پیر، 24 ستمبر، 2012

تقویٰ، پرہیزگاری اور طہارت–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

تقویٰ، پرہیزگاری اور طہارت

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے تمام عمر تقویٰ‘ پرہیزگاری‘ طہارت اور صفائی کو پیش نظر رکھا۔ تقویٰ اور طہارت کو خاص اہمیت دیتے تھے۔ احکاماتِ خداوندی پر سختی سے عمل کرتے کبھی کوئی عمل خلافِ شریعت نہ کرتے۔ قانونِ شریعت کی پاسداری کرتے اور اپنے مریدوں اور عقیدت مندوں کو شریعت کے قوانین پر عمل کرنے کی تلقین فرماتے۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے بے پناہ محبت کرتے۔ ان کو اپنے روحانی فیوض سے مستفیض فرماتے۔ آپ کی تعلیمات‘ خطبات‘ مواعظ اور ارشادات زیادہ تر توحید پر مبنی ہوتے۔ آپ ہر وقت اللہ ربّ العزت کے خاص الخاص مشاہدے میں رہتے۔ مریدین کو قرآن کی رو سے ہر صفت میں اللہ تعالیٰ کی موجودگی کا ثبوت فراہم کرتے۔ اللہ تعالیٰ سے خاص الخاص قربت کا یہ ثبوت ہے کہ جب گفتگو فرماتے تو یوں لگتا جیسے اللہ تعالیٰ خود آپ کی زبانِ اطہر سے گفتگو کر رہا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جب انسان اللہ کا ہو جاتا ہے تو انسان کا ہر فعل اُس کا اپنا فعل بن جاتا ہے۔ طہارت اور صفائی پسند تھے۔ کبھی کسی دوسرے شخص کی کوئی چیز استعمال نہ فرماتے اور نہ ہی آپ کے استعمال کی چیزیں کوئی دوسرا استعمال کرتا۔ طہارت اور پرہیزگاری کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ باوضو رہتے۔ فرماتے صفائی‘ تقویٰ‘ پرہیزگاری اور طہارت‘ سب ایمان کے جزو ہیں۔ جس میں ایمان نہیں‘ وہ جنت میں نہیں جا سکتا۔
ایک بار آپ  نے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ میری اس قدر احتیاط میں خود نمائی تو نہیں پائی جاتی تو صدائے غیبی نے نوازا کہ میرے محبوب یہ سب کچھ میری طرف سے ہے۔ آپ بے خوف اس عمل کو جاری رکھیں یہ سارے اوصاف میری ذات میں موجود اور نمایاں ہیں۔
آپ نہایت خوش پوش اور نفاست پسند تھے۔ جن اشیاء میں طہارت کا شائبہ تک ہوتا، ان کو ہر گز استعمال نہ کرتے بلکہ نفرت کا اظہار کرتے۔
آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے والہانہ پیار تھا۔ آپ  کا ہر سانس‘ اٹھنا، چلنا پھرنا، ذاتِ حق پر ہمہ وقت قربان تھا۔ ذات حق سے والہانہ محبت کے سوا آپ کو کسی اور چیز سے رغبت نہ تھی۔ یہاں تک کہ آپ جذبۂ عشق و محبت کے غلبے سے تمام رات جاگتے رہتے اور اللہ تعالیٰ سے لو لگائے رکھتے۔ آپ  نے اپنے جذبۂ عشق میں محبت کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے شعری کلام میں یوں فرمایا ہے کہ

بڑا ہی مہربان ہے تو بڑا ہی مہربان ہے
کبھی تو ہم کو بتا دے کیسا تو مہربان ہے

(سرکار عالی(

من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جان شدی
تاکس نہ گوید ازیں من دیگرم تو دیگری

(امیر خسرو)

آپ  ہمہ وقت ذاتِ حق کی محبت میں محو رہتے۔ بسا اوقت اس غلبۂ محبت کے اثرات سے حالت ِ جذب میں چلے جاتے۔

