جمعہ، 14 نومبر، 2014

منڈیراں میں بھی‘ لاہور میں بھی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور قدس سرہٗ العزیز کے خلیفہ کلن خان لاہور میں شربت بیچتے تھے۔ حضور قدس سرہٗ العزیز کی خدمت میں حاضری پر درخواست کی کہ حضور لاہور تشریف لائیں تو شربت آپ کی خدمت ِ عالیہ میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرے۔ آپ ان کے اڈہ پر تشریف لائیں۔ حضور قدس سرہٗ العزیز نے فرمایا کہ آپ ہمیں شربت نہیں پلائیں گے۔ کلن خان نے عرض کی حضور! یہ کیسے ممکن ہے؟ بندہ تو اسے سعادت سمجھے گا۔

جمعہ، 7 نومبر، 2014

مخلوقِ خدا پر تشدد نہ کرو – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

خواجہ صلاح الدین کا بہنوئی علاؤ الدین سکریٹریٹ میں ملازم تھا۔ ایک روز دوانِ سفر سیٹ پر کسی سے جھگڑا ہو گیا۔ علاؤ الدین‘ جو جسمانی طور پر بہت قوی تھا، نے اس شخص کو اٹھا کر گاڑی سے باہر پھینک دیا۔ ریل گاڑی اس وقت کم رفتار سے چل رہی تھی۔ علاؤالدین کو جب قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا تو حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے فرمایا کہ سوہنیا، مخلوقِ خدا سے ایسا سلوک جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اگر جنت کے طلب گار ہو تو میری مخلوق کے گناہ بخشا کرو۔ مخلوق پر تشدد کرنے کی ہرگز اجازت نہیں۔ علاؤ الدین بہت شرمسار ہوا اور اس کو یہ بھی یقین ہو گیا کہ حضورِ پاک قدس سرہٗ العزیز اپنے مریدوں کی سب حرکات و سکنات کو ہر وقت دیکھتے رہتے ہیں۔ حضورِ پاک قدس سرہٗ العزیز نے علاؤ الدین کو تنبیہ فرمائی کہ آئندہ کے لیے احتیاط کرو۔ فرمایا

جمعہ، 31 اکتوبر، 2014

گھر واپسی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

خواجہ صلاح الدین (اچار مربّا مرچنٹ‘ اکبری منڈی) کو حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے اپنے لطف ِ کریمانہ و شاہانہ سے اس قدر نوازا تھا کہ وہ اکثر جذب کی حالت میں رہتا۔ اسی کے زیر اثر وہ گھر سے بھاگ کر جہلم ٹمبر مارکیٹ میں جا کر تین روپے روزانہ مزدوری پر ملازم ہو گیا حالانکہ وہ بی۔اے تک تعلیم یافتہ تھا۔ اس کی ماں نے بہت تلاش کیا مگر کہیں اس کا پتا نہ چل سکا۔

جمعہ، 24 اکتوبر، 2014

بیرونِ ملک بھاگنے سے روک دیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

فقیر محمد‘ ساکن لاہور‘ لنڈا بازار میں آٹے چینی کا ڈپو چلاتا تھا۔ ایک روز اس کا لڑکا سات صد روپے لے کر گھر سے غائب ہو گیا۔ فقیر محمد نے اپنے سب رشتے داروں کے ہاں اس کو تلاش کیا مگر نہ مل سکا۔ بسیار کوشش کے بعد مایوس ہو کر دربار شریف حاضر ہوا اور دعا کے لیے عرض پیش کی۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے فرمایا کہ تمہارا لڑکا اپنے ایک دوست سے ساز باز کر کے بیرونِ ملک جا رہا ہے۔ اگر تم آج دعا کے لیے نہ آتے تو کل تمہارا لڑکا ہمیشہ کے لیے ملک سے باہر چلا جاتا۔

جمعہ، 17 اکتوبر، 2014

حادثہ کے باوجود محفوظ – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

خلیفہ شیر محمد صاحب نے بیان کیا کہ وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ لندن ہیتھرو ائرپورٹ سے بذریعہ کار‘ نوٹنگم اپنی بیٹی اور داماد کے پاس جا رہے تھے۔ گاڑی ان کا بھانجا ڈرائیو کر رہا تھا۔ مرسیڈیز نئی گاڑی نوے میل کی سپیڈ سے تیز رفتار لین میں ہائی وے پر جا رہی تھی کہ اچانک پچھلا دایاں ٹائر ایک بہت زور دار دھماکے سے پھٹ گیا، جس کی آواز اس قدر بلند تھی کہ ان سب کو یہ گمان ہوا کہ کسی نے بم مار دیا ہے۔ جب گاڑی بے قابو ہو کر بائیں طرف دوسری دو متوازی لین کی طرف تیزی کے ساتھ مڑی تو ڈرائیور گھبراہٹ میں خدا تعالیٰ کو زور زور سے پکار کر چیخنے چلانے لگا۔

جمعہ، 10 اکتوبر، 2014

امریکہ سے واپس منگوا دیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

جھنگ ضلع کے میاں بیوی حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض پرداز ہوئے کہ ان کا لڑکا گھر سے چلا گیا ہے۔ بسیار تلاش اور کوشش کے اس کا کہیں کوئی سراغ نہیں مل سکا اور دعا کے لیے عرض کرتے ہوئے اپنی پریشانیوں کا اظہار کیا۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز چند ساعت خاموش رہے۔ پھر فرمایا کہ تمہارا لڑکا امریکہ میں ہے اور وہاں ایک کارخانے میں ملازم ہے۔ ہم نے کارخانے کے منیجر کو ہدایت کی ہے کہ وہ تمہارے لڑکے کو‘ جو غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہو گیا ہے‘ اس کو قانون کے تحت جائز قرار دے کر‘ اس کے واپسی کے کاغذات مکمل کروا کر‘ اس کو رخصت پر پاکستان بھیجے۔ فرمایا تمہارا لڑکا پندرہ دن کے بعد تمہارے پاس آ جائے گا۔ ایسا ہی ہوا۔ اس کے والدین اس کو ہمراہ لے کر سلام پیش کرنے اور شکریہ ادا کرنے کے لیے دربار شریف حاضر ہوئے تو لڑکے نے حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کو پہچان کر عرض کیا کہ حضور پاک خود بنفسِ نفیس کارخانے میں آئے تھے اور منیجر کو میری موجودگی میں ہدایات کی تھیں۔

جمعہ، 3 اکتوبر، 2014

کُھلّا سائیں – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

سائیں کھلا، ساکن فیصل آباد‘ اپنی ملازمت سے رخصت حاصل کر کے موضع کورووال اپنے سسرال سے ملاقات کے لیے آیا ہوا تھا۔ رخصت ختم ہونے پر سسرال والوں نے واپس نہ جانے دیا اور کورووال میں ہی کوئی کام کرنے کا مشورہ دیا۔ لہٰذا سائیں کھلّا نے سبزی فروخت کرنے کا دھندا شروع کر دیا۔ ایک روز سبزی لے کر ساہو والا اسٹیشن سے اتر کر سیدھا دربار شریف پہنچا اور آواز لگائی: تازہ سبزی لے لو۔ حُسنِ اتفاق سے حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز اس وقت اپنے کمرے میں تشریف فرما تھے۔ حضور پاک قدس سرہٗ العزیز نے کھلا سائیں سے سبزی لے کر اندر بھیج دی اور اپنی جیب سے دو روپے کا نیا نوٹ نکال کر دیا۔ سائیں کھلا نے عرض کیا حضور پاک! یہ رقم کم ہے۔ حضور پاک قدس سرہٗ العزیز نے فرمایا کہ ہم نے تجھے جنت کا ٹکٹ دیا ہے اور ساتھ ہی تجھے خرید لیا ہے یعنی اپنا بنا لیا ہے۔ ان دو نعمتوں سے سرفرازی کے بعد اب تمہیں کس چیز کی کمی رہ گئی ہے؟ کھلا سائیں عنایات پر بے حد مشکور اور خوش ہوا۔ چند دنوں بعد دوبارہ حاضر ہو کر اس نے حضور پاک قدس سرہٗ العزیز کی غلامی کا شرف حاصل کر لیا۔

