جمعہ، 11 دسمبر، 2015

عجز و انکساری – مصباح العرفان

میرے مرشدِ کریم‘ سخیٔ کاملؒ مجھے بتایا کرتے کہ سرکارِ عالیؒ فقر کے شہنشاہ تھے اور محبوبِ ذات کے درجے پر فائز تھے۔ یہ ولایت کے اعلی ترین مراتب ہیں جن پر خال خال گنے چنے لوگ ہی پہنچتے ہیں۔ لیکن اتنے اعلی ترین مناصب رکھنے کے باوجود آپؒ پر تکبر و غرور کی بجائے انتہا درجے کی عاجزی و انکساری تھی۔ سخیٔ کاملؒ نے مجھے فرمایا کہ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی کو معمولی سے روشنی دکھائی دے یا کسی مرید کو اس کا مرشد دو چار بار مسکرا کر بلا لے تو اس کا سر آسمان سے باتیں کرنے لگتا ہے اور دوسرے سب لوگ اسے حقیر نظر آنے لگتے ہیں۔ لیکن قربان جائیں سرکارِ عالیؒ پر کہ جس قدر مراتب بلند ہوتے گئے‘ آپؒ اسی قدر عاجزی اختیار کرتے چلے گئے‘ جس طرح کہ کسی درخت کو جیسے جیسے پھل لگتا چلا جاتا ہے، اسی قدر وہ جھکتا چلا جاتا ہے۔ سرکا رِ عالیؒ کا عجز بیان کرتے ہوئے مجھ سے سخیٔ کاملؒ نے فرمایا کہ عالی سرکارؒ نے کبھی تکبر یا گھمنڈ نہ کیا اور نہ ہی بڑا بول بولا۔ اپنی تعریف سننا قطعاً گوارا نہ فرماتے۔ اگر کوئی آپؒ کی تعریف بیان کرتا تو فوراً منع کر دیتے اور فرماتے کہ اللہ کی تعریف کرو جو سب تعریفوں کا مالک ہے۔ اس عاجزی اور انکساری کی اعلیٰ ترین مثال یہ ہے کہ آپؒ ولایت اور فقر کے اعلیٰ ترین مناصب پر فائز تھے لیکن غریبوں‘ یتیموں اور مسکینوں سے بے حد پیار کرتے؛ ان کی ظاہری و باطنی‘ ہر طرح کی‘ امداد فرماتے؛ ہمیشہ زمین پر مسند لگا کر عام لوگوں میں بیٹھتے؛ اور کبھی اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش نہ کرتے۔ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ آپؒ نے حمدیہ اور عارفانہ کلام لکھا، عشقِ مصطفیٰ میں ڈوب کر نبیٔ رحمتﷺ کے حضور نعتیہ نذرانہ پیش کیا، حضرت مولا علیؑ مشکل کشا اور سرکار غوثِ اعظم قدس سرہٗ العزیز کے حضور منقبتیں بھی تحریر کیں‘ لیکن اپنے لئے تخلص عاجزؔ  پسند فرمایا۔

جمعہ، 16 اکتوبر، 2015

حُسن سلوک – مصباح العرفان

میرے مرشدِ کریم‘ سخیٔ کاملؒ نے مجھے بتایا کہ سرکارِ عالیؒ کے اوصافِ حسنہ میں یہ بات بھی نہایت نمایاں طور پر موجود تھی کہ آپ اپنے اہلِ خانہ‘ عزیز و اقارب‘ مریدین اور سائلین حضرات‘ سب کے ساتھ نہایت احسن سلوک کا مظاہرہ کرتے۔ اندرونِ خانہ بھی سب کے ساتھ آپ کا برتاؤ نہایت منصفانہ تھا۔ گھر کی خواتین کی بھی بہت عزت کرتے؛ نہایت مناسب الفاظ میں انہیں مخاطب کرتے۔ میں اور بھائی شاہ کمال چھوٹے بچے تھے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ دادا حضورؒ نے ہمیشہ ہم کو شفقت و محبت کی نظر سے ہی دیکھا۔ آپؒ ہمارا ہر طرح سے خیال رکھتے۔ ہماری شرارتوں پر بھی ہمیں کبھی جھڑکتے نہیں تھے بلکہ تبسم فرما کر شفقت کرتے۔ اسی طرح آپؒ اپنے عزیز و اقارب کا بھی خیال رکھتے اور ان کو حفظِ مراتب کے مطابق پروٹوکول دیتے‘ لطف و کرم سے نوازتے۔ سخیٔ کاملؒ نے مجھے بتایا کہ بُردباری‘ عفو و درگزر‘ سرکارِ عالیؒ کے اوصافِ حسنہ کا روشن باب ہیں۔ مریدین کو دوست کہہ کر پکارتے؛ انہیں اپنی اولاد سے بڑھ کر نوازتے؛ فرماتے مریدین ہماری اولاد ہیں۔ مریدین کی کسی کوتاہی یا غلطی پر ہمیشہ درگزر فرماتے۔ آپؒ کے بعض خلفاء حضرات نے مجھے بتایا کہ بعض مریدین سے سنگین قسم کی غلطیاں ہو جاتیں‘ مثلاً وہ آپس میں لڑ پڑتے یا ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہتے‘ بعض سے قیمتی برتن ٹوٹ جاتے یا گم ہو جاتے‘ تو آپؒ ہمیشہ شفقت کا مظاہرہ کرتے۔ کبھی کسی پر ناراض ہوتے یا سرزنش کرتے آپؒ کو دیکھا نہ گیا۔ وہ خلق کے لئے سراپا راحت ہی راحت تھے۔