پیر، 17 ستمبر، 2012

علم – ملفوظاتِ محبوبِ ذات


علم    -    ولکن الراسخون فی العلم

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے ثانوی درجہ تک ظاہری تعلیم حاصل کی۔ باطنی تعلیم و تربیت کے لئے آپ کا کوئی استاد نہ تھا۔ مگر آپ کے کلام، گفتگو اور وعظ میں اس درجہ فصاحت و بلاغت پائی جاتی کہ بڑے بڑے علماء‘ فضلاء اس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکتے۔ حضور پاک قدس سرہٗ العزیز کے ایک دوست منشی محمد جان‘ جو خود بھی فاضل تھے‘ اکثر کہتے کہ میں نے آپ حضور جیسی فصاحت و بلاغت کسی دوسرے عالم یا شیخ میں نہیں دیکھی۔ گو دینی تعلیمات اور تدریسِ قرآن میں آپ کا کوئی استاد نہ تھا مگر آپ قرآنِ پاک کی تلاوت اور تفسیر اس انداز اور روانی سے فرماتے کہ سامعین کو گمان ہوتا کہ آپ کو قرآن حفظ ہے۔ قرآنی آیات کے معانی جو آپ بیان کرتے وہ علمائے ظاہر سے بہت مختلف ہوتے۔ آپ نے فرمایا کہ قرآنِ پاک کے ستر باطن ہیں‘ علماء ظاہر کو صرف ایک مفہوم کا علم ہوتا ہے۔ ان کی دسترس باطنی معانی تک نہیں ہوتی‘ وہ علم لدنّی سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں خود ارشاد فرمایا ہے کہ جن کو ہم نے علم لدنیٰ دیا ہے وہ عوام کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ  ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ (پارہ 3سورة آل عمرآن، آیت ۷)

تشریح:۔    اس کلامِ پاک کا ٹھیک علم اللہ کو معلوم ہے اور پختہ علم والوں (راسخون فی العلم) کو ہے‘ جو تعلق باللہ رکھتے ہیں‘ کیونکہ وہ علمِ معرفت جانتے ہیں۔ راسخون فی العلم کا مطلب ہے جو اپنے علم کا منبع ہوں۔

القرآن        لٰكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ        (سورۃ النسآء، آية ۱۶۲)

اللہ تعالیٰ علم لدنیٰ صرف برگزیدہ بندوں اور اولیائے عظام کو عطا فرماتے ہیں۔ جس کی تصدیق قرآنِ پاک میں حضرت موسیٰ ؈ اور حضرت خضر ؈ کے تذکرے سے ہوتی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے۔

اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا ؀      (سورة الکهف٫ آية ۶۵)