جمعہ، 26 ستمبر، 2014

پھانسی سے بری کر دیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

نور بلوچ نامی شخص ساکن جھنگ سے ایک شخص قتل ہو گیا۔ مقدمے کی سماعت ماتحت عدالتوں سے اس کے خلاف ہوتی ہوئی عدالت ِ عالیہ میں پہنچ گئی۔ فیصلے کے لیے ایک ہفتہ بعد کی تاریخ مقرر ہوئی۔ نور کی والدہ کو مقدمے کی سماعت اور حالت سے یقین ہو چکا تھا کہ اس کا بیٹا یقیناً پھانسی چڑھ جائے گا۔ وہ پریشانی کی حالت میں خلیفہ منور شاہ صاحب کے پاس دعا کرانے کی غرض سے حاضر ہوئی۔ چونکہ معاملہ بہت گھمبیر تھا اور خلیفہ کی پہنچ اور طاقت سے باہر تھا، اس لیے انہوں نے نور کی والدہ کو دربار شریف ‘حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی بارگاہ میں بھیج دیا۔ اس خاتون نے بارگاہِ عالیہ میں رو رو کر التجا کی کہ میرے بیٹے کو پھانسی سے بچا لیں۔ حضور پاک قدس سرہٗ العزیز کو اس کی حالت ِ زار پر ترس آ گیا۔ آپ چند ساعت استغراق میں خاموش رہے۔ پھر اپنی انگشت ِ شہادت سے اپنی مسند پر پڑے ہوئے گاؤ تکیے پر دو مرتبہ لکھا کہ ’’اللہ نے نور کو بری کر دیا‘‘، ’’اللہ نے نور کو بری کر دیا‘‘ اور تیسری مرتبہ لکھا ’’ہم نے نور کو بری کر دیا‘‘۔ مائی دعا کے بعد واپس چلی گئی۔ جب مقدمہ فیصلہ کے لیے جج صاحب کے روبرو پیش ہوا تو جج صاحب نے مثل پر مندرجہ بالا کلمات تین سطور میں تحریر کردہ موجود پائے۔ جج صاحب وہ کلمات پڑھ کر حیرت زدہ ہو گئے اور دل میں خیال کیا کہ پہلے یہ کلمات مثل پر تو نہ تھے۔ جج صاحب نے فیصلہ لکھنے کے لیے مثل کا معائنہ کیا تھا۔ انہوں نے اس سے اخذ کیا کہ یہ کوئی مشیت ِ ایزدی ہے‘ یقیناً کوئی راز کی بات ہو گی۔ ورنہ نور کے خلاف جرم تو ثابت ہو چکا تھا۔ اس کو کسی غیبی طاقت نے بری فرما دیا ہے۔ اس لیے میں نور کو کیونکر سزا دے سکتا ہوں؟ اس نے ان حالات کے تحت نور کو بری کر دیا۔ اس کی والدہ چند دن بعد بیٹے کو ہمراہ لے کر دربار شریف شکریہ ادا کرنے حاضر ہوئی اور ساری کیفیت بیان کی۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے ایک ناممکن بات کو ممکن کر دیا۔

جمعہ، 19 ستمبر، 2014

سکھ کا بیٹا زندہ کر دیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ساہو والہ کے قریب ایک گاؤں سے ایک سکھ اور اس کی بیوی دربار شریف حاضر ہو کر عرض پرداز ہوئے کہ ان کا اکلوتا بیٹا فوت ہو گیا ہے۔ وہ اس کو کمرے میں بند کر کے باہر سے قفل لگا آئے ہیں اور التجا کی کہ حضور! جب تک بچہ زندہ نہ ہو گا، ہم یہاں سے نہ جائیں گے۔ وہ زار و قطار روتے اور چیخ و پکار کرتے تھے۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کو ان کی حالت ِ زار پر رحم آ گیا۔ آپ نے ہاتھ میں پانی لے کر آسمان کی طرف اچھالا۔ پانی کے قطرے فضا میں گم ہو گئے‘ واپس زمین پر نہ گرے۔ فرمایا: جاؤ! تمہارا بیٹا زندہ ہے۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو مردہ لڑکے کو زندہ پایا اور پانی کے وہی قطرے اس کے چہرے اور پیشانی پر موجود تھے۔

جمعہ، 12 ستمبر، 2014

اللہ دتہ کے لڑکے اکرم کا دوبارہ زندہ ہونا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

دربار شریف میں مریدین کے قیام کے لیے کمروں کی تعمیر ہو رہی تھی۔ اکرم بطورِ مزدور کام کرتا تھا۔ ایک شام گارا بنانے کے لیے مٹی کھود کر جمع کر رہا تھا کہ اچانک ساتھ والی دیوار سے ایک مٹی کا بہت بڑا تودہ اس پر گرا اور وہ نیچے دب گیا۔ بڑی مشکل کے بعد مٹی سے اس کو باہر نکالا تو بے جان تھا، رنگ زرد اور سانس بند تھا۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز یہ سن کر وہاں تشریف لے آئے۔ کافی دیر تک اکرم کو تکتے رہے۔ وہ مر چکا تھا لیکن آپ کی توجہ سے چند منٹ بعد اس نے آنکھیں کھول دیں تو حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے بصد مسرت فرمایا شاباش اکرم! تم زندہ ہو۔ مت گھبراؤ۔ تم بالکل ٹھیک ہو۔ فرمایا اس کو دودھ اور گھی پلاؤ۔ وہ چند ہی گھنٹوں کے بعد اٹھ کر چلنے پھرنے لگا۔ اس نے بتایا کہ وہ بہت دور سے واپس آیا ہے۔ ماشاء اللہ وہ آج کل بھی بقید ِ حیات ہے اور دربار شریف حاضری دیتا رہتا ہے۔

جمعہ، 5 ستمبر، 2014

شاہ مہندرا کی آمد – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ایک مرتبہ سیّد منشا شاہ کی ڈیوٹی واہگہ سرحد پر نیپال کے بادشاہ مہندرا کی پاکستان آمد پر سیکورٹی پر لگا دی گئی۔ اتفاقاً برادرِ خورد سیّد اقبال احمد حسین شاہ صاحب سیّد منشا کو ملنے تشریف لے آئے۔ واپسی پر شاہ صاحب کو اپنے ہمراہ دربار شریف لے گئے۔ وہاں حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے ان کو دو دن کے لیے روک لیا۔ شاہ صاحب جب تیسرے روز ڈیوٹی پر گئے تو ان کے عملے نے تصدیق کی کہ شاہ صاحب کبھی ڈیوٹی سے غیر حاضر نہیں رہے‘ البتہ بادشاہ کی آمد کے موقع پر شاہ صاحب بڑے محتاط رہے۔ کسی سے بات تک نہ کی۔ شاہ صاحب کو یقین ہو گیا کہ سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے اپنے تصرف سے یہ کام لے کر شاہ صاحب کو حاضر رکھا۔ مرشد‘ مرید کا کس حد تک ساتھ دیتا ہے‘ اس کی وضاحت عملاً کر کے دکھا دی۔

