جمعہ، 22 جولائی، 2016

{توکّل} – مصباح العرفان

توکل کا مطلب یہ ہے کہ اپنے تمام تر معاملات اللہ جل شانہ کے سپرد کر کے راضی بہ رضا رہنا۔ خوشی‘ غمی‘ نفع یا نقصان‘ ہر حال میں منشائے ایزدی کو بہ صدقِ دل و جان تسلیم کرنا۔ مجھ سے سخیٔ کاملؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے بچپن سے لے کر جوانی تک اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سرکارِ عالیؒ کی خدمتِ اقدس میں گزارا۔ میں نے انہیں کامل متوکل شخصیت پایا۔ وہ کسی لمحے بھی کسی بات پر متفکر نہ ہوتے۔ آپ کے آستانہ پر دن رات لنگر تقسیم ہوتا، دو مرتبہ چائے ملتی۔ انہوں نے کبھی سامانِ خورد و نوش جمع نہیں فرمایا۔ روزانہ تازہ سامان خریدا جاتا اور لنگر تقسیم ہوتا۔ سخیٔ کاملؒ نے مجھے بتایا کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ لنگر کے لئے خوردنی اشیاء نہ ہوتیں۔ ہم لوگ اور لانگری صاحبان تشویش میں پڑ جاتے۔ لیکن قربان جاؤں سرکارِ عالیؒ کے توکّل پر کہ وہ ہماری باتیں سن کر بھی مُشَوَّش نہ ہوتے بلکہ مسکراتے ہوئے فرماتے‘ فکر کیوں کرتے ہو؟ جس کا لنگر ہے‘ وہ خود انتظام کرے گا۔ اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا۔ مختلف لوگ خود بخود سامانِ خورد و نوش لے کر حاضرِ خدمت ہوجاتے۔ یہ تو لنگر کی بات ہے جس میں ناغہ آپؒ کو گوارہ نہ تھا کہ آپؒ مخلوق کو بھوکا نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن اندرونِ خانہ‘ گھر میں اگر کبھی فاقہ پر نوبت پہنچ جاتی تو آپؒ یہ کہہ کر سب کو مطمئن کر دیتے کہ فاقہ ہمارے اجداد کی اوّلین سنت ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس سنت پر عمل ہو گیا ہے۔

جمعہ، 22 اپریل، 2016

{غرباء اور یادِ الٰہی} – مصباح العرفان

حضرت محبوبِ ذاتؒ نے سخیٔ کاملؒ سے فرمایا کہ قیامِ مری کے دوران میرے دل میں خیال آیا کہ اس علاقہ کے لوگ عبادتِ الٰہی سے غفلت برتتے ہیں۔ بس اپنی دنیا میں ہی مگن رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ غربت کی وجہ سے یہ غفلت ہو۔ لہٰذا کیوں نہ میں ان کی غربت کو دور کر دوں تاکہ یہ ذکرِ الٰہی میں دل لگا سکیں۔ میں نے اپنی تنخواہ لے کر ایک صندوقچی میں رکھی اور اعلان کرا دیا کہ جس کو جتنی رقم کی ضرورت ہو مجھ سے لے لے۔ لوگ آتے‘ اپنی حاجت کے مطابق رقم لے کر چلے جاتے۔ کافی دیر یہ سلسلہ چلتا رہا؛ لوگ آتے رہے‘ پیسے لے جاتے رہے۔ صندوقچی کی رقم ختم ہونے میں نہ آئی۔ پھر میرے دل میں خیال آیا کہ لوگوں کی مالی ضروریات بخوبی پوری ہونے اور میرے نصیحت کرنے کے باوجود مخلوق اپنے حال میں مست اور بدستور یادِ الٰہی سے غفلت میں ہے۔ لہٰذا میری اس کاوش کا کوئی فائدہ نہیں۔ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ میرے اس خیال کے بعد ایک آدمی آیا اور اس نے ایک روپیہ طلب کیا۔ میں نے بہت زور لگایا کہ زائد مانگو لیکن وہ نہ مانا۔ میں نے صندوقچی کھول کر دیکھا صرف ایک روپیہ اس میں پڑا تھا۔ میں نے وہ اسے دے کر آئندہ کے لیے یہ سلسلہ بند کر دیا۔

جمعہ، 18 مارچ، 2016

ولا تخسروا المیزان – مصباح العرفان

یہ واقعہ والدِ محترم و مرشدِ کاملؒ حضرت سیّد افضال احمد حسین گیلانیؒ حضور نے مجھے اس طرح سنایا کہ سرکارِ عالیؒ نے فرمایا: میں نے ایک دن قرآنِ مجید میں پڑھا ’’ولا تخسروا المیزان‘‘ کہ ترازو میں کمی نہ کرو‘ پورا تولو۔ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اس کا عملی مظاہرہ کر کے لوگوں کو دکھانا چاہیے۔  چنانچہ میں نے ترازو اور باٹ خرید کر کریانہ کی دکان کھولی۔ گاہک آنا شروع ہوگئے۔ میں صحیح باٹوں کے ساتھ سیدھا ترازو رکھ کر سودا دیتا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ دکان بھی خوب چل نکلی۔ کافی سیل ہوتی۔ ایک دن میں نے سوچا میرے اس عملی نمونہ پیش کرنے کے بعد بھی دیگر دکانداروں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ وہ بدستور کم وزن باٹ استعمال کر رہے ہیں اور کم وزن تول رہے ہیں۔ لہٰذا میں نے وہاں بھی دکان راہِ خدا میں لٹا دی۔

جمعہ، 8 جنوری، 2016

والدِ محترم و مرشدِ کامل‘ حضرت سید افضال احمد حسین گیلانیؒ گاہے گاہے عالی سرکارؒ کی حیاتِ پاک کی نقاب کشی کر کے مجھے آپ کے اوصافِ حسنہ سے آگاہی کا موقع فراہم کرتے رہتے۔ آپؒ بتاتے کہ سرکارِ عالیؒ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بے سہارا، غریب‘ مسکین‘ ضرورت مند اور مصیبت زدہ لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ مصیبت زدہ لوگوں کو حوصلہ دینا، ضرورت مندوں کی مالی استعانت کرنا اور بھوکوں کو کھانا کھلانا آپؒ کا روزانہ کا معمول تھا۔ سخیٔ کاملؒ نے مجھے بتایا کہ سرکارِ عالیؒ نے پورے بر صغیر کا پیدل سفر کیا اور ہزاروں انسانوں کو بلا امتیازِ دین‘ مسلک اور عقیدہ‘ اپنے ظاہری و باطنی فیوض سے نوازا۔ کوئی سائل آپؒ کے در سے خالی نہ گیا۔ اُمتِ محمدیہ ﷺ کے ہر فرد تک آپؒ نے اپنے خُلُقِ عظیم کا فیضان پہنچانے کا ہرممکن جتن کیا۔