جمعہ، 27 دسمبر، 2013

انسانِ کامل – بے نشاں کا نشاں – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضرت قبلہ محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز نے اپنی حیاتِ مقدسہ کا ایک ایک لمحہ حصولِ حیاتِ ابدی بنایا تو ابدالآباد تک ہدایت کی وہ مشعلیں روشن کر دیں جو قیامت تک روشن رہیں گی اور گم گشت گانِ راہِ حقیقت کو راہ پر گامزن رکھیں گی اور ان کی روشنی ظلم و جہالت کے اندھیروں کو اپنی روشنی سے پاش پاش کرتی رہیں گی۔ یہ مقام آپ نے بڑی ریاضت کے بعد حاصل کیا۔ آپ نے اس قدر ریاضت اور مشقت کی کہ چلہ کشی میں زندگی کا ایک عزیز ترین حصہ وقف کیے رکھا، یعنی وہ دورِ حیات تھا جب آپ پر اَسرارِ خفی و جلی کا اظہار ہوا ۔۔۔ غاروں میں چلہ کشی کی تو غاروں سے اجالے لے کر باہر نکلے۔ مزاروں پر چلہ کشی کی تو صاحبانِ مزار سے براہِ راست فیوض حاصل کیے اور اپنی باطنی روحانی قوت میں اضافہ کیا۔ آج محبوبِ ذات کی روحانی قوت کا سکہ چلتا ہے۔ ہمیں بزرگانِ دین راہِ طریقت و شریعت کے اس سفر سے درسِ حیات سیکھنا چاہیے۔ قربِ الٰہی کا اہتمام کرنا چاہیے اور ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے رازِ حقیقت پا لینا چاہیے۔ قربِ خدا کی دولت سے مالا مال ہو جانا چاہیے۔ اپنے اندر بخشش و عطا کی منزل قائم کر کے خود اس منزل کا نشان بننا چاہیے۔ اس لیے کہ انسانِ کامل ہی تو اس بے نشاں کا نشاں ہے۔

جمعہ، 20 دسمبر، 2013

مقامِ مرشدِ کامل – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

(i)    مرشد کامل کے فرمودات کو حرفِ آخر سمجھ کر ان پر پورا عمل کرو‘ دین اور دنیا سنور جائیں گے۔ فرماتے ہیں:

گور گھونگے‘ گور بانْوَرے‘ گور ہیرے کی کان
سر دتیاں جے سِر ملے اجے وی سستا جان

(ii)    مرشد کے اقوال پر شک و شبہ نہ کرو‘ ہو سکتا ہے اس میں کوئی بھید پوشیدہ ہو یا مرید کی آزمائش مقصود ہو۔ (فرمانِ سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز)

بہ مے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نبود ز راہ و رسمِ منزلہا

رنگ شرابے وچ مصلّٰے جے ہادی فرماوے
ہر ہر راہ تھیں واقف ہووے سدھے راہ چلاوے

جمعہ، 13 دسمبر، 2013

بیعت کے بغیر مرنا جہالت کی موت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

 

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَابْتَغُوْٓا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ وَجَاهِدُوْا فِيْ سَبِيْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ

ترجمہ۔    اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔

(سورۃ المائدہ‘ آیت ۳۵)

تشریح:۔    بیعت کرنا بھی وسیلہ ڈھونڈنے کے ضمن میں ہے اور ایمان والوں میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں۔


وعن عبد الله بن عمر قال : سمعت رسول الله يقول : "من خلع يدا من طاعة لقي الله يوم القيامة ولا حجة له . ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية"۔      رواه مسلم    (مشکٰوۃ)

جمعہ، 6 دسمبر، 2013

عورتوں کی بیعت کا حکم – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

 

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَاۗءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰٓي اَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَـيْـــــًٔــا وَّلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِيْنَ وَلَا يَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَاْتِيْنَ بِبُهْتَانٍ يَّفْتَرِيْنَهٗ بَيْنَ اَيْدِيْهِنَّ وَاَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِيْ مَعْرُوْفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ

ترجمہ۔    اے نبی مکرم ﷺ! جب حاضر ہوں آپ کی خدمت میں مومن عورتیں تاکہ آپ سے اس بات پر بیعت کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ شریک نہیں بنائیں گی اور نہ چوری کریں گی‘ نہ بد کاری کریں گی اور نہ اپنے بچوں کو قتل کریں گی اور نہیں لگائیں گی جھوٹا الزام جو انہوں نے گھڑ لیا۔ تو اے میرے محبوب ﷺ انہیں بیعت فرما لیا کرو اور اللہ سے ان کی مغفرت مانگا کرو۔

(سورۃ الممتحنہ‘ آیت ۱۲)

جمعرات، 28 نومبر، 2013

بیعت کا حکمِ قرآنی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ ۭ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ ۚ فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا يَنْكُثُ عَلٰي نَفْسِهٖ ۚ وَمَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَيْهُ اللّٰهَ فَسَيُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًا

ترجمہ۔    اے نبی اکرم ﷺ! جو لوگ تمہارے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں‘ وہ خدا سے ہی بیعت کر رہے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ جو اس اقرار کو ادا نہ کرے گا جو بیعت ہوتے وقت اس نے کیا تھا تو اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔ اور جس نے عہد پورا کیا پس اس نے بڑا اجر پایا۔

(سورۃ الفتح، آیت ۱۰)

جمعرات، 21 نومبر، 2013

شرفِ بیعت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ہر قوم راست کردہ دینے و قبلہ گاہے

من قبلہ راست کردم بر سمتِ کج کلاہے

(امیر خسروؒ)

 