جمعہ، 9 اکتوبر، 2015

گفتگو – مصباح العرفان

آپؒ کا اندازِ گفتگو من موہنا، کریمانہ‘ دلبرانہ اور ناصحانہ تھا۔ کبھی کسی کو طعن و تشنیع یا طنز کا نشانہ بناتے۔ آپؒ کو نہ دیکھا گیا۔ آپؒ ہر ایک کو ’’سوہنیا‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے۔ جو کوئی ایک بار مل لیتا، پھر وہ ساری زندگی آپؒ کو فراموش نہ کر سکتا۔ آپؒ اپنے اَخلاق سے ہر آنے والے کو اپنا ایسا گرویدہ بنا لیتے کہ وہ آپؒ کی غلامی اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتا۔ آپؒ نے اپنے اس میٹھے اور مدنی اخلاق سے ہزاروں بے دینوں کو دینِ اسلام پر گامزن کیا، بے شمار بد عقیدہ  لوگوں کے عقائد کو درست کیا اور بے شمار راہِ گم کردہ افراد کو صراطِ مستقیم پر گامزن کیا۔

جمعہ، 21 اگست، 2015

انسانِ کامل – بے نشاں کا نشاں – مصباح العرفان

سخیٔ کامل‘ مرشدِ دوراں، عکسِ محبوبِ ذاتؒ، سجادہ نشین آستانہ عالیہ قادریہ احمد حسینیہ‘ سیّد افضال احمد حسینؒ نے سرکارِ عالیؒ کے وصال پُر ملال پر انہیں اس طرح خراجِ تحسین پیش کیا:

انسانِ کامل  ۔  بے نشاں کا نشاں

جمعہ، 14 اگست، 2015

وصالِ شریف کے بعد خراجِ تحسین

سرکارِ عالیؒ کے وصالِ شریف کے بعد پاکستان بھر کی ہر قابلِ ذکر ہستی نے آپؒ کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ کسی شخصیت کے وصال پر ملنے والے‘ متعلقین یا فیض یافتہ لوگ تو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں لیکن خاندان والے یا عزیز و اقارب کم ہی تعریف کرتے ہیں۔ وہ رفتگان کی معمولی معمولی فروگزاشتوں کو کرید کرید کر سامنے کر دیتے ہیں۔ لیکن کردار کی عظمت تو یہی ہے کہ عزیز و اقارب بھی بول اٹھیں: مرحبا مرحبا، کیا فرشتہ خصلت انسان تھا۔

جمعہ، 31 جولائی، 2015

وصال شریف – مصباح العرفان

میری عمر اس وقت گیارہ بارہ سال تھی اور میں نے سرکارِ عالیؒ کے وصال و تدفین کا پورا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح سارا خاندان غمناک تھا۔ لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ مخلوقِ خدا آپؒ کی آخری بار زیارت کے لیے جوق در جوق اُمڈی چلی آرہی تھی۔ آپؒ کی نمازِ جنازہ کے وقت بڑے رقت انگیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ لوگ آنکھوں میں آنسو لئے جنازہ کو کندھا دینے کے لیے بے تابانہ آگے بڑھ رہے تھے۔ کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اشکبار نہ ہو۔ لوگ ایک دوسرے کے گلے لگ کر یوں رو رہے تھے جیسے نہ جانے کتنی پیاری شخصیت ان سے الگ ہو رہی ہو۔ پھر جب آپؒ کے جسدِ مبارک کو لحد میں اتارا جانے لگا  تو آہوں اور سسکیوں کا شور ایک بار پھر بلند ہوا۔ یہ سارے مناظر آج تک میرے حافظے کی اسکرین پر موجود ہیں۔ جب کبھی تنہائی ان مناظر کو دہراتی ہے تو میرا دامن آنسوؤں سے بھیگ جاتا ہے اور دل انتہائی اداس ہو جاتاہے۔

آپ کا عرس مبارک منڈیر سیّداں شریف میں ہر سال 21 شعبان المعظم کوب ڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔

جمعہ، 17 جولائی، 2015

وصال شریف – مصباح العرفان

سرکارِ عالیؒ نے 63 سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے پردہ فرمایا۔ اولیائے کرام نے ہمیشہ چاہا کہ ان کی عمر پیارے آقا ﷺ کی عمرِ عزیز سے بڑھنے نہ پائے۔ زندگی اور موت چونکہ اللہ کریم کے ہاتھ میں ہے‘ اس لئے ہر ولی کی خواہش تو ممکن ہے پوری نہ ہوئی ہو لیکن چیدہ چیدہ ایسے مقبولِ بارگاہ اولیائے کرام ضرور ہوئے ہیں جن کی خواہش اللہ کریم نے پوری فرما دی۔ سرکارِ عالیؒ بھی ان خوش نصیب اولیائے کرام میں سے ایک ہیں۔

