جمعہ، 29 مئی، 2015

واٹر ورکس میں بطور سپر وائزر بھرتی – مصباح العرفان

میرے محترم و شفیق چچا جان حضرت سیّد افتخار احمد حسین گیلانی صاحبؒ سرکارِ عالیؒ کی اوائل عمری کا یہ واقعہ اس طرح بیان فرمایا کرتے کہ خدمتِ خلق کے جذبہ نے سرکارِ عالیؒ کو آرام سے گھر بیٹھنے نہ دیا۔ ان دنوں سیالکوٹ شہر میں واٹر سپلائی کا نظام قائم کیا جا رہا تھا۔ لوگوں کی سہولت کے لئے حکومت کنویں کُھدوا رہی تھی۔ آپؒ نے سوچا کہ خدمتِ خلق کا اچھا موقع ہے۔ مخلوقِ خُدا کے لیے فراہمیٔ آب پروگرام میں خدمت سر انجام دینی چاہیے۔ لہٰذا 1914ء میں آپؒ گو شہ نشینی چھوڑ کر محکمہ واٹر ورکس سیالکوٹ میں بطور سپر وائزر بھرتی ہو گئے۔ ایک کنواں تیار ہوا تو آپؒ سپر وائزر کی حیثیت سے پانی کی گہرائی کا اندازہ لگانے کے لیے کنویں میں اُترے۔ آپؒ نے ایسی ڈبکی لگائی کہ باہر ہی نہ نکلے۔ کچھ دیر تو باہر کھڑے عملے نے انتظار کیا لیکن جب آپ کافی دیر تک باہر نہ نکلے تو ان کا اضطراب شدت پکڑ گیا۔ فوری طور پر واٹر ورکس کے سپرنٹنڈنٹ کو اطلاع دی گئی۔ وہ بھاگم بھاگ کر موقع پر پہنچا اور غوطہ خور طلب کر لیے۔ اس تگ و دو میں ایک گھنٹہ صرف ہوگیا۔ غوطہ خور پانی میں اترنے کا جائزہ لینے لگے کہ پانی میں ہلچل ہوئی اور آپؒ سطحِ آب پر نمودار ہوگئے۔ جب آپؒ کنویں سے باہر تشریف لائے تو آپؒ کو دیکھ کر سب لوگ بھاگ اٹھے۔ آپؒ آوازیں دے دے کر انہیں بلارہے تھے اور وہ خوف کی وجہ سے آپ کے قریب نہ آ رہے تھے۔  وہ آپ کو مردہ قرار دے چکے تھے کیونکہ کسی شخص کا گھنٹہ بعد پانی سے زندہ نکل آنا نا ممکن تھا۔ بڑی مشکل سے سرکارِ عالیؒ نے یقین دلایا کہ میں کوئی بھوت پریت یا بد روح نہیں ہوں۔ تم میری طرف حیرت سے کیوں دیکھ رہے ہو۔ ان لوگوں نے آپؒ کو پورا واقعہ سنایا۔ آپؒ سن کر خاموش ہو رہے۔ پورے سیالکوٹ میں اس واقعہ کی دھوم مچ گئی۔ اس طرح آپ ایک بار پھر مخلوقِ خدا میں ظاہر ہو گئے تھے‘ اس لئے استعفیٰ دے کر واپس منڈیر شریف گوشہ نشین ہو گئے۔ محترم چچا جان یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ بعد میں کسی نے سرکارِ عالیؒ سے پوچھا حضور آپ کنویں میں اتر کر کہاں غائب ہو گئے تھے؟ آپؒ نے فرمایا، اپنے ایک دوست سے ملنے گیا تھا۔

جمعہ، 22 مئی، 2015

سکول میں پہلا دن – مصباح العرفان

الف سے اللہ}

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اولیائے کرام کی تعلیم و تربیت خود اللہ کریم کے ہاتھ میں ہے۔ جیسا کہ ’’ کشف المحجوب‘‘ میں حضرت سیّد علی ہجویری داتا حضورؒ نے لکھا ہے کہ’’ یہ ضروری نہیں ہر عالم عارف ہو لیکن ہر عارف عالم ہوتا ہے‘‘۔ اللہ کے ولی صرف رسمِ دنیا نبھانے کے لیے مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔ سرکارِ عالیؒ کو بھی رسمِ دنیا نبھانے کے لیے  مدرسہ لے جایا گیا پھر وہاں کیا ہوا  ذرا دل تھام کے پڑھیے۔