اِلٰہ آباد قیام کے دوران حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نمازِ عشاء کے بعد ہر شب نماز پر وعظ فرماتے۔ نماز کی اہمیت اور فوائد سے حاضرین کو آگاہ فرماتے۔ قرآنِ پاک کی آیات کے حوالے سے وضاحت فرماتے۔ یہ عمل ساری رات جاری و ساری رہتا۔ تمام شب بیداری کرتے۔ نمازِ فجر اور اپنے معمولِ وظائف کے بعد اپنی مصروفیات کا آغاز کرتے۔ شب بیداری کے باوجود آپ کے روز مرہ کے معمولات میں کوئی فرق نہ آتا۔ دن بھر اپنے فرائض سر انجام دیتے اور اگلی رات پھر وعظ فرماتے۔ غرض کہ یہ معمول روزانہ جاری رہتا۔ کئی سال تک اس پر عمل پیرا رہے۔ انہی ایام میں راقم الحروف (مصنفِ ملفوظاتِ محبوبِ ذات، سیّد افضال احمد حسین گیلانی، سجادہ نشین منڈیر شریف سیّداں) کو سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے دستِ حق پرست پر بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔

جمعرات، 14 نومبر، 2013

دعا فی سبیل اللہ – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

میں یہاں یہ وضاحت کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز دعا فی سبیل اللہ فرماتے تھے۔ دعا کا کوئی معاوضہ نہ لیتے۔ اس اصول پر تمام عمر کاربند رہے اور فرماتے کہ ہمارے آباؤ اجداد کا یہ اصول 1400 سال سے چلا آ رہا ہے۔ دعا کا پیسہ لینا ہمارے لیے حرام ہے۔ اس وقت بھی دربار شریف میں اس اصول پر سختی سے عمل ہو رہا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔

جمعرات، 7 نومبر، 2013

اِدھر دعا، اُدھر قبولیت کی بشارت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز دعا کو کلیدِ رحمت قرار دیتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ دعا عبادات کا مغز ہے‘ عبادات و ریاضت کا جوہر ہے ۔۔۔ دعا کی عظمت یہ ہے کہ اِدھر اہلِ نظر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں‘ اُدھر دعا درِ قبولیت تک پہنچ جائے۔ اِدھر زَبان سے دعا کے لفظ ادا ہو رہے ہوں‘ اُدھر مقبولیت کی بشارت مرتب ہو رہی ہو۔ اور کمالِ دعا یہ ہے کہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے سے قبل ہی دعا قبول ہو جائے۔ میں نے یہ منظر بھی بار ہا دیکھے کہ اِدھر حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے دعا کا رادہ کیا، اُدھر دعا قبول ہو گئی اور حاجت مند دست بوسی کرتا خوشی خوشی اپنے مقام کی طرف لوٹ گیا۔

جمعرات، 31 اکتوبر، 2013

چہرۂ انور سے نور کی شعائیں – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے ساری زندگی توحید اور نماز پر وعظ فرمائے اور نماز کی پابندی کی تلقین فرمائی۔ اپنے علم کی فراست سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کو نماز کا پابند بنا دیا۔ جو لوگ دعا کے لیے آتے بامراد لوٹتے۔ آپ قدس سرہٗ العزیز کی پیشانی مبارک پر نورنی چاند تارا ہے‘ جس کا مشاہدہ آپ کے مریدین نے بچشمِ خود کیا ہے۔

جمعرات، 24 اکتوبر، 2013

محبوبِ ذات‘ فقر کا آخری درجہ – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضرت غوث الثقلین‘ محبوبِ سبحانی رضی اللہ عنہ‘ اور زری زر بخت‘ حضرت نظام الدین اولیاء‘ محبوبِ الٰہی رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے دو صفاتی ناموں کے محبوب ہوئے۔ حضور سرکارِ عالی ذات کے محبوب ہیں۔ محبوبِ ذات اللہ تعالیٰ کی انتہائی قربت کا درجہ ہے۔ اس کے آگے اور کوئی درجہ نہیں ماسوائے ختم الانبیاء‘ حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے جو اللہ تعالیٰ کے حبیب ہیں۔ محبوبِ ذات فقر کا آخری درجہ ہے۔ یہ توحید کی انتہا ہے۔ حضورِ پاک قدس سرہٗ العزیز کی اولاد اور مریدین کس قدر خوش نصیب ہیں کہ ان کو محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی غلامی کا اور اولاد ہونے کا شرف حاصل ہے۔

جمعرات، 17 اکتوبر، 2013

محبوبِ ذات کا درجہ عطا ہونا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

انبالہ چھائونی میں قیام کے آخری دنوں‘ 1938ء میں حضور سرکارِ عالی کو درجۂ محبوبِ ذات سے نوازا گیا، جس کا باقاعدہ اعلانِ ظاہری 25 جولائی 1948ء کو دربار منڈیر شریف سیّداں میں ہوا۔ اس تقریب ِ سعید میں ظاہری اور باطنی مخلوقات شامل تھیں۔ تمام معصومین‘ ائمہ‘ پنجتن پاک‘ علیہم السلام‘ اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اور قلندروں نے شرکت فرمائی۔ اپ کے تمام مریدین بھی شریک تھے۔ یہ مقدس تقریب تمام اکابرین اور طالبین کی موجودگی میں انجام پائی۔ راقم الحروف (اوّل صاحب‘ سرکار سخیٔ کامل‘ سیّد افضال احمد حسین گیلانی سجادہ نشین منڈیر شریف سیّداں) کو بذاتِ خود اس تقریبِ سعید میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

جمعہ، 11 اکتوبر، 2013

ملاقاتِ حضرت خضر علیہ السلام – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضرت خضر علیہ السلام سفید کپڑوں میں ملبوس اکثر حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز سے ملتے۔ آپ نہایت خوبصورت وضع کے بزرگ ہیں۔ وہ آپ سے کسی ایسی زُبان میں گفتگو کرتے جو حاضرین کو سمجھ نہ آتی۔ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کو منجانب اللہ دنیا کی تمام زُبانوں پر عبور حاصل تھا۔ آپ ہر شخص سے اس کی مادری زُبان میں گفتگو فرماتے۔ ایک مرتبہ حضرت خضر علیہ السلام؈ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز سے ملاقات کر کے چلے گئے تو حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے حاضرین کو بتایا کہ حضرت خضر علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام لے کر آئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی بارگاہ میں منظور فرما لیا ہے۔ اب آپ اعتکاف نہ کیا کریں۔

