جمعرات، 28 نومبر، 2013

بیعت کا حکمِ قرآنی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ ۭ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ ۚ فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا يَنْكُثُ عَلٰي نَفْسِهٖ ۚ وَمَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَيْهُ اللّٰهَ فَسَيُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًا

ترجمہ۔    اے نبی اکرم ﷺ! جو لوگ تمہارے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں‘ وہ خدا سے ہی بیعت کر رہے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ جو اس اقرار کو ادا نہ کرے گا جو بیعت ہوتے وقت اس نے کیا تھا تو اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔ اور جس نے عہد پورا کیا پس اس نے بڑا اجر پایا۔

(سورۃ الفتح، آیت ۱۰)

جمعرات، 21 نومبر، 2013

شرفِ بیعت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ہر قوم راست کردہ دینے و قبلہ گاہے

من قبلہ راست کردم بر سمتِ کج کلاہے

(امیر خسروؒ)

 

اِلٰہ آباد قیام کے دوران حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نمازِ عشاء کے بعد ہر شب نماز پر وعظ فرماتے۔ نماز کی اہمیت اور فوائد سے حاضرین کو آگاہ فرماتے۔ قرآنِ پاک کی آیات کے حوالے سے وضاحت فرماتے۔ یہ عمل ساری رات جاری و ساری رہتا۔ تمام شب بیداری کرتے۔ نمازِ فجر اور اپنے معمولِ وظائف کے بعد اپنی مصروفیات کا آغاز کرتے۔ شب بیداری کے باوجود آپ کے روز مرہ کے معمولات میں کوئی فرق نہ آتا۔ دن بھر اپنے فرائض سر انجام دیتے اور اگلی رات پھر وعظ فرماتے۔ غرض کہ یہ معمول روزانہ جاری رہتا۔ کئی سال تک اس پر عمل پیرا رہے۔ انہی ایام میں راقم الحروف (مصنفِ ملفوظاتِ محبوبِ ذات، سیّد افضال احمد حسین گیلانی، سجادہ نشین منڈیر شریف سیّداں) کو سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے دستِ حق پرست پر بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔

جمعرات، 14 نومبر، 2013

دعا فی سبیل اللہ – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

میں یہاں یہ وضاحت کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز دعا فی سبیل اللہ فرماتے تھے۔ دعا کا کوئی معاوضہ نہ لیتے۔ اس اصول پر تمام عمر کاربند رہے اور فرماتے کہ ہمارے آباؤ اجداد کا یہ اصول 1400 سال سے چلا آ رہا ہے۔ دعا کا پیسہ لینا ہمارے لیے حرام ہے۔ اس وقت بھی دربار شریف میں اس اصول پر سختی سے عمل ہو رہا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔

جمعرات، 7 نومبر، 2013

اِدھر دعا، اُدھر قبولیت کی بشارت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز دعا کو کلیدِ رحمت قرار دیتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ دعا عبادات کا مغز ہے‘ عبادات و ریاضت کا جوہر ہے ۔۔۔ دعا کی عظمت یہ ہے کہ اِدھر اہلِ نظر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں‘ اُدھر دعا درِ قبولیت تک پہنچ جائے۔ اِدھر زَبان سے دعا کے لفظ ادا ہو رہے ہوں‘ اُدھر مقبولیت کی بشارت مرتب ہو رہی ہو۔ اور کمالِ دعا یہ ہے کہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے سے قبل ہی دعا قبول ہو جائے۔ میں نے یہ منظر بھی بار ہا دیکھے کہ اِدھر حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے دعا کا رادہ کیا، اُدھر دعا قبول ہو گئی اور حاجت مند دست بوسی کرتا خوشی خوشی اپنے مقام کی طرف لوٹ گیا۔