جمعہ، 30 مئی، 2014

پاکستان کے وجود قائم ہونے کی پیشین گوئی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

کشف و کرامات کا سلسلہ خود صاحبِ نظر یا خود صاحبِ مکاشفہ کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ کرامتیں اس کے فیوضِ روحانی کی کرنیں ہوتی ہیں‘ جو گاہے بگاہے پھوٹتی رہتی ہیں۔ اصل کرامت یہ ہے کہ اس کا کوئی فعل خلافِ سنت نہ ہو‘ کوئی فعل خلافِ فطرت نہ ہو‘ کوئی فعل خلافِ حقیقت نہ ہو‘ کوئی فعل خلافِ شریعت نہ ہو‘ کوئی فعل خلافِ طریقت نہ ہو۔

جمعہ، 23 مئی، 2014

اولیاء کرام سے کرامات کا ظہور – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

جریح جو ایک راہب تھا، اس سے اللہ تعالیٰ نے ایک شیر خوار بچے سے کلام کرا دیا۔ بچے نے بتایا کہ وہ چرواہے کا بیٹا ہے۔

جمعۃ المبارک کے خطبہ کے دوران حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے آواز دی۔ یا ساریۃ! انظر الی الجبل۔ اے ساریہ! پہاڑ کی طرف دیکھو۔ ہزاروں میل دور یہ آواز ساریہ نے سنی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی نبی یا ولی مردہ چیز کو زندہ کر سکتا ہے؟ نبی یا ولی‘ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا، سب کچھ اللہ ہی کرتا ہے۔ البتہ اللہ جل شانہٗ نبی یا ولی کے ہاتھ اور زبان سے ظاہر کرتا ہے۔ حقیقت میں فعل اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے کیونکہ فاعلِ حقیقی وہی ہے کیونکہ وہ لا شریک ہے۔ معجزہ اللہ کا فعل ہے۔ کرامت‘ ولی کے ہاتھ اور زبان سے ہوتی ہے۔ چونکہ اللہ کا اپنا کوئی وجود نہیں‘ لیکن وہ کسی وجودِ مُنزّہ سے ظاہر ہو سکتا ہے۔

جمعہ، 16 مئی، 2014

آیاتِ قرآنی جو ہمیشہ وِردِ زَبان رہتیں – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

 

كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ

وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ  وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ

(سورۃ البقرہ‘ آیت 151)

ترجمہ۔    جیسا بھیجا رسول ﷺ ہم نے تمہیں میں سے‘ جو پڑھتا اوپر تمہارے میری آیات اور پاک کرتا ہے تمہیں‘ سکھاتا ہے کتاب اور دانائی (حکمت) اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا۔


جمعہ، 9 مئی، 2014

حکمت کے موتی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی کوئی بات حکمت سے خالی نہ ہوتی‘ بلکہ علم و دانش کی امین ہوتی۔ جو لوگ آپ کے وعظ اور گفتگو کو گوشِ عقیدت سے سماعت کرتے تھے‘ ان پر نا جانے کتنے اَسرار و رموز کھل جاتے تھے۔ آپ کا اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، سونا، جاگنا، چلنا، پھرنا، سب رضائے خدا اور رضائے مصطفےٰ ﷺ کے لیے ہوتا تھا۔ آپ چلتے پھرتے سنت ِ رسولِ مقبول ﷺ کے پیکر تھے۔ آپ چلتے پھرتے درسِ حقیقت تھے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے ان کا دَور پایا۔ الحمد للہ‘ میرا شمار بھی انہی خوش نصیبوں میں ہوتا ہے۔

جمعہ، 2 مئی، 2014

صبر و استقامت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

عجز و انکساری اور شدید مجاہدہ سے کام لو تاکہ تم واصل باللہ ہو جائو۔ نفس کو پامال کر کے خدا کا قرب حاصل کرو۔ مجاہدہ کے بغیر مشاہدہ ممکن نہیں۔ آقائے نامدار‘ رحمۃ للعالمین ﷺ جو فطرتاً معصوم مطلق تھے‘ ہمہ وقت قرب میں تھے‘ گناہوں سے محفوظ و مُبرّا تھے‘ عاقبیت کی تمام سعادتوں سے مشرف تھے‘ بایں ہمہ اتنا مجاہدہ کیا کہ بھوکے رہتے‘ راتوں کو بیداری اختیار کرتے‘ کثرت سے روزہ رکھتے‘ فاقہ کرتے‘ تعمیرِ مسجد میں مشقت فرماتے‘ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ریاضت و مشقت میں کئی جگہ تخفیف کی تلقین فرمائی۔ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز نے مذکورہ بالا تمام عوامل کی پابندی اور پیروی کی اور اس طرح محبوبِ ذات ٹھہرے۔