جمعہ، 4 اکتوبر، 2013

خواجہ معین الدین چشتی قدس سرہٗ العزیز کی شفقت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ایک مرتبہ حضور سرکارِ عالی رحمۃ اللہ علیہ کا اجمیر شریف جانے کا اتفاق ہوا تو خواجہ حضرت معین الدین چشتی قدس سرہٗ العزیز نے مشفقانہ انداز سے حضور سرکارِ عالی رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ اجمیر شریف کے نواح میں ایک گاؤں ہے مگر وہاں کے باشندے نماز نہیں پڑھتے۔ آپ مہربانی فرما کر میری خاطر ان کو ہدایت کر کے نمازی بنا دیں۔ آپ اس گاؤں میں تشریف لے گئے۔ رات کو سب لوگوں کو مسجد میں اکٹھا کر کے نماز پر وعظ فرمایا۔ نماز کے فائدے بتائے‘ نماز کی اہمیت بتائی کہ نماز دینی فرائض میں ایک اہم فرض ہے جو قابلِ معافی نہیں۔ سب لوگ بہت متاثر ہوئے اور لوگوں نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی نماز نہ چھوڑیں گے۔ آپ نے ان سے کئے گئے وعدہ پر عہد لیا اور فرمایا کہ میں صبح گاؤں سے چلا جاؤں گا۔ لوگ آپ سے اتنے متاثر ہوئے تھے کہ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو جانے نہیں دیں گے اور انہوں نے تمام گلیوں‘ راستوں کے موڑ پر پہرے لگا دیئے۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز رات کے پچھلے پہر مسجد سے نکل کر اسٹیشن کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔ راستے میں سب پہرے دار اپنی لاٹھیوں کا سہارا لے کر سو رہے تھے۔ اس طرح سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز وہاں سے نکل آئے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے تصرف کی یہ زندہ مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پروگرام اور ارادے کے مطابق پہرے داروں پر نیند مسلط کر دی تاکہ وہ حائل نہ ہو سکیں۔

جمعہ، 27 ستمبر، 2013

حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کا ایک مرتبہ خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر جانے کا اتفاق ہوا۔ مجاوروں نے آپ کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی تو حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے ان کے تعویز کو پکڑ کر مجاوروں کے بارے میں پوچھا تو خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بتایا کہ مجاور نہ سیّد ہیں اور نہ ہی ان کے خاندان سے ہیں۔ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو ڈانٹ پلائی تو وہ دست بستہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر معذرت خواہ ہوئے۔ پ نے فرمایا کہ تم سیّد نہیں‘ خود کو سیّد کہلاتے ہو! یہ مناسب نہیں۔ اگر سیّد ہو تو میرے سامنے خواجہ صاحب کی قبر کو جھپا مار کر دکھاؤ۔ چونکہ وہ جھوٹے تھے‘ ڈر گئے۔ اس کے بعد انہوں نے آپ کی خوب دیکھ بھال کی اور عقیدت مند ہوئے۔

منگل، 24 ستمبر، 2013

ملفوظاتِ محبوبِ ذات

نورِ قلب
اللہُ کے ذکرِ حق میں محو رہنے سے ہو گا۔

 

بھوک
بھوکا رہنے سے باطن روشن و معمور ہو جاتا ہے‘ مشاہدہ ہوتا ہے۔

جمعہ، 20 ستمبر، 2013

حضرت خواجہ غریب نواز کی محفل میں شرکت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

برّ صغیر کی سیاحت کے دوران خواجہ غریب نواز خواجہ معین الدین چشتی رضی اللہ عنہ نے حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز سے فرمایا کہ آپ محفل کا اہتمام کریں‘ ہم بذاتِ خود محفل میں شرکت کریں گے۔ اس پر حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے سفر ترک کر کے انبالہ چھائونی میں خواجہ صاحب رضی اللہ عنہ کی حسبِ خواہش محفل کا اہتمام فرمایا۔ آپ نے مریدین کے ذریعے لوگوں کو محفل میں شرکت کرنے اور تبرک کھانے کی دعوت دی۔ اس موقع پر دو دیگ تبرک تیار کروایا جو کئی ہزار نفوس کے کھانے کے باوجود بچ گیا۔ آپ کی اس کرامت کی شہرت انبالہ کے علاقہ میں دور دور تک پھیل گئی اور اسی روز سے لوگ اپنی مرادیں حاصل کرنے کے لیے جوق در جوق آنا شروع ہو گئے۔ خدمتِ خلق کی خاطر حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کو انبالہ میں تین سال تک رکنا پڑا۔ آخر کار حضورِ پاک انبالہ چھائونی کو خیر باد کہہ کر اپنے گھر‘ منڈیر شریف (1939ء) میں تشریف لے آئے۔

جمعہ، 13 ستمبر، 2013

جناب غوثیت مآب قدس سرہٗ العزیز کے لاڈلے – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

آپ سفر کے دوران ساہوالہ کے قریب پہنچے تو آپ کو ایک بزرگ سبز کپڑے زیبِ تن فرمائے ملے اور پوچھا: ’’بیٹا! کہاں جا رہے ہو؟‘‘ آپ نے فرمایا یہ تو مجھے معلوم نہیں۔ آپ کا یہ جواب سن کر اس بزرگ نے فرمایا ماشاء اللہ کم سنی میں عشق کی یہ آگ! سمندر پی جاؤ گے مگر پیاس نہیں بجھے گی اور عشق کی آگ دہکتی رہے گی۔ یہ کہہ کر وہ بزرگ غائب ہو گئے۔ بعد میں حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے بتایا کہ وہ بزرگ حضور غوث الثقلین رضی اللہ عنہ تھے۔