جمعہ، 29 اگست، 2014

جاؤ چیف کر دیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

محکمہ اربن ٹرانسپورٹ اومنی بس لاہور میں شیخ رحمت اللہ اکاؤنٹس افسر تھے۔ اس محکمے کا انگریز چیف منیجر جب ریٹائر ہو گیا تو شیخ رحمت اللہ‘ چوہدری علم الدین کی وساطت سے دربار شریف آئے اور عرض پرداز ہوئے حضور! دعا فرما دیں میں چیف منیجر ہو جاؤں۔ فرمانِ عالی ہوا تمہاری تعلیم اور عہدے کے اعتبار سے تمہارا چیف کے عہدے پر ترقی پانا اور فائز ہونا ناممکن ہے مگر چونکہ آپ دعا کے لیے آئے ہیں تو جاؤ آپ چیف ہو جائیں گے اور کوئی افسر یا اتھارٹی آپ کو اس عہدے سے معزول نہ کر سکے گی۔ مشرقی پاکستان سے ایک اکاؤنٹنٹ جنرل تعینات ہو کر آ گیا۔ حکومت نے دوبارہ اشتہارات اخبارات میں دیئے۔ بہت سے ریٹائرڈ اکاؤنٹنٹ جنرل قسمت آزمائی کرنے آئے مگر جس کو سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے منتخب فرما دیا تھا، اس کے مقابلے میں کسی کو کامیابی نہ ہوئی۔ حالانکہ شیخ صاحب تعلیم کے لحاظ سے دوسروں سے کم تھے یعنی تعلیم بہت کم تھی لیکن چیف منیجر مقرر ہوئے اور ریٹائرمنٹ تک چیف رہے۔ ان کی تقرری نے اعلیٰ عہدوں کے افسران کو حیرت زدہ کر دیا کہ شیخ رحمت اللہ پر کسی بلند ہستی کا ہاتھ ہے جو اس کے مقابلے میں بڑے بڑے تجربہ کار اور اعلیٰ ڈگریوں والے‘ سب ناکام رہے۔ یہ سب سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی نظرِ کرم اور کمال کا اثر تھا جس کے مقابلے میں سب ظاہری طاقتیں ناکام ہو کر رہ گئیں۔

جمعہ، 22 اگست، 2014

ڈاکٹر حضرات کی فریاد – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

انبالہ میں قیام کے دوران حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی نظرِ کرم سے لوگ زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہوتے رہے۔ ہر تکلیف کے لیے مخلوقِ خدا جوق در جوق بارگاہِ عالی میں حاضری دیتی اور فیض یاب ہو کر جاتی۔ یہ عرصہ تقریباً 3 سے 5 سال پر محیط ہے۔ جسمانی بیماریوں والے لوگ اس قدر فیض یاب ہوئے کہ علاقے کے ڈاکٹروں نے حکومت سے اپنی مالی خستہ حالی کا رونا شروع کر دیا کہ لوگ تو شاہ صاحب کی کرامت سے ہر بیماری سے شفا یاب ہو رہے ہیں اور یہ کمال کا سیّد ہے کہ کسی سے کچھ لیتا بھی نہیں۔ ہمارے پاس مریض آتا ہی کوئی نہیں۔ لہٰذا اس کا تدارک کیا جائے کیونکہ مریض حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی فی سبیل اللہ دعا سے صحت یاب ہو جاتے ہیں۔

جمعہ، 15 اگست، 2014

پنجتن پاک علیہم السلام کی زیارت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

شاہ صاحب فارغ ہو کر باہر صحن میں بڑ کے درخت کے نیچے بیٹھ کر مراقبہ کرنے میں مصروف ہو گئے۔ چند ساعت کے بعد مشاہدہ ہوا کہ وہ پنجتن پاک علیہم السلام کے دربارِ عالیہ میں حاضر ہیں۔ دربار پاک کی ہیبت اور رعب کی تاب نہ لا سکے اور دروازے پر رُک گئے۔ اندر سے سرکار غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور کہا آئو بیٹا! ہم آپ کو پنجتن پاک علیہم السلام کی زیارت کراتے ہیں۔ آپ کا ہاتھ پکڑ کر لے گئے اور پنجتن پاک علیہم السلام کی بارگاہ میں پیش کر دیا۔ سیّد ظفریاب حسین نے حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کو اپنا یہ مشاہدہ ہم سب کی موجودگی میں بیان فرمایا اور کہا کہ ان کو تمام عمر یہ سعادت نصیب نہ ہوئی جو حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے چند لمحوں میں عطا فرما دی۔ حالانکہ بقول اُن کے‘ وہ اٹھارہ سال سے امام بارگاہ کی بطورِ متولی خدمت کر رہے تھے۔ ان کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مجھ پر تین کرم نوازیاں ہوئی ہیں۔ پہلی پنجتن پاک علیہم السلام کی زیارت‘ دوئم حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ کا نجیب الطرفین گیلانی سیّد ہونا اور تیسرے ان کا شاہ صاحب کو بیٹا کہہ کر ثابت کرنا کہ ظفر حسین شاہ صاحب بھی صحیح النسب سیّد ہیں۔ اس سے حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے کمالات کی تصدیق ہوتی ہے۔

جمعہ، 8 اگست، 2014

اہلِ تشیع کی تبدیلیٔ مسلک – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

شیعہ اپنے عقیدے کے اعتبار سے امام آخر الزماں علیہ السلام کے علاوہ کسی سے بیعت کرنے کے قائل نہیں۔ شیعہ حضرات صرف کسی مجتہد کی تقلید کر سکتے ہیں‘ بیعت نہیں کر سکتے۔ مگر میری سچی سرکار کا عارفانہ کلام سن کر لاہور کے بے شمار شیعہ حضرات آپ کے حلقۂ غلامی میں شامل ہو گئے۔ جن میں سیّد ظفریاب حسین متولی امام بارگاہ الف شاہ‘ سیّد ذوالفقار علی‘ شیعہ فرقے کے جیّد عالم اور ان کا سارا خاندان‘ سیّد احتشام الدین‘ شیعہ فرقے کے سیّد ناصر علی شاہ شمس رقم‘ سیّد آصف جاہ فلمسٹار‘ متولی پیر صابر شاہ‘ سیّد سیف علی‘ مدیر رسالہ الحرمت‘ سیّد حکیم مظفر علی شاہ‘ سیّد ارشد حسین گیلانی‘ حجرہ شاہ مقیم‘ لاہور کے حکیم حاذق‘ شیعہ عالم‘ اور دیگر حضرات شامل ہیں۔

جمعہ، 1 اگست، 2014

لوہا سونا بن گیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ایک مرتبہ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز‘ حسن ابدال تشریف لے گئے۔ وہاں آپ کا ایک سکھ دوست مقیم تھا۔ جب اس نے اپنی برادری کے لوگوں میں حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کا تعارف کروایا تو سینکڑوں لوگ دعا کے لیے آپ کے گرد جمع ہو گئے۔ آپ نے سب کی مشکل حل فرمائی۔ دعا سے سب مستفید ہوئے تو ایک غیر مسلم نے پوچھا کہ حضور‘ آپ کے فرمان کے مطابق قرآن میں سب کچھ ہے تو کیا لوہا سونا بن سکتا ہے؟ آپ نے اثبات میں اس کو جواب دیا۔ اس پر وہ لوہے کا ایک ٹکڑا اٹھا لایا۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے توجہ دی اور فرمایا کہ سونا ہو جا۔ اس پر وہ لوہے کا ٹکڑا سونا بن گیا۔ اس موقع پر آپ کی کرامت دیکھ کر پانچ صد سکھوں نے اسلام قبول کر لیا۔

آپ کا تصرف اتنا وسیع و ارفع تھا کہ ہر مذہب و ملت کے لوگوں نے آپ کے دست ِ حق پر اسلام قبول کیا۔ شیعہ‘ سنی‘ قادیانی‘ عیسائی‘ ہندو‘ سکھ‘ اہلِ حدیث کے مسلک کے ہزاروں لوگ آپ کے حلقہ بگوش ہوئے۔