جمعہ، 10 جولائی، 2015

اولاد – مصباح العرفان

اولادِ نرینہ:۔

میرے دادا جان حضور عالی سرکارؒ کے چار بیٹے ہیں۔ ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: حضرت سیّد افضال احمد حسین گیلانیؒ، حضرت سیّد اقبال احمد حسین گیلانی، حضرت سیّد افتخار احمد حسین گیلانیؒ اور حضرت سیّد امجد علی شاہ گیلانی۔ اللہ کے فضل و کرم سے یہ چاروں صاحبزادے صاحبِ اولاد ہیں اور ان کے بیٹوں کی تعداد 13 ہے۔ اب تو ما شاء اللہ سرکارِ عالیؒ کا خاندان بہت پَھل پھول گیا ہے۔ ان میں سے حضرت سیّد افضال احمد حسین گیلانیؒ اور حضرت سیّد افتخار احمد حسین گیلانیؒ وصال پا چکے ہیں جبکہ حضرت سیّد اقبال احمد حسین گیلانی‘ جنہیں دوم صاحب کہا جاتا ہے‘ اور حضرت سیّد امجد علی شاہ گیلانی‘ جنہیں چہارم صاحب کہا جاتا ہے‘ اللہ کے فضل و کرم سے بقیدِ حیات ہیں اور میری سرپرستی فرما رہے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ کریم ان کا سایہ میرے سر پر ہمیشہ سلامت رکھے۔

جمعہ، 3 جولائی، 2015

شادی – مصباح العرفان

آپؒ کی گھر آمد پر سب گھر والوں نے بہت خوشی منائی۔ خاندان کے بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ اب آپ کی شادی کر دی جائے۔ لہٰذا انہوں نے آپ سے نبی پاک ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کی درخواست کی۔ حضورِ پاک ﷺ کی سُنّتِ مطہرہ کا ذکر آتے ہی آپ کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اور سمجھ گئے کہ اس سے مراد شادی ہے۔ آپ نے مسکراتے ہوئے رضامندی ظاہر کر دی۔ آپ کی اس ہاں سے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ چنانچہ آپؒ کے لیے رفیقۂ حیات ڈھونڈنے کی تگ و دو شروع ہوئی۔ رشتے تو بہت نظر میں آئے لیکن قرعۂ فال بٹالہ شریف میں حضرت آغا بدیع الدین گیلانی شہید کے خاندان کے نام نکلا۔ یہ خاندان انڈیا میں نیکی‘ شرافت‘ اخلاق‘ طریقت و معرفت کی ایک کہکشاں کی مانند تھا۔ اس کہکشاں کی ایک عالی مرتبت بلند اقبال اور عظیم شخصیت حضرت قبلہ سیّد مظفر علی شاہ صاحب‘ جن کا سلسلہ نسب بھی اسی خاندان کی طرح حضرت سیّدنا عبدالرزاقؒ سے جاملتا ہے‘ نے اپنی دخترِ نیک اختر کا ہاتھ سرکارِ عالیؒ کے ہاتھ میں دینے کی رضامندی ظاہر کر دی اور یوں 25 ذو ا لحجہ ۱۳۳۳ھ بمطابق 4 نومبر1915ء کو آپ کی شادی سر انجام پائی۔

جمعہ، 26 جون، 2015

آپؒ کا پیراہن

آپؒ کا لباس بہت سادہ مگر نہایت صاف ستھرا ہوتا۔ آپؒ نے منڈیر شریف میں مستقل قیام کے بعد عربی لباس زیبِ تن فرمایا، جس کے اوپر اکثر سبز اور سیاہ رنگ کی قبا پہنتے۔ سیاہ رنگ کی بہت تعظیم کرتے۔ کوشش کرتے کہ سیاہ رنگ کا جوتا کبھی استعمال نہ ہو۔ مریدین کی محفل میں زمین پر مسند لگا کر رونق افروز ہوتے۔ سفید رنگ زیادہ پسند تھا۔ شیروانی اکثر زیبِ تن فرماتے۔ پیٹی باندھتے، جس میں تلوار‘ خنجر اور پستول وغیرہ آویزاں ہوتے اور گلے میں قرآنِ مجید حمائل ہوتا۔ دائیں ہاتھ میں چاندی کی انگوٹھیاں ہوتیں جن کا نگینہ عموماً یمنی یاقوت کا ہوتا اور پاؤں میں سادہ مکیشن پہنتے۔ گولڈن چشمہ بھی لگاتے۔ آپؒ کے استعمال کی چیزیں کنگھی‘ سرمہ دانی‘ لباس‘ مصلّٰے‘ تسبیح‘ قرآنِ مجید‘ انگوٹھیاں‘ یہ تمام تبرکات ہمارے پاس بڑے ادب و احترام سے محفوظ ہیں۔

جمعہ، 19 جون، 2015

نوجوانی – مصباح العرفان

میں نے گھر کے بزرگوں سے سنا ہے کہ جوانی میں آپؒ حسن و جمال کی انتہائی متوازن شخصیت تھے۔ آپؒ کی سیرتِ مبارکہ اور چہرۂ انور کی پھبن کے بارے میں عالی سرکارؒ کے جانشین اور خلیفۂ اوّل‘ سیّدی‘ مرشدی‘ قبلہ و کعبہ‘ السیّد حضرت افضال احمد حسین گیلانی‘ سخیٔ کامل رقمطراز ہیں۔