جمعہ، 6 ستمبر، 2013

پیغامِ خاص – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

۱۹۳۷

میں حضور نبیٔ کریم ﷺ نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی اولاد کے ہاتھ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کو تحریری طور پر ایک خاص الخاص پیغام بھیجا‘ جس کی تفصیل یہ ہے۔

جمعہ، 30 اگست، 2013

جُبّہ اور دستار مبارک – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

۱۹۳۶

میں حضور نبیٔ اکرم ﷺ کی عطا کردہ دستار مبارک اور جُبّہ شریف حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کو بوساطت حاجی روشن دین حاصل ہوئے۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے ان تبرکات کو بوسہ دیا اور آنکھوں سے لگایا۔ وہ تبرکات آج بھی دربار شریف میں میرے لیے سرمایۂ حیات کے طور پر میری (یعنی مصنفِ کتاب حضرت سخیٔ کامل سیّد افضال احمد حسین رضی اللہ عنہ کی) تحویل میں ہیں‘ جس کی زیارت اکثر مریدین نے کی ہے۔

پیر، 26 اگست، 2013

خاتم النبیین کانفرنس کی خبر نوائے وقت (اسلام آباد) میں

تفصیلات کے لیے یہاں کلک کریں۔ تصویر کو بڑا کرنے کے لیے تصویر کے اوپر کلک کریں۔

IMG_0538

حضرتِ سجادہ نشینِ دربارِ عالیہ منڈیر شریف سیّداں کی ۱۸ فروری ۲۰۰۹ کی گولڑا شریف کی تصاویر دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

جمعہ، 23 اگست، 2013

مناقبِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضراتِ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما

حضرت عمر رضی اللہ عنہ جود و سخا کے معاملات میں فقید المثال ہیں۔ مشائخ نے آپ رضی اللہ عنہ کو کشف و مشاہدہ میں مقدم رکھا ہے۔

مشاہدہ کی درستگی سے دورانِ خطبہ کہا تھا:

يا سارية انظر إلى الجبل

(اے ساریہ! پہاڑ کی طرف دیکھو)

ہفتہ، 17 اگست، 2013

فرمانِ سرکارِ عالی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

خالقِ کائنات        اللہ تبارک و تعالیٰ

سرورِ کائنات        حضرت محمد رسول اللہ ﷺ

مولائے کائنات    حضرت علی کرم اللہ وجہہ

شہنشاہِ فقر        حضر امام حسین علیہ السلام

 


مصائبِ ساداتِ عظام

اللہ تعالیٰ ‘ ساداتِ عظام کو اس لیے ہمیشہ مصائب میں مبتلا رکھتا ہے کہ ان کو ہمہ وقت حضوری کا خیال رہے اور ہمیشہ عالم بیداری میں رہیں۔ یہی لوگ محبانِ الٰہی ہیں۔

جمعہ، 2 اگست، 2013

فرموداتِ حضرت علی علیہ السلام – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

خندہ روئی سے پیش آنا سب سے پہلی نیکی ہے۔

کار خانۂ قدرت میں فکر کرنا بھی عبادت ہے۔

عادت پر غالب آنا کمالِ فضیلت ہے۔

تجربے کبھی ختم نہیں ہوتے اور عقلمند وہ ہے جو ان میں ترقی کرتا رہے۔

شریف کی پہچان یہ ہے کہ جب کوئی سختی کرے تو سختی سے پیش آتا ہے اور جب اس سے کوئی نرمی کرے تو نرم ہو جاتا ہے۔ اور کمینے سے جب کوئی نرمی کرے تو سختی سے پیش آتا ہے اور جب کوئی سختی کرے تو ڈھیلا ہو جاتا ہے۔

اقرارِ جرم مجرم کے لیے بہت اچھا سفارشی ہے۔

اپنے دلوں سے دوستی کا حال پوچھو کیوں کہ یہ ایسے گواہ ہیں جو کسی سے رشوت نہیں لیتے۔

جب تک کوئی بات تیرے منہ میں بند ہے تب تک تو اس کا مالک ہے‘ جب زَبان سے نکال چکے تو وہ تیری مالک ہو چکی۔

اوّل عمر میں جو وقت ضائع کیا ہے‘ آخر عمر میں اس کا تدارک کر تاکہ انجام بخیر ہو۔

جو لوگ تجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں‘ ان سے علم حاصل کر اور جو نادان ہیں‘ ان کو اپنا علم سکھا۔

اگر تو کسی کے ساتھ احسان کرے تو اس کو مخفی رکھ اور جب تیرے ساتھ کوئی احسان کرے تو اس کو ظاہر کر۔

بدھ، 31 جولائی، 2013

مناقبِ امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حصولِ حقیقت اور معرفت آپ کی عظمت و توقیر بہت زیادہ ہے۔

القابات: امیر المؤمنین‘ المرتضیٰ‘ اسد اللہ‘ کرّرار غیرِ فرّرار‘ الغالب‘ حیدر

کنیت: ابو الحسن‘ ابو تراب
حلیہ مبارک:    آپ کا قد میانہ‘ سینہ چوڑا اور کلائیاں نہایت مضبوط تھیں۔

رنگ گندمی‘ آنکھیں بڑی بڑی‘ ریش مبارک طویل اور چوڑی تھی۔ چہرہ با رونق اور حَسین جسم کے طاقتور اور دل کے مضبوط تھے۔


حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

جمعہ، 26 جولائی، 2013

حسنینِ کریمین علیہما السلام – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے حسن اور حسین ؉‘ دونوں سے محبت کی ا س نے مجھ سے محبت کی‘ جس نے ان دونوں سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا۔