جمعہ، 25 جولائی، 2014

غیر مسلموں کا قبولِ اسلام – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

آپ کے حلقۂ ارادت میں بے شمار غیر مسلم شامل ہیں۔ چند ایک کا ذکر کرتا ہوں۔ شیخ نیاز احمد مرحوم‘ ڈائریکٹر محکمہ زراعت‘ فیصل آباد۔ ایوب ریسرچ جن کا ہندو نام سوشیل کمار تھا۔ اقبال احمد جن کا پہلا نام اقبال سنگھ تھا۔ ان دونوں نے آپ کی بارگاہ میں امتحان میں کامیابی کی دعا کے لیے عرض کیا۔ ان کا ایک پرچہ خراب ہوا ہے۔ آپ نے ہنس کر فرمایا یہ کوئی مشکل کام نہیں کہ پانچ کا ہندسہ پیچھے سے آگے آ جائے۔ انہوں نے سنا اور چلے گئے۔ جب نتیجہ نکلا تو وہ دونوں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے ڈاکٹر احمد علی‘ جو ان کے پروفیسر تھے اور ان کے ہمراہ پہلے دربار شریف آئے تھے‘ کو پرچہ نکال کر تسلی کرانے کا کہا کہ پانچ کا ہندسہ کیونکر تبدیل ہوا۔ معائنہ کیا تو پتا چلا کہ پرچے کے اندر 25 نمبر لگے تھے مگر پرچوں کے باہر صفحے پر 52 نمبر درج ہیں۔ اس طرح دونوں صاحب کامیاب ہو گئے۔ حضور سرکارِ عالی کی یہ کرامت دیکھ کر دونوں نے اسلام قبول کر لیا اور آپ کے دست ِ حق پر بیعت بھی کر لی۔ نیاز احمد صاحب‘ فیصل آباد میں ڈائریکٹر سبزیات کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔

جمعہ، 18 جولائی، 2014

بحری جہاز کو ڈوبنے سے بچا لیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ایک روز حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی آستینوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔ حاضرین نے عرض کی کہ حضورِ پاک! بارش تو نہیں ہو رہی‘ یہ پانی کہاں سے آ گیا؟ حضورِ پاک نے فرمایا کہ میرے ایک عقیدت مند کا جہاز سمندر میں ڈوب رہا تھا۔ اس نے مجھے مدد کے لیے پکارا۔ میں اس کا جہاز دھکیل کر کنارے پر لگا کر آیا ہوں۔ یہ اسی سمندر کا پانی ہے جو آستینوں سے ٹپک رہا ہے۔

جمعہ، 11 جولائی، 2014

سدا سہاگن – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز جب اپر باڑیاں سے ملازمت ترک کر کے رخصت ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ حضور! ہمیں اپنا فیض بخش جائیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے اس درخت کو‘ جو جنگل میں ہماری عبادت گاہ کے قریب تھا، ہر مرض کے لیے شفایاب کر دیا ہے۔ اس کا ایک پتہ کھانے سے مریض شفایاب ہو جائے گا۔ حاضرین میں سے کسی نے کہا حضور! سردیوں میں اس کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔ اس پر آپ نے اپنی نگاہِ لطفِ کرم سے اس درخت کو سدا سہاگن بنا دیا۔ اب کسی موسم میں بھی اس کے پتے نہیں جھڑتے۔

جمعہ، 4 جولائی، 2014

ارواح کا راستہ مت روکو – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

آپ کسی شخص کو دروازے میں نہ بیٹھنے دیتے۔ فرماتے‘ ارواح کا راستہ مت روکو۔ باطنی روحیں انصرام و انتظام سے متعلق باطنی سلطنت ِ خداوندی کی ہدایت لینے آتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ حضور محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز فقر کی انتہائی منزل پر فائز ہونے کی وجہ سے تمام اکابرین پر حاکم تھے اور باطنی انتظام آپ کے سپرد تھا، جو اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔

جمعہ، 27 جون، 2014

نائبِ خدا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ایک مرتبہ جبل پور میں مصنوعی جنگ شروع ہو گئی۔ اس کو فوج میں اپریشن کہتے ہیں۔ فوج دو حصوں میں تقسیم ہو کر جنگل میں روپوش ہو گئی۔ اب ایک حصے نے اپنے دشمن یعنی دوسرے حصہ پر موقع پا کر حملہ کرنا تھا۔ ایک شب ایک حصے نے شب خون مارا یعنی حملہ کیا۔ اس موقع پر بلیک آئوٹ ہو گیا۔ کرنل‘ جو راشن کا انچارج تھا، گھبرایا ہوا رات کے وقت آپ کے پاس آیا اور بولا کہ جناب منیجر صاحب! راشن ختم ہے‘ جنگ شروع ہو گئی ہے‘ میں فوج کو ناشتہ اور کھانا کیسے دوں گا؟ میری اس کوتاہی پر مجھے تو نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کو اس کی شدید گھبراہٹ اور پریشانی پر ترس آ گیا اور فرمایا کوئی بات نہیں‘ شہر سے راشن لے آتے ہیں۔ کرنل نے کہا حضور جنگ جاری ہے‘ بلیک آئوٹ ہے‘ اندھیرے میں گاڑی کیسے چلے گی؟ آپ نے کہا کہ گاڑی ہم خود چلائیں گے۔ آپ نے گاڑی ساٹھ میل کی رفتار سے اندھیرے میں چلائی۔ کرنل خوف کے مارے آنکھیں بند کر کے آپ کے ساتھ بیٹھا رہا۔ شہر گئے‘ راشن لیا اور اسی طرح واپس تشریف لے آئے۔ کرنل صاحب نے پوچھا کہ جناب منیجر صاحب! یہ سب کچھ کیسے ہو گیا؟ اندھیرے اور پہاڑی علاقے میں اتنی سپیڈ سے آپ نے گاڑی چلائی‘ جو کسی طرح ممکن نہ تھا۔ اس پر کرنل نے خود ہی ریمارکس دیئے کہ آپ خدا (God) کے نائب ہیں۔

جمعہ، 20 جون، 2014

گوالیار کے راجہ کے لیے اولادِ نرینہ کی دعا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ریاست گوالیار کا راجہ‘ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی بارگاہ میں نرینہ اولاد کی دعا کے لیے حاضر ہوا۔ آپ نے دعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا، لڑکا پیدا ہوا۔ راجہ‘ رانی، لڑکے کو لے کر شکریہ ادا کرنے کے لیے دوبارہ بارگاہِ عالیہ میں حاضر ہوئے۔ راجہ صاحب نے عرض کی‘ حضور آپ کے لیے ایک ہاتھی اور اس پر ایک لاکھ روپے کا سامان بطورِ نذرانہ لایا ہوں‘ قبول فرمائیں۔ لیکن آپ قدس سرہٗ العزیز نے ہاتھی اور نذرانہ یہ کہہ کر راجہ کو واپس کر دیا کہ ہم دعا کا معاوضہ نہیں لیتے۔ اس پر راجہ حیرت زدہ ہوا اور آپ کی اس شانِ بے نیازی سے بے حد مرعوب ہوا۔

جمعہ، 13 جون، 2014

خسارہ منافع میں بدل گیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

۱۹۳۰ء میں حضور محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز جبل پور میں کافی شاپ کے جنرل منیجر تھے۔ آپ سے پہلے وہاں کا منیجر ہر ماہ پانچ ہزار کا نقصان دکھاتا تھا۔ آپ نے چارج لینے کے بعد پہلے ہی ماہ پانچ ہزار کا نفع دکھایا، جس پر فرم کے مالکان حیرت زدہ ہو گئے اور ان کو پہلے منیجر کی دیانت داری پر شک گذرا۔ سیّد احسان علی شاہ‘ برادر مراتب علی شاہ نے نقصان کا یک دم نفع میں بدل جانے کی وجوہات جاننے کے لیے حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی خدمت میں عرض پیش کی۔ آپ نے ان کی توجہ حکومت کے ساتھ معاہدے کی طرف مبذول کروائی۔ ایگریمنٹ میں تحریر تھا کہ گوشت حکومت دے گی۔ پہلے منیجر صاحب سالم گائے کنڈے پر رکھ کر تول لیتے تھے۔ میں نے ایسا کرنے سے انکار کیا اور معاہدہ کی شرائط کے مطابق گوشت تیار کر کے تولنے کو کہا۔ حکومت کے کارندوں کو ایسا کرنا پڑا۔ ایسا کرنے سے وزن میں دس فیصد تک کمی ہو گئی جو بالآخر نفع کا باعث بنی۔