جمعہ، 12 جون، 2015

سرکار غوثِ اعظمؒ سے شرف بیعت – مصباح العرفان

سرکارِ عالیؒ نے سیالکوٹ سے ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ وزیر آباد کی طرف سفر شروع کر دیا اور اگوکی کے قریب بابا ملک شاہ ولیؒ کے مزار پر ٹھہرے۔ اس وقت نمازِ تہجد کا وقت تھا۔ آپؒ جب تہجد سے فارغ ہوئے تو ایک سبز پوش بزرگ‘ جنہوں نے سبز رنگ کی بڑی سی پگڑی باندھ رکھی تھی‘ ان سے ملے اور فرمایا کہ بیٹا یہ تمہاری منزل نہیں۔

جمعہ، 5 جون، 2015

مزارات پر حاضری – مصباح العرفان

جن دنوں آپؒ گوشہ نشین تھے‘ ان دنوں آپ پر استغراق کا زبردست غلبہ تھا۔ آپؒ کو غیب سے اشارہ ہوا کہ استغراق کے اس عالم سے نکلنے کے لیے مزارات پر حاضری دینا شروع کریں۔  چنانچہ آپؒ سب سے پہلے قیام کی نیت سے سیالکوٹ میں امام علی الحقؒ کے مزار پر تشریف لے گئے۔ نمازِ عشاء کے بعد مجاوروں نے اگلی صبح کے لیے مزار کا دروازہ بند کر دیا اور آپؒ کو اندر فروکش ہونے کی اجازت نہ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ مزار پر رات ٹھہرنے والا صبح کبھی زندہ نہیں ملا۔  اس لئے ہم آپ کو یہ خطرہ مول لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ آپؒ وہاں سے واپس چلے آئے۔

جمعہ، 29 مئی، 2015

واٹر ورکس میں بطور سپر وائزر بھرتی – مصباح العرفان

میرے محترم و شفیق چچا جان حضرت سیّد افتخار احمد حسین گیلانی صاحبؒ سرکارِ عالیؒ کی اوائل عمری کا یہ واقعہ اس طرح بیان فرمایا کرتے کہ خدمتِ خلق کے جذبہ نے سرکارِ عالیؒ کو آرام سے گھر بیٹھنے نہ دیا۔ ان دنوں سیالکوٹ شہر میں واٹر سپلائی کا نظام قائم کیا جا رہا تھا۔ لوگوں کی سہولت کے لئے حکومت کنویں کُھدوا رہی تھی۔ آپؒ نے سوچا کہ خدمتِ خلق کا اچھا موقع ہے۔ مخلوقِ خُدا کے لیے فراہمیٔ آب پروگرام میں خدمت سر انجام دینی چاہیے۔ لہٰذا 1914ء میں آپؒ گو شہ نشینی چھوڑ کر محکمہ واٹر ورکس سیالکوٹ میں بطور سپر وائزر بھرتی ہو گئے۔ ایک کنواں تیار ہوا تو آپؒ سپر وائزر کی حیثیت سے پانی کی گہرائی کا اندازہ لگانے کے لیے کنویں میں اُترے۔ آپؒ نے ایسی ڈبکی لگائی کہ باہر ہی نہ نکلے۔ کچھ دیر تو باہر کھڑے عملے نے انتظار کیا لیکن جب آپ کافی دیر تک باہر نہ نکلے تو ان کا اضطراب شدت پکڑ گیا۔ فوری طور پر واٹر ورکس کے سپرنٹنڈنٹ کو اطلاع دی گئی۔ وہ بھاگم بھاگ کر موقع پر پہنچا اور غوطہ خور طلب کر لیے۔ اس تگ و دو میں ایک گھنٹہ صرف ہوگیا۔ غوطہ خور پانی میں اترنے کا جائزہ لینے لگے کہ پانی میں ہلچل ہوئی اور آپؒ سطحِ آب پر نمودار ہوگئے۔ جب آپؒ کنویں سے باہر تشریف لائے تو آپؒ کو دیکھ کر سب لوگ بھاگ اٹھے۔ آپؒ آوازیں دے دے کر انہیں بلارہے تھے اور وہ خوف کی وجہ سے آپ کے قریب نہ آ رہے تھے۔  وہ آپ کو مردہ قرار دے چکے تھے کیونکہ کسی شخص کا گھنٹہ بعد پانی سے زندہ نکل آنا نا ممکن تھا۔ بڑی مشکل سے سرکارِ عالیؒ نے یقین دلایا کہ میں کوئی بھوت پریت یا بد روح نہیں ہوں۔ تم میری طرف حیرت سے کیوں دیکھ رہے ہو۔ ان لوگوں نے آپؒ کو پورا واقعہ سنایا۔ آپؒ سن کر خاموش ہو رہے۔ پورے سیالکوٹ میں اس واقعہ کی دھوم مچ گئی۔ اس طرح آپ ایک بار پھر مخلوقِ خدا میں ظاہر ہو گئے تھے‘ اس لئے استعفیٰ دے کر واپس منڈیر شریف گوشہ نشین ہو گئے۔ محترم چچا جان یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ بعد میں کسی نے سرکارِ عالیؒ سے پوچھا حضور آپ کنویں میں اتر کر کہاں غائب ہو گئے تھے؟ آپؒ نے فرمایا، اپنے ایک دوست سے ملنے گیا تھا۔