(مسند احمد بن حنبل‘ جلد ۲، صفحہ نمبر ۲۸۸)


حضور اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے‘ حسن اور حسین ؉ دونوں میری دنیا کی بہاریں ہیں۔

(صحیح بخاری)

منگل، 23 جولائی، 2013

نورانیتِ مصطفیٰ ﷺ قرآن کی روشنی میں – قسط دوم

ازقلم: ڈاکٹر عباس علی قادری

ماہنامہ سوہنے مہربان ماہِ شعبان المعظم 1434ھ

    رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس نور ہے ۔اس شمارے میں نورانیتِ مصطفیٰ ﷺ کو قرآن کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔

قسط اوّل پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں۔

حوالہ رقم 3

    قرآن پاک میں نورانیتِ مصطفی  ﷺ کے متعلق ایک جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا        ؀   وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا        ؀        سورۃ االاحزاب آیت45,46

    ترجمہ۔اے غیب کی خبریں بتانے والے نبیﷺبے شک ہم نے تجھے بھیجا حاضروناظر بنا کر اور خوشخبری دینے والااور ڈر سنانے والااور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والااور نور بانٹنے والاآفتا ب بنا کر۔

    عربی لغت میں سراج سے مراد سورج ہے اور منیر ا سے مراد نور بانٹنے والا،یا نور تقسیم کرنے والا،جو لوگ سِرَاجًا مُّنِیْرًا  کا ترجمہ کرتے ہیں روشن آفتاب وہ صحیح نہیں  ہے کیونکہ عربی میں روشن کے لیے لفظ منور استعمال ہو تا ہے جبکہ منیرسے مراد نور تقسیم کرنے والاکےہیں۔

    اگر ہم قرآن پاک کے الفاظ سِرَاجًا مُّنِیْرًا کی گہرائی میںجاکر دیکھیں ،تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورج کے لیے لفظ استعمال کیا ہے وجعل فیھا سراج اور چاند کے لیے لفظ استعمال کیا ہے وقمرًا منیرًا ۔چونکہ سراج یعنی سور ج کی حکمرانی دن کو ہوتی ہےیعنی وہ دن کو روشنی بکھیرتا ہے اور قمر یعنی چاند کی حکمرانی رات کو ہوتی ہےاوروہ رات کو روشنی تقسیم کرتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ  نے اپنےمحبوب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ  کے لیے یہ دونوں الفاظ یکجا کر دئیےاور سِرَاجًا مُّنِیْرًا ارشاد فرما کر یہ عیاں کر دیا کہ آپﷺ  کے نور کی ضیا پاشیاں دن کو بھی ہوتی ہیں اور رات کو بھی آپﷺ  کا نور روشنی بکھیرتا ہے۔


جمعہ، 19 جولائی، 2013

سیّدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

(حدیث شریف)

رسالت مآب حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ اس لیے رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد (اہلِ بیت) کو جہنم کی آگ سے دور رکھا ہے۔ وہ تمام پیغمبروں کی بیٹیوں سے افضل ہیں۔ فاطمہ سلام اللہ علیھا اپنی نورانیت کے سبب زہرا کہلاتی ہے۔ زہرا نورانی کو کہتے ہیں۔ فاطمہ سلام اللہ علیہا جنت کی عورتوں کی سردار ہوں گی اور حضراتِ امام حسن اور حسین ؉ جنت کے جوانوں کے سردار ہوں گے۔

 

علامہ اقبال نے سیّدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں لکھا ہے:

جمعہ، 17 مئی، 2013

نورانیتِ مصطفیٰ ﷺ قرآن کی روشنی میں

ازقلم: ڈاکٹر عباس علی قادری

ماہنامہ سوہنے مہربان (ماہِ رجب المرجب 1434ھ)

رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس نور ہے ۔اس شمارے میں نورانیتِ مصطفیٰ ﷺ کو قرآن کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔

    حوالہ رقم 1

قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ          ؀    سورۃ المائدہ  ٫۔ 15

ترجمہ!  بے شک آیا تمھارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور  "یعنی محمدﷺ" اور ایک روشن کتاب[ یعنی قرآن مجید]۔

اس آیت میں نور سے مرادحضورﷺ ہیں اور روشن کتاب سے مراد قرآن ِ مجید ہے ۔

تنویر المقیاس من تفسیر ابنِ عباس  صفحہ نمبر 72
تفسیر ِ کبیر  جلد3  صفحہ 566۔
تفسیر خازن جلد اول صفحہ 441
تفسیر جلالین صفحہ 97
تفسیر روح البیان جلد 2 صفحہ 32 .
تفسیر روح المعانی   پارہ نمبر 6    صفحہ 87 
تفسیر حقانی جلد 2 صفحہ21  وغیرہ

ملفوظاتِ محبوبِ ذات – اہل بیت سے مراد کون ہیں؟

ہمارے نبی اکرم ﷺ کی حدیث شریف (حدیث ِ کساء) کے مطابق اہلِ بیت ؊ وہ برگزیدہ ہستیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی پاکیزگی اور عظمت کے اظہار کے لیے چن لیا۔ یہ مقدس ہستیاں حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام‘ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا‘ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام ہیں۔ اور ان کی محبت کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب ﷺ کی زَبانِ اقدس سے فرض قرار دیا ہے۔ روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ اپنی پیاری بیٹی سیّدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لے گئے اور سیّدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو‘ حضرت مولا علی علیہ السلام کو اور حسنینِ کریمین علیہما السلام کو اپنی کملی مبارک میں چھپا کر فرمایا’’ بارِ الٰہ یہ میرے اہلِ ؊ بیت ہیں۔ ان سے ہر ناپاک چیز کو دور فرما دے۔ اس کے جواب میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیتِ تطہیر نازل فرمائی۔

(حدیثِ شریفہ بحوالہ رسالہ گلستان‘ اجمیر شریف‘ ماہِ محرم‘ ۱۴۱۹ء؁، صفحہ ۱۲)

