اگر کوئی شخص مرید ہونے کی خواہش ظاہر کرتا تو پہلے آپ اس کے دل کی توجہ خاص سے بارگاہِ ایزدی میں پیش کر کے منزہ کرتے‘ جس کے نتیجہ میں دل منور اور ذاکر ہو جاتا۔ دل واصل باللہ ہو جاتا۔ جب وہ شخص ان نوازشات کا حامل ہو کر اس کی تصدیق کرتا تو آپ اس کو بیعت فرماتے اور اس کے سابقہ گناہوں کی معافی کے لئے ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا فرماتے۔
آپ پنج گانہ نماز کی ادائیگی ہمیشہ پابندی سے فرماتے۔ نمازِ مغرب کی جماعت خود کرواتے۔ مریدین کے علاوہ اُمت ِ مسلمہ کے لئے خصوصی دعا فرماتے۔ اس کے بعد آپؒ اپنے وظائف پڑھنے میں مصروف ہو جاتے‘ جو نیم شب تک جاری رہتے۔ وظائف سے فراغت پا کر آپؒ مریدین کی مجلس میں تشریف لے آتے اور رات کا باقی حصہ رشد و ہدایت اور راہنمائی میں صرف فرماتے۔ مسائل کی عقدہ کشائی فرماتے‘ حاضرین کی مشکلات کے حل کے لئے دعا فرماتے‘ مریدین کی باطنی راہنمائی فرماتے ہوئے ان کو تصوّف و معرفت کے حقائق اور رموز سے آگاہ بھی فرماتے۔ آپ کے خطبات‘ ارشادات اور مواعظ سنہری حروف میں لکھنے کے لائق ہیں۔ آپ قرآنِ پاک کی آیاتِ مبارکہ کی جو تفسیر بیان فرماتے وہ بہت دقیق اور پراسرار ہوتی‘ علمائے ظاہر اور واعظین سے مختلف ہوتی۔ آپ اکثر فرماتے کہ قرآنِ پاک کے سِرِّی معانی بھی ہیں۔ ان باطنی معنوں کو سمجھے بغیر علمِ قرآن سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ راقم الحروف کو ان اَسرار و رموز کے سمجھنے اور سننے کی سعادت برابر حاصل رہی۔ فجر کی نماز سے پہلے آپ گھر تشریف لے جاتے اور رات کا رکھا ہوا باسی کھانا (تنوری روٹی اور سالن) بڑے شوق سے تناول فرماتے اور اپنے معمول کے وظائف کے بعد ایک گھنٹے کے لئے استراحت فرماتے۔ استراحت کے بعد تازہ وضو فرماتے‘ ایک پیالی چائے نوش فرماتے اور پھر معمولاتِ زندگی میں مصروف ہو جاتے۔ سارا دن فیض رسانی کا سلسلہ جاری رہتا۔ اسی دوران ظہر کے وقت دربار شریف میں آئے ہوئے ہزاروں عقیدت مندوں کے لئے فرداً فرداً دعا فرماتے۔