جمعہ، 22 مئی، 2015

سکول میں پہلا دن – مصباح العرفان

الف سے اللہ}

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اولیائے کرام کی تعلیم و تربیت خود اللہ کریم کے ہاتھ میں ہے۔ جیسا کہ ’’ کشف المحجوب‘‘ میں حضرت سیّد علی ہجویری داتا حضورؒ نے لکھا ہے کہ’’ یہ ضروری نہیں ہر عالم عارف ہو لیکن ہر عارف عالم ہوتا ہے‘‘۔ اللہ کے ولی صرف رسمِ دنیا نبھانے کے لیے مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔ سرکارِ عالیؒ کو بھی رسمِ دنیا نبھانے کے لیے  مدرسہ لے جایا گیا پھر وہاں کیا ہوا  ذرا دل تھام کے پڑھیے۔

جمعہ، 15 مئی، 2015

بچپن کی فیاضی – مصباح العرفان

دوسروں کی ضرورت کا خیال کرنا؛ دوسروں کا دکھ محسوس کر کے اسے دور کرنے کی کوشش کرنا؛ سخاوت و فیاضی بچپن سے آپؒ کے مزاج کا خاصہ تھی۔ سرکارِ عالیؒ کے بچپن کی سخاوت کا یہ قصہ زدِ زبانِ عام ہے۔ آپؒ کی عمر اس وقت بمشکل چار پانچ سال ہو گی۔ گھر والوں نے بڑی محبت سے آپ کے کانوں میں چھوٹی چھوٹی بالیاں پہنا دی تھیں۔ آپ جانتے ہیں کہ دیہات میں غریب عورتیں بچوں کے لئے مٹی کے کھلونے فروخت کر کے اپنی اور اپنے بچوں کی روزی کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک عورت آپ کی گلی میں آئی اور ’’گھگو گھوڑے لے لو‘‘ کی آواز لگائی۔ گاؤں کے بچے بالے خریدنے کے لیے اکھٹے ہو گئے۔ آپؒ وہاں کھڑے ہو کر دلچسپی سے انہیں دیکھتے رہے۔ اس عورت کی نظر آپؒ کے چہرے پر پڑی تو دیکھتی ہی رہ گئی۔ لیکن جب اس کی نظر آپ کے کانوں پر پڑی تو اس نے پوچھا کہ بیٹا یہ بالیاں تم نے کہاں سے لی ہیں، تو آپ نے فرمایا کہ میرے گھر والوں نے پہنائی ہیں۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ کاش میرے پاس پیسے ہوں تو میں ایسی بالیاں بنوا کر اپنی بیٹی کو جہیز میں دے سکوں۔ اس نے کہا، بیٹے سیّد زادے ہو۔ میرے سوہنے نبی ﷺ کا نور تمہارے چہرے پر چمک رہا ہے۔ میرے لئے دعا کرو کہ اللہ مجھے بھی اتنے پیسے دے کہ میں اپنی بچی کو جہیز میں ایسی بالیاں دے سکوں۔ اللہ سادات کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ اس کی اس بات نے آپ کے دل پر گہرا اثر کیا ۔ ساتھ ہی حیدری خون نے جوش مارا اور رگِ سخاوت پھڑک اٹھی۔ آپؒ نے اپنے کان اس عورت کے آگے کر دیے اور کہا کہ مائی! یہ بالیاں اتار لو، اپنی بیٹی کو جہیز میں دے دینا۔

اس عورت نے کہا ’’ناں، بابا! ناں۔ میں نہیں لیتی۔ تمہارے گھر والے مجھے پکڑ کر ماریں گے‘‘۔

’’تم بے فکر ہو کر اتار لو، میں خود تمہیں گاؤں کی حد سے با ہر چھوڑ آؤں گا‘‘، آپ نے اس عورت سے کہا۔ اس عورت نے ڈرتے ڈرتے وہ بالیاں اتار لیں۔ آپ اس کے ہمراہ ہو لیے اور گاؤں کی حد سے باہر نکل کر اس وقت تک کھڑے رہے جب تک وہ عورت نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی۔ جب آپ گھر پہنچے تو گھر والوں نے پوچھا کہ بالیاں کدھر گئیں۔ معصومیت سے کہنے لگے گھگھو گھوڑے بیچنے والی غریب عورت کو اپنی بچی کی شادی کے لیے ضرورت تھی۔ میں نے اسے دے دیں۔ گھر والے مسکرا کر رہ گئے۔