(ترجمہ) جس کو دی تھی ہم نے اپنی رحمت اپنے پاس سے اور سکھایا تھا اپنے پاس سے علم لدنیٰ (حضرت خضر ؈ کو)۔
حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کو بھی اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا صفات سے نواز رکھا تھا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشادِ پاک ہے کہ اے لوگو! جب تمہیں کبھی قرآنِ پاک سمجھنے میں کوئی دقت پیش آئے یا الجھن پیدا ہو تو میرے بندوں کی طرف رجوع کرو جو میرے علم میں راسخ ہیں یعنی باطنی علم میں پکے ہیں، علم کا منبع ہیں جو راسخون فی العلم ہیں‘ جن کی تفصیل اوپر بیان ہو چکی ہے۔ چونکہ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز علمِ لدنیٰ کے حامل تھے اور راسخون فی العلم تھے‘ اس لئے آپ کے علم کی وسعت اور بلندی کا عام شخص اندازہ نہیں کر سکتا۔ حضرت محبوبِ ذات کی شان ہے کہ علوم پر ہادی تھے۔ آپ دنیا کی سب زبانیں جانتے اور بولتے تھے۔ آپ ہر شخص سے اس کی مادری زبان میں گفتگو فرماتے جو تمام حاضرین کی سمجھ میں نہ آتی۔ راقم الحروف نے آپ کو انگریزی‘ عربی‘ فارسی‘ پشتو‘ کشمیری‘ اردو‘ پنجابی زبانیں بولتے اکثر دیکھا۔ آپ بحرِ علوم تھے۔ بسا اوقات غیر مسلم لوگ بھی آپ سے مسائل سمجھنے اور ان کی تشریح کروانے آتے تو آپ ان کی مادری زبان میں گفتگو فرماتے اور ان کے سوالات کا تفصیلی جواب دے کر ان کو مطمئن کرتے اور وہ اپنے غلط اعتراضات اور اسلام پر بہتان تراشی پر نادم ہوتے۔ بیشتر غیر مسلم آپ کا عارفانہ کلام سن کر اتنے متاثر ہوتے کہ آپؒ کے دست ِ حق پرست پر اسلام قبول کر لیتے۔ آپ کے علم کی بلندی اور فصاحت و بلاغت کا اندازہ آریارؤں، ہندوؤں اور کٹر مشرکین کے متاثر ہونے سے بخوبی ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ انبالہ چھاؤنی میں چند اہلِ حدیث علماء نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ اعتراض کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا نور ہونا قرآنِ پاک سے ثابت نہیں ہوتا لہٰذا آپ بشر تھے۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے ان کو قرآنِ پاک کی وہ آیات پڑھ کر سنائیں جن میں قرآن اور حضور سرکار دو عالم ﷺ کو نور کہا گیا ہے۔ ان عالموں نے آپ کی علمی فضیلت کو تسلیم کیا اور یہ بھی تسلیم کیا کہ از روئے قرآن‘ حضورِ پاک ﷺ نور ہیں اور آپ ہی کے نور سے اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق فرمائی۔ انہوں نے آپ کے رو برو اقرار کیا کہ وہ آئندہ ایسی غلطی نہ دہرائیں گے۔ حضورِ پاک ﷺ کو بشر نہیں بلکہ نور سمجھیں گے۔ آپ کے علم کی وسعت کا عوام اندازہ نہیں کر سکتے۔ آپ محبوبِ ذات ہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کی باطنی راہنمائی ہمہ وقت حاصل رہتی۔ آپ کی فصاحت و بلاغت ظاہری علماء کے لئے باعث ِ حیرت تھی۔
ایک مرتبہ انبالہ چھاؤنی میں آریہ ہندوؤں نے آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر یہ اعتراض کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ بروئے قرآن قادر ہے تو اس نے اپنے محبوب ﷺ کو مکے سے ہجرت کا کیوں حکم دیا؟ نعوذ بالله یا قرآنِ پاک الہامی کتاب نہیں یا خدا قادرِ مطلق نہیں۔ آپؒ نے اپنے علم کی فراست سے مثالیں دے کر ثابت کیا کہ ان کا اعتراض لغو اور صریحاً غلط ہے۔ قرآنِ پاک الہامی کتاب ہے اور اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے۔ آپؒ نے حضور پاک ﷺ کی ہجرت میں جو مصلحت بیان فرمائی‘ اس سے وہ کٹر مشرکین اپنے ناپاک اور غلط اعتراض پر سخت نادم ہوئے اور عہد کیا کہ آئندہ ایسا بے ہودہ اعتراض کبھی نہ کریں گے۔ ان میں سے اکثر آپ کے محققانہ و عارفانہ کلام سے متاثر ہو کر مشرف بہ اسلام ہو گئے۔
ایسے بے شمار واقعات آپ کی زندگی میں پیش آئے۔ ایسے مسائل جنہیں علمائے ظاہر حل نہ کر سکے‘ آپ سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے ان اعتراضات کو علم لدنیٰ سے حل کر دیا۔ ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ ہم پتھر کی مورتی پوچتے ہیں لیکن مسلمان ہجر اسود (پتھر) کو پوجتے ہیں۔ آپ نے ان کو بتایا کہ مسلمان صرف حکم کی تعمیل میں ہجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں‘ معبود سمجھ کر پوجتے نہیں جبکہ ہندو پتھروں کی مورتیاں بنا کر پوجتے ہیں۔ اس وضاحت پر کافر مطمئن ہو گئے۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے لا تعداد دقیق مسائل حل کر کے کافروں کے ناپاک‘ غلط اعتراضات کو رد فرماتے ہوئے دینِ اسلام کی عظمت کو اجاگر کیا اور ہر جگہ دین کے دشمنوں (مشرکین) کے ناپاک حملوں کو ناکام بنایا بلکہ اپنے علم اور اسلام کی حقانیت کی بدولت ہزاروں غیر مسلموں کو مسلمان کر کے اسلام میں داخل فرمایا۔ آپ  اسلام کی سچائی اس طرح بیان فرماتے کہ سننے والے کے دل پر نقش ہو جاتی اور سننے والا اسلام کی چوکھٹ پر سر جھکانے کے لئے مجبور ہو جاتا۔