ہفتہ، 11 مئی، 2013

مناقبِ اہلِ بیت علیہم السلام – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز فرماتے تھے کہ اہلِ بیت کی مودت از روئے قرآن مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ آپ اس آیت کا حوالہ بھی دیتے کہ۔ (القرآن)

قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى               (پارہ ۲۵ سورۃ شوریٰ آیت ۲۳)

تشریح:۔    فرما دیجئے اے میرے محبوب! ان لوگوں سے کہ میں نے جو احسانات تم پر کیے ہیں یعنی تمہیں پاک کیا، اندھیروں سے نکال کر روشنی عطا فرمائی‘ دانائی سکھائی‘ کتاب کا علم دیا، اس سے پہلے تم کھلی گمراہی میں تھے‘ ان کا میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا لیکن میرے اہلِ بیت ؊ سے مودت کرنا۔ پس یہ مودت امت پر فرض ہو گئی۔

نیز حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز درج ذیل آیت کے حوالے سے ساداتِ عظام کی عظمت و حرمت سب پر فرض قرار دیتے۔ ارشادِ خداوندی ہے:

بدھ، 17 اپریل، 2013

صراطِ مستقیم – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز نے اپنے خطبات میں فرمایا کہ میں شیعہ مذہب اور اہلِ سنت والجماعت کے عقیدوں اور ان کی فقہ سے ہٹ کر دین کے وہ اسلوب اختیار کیے ہوئے ہوں جو آقائے نامدار حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ اور آپ کے صحابہ  کا تھا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ اور غوث الثقلین کی راہنمائی سے کسی کو برا نہ کہا۔ حضور پاک ﷺ کی حدیث ہے کہ میرے طریقے پر چلنے والوں کی جماعت میری جماعت ہے اور یہی سوادِ اعظم یعنی بڑی جماعت ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں کہا ہے یہ میری جماعت ہے یعنی صحابہ کرام  کی جماعت جن کو اللہ تعالیٰ نے عشرہ مبشرہ اور الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون فرمایا ہے۔ یہی جماعت سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی ہے جو 72 گروہوں میں سے صراطِ مستقیم پر گامزن ہے۔ اسی نظریے کے تحت حضور سرکارِ عالی نے ہمیشہ اہلِ بیت ؊ اور صحابہ کرام  کو اپنے مواعظ اور خطبات میں اوّلین اہمیت دی۔ اہلِ بیت ؊ سے حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کو والہانہ محبت تھی۔ قرآنِ پاک کے حکم کے مطابق اہلِ بیت ؊ کی محبت فرض ہے۔ صحابہ کرام  کی فضیلت آپ کے اس عمل سے نمایاں ہے کہ آپ سرکار نے ان کی خدمات کو سراہنے کے ساتھ ساتھ جمعۃ المبارک میں ہمیشہ وہ خطبہ پڑھا جس میں اہلِ بیت ؊ اور صحابہ کرام  کے اسمائے گرامی پڑھے جاتے۔ یہ مقبول ترین خطبہ سارے پاکستان کی مساجد میں پڑھا جاتا ہے۔

پیر، 15 اپریل، 2013

یقینِ محکم – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

یقینِ محکم کے لئے ایک چرواہے کی مثال بیان فرمائی۔ اس چرواہے کو جنگل میں پیاس کی شدت نے تنگ کیا۔ اس نے ایک کنویں میں پانی دیکھنے کے لئے جھانکا تو دیکھا کہ ایک مرد اُلٹا لٹک رہا ہے۔ چرواہے نے اُلٹا لٹکنے کا سبب دریافت کیا تو مرد نے جواباً کہا کہ اس نے خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے یہ طریقہ اپنایا ہے۔ چرواہے کو یقین ہو گیا کہ یہ بہت آسان طریقہ ہے‘ پہلے یہی عمل کر لوں‘ پانی بعد میں پی لوں گا۔ پاس ہی بیری کا درخت تھا اس پر آکاس بیل چھائی ہوئی تھی۔ وہ بیری پر چڑھ کر آکاس بیل اتارنے میں لہو لہان ہو گیا کیونکہ بیری کے درخت میں کانٹے نوک دار ہوتے ہیں۔ اس نے رب کو حاصل کرنے کے لئے زخموں پر کوئی دھیان نہ دیا۔ آکاس بیل کچی ہوتی ہے‘ پھر بھی وہ اس سے رسا بنا کر اس درخت پر چڑھ گیا۔ آکاس بیل کے رسے کا ایک سرا درخت کے ٹہنے کے ساتھ باندھا اور دوسرا سرا اپنی ٹانگوں سے باندھ کر نیچے لٹک گیا۔ رسے میں کوئی جان نہ تھی مگر لٹکنے والا کامل یقین کا حامل تھا۔ وہ خدا کا قرب چاہتا تھا۔ بیل کا رسا ٹوٹ گیا۔ وہ گرا لیکن بیشتر اس کے کہ اس کا سر زمین سے ٹکراتا، اللہ تعالیٰ نے باطن کھول دیا۔ یہ یقینِ محکم ہے۔

جمعہ، 12 اپریل، 2013

مقاماتِ مقدسہ کی فضیلت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

مقاماتِ مقدسہ‘ درباروں‘ خانقاہوں اور مزارات پر دعا کی مقبولیت‘ بہ نسبت عام جگہوں کے‘ جلد ہوتی ہے۔

(القرآن)     وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰيٰكُمْ         ﴿پاره ۱، سورة البقرة ، آية ۵۸﴾

ترجمہ۔ (بنی اسرائیل کو حکم ہوا) کہ وہ دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں اور کہیں کہ ہمارے گناہ معاف ہوں‘ ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے۔ وہ دروازہ مقدس تھا اس لئے قبولیت ِ دعا کے لئے فائدہ مند تھا۔

