالی کا تہہ دل سے شکر گذار ہے کہ انہوں نے ایک ایسی مستند تحریر عطا فرمائی ہے جو طالبانِ ذات کے لئے مشعل راہ ہے۔ اللہ رب العزت انہیں اجر ِ عظیم عطا فرمائیں، صحتِ کاملہ عاجلہ عطا ہو اور ان کا سایہ ہم غلاموں کے سروں پر سدا قائم رہے۔                  (آمین)

ہم غلاموں کو توفیق عطا ہو کہ ہم "حضرت محبوبِ ذات" کے نقش قدم پر چل کر دائمی حیات پائیں فیض کا یہ سمندر یعنی درگاہ "حضرت محبوبِ ذات" سدا سلامت رہے اور ماننے والے اس سمندر میں غوطہ زن ہو کر فیض کے انمول موتی پاتے رہیں جو میرے مرشد پاک کی اک نگاہ کا ثمر ہے۔

شکر گذار

ناچیز غلام

خلیفہ عبد الرحمٰن جامی

فیصل آباد

جمعہ، 6 اپریل، 2012

پیشِ لفظ–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

پیش لفظ

 

الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام علٰی  رحمة للعالمين وآله واصحابه اجمعين.

 

تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہیں اور ہر طرح کا درود و سلام حضور اکرم ﷺ کی ذات گرامی کے لئے ہے۔

میرے والد محترم مرشد پاک حضرت سیّد افضال احمد حسین گیلانی نے اپنی نورانی کتاب "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" تحریر کر کے مریدین اور اہلِ دل پر احسان عظیم فرمایا۔ اس کی بدولت انسانیت کو ہدایت کا راستہ دکھایا بلکہ پستی سے نکال کر بلندی اور راز و نیاز کا بطریق احسن انوکھے اور منفرد انداز و ادا میں انکشاف کیا۔ اس کتاب کا ایک ایک جملہ محبت و الفت کا سر چشمہ ہے۔

بسے سر بلندم ز احسان دوست

دل و جانِ من ہر دو قربان دوست

ترجمہ۔   میں اپنے محبوب کے احسان سے نہایت سر بلند ہوں میرے دل و جان دونوں اس پر قربان ہوں۔

آپ نے نہایت حکیمانہ انداز میں سر بستہ رازوں سے پردہ سرکا کر اپنے والد محترم مرشد کامل سیّد احمد حسین شاہ گیلانی "محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز" کو ظاہر و عیاں کیا جو حدیث ِ قدسی کے مظہر ہیں۔

انبیاء و اولیاء را حق بداں

سرِّ پنہاں بتو گفتم عیاں

ترجمہ۔   انبیاء و اولیاء کو حق جان، میں نے تجھے پوشیدہ بھید بتا دیا ہے۔

چوں بصورت بنگری چشم دوست

توبہ نوزش در نگر کر چشم اوست

ترجمہ۔   دیکھنے میں آنکھیں دو نظر آتی ہیں مگر نور ہر دو آنکھ کا ایک ہے۔

آب خواہ از جُو بجو خواہ از صبُوح

آں صبوح را آب باشد ہم زَجؤ

ترجمہ۔   پانی خواہ دریا سے لو خواہ گھڑے سے لو وہ دریا کا ہی پانی ہے کیونکہ پانی گھڑے میں بھی دریا کا ہی ہے۔

تا توانی ز اولیاء رو بر متاب

جہد کن واللہ اعلم بالصواب

ترجمہ۔   اولیاء اللہ سے رو گردانی نہ کرنا ان کی قدر اللہ ہی خوب جانتا ہے۔

وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي عجب سرّ ربانی

مگر گم کردہ لطفش برنگ و بوئے جسمانی

ترجمہ۔   خدا تعالیٰ کا عجب اشارہ ہے کہ میں نے تیرے جسم میں اپنی روح پھونکی ہے مگر تیری نظر جسم پر ہی لگی ہوئی ہے۔

سرکار عالی محبوبِ ذات (حضرت سیّد احمد حسین شاہ گیلانی) کے بھید عکسِ محبوبِ ذات ہی جانے جس نے اپنی ساری زندگی ان کے قدموں میں گذاری اور نظر آپ پر رہی اور انوکھی عبادت فرمائی۔

بندئہ ناچیز نے مریدین اور عقیدت مندوں کے اصرار پر "ملفوظاتِ محبوبِ ذات " دوبارہ نئے ایڈیشن کی شکل میں اغلاط سے مبرا پیش کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ خداوند تعالیٰ اُن حضرات کو خیر و جزا عطا فرمائے جنہوں نے کسی بھی قسم کی معاونت فرمائی ہے۔ شکریہ!

خاک پائے حضرت سیّد افضال احمد حسین شاہ گیلانی قدس سرہٗ العزیز

سیّد محمد مبارک علی شاہ گیلانی، سیّد شاہ کمال محی الدین گیلانی

منڈیر شریف سیداں