جمعہ، 6 جون، 2014

کافی شاپ لٹا دی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

چلہ کشی کا دور مکمل کرنے کے بعد آپ نے شیخ عبد الرحمان فضل کریم ملٹری کنٹریکٹر کے ہاں بطورِ جنرل منیجر کافی شاپ پر ملازمت اختیار کر لی۔ ان دنوں آپ پر زیادہ تر جذب کی کیفیت طاری رہتی۔ اس جذبۂ عشق کے تحت آپ نے کافی شاپ لٹا دی۔ تین دن تک گورے کافی شاپ لوٹتے رہے‘ اس کے بعد آپ نے لنگر جاری کر دیا۔ تین روز تک مسلسل گورے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ شیخ برادرز پہنچے تو بڑے سٹ پٹائے اور واویلا کیا۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’ہم نے اللہ کا مال لٹایا ہے‘ تم اپنا سامان پورا کر لو‘‘۔ چیکنگ پر تمام سامان سٹاک رجسٹر کے مطابق دوکان میں موجود پایا گیا۔ ایک سگریٹ تک کم نہ نکلا۔ اس کرامت کے ظاہر ہونے پر آپ نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ آپ اپر باڑیاں چاؤنی کی مسجد میں تشریف لے آئے۔ وہاں اس علاقے کے ایک بزرگ‘ فقیر اللہ صاحب بھی آ گئے۔ انہوں نے طنزاً کہا کہ شاہ صاحب! پرایا مال اس طرح نہیں لٹایا کرتے۔ چونکہ یہ بزرگ محض بزرگ تھے‘ صاحبِ نظر نہ تھے۔ آپ نے جب اس کی بات سنی تو رقت طاری ہو گئی۔ آپ نے زور دار نعرہ بلند کیا جس سے مسجد کے محراب کی دیوار میں شگاف پڑ گیا۔ مسجد کی چھت سے کڑ کڑ کی آواز سن کر فقیر اللہ صاحب باہر کو بھاگے۔ آپ سرکار نے ان کا ہاتھ پکڑ کر پاس بٹھا لیا اور فرمایا، جان اتنی پیاری ہے کہ خوف سے باہر بھاگ رہے ہو؟ جاؤ ظاہر اور باطن میں فرق کرنا سیکھو۔ تحقیق کے بغیر کوئی الزام دینا، گمان کرنا، گناہ ہے۔ یہ سن کر فقیر اللہ صاحب رخصت ہو گئے۔ فقیر اللہ‘ صاحبِ حال نہ تھے اور حضورِ پاک قدس سرہٗ العزیز کی باطنی پرواز کا اندازہ نہ کر سکے۔ راقم الحروف نے باڑیاں جا کر مسجد کے محراب میں وہ شگاف بہ چشمِ خود دیکھا ہے‘ جو اب بھی ’’نعرۂ محبوبِ ذات‘‘ کی گواہی دے رہا ہے۔

جمعہ، 30 مئی، 2014

پاکستان کے وجود قائم ہونے کی پیشین گوئی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

کشف و کرامات کا سلسلہ خود صاحبِ نظر یا خود صاحبِ مکاشفہ کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ کرامتیں اس کے فیوضِ روحانی کی کرنیں ہوتی ہیں‘ جو گاہے بگاہے پھوٹتی رہتی ہیں۔ اصل کرامت یہ ہے کہ اس کا کوئی فعل خلافِ سنت نہ ہو‘ کوئی فعل خلافِ فطرت نہ ہو‘ کوئی فعل خلافِ حقیقت نہ ہو‘ کوئی فعل خلافِ شریعت نہ ہو‘ کوئی فعل خلافِ طریقت نہ ہو۔

جمعہ، 23 مئی، 2014

اولیاء کرام سے کرامات کا ظہور – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

جریح جو ایک راہب تھا، اس سے اللہ تعالیٰ نے ایک شیر خوار بچے سے کلام کرا دیا۔ بچے نے بتایا کہ وہ چرواہے کا بیٹا ہے۔

جمعۃ المبارک کے خطبہ کے دوران حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے آواز دی۔ یا ساریۃ! انظر الی الجبل۔ اے ساریہ! پہاڑ کی طرف دیکھو۔ ہزاروں میل دور یہ آواز ساریہ نے سنی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی نبی یا ولی مردہ چیز کو زندہ کر سکتا ہے؟ نبی یا ولی‘ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا، سب کچھ اللہ ہی کرتا ہے۔ البتہ اللہ جل شانہٗ نبی یا ولی کے ہاتھ اور زبان سے ظاہر کرتا ہے۔ حقیقت میں فعل اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے کیونکہ فاعلِ حقیقی وہی ہے کیونکہ وہ لا شریک ہے۔ معجزہ اللہ کا فعل ہے۔ کرامت‘ ولی کے ہاتھ اور زبان سے ہوتی ہے۔ چونکہ اللہ کا اپنا کوئی وجود نہیں‘ لیکن وہ کسی وجودِ مُنزّہ سے ظاہر ہو سکتا ہے۔

جمعہ، 16 مئی، 2014

آیاتِ قرآنی جو ہمیشہ وِردِ زَبان رہتیں – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

 

كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ

وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ  وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ

(سورۃ البقرہ‘ آیت 151)

ترجمہ۔    جیسا بھیجا رسول ﷺ ہم نے تمہیں میں سے‘ جو پڑھتا اوپر تمہارے میری آیات اور پاک کرتا ہے تمہیں‘ سکھاتا ہے کتاب اور دانائی (حکمت) اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا۔


جمعہ، 9 مئی، 2014

حکمت کے موتی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی کوئی بات حکمت سے خالی نہ ہوتی‘ بلکہ علم و دانش کی امین ہوتی۔ جو لوگ آپ کے وعظ اور گفتگو کو گوشِ عقیدت سے سماعت کرتے تھے‘ ان پر نا جانے کتنے اَسرار و رموز کھل جاتے تھے۔ آپ کا اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، سونا، جاگنا، چلنا، پھرنا، سب رضائے خدا اور رضائے مصطفےٰ ﷺ کے لیے ہوتا تھا۔ آپ چلتے پھرتے سنت ِ رسولِ مقبول ﷺ کے پیکر تھے۔ آپ چلتے پھرتے درسِ حقیقت تھے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے ان کا دَور پایا۔ الحمد للہ‘ میرا شمار بھی انہی خوش نصیبوں میں ہوتا ہے۔

جمعہ، 2 مئی، 2014

صبر و استقامت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

عجز و انکساری اور شدید مجاہدہ سے کام لو تاکہ تم واصل باللہ ہو جائو۔ نفس کو پامال کر کے خدا کا قرب حاصل کرو۔ مجاہدہ کے بغیر مشاہدہ ممکن نہیں۔ آقائے نامدار‘ رحمۃ للعالمین ﷺ جو فطرتاً معصوم مطلق تھے‘ ہمہ وقت قرب میں تھے‘ گناہوں سے محفوظ و مُبرّا تھے‘ عاقبیت کی تمام سعادتوں سے مشرف تھے‘ بایں ہمہ اتنا مجاہدہ کیا کہ بھوکے رہتے‘ راتوں کو بیداری اختیار کرتے‘ کثرت سے روزہ رکھتے‘ فاقہ کرتے‘ تعمیرِ مسجد میں مشقت فرماتے‘ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ریاضت و مشقت میں کئی جگہ تخفیف کی تلقین فرمائی۔ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز نے مذکورہ بالا تمام عوامل کی پابندی اور پیروی کی اور اس طرح محبوبِ ذات ٹھہرے۔