پیر، 8 اپریل، 2013

قرآنِ پاک اور رسول اللہ ﷺ از روئے قرآن نور ہیں – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

قرآنِ پاک اور رسول اللہ ﷺ از روئے قرآن نور ہیں

قرآنِ پاک کی رو سے قرآنِ مجید اور سرکارِ دو عالم‘ امام الانبیاء‘ خاتم النبیّن‘ احمد مجتبٰے محمد مصطفٰے ﷺ نور ہیں۔ دونوں ابد تک رہیں گے‘ ہمیشہ سے ہیں‘ ہمیشہ ہی رہیں گے۔ قرآن اور شریعت تا ابد رہیں گے۔ قیامت تک آئندہ نہ کوئی الہامی کتاب آئے گی اور نہ ہی کوئی نبی آئے گا، نہ ہی کوئی دوسری شریعت آئے گی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کی حفاظت کا خود وعدہ فرمایا ہے اور جنابِ رسالت مآب ﷺ کی حدیث ِ پاک ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔

جمعہ، 29 مارچ، 2013

شکر و نعمت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

(1)    مصیبتیں ایذا پہنچانے کے لئے نہیں بلکہ بیدار کرنے کے لئے آتی ہیں۔

(2)    درویشی یہ ہے کہ کسی چیز کا طمع نہ کرے‘ جب بے طلب کوئی لائے تو منع نہ کرے اور جب لے لے تو جمع نہ کرے۔

(3)    مصائب کا مقابلہ صبر سے اور نعمتوں کی حفاظت شکر سے کرو۔

ارشادِخداوندی:

اتوار، 24 مارچ، 2013

قرآن پاک میں نفس پرستی کا ذکر – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

اور ایسے لوگوں کی پیروی مت کرو جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ۔ باپ کے ساتھ احسان کرو۔ اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو‘ ہم ان کو اور تم کو بھی رزق دیں گے۔ بے حیائی کے جتنے بھی طریقے ہیں‘ ان کے پاس تک نہ جاؤ خواہ وہ علانیہ ہوں خواہ پوشیدہ ہوں۔ جو عہد کرو اس کو پورا کرو۔

بلکہ ان ظالموں نے بلا تحقیق دلیل اور علم کے اپنی خواہشات کی پیروی کی۔ سو جس کو اللہ گمراہ کرے اس کو کون راہ پر لاوے؟ اور ان کا کوئی حمائتی نہ ہوگا۔ (سورۃ الروم، آیت ۲۹)

جمعرات، 14 مارچ، 2013

نفس اور روح کی تفسیر – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

اللہ تعالیٰ نے ہر انسانی جسم میں اپنے مقام کے ساتھ ساتھ نفس اور روح کو بھی داخل فرمایا۔ نفس کو موت ہے۔كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ﴿سورة آل عمرآن، آية 185، سورة الانبياء، آية 35. سورة العنکبوت، آية 57﴾۔ روح نور ہے جس کو موت نہیں۔ روزِ محشر اسی کا حساب ہو گا اور یہی جنت یا نعوذ باللہ دوزخ میں داخل کی جائے گی۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے تمام خطاب روح کو کئے ہیں اور اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ﴿سورة الاعراف، آية ١٧٢﴾ پر روح نے ہی   بَلٰى ﴿سورة الاعراف، آية ١٧٢﴾ کہہ کر اقرار کیا تھا۔ اس لئے اس کا امتحان ہے۔

نفس کی غذا

عیش و عشرت‘ جاہ و حشمت‘ لوازمات‘ لذیذ کھانے‘ آرام و آسائش‘ خودستائی‘ دروغ گوئی‘ حرص و ہوا، تکبر‘ غرور‘ گھمنڈ‘ نخوت‘ لالچ وغیرہ۔

نفس سے جہاد کرتے رہو۔ حدیث شریف کے مطابق جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹنے کا مطلب مجاہدۂ نفس ہے‘ اس لئے کہ نفس ہمیشہ اور مستقل طور پر طالب ِ لذت و شہوت رہ کر غرقِ معصیت (گناہ) رہتا ہے۔

القرآن        وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ      ﴿سورة الحجر، آية ۹۹﴾

ترجمہ۔ رب کی عبادت کرتے رہو یہاں تک کہ تمہیں یقین آ جائے (نہایت درجہ حاصل ہو)۔

 

روح کی غذا

پیر، 11 مارچ، 2013

مدارات – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز مریدین کے خطوط کا جواب بذاتِ خود دیتے۔ ان خطوط میں مریدین کے سوالات کے جوابات کے علاوہ تصوف کے دقیق مسائل سے بھی مریدین کو آگاہ فرماتے۔ بسا اوقات ان کی باطنی اصلاح فرماتے۔ شیطانی وسوسوں سے آگاہ فرماتے۔ ان کی تشریح کر کے بچاؤ کے طریقے بتاتے یہ کہ ہر مرید کے لئے لازمی ہے کہ وہ خطراتِ شیطانی سے آگاہ ہو اور خطرات وارد ہونے کی صورت میں حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کر کے اپنا ایمان بچا سکے۔ اگر بچاؤ کا طریقہ معلوم نہ ہو گا تو عین ممکن ہے کہ مرید اپنا ایمان ضائع کر بیٹھے۔ خطرات کی تشریح اس طرح فرمائی کہ شیطانی خطرات شریعت کی کسوٹی پر پرکھنے سے معلوم ہو سکتے ہیں۔ یہ قانونِ شریعت کے خلاف ہوتے ہیں۔ لا حول ولا قوت الا بالله العلي العظيم پڑھنے سے شیطانی خطرات ٹل جائیں گے۔