جمعہ، 8 مئی، 2015

بالائی کھانے کا شوق – مصباح العرفان

آپؒ کے بچپن کی ایک یہ کرامت بھی میرے علم میں ہے۔ سرکارِ عالیؒ کو بچپن سے بالائی کھانے کا بڑا شوق تھا۔ اپنے گھر کے علاوہ دیگر رشتہ دار سادات گھروں کا چکر لگاتے اور وہاں سے بالائی اتار کر کھا جاتے۔ اگر موج میں ہوتے تو دودھ بھی پی جاتے۔ ایک روز کسی گھر نے آپ کو بالائی کھانے سے روک دیا۔ آپ ناراض ہو کر گھر لوٹ آئے۔ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس روز جب انہوں نے بھینسوں کا دودھ ابالنے کے لئے چولہے کے اوپر رکھا دودھ تو ابل گیا لیکن گھر کا سارا ایندھن جلانے کے باوجود  دودھ پر بالائی کا نشان تک نہ آیا۔ وہ بہت پریشان ہوئے۔ یہ بات آپ کے نانا جان میر شرف علی شاہ صاحبؒ تک جا پہنچی۔ آپؒ پر ساری بات منکشف ہو گئی۔ انہوں نے فرمایا، جس کو بالائی کھانے سے روکا تھا، اسی کو منا کر لاؤ۔ پھر بالائی آئے گی۔ وہ لوگ فوراً سرکارِ عالیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور منت سماجت کر کے آپ کو راضی کیا۔ تب ان کے دودھ پر بالائی آنا شروع ہوئی۔ اب کوئی بھی آپؒ کا ہاتھ نہ روکتا تھا۔

جمعہ، 1 مئی، 2015

بچپن – مصباح العرفان

سخیٔ کاملؒ نے مجھے سرکارِ عالیؒ کے بچپن سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ابھی بالکل کمسن تھے کہ آپ کے والدِ محترم کا وصال ہو گیا۔ تقریباً چھ سال کے ہوئے تو آپ کے شفیق نانا جان حضرت میر شرف علی شاہ صاحبؒ راہیٔ مُلکِ عدم ہوئے۔ پھر والدۂ محترمہ تیرِ قضاء کا نشانہ بن کر داغِ مفارقت دے گئیں۔ اس کے بعد آپ کے دادا جان بھی اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ اب تربیت کی تمام تر ذمہ داری آپ کی ضعیف دادی صاحبہ کے کندھوں پر آپڑی۔ آخر وہ یومِ سعید آپہنچا جس کا انتظار تھا۔ آپ کی دادی صاحبہ نے اپنے پاس محفوظ امانت یعنی تاجِ محبوبیت سرکارِ عالیؒ کے سپرد کر دیا۔ اس طرح وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئیں۔ پھر جلد ہی وہ بھی راہیٔ مُلکِ عدم ہوئیں۔

جمعہ، 24 اپریل، 2015

ولادتِ با سعادت کی بشارت – مصباح العرفان

آپؒ کی اس ظاہری دنیا میں تشریف آوری اور مقامِ محبوبیت پر فائز ہونے کا تذکرہ سلسلہ قادریہ عالیہ کے اس خاندان سادات میں بہت عرصہ سے ہوتا چلا آرہا تھا۔ آپ کے نانا جان حضرت میر شرف علی شاہ صاحبؒ، سرکارِ عالیؒ کی ولایت اور بلند اقبالی سے بخوبی آگاہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے نواسے احمد حسینؒ کو اپنی آنکھوں کا نور اور جگر کی ٹھنڈک بنا رکھا تھا۔ میر شرف علی شاہؒ خود بھی بڑے صاحبِ نظر اور ولایت کے اعلیٰ درجے پر فائز بزرگ تھے۔ وہ آپ سے بہت پیار کرتے اور آپ کی تربیت پر خصوصی توجہ فرماتے۔ وہ فرماتے کہ میرا احمد حسین ولایت کا شہباز ہوگا۔ اس کی ولایت پر اولیاء اللہ رشک کریں گے۔ سخیٔ کاملؒ نے مجھے بتایا کہ ایک روز میر شرف علی شاہؒ نے اپنی دختر یعنی والدۂ محترمۂ سیّد احمد حسینؒ کو ایک تاجِ مبارک دیا کہ یہ میری طرف سے احمد حسین کے لئے ہے۔ اسے اپنے پاس امانت کے طور پر سنبھال کر رکھ لو۔ ہو سکتا ہے مجھے اللہ کی طرف سے جلد بلاوا آ جائے۔ احمد حسینؒ کے جوان ہونے تک اگر تم زندہ نہ رہو تو یہ امانت اس کی دادی کے سپرد کر دینا۔ وہ اسے احمد حسین تک پہنچا دیں گی۔ اس بات کے کچھ عرصہ بعد‘ ۴ ذو الحجہ ۱۳۲۲ھ؁‘ بمطابق ۹ فروری ۱۹۰۵ء؁‘ بروز جمعرات‘ میر شرف علی شاہ صاحبؒ کو اللہ کی طرف سے بلاوا آ گیا اور وہ اس دارِ فانی سے عالم بقاء کی طرف کوچ کر گئے۔ پھر یہ تاجِ محبوبیت کچھ عرصہ سرکارِ عالی کی والدۂ محترمہ کی تحویل میں رہا۔ جب ان کا وقتِ وصال قریب آیا تو انہوں نے یہ امانت آپ کی دادی صاحبہ کے سپرد کر دی۔ اس طرح یہ تاجِ محبوبیت آپؒ کی دادی محترمہ کے ہاتھوں سرکارِ عالیؒ تک پہنچ گیا۔