جمعہ، 25 اپریل، 2014

کرشن‘ صدائے ھُو کا متلاشی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ہندو مذہب کے کرشن اللہ کی بہت عبادت کرتے۔ ایک روز چند ساعت کے لیے کُن کی آواز (ھُو) ان کے کان میں پڑی مگر جلد ہی آواز بند ہو گئی۔ اس آواز کو دوبارہ سننے کے لیے اس نے بہت کوشش کی مگر آواز دوبارہ نہ آئی۔ اس لیے اس کی روح حیرت میں چلی گئی۔ آواز کو دوبارہ سننے کے لیے کرشن مہا راج نے تمام عمر جنگلوں میں گذاری اور بنسری بجائی کیونکہ بنسری کی آواز میں کن کی آواز کی تھوڑی سی مشابہت پائی جاتی ہے۔ تمام عمر بنسری بجاتے گذاری مگر آواز دوبارہ سننے کی نوبت نہ آئی۔ اسی جستجو میں کرشن تمام عمر غیر شادی شدہ رہے۔ ہندو قوم‘ عورتوں کے اجتماع میں‘ کرشن کا جو تصوّر پیش کرتے ہیں وہ سراسر لغو اور غلط ہے۔ اس نے تو ہُو کی آواز سننے کے لیے تمام عمر جنگلوں میں بنسری بجاتے گذار دی۔

جمعہ، 18 اپریل، 2014

حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

اسی عورت کا خاوند اپنی بیوی کے اغوا ہونے کا علم ہونے پر شہر کی طرف روانہ ہو گیا۔ پیدل چلتے چلتے ایک سال کے بعد اس شہر میں پہنچا۔ اس شہر میں پہنچ کر اس نے شہر کا گشت شروع کر دیا اور سارنگی پر اپنی مادری زبان میں گانے گاتا تاکہ اس کی بیوی اس کی آواز پہچان سکے۔ گاتے ہوئے ایک مکان کے آگے سے گذرا تو اس کی آواز اس کی بیوی کے کان میں پڑی تو وہ بھاگ کر دروازے پر آئی۔ دروازہ کھولا تو سامنے اپنے شوہر کو کھڑا پایا اور کہا کہ آفرین تمہاری اس کوشش پر مگر اب اپنے آپ پر قابو رکھنا۔ اگر بے تاب ہو کر کوئی حرکت کرو گے تو مارے جائو گے کیونکہ یہاں تمہارا کوئی حامی نہیں ہے۔ عورت نے تجویز دی کہ مجھے حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تم اس علاقے کے ولی اللہ‘ جو شاہ ولایت کے نام سے مشہور ہیں‘ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر مدد کے لیے عرض کرو۔ میرا اس شخص سے معاہدہ ہے کہ اگر میرا خاوند اس دوران مجھے حاصل کرنے میں ناکام رہا تو میں تمہارے ساتھ نکاح کر لوں گی۔ معاہدہ ختم ہونے میں صرف ایک دن باقی ہے۔ مغرب کے بعد وہ مجھ سے نکاح کرنے کا حق دار ہو گا۔

جمعہ، 11 اپریل، 2014

حکایات – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے ارشاد و وعظ کا ہر لفظ نصیحت آمیز‘ عبرتناک اور طالبین کے لیے راہنمائی کا باعث ہوتا۔ حضور پاک قدس سرہٗ العزیز نے بادشاہ نادر شاہ اور محمود غزنوی کی تین حکایات بیان فرمائیں‘ جن میں غلام کا اپنے مالک کے حکم پر عمل پیرا ہونا اور ولی کی طاقت کا اظہار فرمانا ہے۔ آپ سرکار نے ایسی حکایات بیان کر کے توحید کے اہم نکات کی نشان دہی فرماتے ہوئے مندرجہ ذیل مثالیں بیان فرمائیں۔

جمعہ، 4 اپریل، 2014

غلبۂ عشقِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جب تک مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رہتے‘ ننگے پاؤں پھرتے۔ اس تعظیم کے تحت پاؤں میں جوتا نہ پہنتے کہ معلوم نہیں اس سر زمین پر آقائے نامدار رحمۃ للعالمین ﷺ کے قدم مبارک کہاں کہاں لگے ہوں گے۔ اور میں اپنے جوتوں سے اس جگہ کی بے ادبی کا مرتکب نہ ہو جاؤں۔

جمعہ، 28 مارچ، 2014

عشقِ الٰہی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

عشقِ الٰہی کا ایک اور واقعہ سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے بیان فرمایا۔

اللہ تعالیٰ کا ایک عاشق پہاڑ کی غار میں محو ِ ذکر تھا اور عرصے سے روزہ بھی رکھا ہوا تھا۔ خیال آیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے پانی لے کر روزہ افطار کروں گا۔ حسنِ اتفاق سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کی ملاقات کے لیے تشریف لے آئے۔ اس عاشق نے اپنی تمنا کا اظہار کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پہاڑ پر پانی لانے کے لیے گئے تو اُن کے پیچھے ایک شیر آیا اور اس نے بزرگ کو پھاڑ ڈالا۔ آپ جب واپس آئے تو آپ نے یہ دل سوز منظر دیکھا۔ آپ کو حیرت ہوئی۔ کوہِ طور پر جا کر بارگاہِ الٰہی سے اِس بزرگ کے بارے میں سبب جاننے کی التجا کی۔ ارشادِ باری ہوا کہ وہ میرا عاشق تھا، اُس کو غیر سے پانی کی خواہش کیوں پیدا ہوئی؟ اس کی عبادت کے پیشِ نظر میں نے اس کو انجام تک پہنچایا تاکہ پانی پینے سے اس کی عبادت ضائع نہ ہو جائے۔

جمعہ، 21 مارچ، 2014

نفاستِ ذات – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ اس طرح بیان فرمایا کہ ایک شب حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ عشاء کی نماز کے لیے مسجد میں داخل ہو رہے تھے۔ ابھی ایک قدم اندر رکھا تھا کہ ہاتف ِ غیب کی آواز آئی کہ بایزید! ہمارے گھر میں کس وضو کے ساتھ آ رہے ہو؟ آپ نے خیال کیا غالباً وضو میں کوئی نقص رہ گیا ہے۔ واپسی کا ارادہ کیا تو آواز آئی میرے گھر سے واپس جا رہے ہو؟ جس کا آپ پر اتنا اثر ہوا کہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔ رات بھر لوگ آپ کو لتاڑتے ہوئے اوپر سے گذرتے رہے۔کسی کو خبر نہ ہو سکی کہ نیچے گرا ہوا انسانی وجود ہے اور وہ بھی حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا، جو اس وقت بہت بڑے بزرگ سمجھے جاتے تھے۔ رات بھر لوگوں کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ صبح ارشاد ہوا: جاؤ! اس مرتبہ معاف کیا۔ آئندہ احتیاط کرنا۔ یہ ہے نفاست۔

جمعہ، 14 مارچ، 2014

تصوّف کے دو اہم واقعات – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے تصوّف کے دو اہم واقعات بیان فرمائے:

(1)    حضرت موسیٰ ؈ کا گزر ایک جنگل سے ہوا۔ آپ ؈ کوہِ طور کی طرف بڑھ رہے تھے۔ راستے میں ایک چرواہا ملا جو اللہ تعالیٰ کی اس طرح تعریف کر رہا تھا کہ میرے اللہ میاں! اگر تو مجھے مل جائے تو میں تجھے بکریوں کے دودھ سے نہلاؤں‘ تیرے بال دودھ سے دھوؤں‘ پھر سرمہ ڈالوں اور کنگھی کروں۔ حضرت موسیٰ ؈ نے سنا تو قریب جا کر اس کو ایسا کرنے سے منع فرمایا اور بتایا کہ اللہ کا کوئی وجود نہیں‘ تو ایسا کہہ کر گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس پر وہ چرواہا نادم ہوا اور گناہ کی معافی کے لیے حضرت موسیٰ ؈ سے کوہِ طور پر جا کر اللہ سے معافی دلانے کے لیے دعا کرنے کی استدعا کی۔ جب حضرت موسیٰ ؈ کوہِ طور پر پہنچے تو ارشادِ باری ہوا کہ جسے شاعر نے یوں کہا

جمعہ، 7 مارچ، 2014

اخلاقِ حسنہ – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

اخوت‘ مروت اور اخلاقِ حسنہ کو اپنا لو۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اخلاق سے بڑھ کر اور کوئی عمل نہیں۔ خدمت‘ ادب‘ محبت اور درویشی میں کامیابی کے بنیادی اصول ہیں۔ ان پر سختی سے عمل کرو کیونکہ

ہر کہ خدمت کرد اُو مخدوم شد

با ادب‘ با مراد‘ بے ادب‘ بے مراد

 

محبت عقد ِ پرویں ہے‘ اسے افلاک میں ڈھونڈو
محبت کیمیا ہے‘ کربلا کی خاک میں ڈھونڈو
محبت کا اثر مجبور کو مشکل کشا کر دے
محبت میں وہ طاقت ہے کہ بندے کو خدا کر دے

جمعہ، 28 فروری، 2014

غیبت و بہتان کی ممانعت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

نواب لیاقت علی خاں کی رحلت پر ایک شخص نے طنزاً کہا کہ وہ شراب پیتا تھا۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز اس شخص کے یہ الفاظ سن کر بہت پریشان ہوئے اور فرمایا سنی سنائی بات‘ جس کی تحقیق یا تصدیق نہ ہو‘ اُسے آگے مت پھیلائو۔ ایسی غلط افواہوں پر قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ یہ سن کر وہ شخص اپنی بات پر نادم ہوا۔ پھر حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے فرمایا کہ نواب لیاقت علی خاں ہندوستان میں اپنی ریاست کا مالک تھا۔ اس نے پاکستان میں کوئی اراضی یا بنگلہ الاٹ نہ کروایا۔ سرکاری رہائش گاہ میں ہی سکونت رکھی۔ جب فوت ہوا تو کوئی بینک بیلنس نہ تھا۔ حکومت نے اس کی بیوی بیگم رعنا لیاقت کو سفیر مقرر کیا۔ اس نے تنخواہ سے اپنے بچوں کی پرورش کی۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے مزید فرمایا کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور نواب لیاقت علی خاں‘ دونوں لائقِ بخشش ہیں۔ اگر ان میں کوئی کوتاہی تھی تو ان کی خدمات کے صلہ میں اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما دے گا۔ البتہ قوم کے غدار اور ذخیرہ اندوز کی بخشش نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ ایمان سے خالی ہوتے ہیں۔

حدیث شریف ہے ’’جس میں ایمان نہیں‘ وہ جنت میں نہیں جا سکتا۔‘‘

در اصل عام آدمی کی نگاہ سطحی ہوتی ہے لیکن نگاہِ مرشد تا حدِ سدرہ پہنچی ہوتی ہے۔ یہ مقام حقوق العباد اور حقوق اللہ پورے کرنے والی شخصیت ہی کو حاصل ہو سکتا ہے۔ آپ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز اسی لیے حقوق العباد پر بڑی توجہ فرماتے تھے۔ حقوق العباد اگر پورے ہوتے رہیں تو پھر دنیا سے سماجی برائیاں اور عیب و گناہ عنقا ہو جائیں اور دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔

جمعہ، 21 فروری، 2014

زکوٰۃ – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

زکوٰۃ کے ذریعے مال کی حفاظت کرو۔ صدقے کے ذریعے مریضوں کا علاج کرو۔ دعا کے واسطے سے بلا کو دور کرو۔ کم بولنا حکمت ہے۔ کم کھانا صحت ہے۔ کم سونا عبادت ہے۔ کم ملنا عافیت ہے۔ خاموشی اور تنہائی‘ درویشی میں کامیابی کے بنیادی اصول ہیں۔ اے ایمان والو! کوئی چیز‘ تمہارے مال‘ تمہاری اولاد‘ تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دے اور جو ایسا کرے وہی نقصان میں ہے۔

 

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ۭاَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ       ۝

(پارہ7 ،سورۃ انعام‘ آیت 50)

ترجمہ۔    فرما دیجئے! کیا برابر ہو سکتے ہیں اندھا اور دیکھتا؟ تم دھیان کیوں نہیں کرتے؟

جمعہ، 14 فروری، 2014

زُہد‘ شریعت اور حقیقت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

شریعت‘ اعمال ہیں۔ حقیقت‘ باطنی احوال اور حصولِ معرفت کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اطمینان کا واحد ذریعہ ذکرِ الٰہی ہے۔ اپنے ظاہر و باطن کو خدا اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق ڈھال لو۔ تزکیۂ نفس کے لیے بے حد کوشش کرو۔ خود کو ہر کسی سے کمتر خیال کرو۔ حُبِّ ما سوا اللہ کو دل نکال کر اطاعت ِ حق میں مشغول رہو تاکہ ہستیٔ موہوم کی الائش سے محفوظ رہو اور حُسنِ حقیقی دل میں ضو فگن ہو۔

زاہد ہر نعمت و رحمت کو اور ہر توفیق و سہولت کو خدا ہی کی طرف سے تصور کرتا ہے۔ عقیدہ یہ رکھتا ہے کہ وہ غلام ہے۔ غلام کی تمام حرکات و سکنات اور کسب صرف آقا ہی کی ملکیت ہوا کرتی ہے۔ وہ خدا کے فعل اور ارادے کے سوا کسی غیر کی جانب نہیں تکتا۔

جمعہ، 7 فروری، 2014

راضی با رضا رہو – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

خدا سے رضاو تمنا طلب کرتے رہو‘ یہی راحت اور خدا کی محبت کا دروازہ ہے۔ یہی چیز خدا سے ملحق اور واصل کر دیتی ہے ۔ غیر اللہ میں مشغولیت کا نام ہی شرک ہے۔ اگر کوئی شے بطورِ نعمت ہے تو شکر بجا لاؤ، اگر بطورِ مصیبت ہے تو صبر اختیار کرو ۔ اپنے تمام احوال کو اللہ کی طرف منسوب کرو‘ البتہ معصیت‘ شر اور تیرہ بختی کو صرف اپنے نفس سے وابستہ رکھو ۔ نعمتوں کا اعتراف کرو ۔ شک و شبہ نہ کرو ۔ اپنے احوال کا دوسروں پر اظہار نہ کرو۔

نجات اور چھٹکارا فضل ِ الٰہی سے ہو گا، عبادات پر بھروساکرنے سے نہیں ۔ قال اللہ تعالیٰ فی القران الکریم

جمعہ، 31 جنوری، 2014

توفیق الٰہی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

جب تک اللہ تعالیٰ کی توفیق حاصل نہ ہو‘ کوئی زاہد یا عابد اس کی منشا ء کے مطابق عبادت نہیں کر سکتا ۔ اس کی عطا کردہ توفیق سے ہی جہاد اور مجاہدہ بالنفس ممکن ہو تا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا۔

مَآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ۡ وَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ

(پارہ ۵ سورۃ النساء آیت ۷۹)