جمعرات، 7 مارچ، 2013

الفقر فخري – فقر کی تشریح – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

اَلفَقرُ فَخرِي

فقر کی تشریح

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز ولایت کے بلند درجات پر فائز تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو محبوبِ ذات کے درجہ سے نوازا جو خاص الخاص قربت ِ الٰہی کا درجہ ہے۔ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز نے فقر کی تشریح فرماتے ہوئے فقر کے تین درجے بتائے۔ فقرِ کامل، فقرِ مکمل، فقرِ اکمل۔ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔

ارشادِ نبوی:۔        الفقرُ فخري والفقرُ منّي

ترجمہ۔ مجھے فقر پر فخر ہے۔ فقر مجھ سے ہے۔

چونکہ ساری کائنات میں کسی نبی یا ولی کی پرواز فقر کی انتہائی منزل اور درجے تک نہ ہو سکتی تھی‘ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فقر کے تین درجوں کا تعین فرمایا۔

 

پہلا درجہ فقر کامل

فقرِ کامل کی یہ شان ہوتی ہے کہ خود فانی اور اللہ کے ساتھ باقی ہوتا ہے۔ اس کا دل غیر اللہ کی طرف مائل نہیں ہوتا اور یہ ہمہ وقت مشاہدۂ الٰہی میں محو رہتا ہے۔

جمعرات، 28 فروری، 2013

صدقات کے احکامات (من القرآن)

ارشادِ خداوندی ہے۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ    ﴿پارہ ۳، سورة البقرة٫ آية ۲۶۴

ترجمہ۔ اے ایمان والو اپنے صدقے باطل نہ کیا کرو۔

اِنَّ الْمُصَّدِّقِيْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ وَاَقْرَضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا يُّضٰعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ اَجْرٌ كَرِيْمٌ           ؀  ﴿پارہ ۲۷، سورة الحديد٫ آية ۱۸

ترجمہ۔ بیشک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جنہوں نے اللہ کو اچھا قرض دیا، ان کے دوگنے (ملنے) ہیں۔

رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِيْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ ۙ فَاَصَّدَّقَ وَاَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ ؀

﴿پارہ ۲۸، سورة المنافقون٫ آية ١٠

ترجمہ۔ اے رب میرے! تو نے مجھے تھوڑی مدت تک اور مہلت کیوں نہ دی تاکہ میں صدقہ دیتا اور نیکوں میں ہوتا؟
صدقے سے مراد مالِ حلال میں خوش دلی سے راہِ خدا میں خرچ کرنا ہے۔ قرضِ حسنہ سے مراد راہِ خدا میں خرچ کرنا ہے۔

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۭفَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ  ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ؀        ﴿پارہ ۱۰، سورة التوبة٫ آية ۶۰

ترجمہ۔ صدقات تو دراصل یتیموں اور مسکینوں کے لئے ہیں اور ان لوگوں کے لئے جو صدقات وصول کرنے پر معمور ہوں اور ان کے لئے جن کی دلجوئی منظور ہو اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی امداد میں استعمال کرنے کے لئے۔ پس یہ فرض ہے اللہ کی طرف سے۔ اللہ علیم و حکیم ہے۔

جمعہ، 22 فروری، 2013

مصائب و آلام – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ارشادِ خداوندی ہے۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ  ۭاِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ
(سورة البقرہ، آيت ۱۵۳)

ترجمہ۔ اے ایمان والو نماز اور صبر سے مدد لو‘بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

 

تشریح:۔    نعمتوں پر شکر اور مصائب میں صبر اور نماز سے مدد لو۔ اگر کوئی شے بطورِ نعمت ہے تو شکر بجا لاؤ‘ اگر بطورِ مصیبت ہے تو صبر اختیار کرو۔ صبر و استقامت سے قضا و قدر کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دو۔ مصائب سے درجات کی بلندی ہوتی ہے۔ اپنے سے غائب ہونا، گم ہونا، وجود کو فراموش کر دینا، حق کی حضوری ہے۔ اپنی صفت کو ثابت و قائم کرنے کا نام بشریت ہے۔ ماسوائے اللہ کی ذات کے تمام چیزوں سے دل کو آزاد و فارغ رکھنے کا نام فقر ہے اور فقر مصیبتوں کا دریا ہے جس میں غوطہ زن ہونے کے بعد فقر ’’فخر‘‘ بن جاتا ہے۔

جمعرات، 21 فروری، 2013

تواضع – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

تواضع

تواضع رحمت ِ خداوندی کا ایسا دروازہ ہے جو تکبر اور غرور کو کاٹنے والا ہے۔ بغض اور تکبر کو ہر حال میں اپنے نفس سے باہر نکال پھینکو۔ توحید یہ ہے کہ مردِ مواحد (توحید پرست) جمالِ احدیت کو چشمِ دل سے بے نقاب دیکھے۔ مشاہدہ سے مراد ذاتِ الٰہی کا چشمِ دل سے دیکھنا ہے۔ محبوب کی ملاقات کے لئے دل کا شوق و اضطراب محبت ہے۔ جس طرح جسم کا قیام روح سے ہے‘ اسی طرح حب کا قیام محبوب کے دیدار اور وصل سے ہے۔ محبت کے معنی ہیں "دوستی میں صفائی اور اخلاص۔" بندہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت اس کا رحم و کرم و بخشش ہے۔ بندے کی محبت ذات و صفاتِ خداوندی میں محویت و استغراق ہے۔ محبت ایک ازلی صفت ہے۔ اکتسابِ فیض تبھی ہو سکتا ہے جب انسان معاف کرنے کی خو ڈالے‘ در گذر کرنے والا بن جائے‘ انتقامی جذبہ نہ رکھے۔

سب سے پھلے کائنات کی تخلیق کے لئے اللہ تعالٰی کو عشق ہوا تھا یعنی ابتدائے عشق ذاتِ باری تعالٰی نے کی اور انتہائے عشق حضرت امام حسین علیہ السلام نے کی۔ ازل میں ذات اپنے حسن و انوار پر خود ہی عاشق ہوئی پھر زمانے میں عشق پھیل گیا۔