جمعہ، 17 اپریل، 2015

اسمِ گرامی – مصباح العرفان

اس عالم رنگ و بو میں جب آپ کی رونمائی ہو چکی تو آپ کا نامِ نامی‘ اسمِ گرامی احمد حسین اور کنیت ابو محمد تجویز ہوئی۔ آپ نجیب الطرفین (حسنی و حسینی) سیّد ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب 38 واسطوں سے حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور سیّدۃ النساء العالمین سیّدہ فاطمۃ الزہرا (سلام اللہ علیہا) بنت حبیبِ خدا حضرت محمد مصطفی ﷺ سے جا ملتا ہے۔

جمعہ، 10 اپریل، 2015

عالَمِ رنگ و بومیں آمد – مصباح العرفان

یہ ہستی جس کا تذکرہ مقصود ہے وہ اسی سرزمین منڈیر سیّداں میں اپنے والدِ ماجد حضرت قبلہ سیّد نواب علی شاہ قدس سرہ العزیز کے ہاں‘ بتاریخ 12 ربیع الاوّل ۱۳۱۷ھ؁ ہجری‘ بمطابق 1899ء؁‘ بروز جمعۃ المبارک‘ رات کے اس حصے میں اس عالم رنگ و بو میں جلوہ آراء ہوئے جس وقت تاریکی چھٹ رہی تھی اور صبحِ صادق نمودار ہورہی تھی۔ گویا قدرتِ کاملہ کی طرف سے ایک بلیغ اشارہ تھا کہ میرا ایسا پیارا بندہ دنیا میں قدم رنجہ فرما رہا ہے جس کے دم قدم سے زمانے کے نصیب چمک اٹھیں گے۔

جمعہ، 3 اپریل، 2015

منڈیر کی کیا بات ہے – مصباح العرفان

منڈیر کی کیا بات ہے
منڈیر کی کیا بات ہے
منڈیر کی کیا بات ہے
حل کیوں نہ ہوں میری مشکلیں
میرا آقا محبوبِ ذاتؒ ہے
منڈیر کی کیا بات ہے

جمعہ، 27 مارچ، 2015

منڈیر شریف سیّداں – مصباح العرفان

تعارف
بستی
منڈیر شریف سیّداں سیالکوٹ


میرے دادا جان قبلہ ماہتابِ ہدایت، آفتابِ ولایت، بندہ پرور، غریب نواز، سرکارِ عالی حضرت سیّد احمد حسین گیلانی محبوبِ ذاتؒ کی جائے ولادت منڈیر شریف سیّداں کی بستی ہے۔ اس لئے  چاہتا ہوں کہ  پہلے اس بستی کا کچھ تعارف ہو جائے۔

جمعہ، 20 مارچ، 2015

نعت شریف – مصباح العرفان

بڑی شان والے ہمارے محمد ﷺ
بڑی آن والے ہمارے محمد ﷺ
اسی شان پر ہے خدائی تصدق
بنائے خدائی ہمارے محمد ﷺ
وہ نورِ خدا ہیں‘ ظہورِ خدا ہیں
بناء لا اِلٰہ ہیں ہمارے محمد ﷺ
عرش تا فرش شور صلّی علیٰ تھا
دولہا بن کے آئے ہمارے محمد ﷺ
محبوبِ خدا ہیں‘ حبیبِ خدا ہیں
کہف الوریٰ ہیں ہمارے محمد ﷺ
شفیع الامم ہیں‘ جمیل الشیم ہیں
خدائی کے آقا ہمارے محمد ﷺ
نورِ عرشِ بریں نورِ ارض و سما ہیں
وریٰ الوریٰ ہیں ہمارے محمد ﷺ
وہ شکلِ خدا ہیں کہ شانِ خدا ہیں
رسولوں کے شاہ ہیں ہمارے محمد ﷺ
دو عالم کی رحمت ہیں بھیسِ خدا ہیں
ہیں عاؔجز کے آقا ہمارے محمد ﷺ

کلام: حضرت سیّد احمد حسین گیلانیؒ  (محبوبِ ذات)

جمعہ، 13 مارچ، 2015

جمعہ، 13 فروری، 2015

جمعہ، 6 فروری، 2015

اظہارِ تشکر – مصباح العرفان

جو انسان بندوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا، در حقیقت وہ اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا نہیں کرتا۔ میرے شیخ حضرت سیّد محمد مبارک علی شاہ گیلانی نے مصباح العرفان تحریر فرما کر ہم پر خصوصاً اور دیگر اہلِ طریقت پر عموماً احسانِ عظیم فرماتے ہوئے ہماری راہبری کا حق ادا فرمایا ہے۔ لا ریب! حضرت سیّد محمد مبارک علی شاہ گیلانی ہدیۂ تبریک کے مستحق اور لائق ہیں بلکہ عین واجب حقدار ہیں کہ حضرت کی بارگاہ میں شکریہ کے چند الفاظ زیرِ قلم ہیں۔

شکریہ یا شیخ المعظم
المشکور
حکیم حاذؔق صلاح الدین
فیصل آباد

جمعہ، 30 جنوری، 2015

واللہ! میرے مہربان! مبارک! – مصباح العرفان

تصوف و طریقت روحِ اسلام ہے۔ عہدِ حاضر میں چند ایسے بھی ہیں جو کہ بضد و مخالف ہیں مگر ذرا علمی خانقاہت پر غور کریں گے تو خوب نظر آئے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ لیکن اس کے لیے حق بین چشم مضطر کی بے حد ضرورت ہے۔ کہیں خانقایت کو شرک تو کہیں بدعت کہا جاتا ہے۔ در اصل کور نگاہ ہے۔ بیمار کی اپنی حسِ ذائقہ کڑوی ہو تو میٹھی سے میٹھی تر شیریں ذائقہ چیز بھی کھلائیں تو کڑوی ہی محسوس ہو گی۔