پیر، 10 ستمبر، 2012

توکّل علی الله – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

توکل علی اللہ

اپنے تمام معاملات اللہ کے سپرد کر دینا توکل ہے۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز تمام عمر اللہ تعالیٰ کے فرمان "ومن   يتوکل علی الله فهو حسبه" پر سختی سے کاربند رہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا پورا بھروسہ کرتے اور ہمیشہ فرماتے میرے لئے میرا اللہ ہی کافی ہے۔ آپؒ نے حیاتِ مقدسہ میں اپنی ذات کے لئے کسی قسم کی کوئی جائیداد نہ بنائی۔ اپنی مرضی سے کبھی کوئی چیز ذاتی استعمال کے لئے نہ خریدی۔ آپؒ کے پاس جو رقم یا سامان وغیرہ بطورِ نذر پیش ہوتا، تمام کا تمام راہِ خدا میں تقسیم کر دیتے اور کوئی روپیہ‘ پیسہ یا شے پس انداز نہ فرماتے۔ توکل پر پورا یقین رکھتے۔ فرماتے جس خدا نے آج دیا ہے‘ وہی کل بھی دیے گا۔ بسا اوقات اپنے تن کے کپڑے بھی اتار کر غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیتے اور فرماتے یہ مجھ سے زیادہ حاجت مند ہیں۔ میرا اللہ وارث ہے۔ آپ کا لنگر منڈیر شریف میں مسلسل جاری ہے۔ تمام حاضرینِ دربار کو بلا امتیازِ مسلک و عقیدہ‘ امیر غریب دونوں کو یکساں کھانا دیا جاتا ہے۔ سب مہمان اکٹھے ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ صبح اور دوپہر کے بعد چائے سے تواضع کی جاتی ہے۔ لنگر کے لئے خوردنی اشیاء کبھی ذخیرہ نہ کرتے‘ ہر روز نیا سامان خریدا جاتا۔ اگر کبھی لنگر پکانے کے لئے خوردنی اشیاء نہ ہوتیں تو فرماتے اللہ تعالیٰ کا یہ لنگر ہے‘ خود بخود انتظام کرے گا۔ اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا، سامان خود بخود لوگوں کے ذریعے پہنچ جاتا۔ ایسا لگتا کہ اللہ تعالیٰ نے باطنی مخلوق کے ذریعے سامان مہیا فرمایا ہے۔ خدا نخواستہ کبھی فاقے کی نوبت آ جاتی تو آپ کبھی شکوہ نہ کرتے اور یہ کہہ کر سب کو مطمئن کر دیتے کہ یہ (فاقہ) ہمارے بزرگوں کی اوّلین سنت ہے۔
بیماری کی حالت میں کبھی دوا استعمال نہ کرتے۔ فرماتے بیماری یا تکلیف منجانب اللہ ہے۔

مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ        (سورة التغابن، آية ١١)

کوئی تکلیف اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہیں آتی۔( تکلیف یا بیماری کا وقت مقرر ہوتا ہے‘ مقررہ وقت پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ختم ہو جاتی ہے۔)
آپ فرماتے دکھ سکھ‘ مصائب و آلام‘ بیماری اور تکلیف‘ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر وارد نہیں ہوتیں۔ اور ہر ایک کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔ ایسا تو کل معصومین اور محبوبین ہی کر سکتے ہیں۔ عام شخص کی قوتِ برداشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ اہل اللہ کی قوت برداشت عام مخلوق سے مختلف اور زیادہ ہوتی ہے جس کو عام لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ آپ حضور فرماتے توکل کی تین اقسام ہیں؛ اوّل انبیاء ؊ کا توکل‘ دوئم اولیاء عظام کا توکل‘ سوئم عام مخلوق کا توکل۔ انبیاء ؊‘ آئمہ مطہرّین اور معصومین ؊ کو جن مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا،عوام اسے برداشت تو کیا در کنار اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ آپ کا توکل اور تقویٰ‘ پرہیزگاریُ‘ صفائی اور طہارت اولیاء کی تقلید تھی۔ صفائی کے متعلق حدیث بیان فرماتے‘ یہ نصف ایمان ہے۔