جمعہ، 15 مئی، 2015

بچپن کی فیاضی – مصباح العرفان

دوسروں کی ضرورت کا خیال کرنا؛ دوسروں کا دکھ محسوس کر کے اسے دور کرنے کی کوشش کرنا؛ سخاوت و فیاضی بچپن سے آپؒ کے مزاج کا خاصہ تھی۔ سرکارِ عالیؒ کے بچپن کی سخاوت کا یہ قصہ زدِ زبانِ عام ہے۔ آپؒ کی عمر اس وقت بمشکل چار پانچ سال ہو گی۔ گھر والوں نے بڑی محبت سے آپ کے کانوں میں چھوٹی چھوٹی بالیاں پہنا دی تھیں۔ آپ جانتے ہیں کہ دیہات میں غریب عورتیں بچوں کے لئے مٹی کے کھلونے فروخت کر کے اپنی اور اپنے بچوں کی روزی کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک عورت آپ کی گلی میں آئی اور ’’گھگو گھوڑے لے لو‘‘ کی آواز لگائی۔ گاؤں کے بچے بالے خریدنے کے لیے اکھٹے ہو گئے۔ آپؒ وہاں کھڑے ہو کر دلچسپی سے انہیں دیکھتے رہے۔ اس عورت کی نظر آپؒ کے چہرے پر پڑی تو دیکھتی ہی رہ گئی۔ لیکن جب اس کی نظر آپ کے کانوں پر پڑی تو اس نے پوچھا کہ بیٹا یہ بالیاں تم نے کہاں سے لی ہیں، تو آپ نے فرمایا کہ میرے گھر والوں نے پہنائی ہیں۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ کاش میرے پاس پیسے ہوں تو میں ایسی بالیاں بنوا کر اپنی بیٹی کو جہیز میں دے سکوں۔ اس نے کہا، بیٹے سیّد زادے ہو۔ میرے سوہنے نبی ﷺ کا نور تمہارے چہرے پر چمک رہا ہے۔ میرے لئے دعا کرو کہ اللہ مجھے بھی اتنے پیسے دے کہ میں اپنی بچی کو جہیز میں ایسی بالیاں دے سکوں۔ اللہ سادات کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ اس کی اس بات نے آپ کے دل پر گہرا اثر کیا ۔ ساتھ ہی حیدری خون نے جوش مارا اور رگِ سخاوت پھڑک اٹھی۔ آپؒ نے اپنے کان اس عورت کے آگے کر دیے اور کہا کہ مائی! یہ بالیاں اتار لو، اپنی بیٹی کو جہیز میں دے دینا۔

اس عورت نے کہا ’’ناں، بابا! ناں۔ میں نہیں لیتی۔ تمہارے گھر والے مجھے پکڑ کر ماریں گے‘‘۔

’’تم بے فکر ہو کر اتار لو، میں خود تمہیں گاؤں کی حد سے با ہر چھوڑ آؤں گا‘‘، آپ نے اس عورت سے کہا۔ اس عورت نے ڈرتے ڈرتے وہ بالیاں اتار لیں۔ آپ اس کے ہمراہ ہو لیے اور گاؤں کی حد سے باہر نکل کر اس وقت تک کھڑے رہے جب تک وہ عورت نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی۔ جب آپ گھر پہنچے تو گھر والوں نے پوچھا کہ بالیاں کدھر گئیں۔ معصومیت سے کہنے لگے گھگھو گھوڑے بیچنے والی غریب عورت کو اپنی بچی کی شادی کے لیے ضرورت تھی۔ میں نے اسے دے دیں۔ گھر والے مسکرا کر رہ گئے۔

جمعہ، 8 مئی، 2015

بالائی کھانے کا شوق – مصباح العرفان

آپؒ کے بچپن کی ایک یہ کرامت بھی میرے علم میں ہے۔ سرکارِ عالیؒ کو بچپن سے بالائی کھانے کا بڑا شوق تھا۔ اپنے گھر کے علاوہ دیگر رشتہ دار سادات گھروں کا چکر لگاتے اور وہاں سے بالائی اتار کر کھا جاتے۔ اگر موج میں ہوتے تو دودھ بھی پی جاتے۔ ایک روز کسی گھر نے آپ کو بالائی کھانے سے روک دیا۔ آپ ناراض ہو کر گھر لوٹ آئے۔ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس روز جب انہوں نے بھینسوں کا دودھ ابالنے کے لئے چولہے کے اوپر رکھا دودھ تو ابل گیا لیکن گھر کا سارا ایندھن جلانے کے باوجود  دودھ پر بالائی کا نشان تک نہ آیا۔ وہ بہت پریشان ہوئے۔ یہ بات آپ کے نانا جان میر شرف علی شاہ صاحبؒ تک جا پہنچی۔ آپؒ پر ساری بات منکشف ہو گئی۔ انہوں نے فرمایا، جس کو بالائی کھانے سے روکا تھا، اسی کو منا کر لاؤ۔ پھر بالائی آئے گی۔ وہ لوگ فوراً سرکارِ عالیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور منت سماجت کر کے آپ کو راضی کیا۔ تب ان کے دودھ پر بالائی آنا شروع ہوئی۔ اب کوئی بھی آپؒ کا ہاتھ نہ روکتا تھا۔

جمعہ، 1 مئی، 2015

بچپن – مصباح العرفان

سخیٔ کاملؒ نے مجھے سرکارِ عالیؒ کے بچپن سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ابھی بالکل کمسن تھے کہ آپ کے والدِ محترم کا وصال ہو گیا۔ تقریباً چھ سال کے ہوئے تو آپ کے شفیق نانا جان حضرت میر شرف علی شاہ صاحبؒ راہیٔ مُلکِ عدم ہوئے۔ پھر والدۂ محترمہ تیرِ قضاء کا نشانہ بن کر داغِ مفارقت دے گئیں۔ اس کے بعد آپ کے دادا جان بھی اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ اب تربیت کی تمام تر ذمہ داری آپ کی ضعیف دادی صاحبہ کے کندھوں پر آپڑی۔ آخر وہ یومِ سعید آپہنچا جس کا انتظار تھا۔ آپ کی دادی صاحبہ نے اپنے پاس محفوظ امانت یعنی تاجِ محبوبیت سرکارِ عالیؒ کے سپرد کر دیا۔ اس طرح وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئیں۔ پھر جلد ہی وہ بھی راہیٔ مُلکِ عدم ہوئیں۔