جمعہ، 23 جنوری، 2015

اظہارِ تشکر – مصباح العرفان

صوفیائے اسلام کے احوال اور ان کی سیرت و کردار کا مطالعہ تعمیر شخصیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ صِدق و صَفا، زُہد ووَرَع، تسلیم ورَضا ،اِیثار و قربانی، تقویٰ و توکّل خدمتِ خَلق اور حُسنِ تواضع کے پیکر اِن نفوس قدسیہ میں کمال درجہ کی جاذبیت ہوتی ہے کہ اکناف و اطرافِ عالم سے دنیا کشاں کشاں ان کی طرف دوڑی چلی آتی ہے۔ ان پاکباز ہستیوں کو دیکھ کر نہ صرف خدائے وَحدَہُ لاشریک یاد آ جاتا ہے بلکہ اس کی راہ میں چلنے اور اسے پانے کی طلب ملنے والوں کو بے چین کیے دیتی ہے اور وہ دنیا کی تمام تر ترغیبات اور چاہتوں کو بس ایک ذاتِ واحد کی چاہت پر قربان کر دینے کے لیے بے قرار ہو جاتے۔ یہ انقلاب ان کے اندر خانقاہ نشینوں کی تقریروں یا ان کے ہاں منعقد ہونے والے جلسوں کا مرہونِ منت نہیں ہوتا بلکہ ان کے سامنے ایسے نورانی پیکر ہو تے تھے جن کی ایک ایک ادا ان کی زبان کی تصدیق کر رہی ہو تی ہے۔ اگر صدق و اخلاص کی بات ہو تی تو سننے والے کو یقین ہو تاکہ کہنے والا خود صدق و اخلاص کا مجسمہ ہے۔ اگر زہد و ورع کی فضیلت بیان ہو تی تو سامع کے سامنے وہ ہستی ہوتی جو سیم و زر اور کوڑیوں میںکوئی فرق نہ سمجھتی۔ حُبِّ جاہ، دنیا پر ستی کی مذمت ہو تی تو دیکھنے والے کو وہاں حُبِّ جاہ اور دنیا پرستی کا کوئی ہلکا سا سایہ تک نظر نہ آتا۔ بس یہیں سے انقلاب کا در کھل جاتا۔ شَیخ کے وجود سے پھوٹنے والی خوشبوئے کردار سے اس کا مَن مہک اٹھتا۔ دنیا اس کے سامنے ہیچ اور فکر ِ آخرت غالب ہو جاتی اور یوں اس کا ظاہر و باطن سنورنا شروع ہو جاتا۔

جمعہ، 16 جنوری، 2015

تقریظ – مصباح العرفان

سرکارِ عالی، بندہ پرورعاصی نواز حضرت سیّد احمد حسین گیلانی محبوبِ ذاتؒ قدس سرہٗ العزیز نے دنیائے اسلام کی بالعمو م اور خطۂ پاکستان کی بالخصوص زبردست روحانی شخصیت کے طور پر اپنا سکہ منوایا۔ دُنیا بھر میں آپ کے مریدین ومعتقدین کی قابلِ ذکر تعداد موجود ہے۔

جمعہ، 9 جنوری، 2015

پیشِ لفظ – مصباح العرفان

بسم الله الرحمٰن الرحيم
نحمده ونصلي على رسوله الكريم.
یہ دنیا، یہ زمانہ سب فنا کے گھاٹ اتر جانے والے ہیں ۔ بہت سے لوگوں نے دیکھا ہو گا کہ سمندر میں ایک لہر اٹھتی ہے دوسری لہر آکر اسے مٹا کر خود چھا جاتی ہے۔پھر تیسری لہر آتی ہے وہ ان دونوں کو مٹا دیتی ہے، پھر چوتھی ، پھر پانچویں۔ اس طرح لہروں کے بننے اور مٹنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ گویا زمانہ ہر نقش کو مٹانے اور نئے نقش و نگار قائم کرنے کے لیے قدرت کی تجدّدِ امثال کی روش کا پا بند ہے۔

پیر، 5 جنوری، 2015

مقدمہ – مصباح العرفان

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَيْرِ خَلْقِهٖ مُحَمَّدٍ الْاَمِيْنِ وَعَلٰى اٰلِهٖ وَاِتِّبَاعِهٖ اَجْمَعِيْنَ وَرَحْمَتُهُ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْنَا وَعَلَيْكُمُ الْمُؤْمِنِيْنَ مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِيْنَ سُبْحَانَ الَّذِيْ نَوَّرَ قُلُوْبَ الْعَارِفِيْنَ بِنُوْرِ مَعْرِفَتِهٖ وَفضل اَحْوَالِ الْمُحِبِّيْنَ بِكَمَالِ فَضْلِهٖ وَحِكْمَتِهٖ.
اللہ تعالیٰ  کا ارشاد پاک ہے۔