ترجمہ۔    اے سننے والے تجھے جو بھلائی پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جوبرائی پہنچے وہ تیری اپنی طرف سے ہے۔

جمعہ، 24 جنوری، 2014

عہد کی وفا کرو – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

اس پر یہ آیاتِ کریمات پڑھتے

وَالَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ        ؀

وَالَّذِيْنَ هُمْ بِشَهٰدٰتِهِمْ قَاۗىِٕمُوْنَ        ؀

وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلٰي صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ        ؀

اُولٰۗىِٕكَ فِيْ جَنّٰتٍ مُّكْرَمُوْنَ           ؀ 

(سورۃ المعارج، آیات 32-35)

ترجمہ۔    اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور جو اپنی گواہیوں پر قائم رہتے ہیں۔ اور جو اپنی نماز قائم کرتے ہیں‘ وہی جنت میں اعزاز پائیں گے۔

(سورۃ المعارج، آیات 32-35)

جمعہ، 17 جنوری، 2014

ملفوظاتِ سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

(1)    اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مساکین‘ غرباء‘ یتیموں اور بے کسوں کی سر پرستی کرو۔

(2)    کسی کا دل نہ دکھائو۔ دل رب العزت کا گھر ہے۔

(3)    ہمیشہ سچ بولو۔ جھوٹ سے اجتناب کرو۔ جھوٹ سب برائیوں کی جڑ ہے۔

(4)    رزقِ حلال کھائو۔ اس میں برکت ہے۔ رزقِ موعود ہر حال میں تمہیں ملے گا۔

(5)    صبر و تحمل کا مادہ پیدا کرو۔ یہ صرف والہانہ ذکرِ الٰہی سے حاصل ہو گا۔

جمعہ، 10 جنوری، 2014

منڈیر سیّداں – مرکزِ قلب و نظر – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی منڈیر سیّداں میں آمد پر گاؤں کی فضیلت میں بہت اضافہ ہوا۔ پہلے منڈیر سیّداں ایک غیر معروف کچا گاؤں تھا۔ مقامی باشندے اَن پڑھ اور کارندے تھے۔ دو تین گھر زمینداروں کے تھے۔ ڈاکخانہ کوئی نہ تھا۔ ٹیلی گرام بھیجنے کے لیے سیالکوٹ شہر جانا پڑتا تھا۔ مقامی باشندوں کا شہر سے رابطہ منقطع تھا۔ اشیائے خوردنی دستیاب نہ تھیں۔ مگر حضور سرکارِ عالی کے تشریف لانے پر گاؤں اور گاؤں والوں کی حالت ہی بدل گئی۔ جنگل میں منگل ہو گیا۔ برادرِ خورد‘ شہزادہ اقبال احمد حسین شاہ صاحب کی تگ و دو اور کوششوں سے گاؤں میں بجلی‘ ٹیلی فون‘ ڈاکخانہ‘ پختہ سڑک، ٹیوب ویل‘ الغرض تمام سہولتیں میسر آئیں۔ یہ سب سہولتیں حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے قدموں کا صدقہ ہیں۔ بجلی کی فراہمی سے ٹیوب ویل چلتے ہیں‘ فصلیں اچھی ہوتی ہیں۔ لوگ خوشحال ہیں اور حضور قدس سرہٗ العزیز کے بے حد مشکور و ممنون ہیں۔ ڈاکخانہ اور مدرسہ بھی قائم ہو گیا ہے۔ تعلیم کی سہولت میسر آ گئی ہے۔ اس وقت گاؤں کے تمام مکانات پختہ ہیں۔ مکان کی حیثیت کچھ نہیں ہوتی‘ اصل حیثیت مکین کی ہوتی ہے۔ مکین جتنا اچھا ہو گا، حسین ہو گا، مکان اُس کے دم سے اُتنا ہی اچھا اور حسین ہو جائے گا۔ یہی عالم منڈیر سیّداں کی آبادی کا ہے کہ جب حضور محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز اس آبادی میں آباد ہوئے‘ آبادی آباد ہو گئی‘ حسین ہو گئی‘ دل نشین ہو گئی‘ گویا مرکز ِ قلب و نظر ہو گئی۔

جمعہ، 3 جنوری، 2014

یہاں بگڑی بنتی ہے، قسمت سنورتی ہے، تقدیر نکھرتی ہے – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

آج ہمارے درمیان‘ ظاہری طور پر‘ یہ ذاکرِ حقیقی موجود نہیں لیکن ان کا ذکر موجود ہے۔ اس کے ساتھ ان کا مذکور بھی موجود ہے۔ ذکر‘ ذاکر اور مذکور اگر موجود ہے تو یقین جانئے کہ حضرت قبلہ محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز بھی موجود ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارا وجود اس کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔ لیکن آنکھ والوں اور بصیرت و بصارت والوں کے لیے محبوبِ ذات کی صورت میں موجود ہیں۔

منڈیر سیّداں کی منڈیر سے طائر ِ قلب پرواز کر کے پھر منڈیر سیّداں کی منڈیر پر آ بیٹھا ہے۔ اس لیے کہ یہی مقام ہے جہاں راحت کا مکمل قیام ہے۔ ہم اسی مقام سے باعافیت قائم قیامت تک بصورتِ بخشش رسائی حاصل کر سکتے ہیں‘ کیونکہ یہی وہ بستی ہے جس میں حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کے قدموں کے نشانات محفوظ ہیں۔ یہی وہ بستی ہے جس میں حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی سانسوں کی خوشبو رچی بسی ہے۔ یہی وہ بستی ہے جس میں حضور محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی صدائیں بصورت وعظ و خطاب و ارشادات محفوظ ہیں۔

یہی وہ بستی ہے جس میں ان کا وجودِ مسعود محو ِ استراحت ہے۔ یہی وہ بستی ہے جس کے در و دیوار آج بھی قبلہ محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی یادیں اور باتیں دہراتے ہیں۔ مجھ فقیر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جس طرح حیاتِ اقدس میں حضور محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی نگاہِ کرم میں رہا، آج بھی ان کا کرم ان کے دربارِ اقدس پر حاضر رہنے کا شرف حاصل کیے ہوئے ہوں۔ مجھ پر یہ شرف کیا کم ہے کہ انہوں نے اپنے فضل و کرم سے اس افضال (سیّد افضال احمد حسین شاہ گیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ‘ سجادہ نشین دربارِ محبوبِ ذات) کو اپنی فضیلتوں کا امین بنا رکھا ہے۔ میں کل بھی قبلہ محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کا خادم تھا اور آج بھی انہی کا خادم ہوں۔ اور جب تک سانس کی ڈوری اجازت دے گی‘ میں اس رشتۂ عقیدت سے پیوست رہوں گا۔ بلکہ سانس کی ڈوری ٹوٹنے کے بعد بھی انہی کے قدموں میں پڑا رہوں گا۔ ہمارے لیے یہ اعزاز کیا کم ہے کہ ہم سب محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی روحانی پناہ میں ہیں؟

آج بھی دربارِ عالیہ محبوبِ ذات‘ قادریہ‘ احمد حسینیہ‘ منڈیر سیّداں شریف‘ تحصیل و ضلع سیالکوٹ‘ مرجعِ خلائق ہے۔ آج بھی یہاں حاضری دینے والوں کو خدا تعالیٰ بصدقہ محبوبِ حق‘ بتوسطِ محبوبِ ذات‘ تمام نعمتوں سے نوازتا ہے۔ خدا سب کی مرادیں پوری کرتا ہے‘ سب کی تمنائیں بر آتی ہیں‘ اداس چہرے کھل اٹھتے ہیں‘ لوگ ہشاش بشاش گھروں کو لَوٹتے ہیں‘ محرومیوں کے صدموں سے نڈھال لوگ آس امید کا حوصلہ لے کر واپس جاتے ہیں۔