اللہ تعالیٰ نے ہر انسانی جسم میں اپنے مقام کے ساتھ ساتھ نفس اور روح کو بھی داخل فرمایا۔ نفس کو موت ہے۔كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ﴿سورة آل عمرآن، آية 185، سورة الانبياء، آية 35. سورة العنکبوت، آية 57﴾۔ روح نور ہے جس کو موت نہیں۔ روزِ محشر اسی کا حساب ہو گا اور یہی جنت یا نعوذ باللہ دوزخ میں داخل کی جائے گی۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے تمام خطاب روح کو کئے ہیں اور اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ﴿سورة الاعراف، آية ١٧٢﴾ پر روح نے ہی بَلٰى ﴿سورة الاعراف، آية ١٧٢﴾ کہہ کر اقرار کیا تھا۔ اس لئے اس کا امتحان ہے۔
نفس کی غذا
عیش و عشرت‘ جاہ و حشمت‘ لوازمات‘ لذیذ کھانے‘ آرام و آسائش‘ خودستائی‘ دروغ گوئی‘ حرص و ہوا، تکبر‘ غرور‘ گھمنڈ‘ نخوت‘ لالچ وغیرہ۔
نفس سے جہاد کرتے رہو۔ حدیث شریف کے مطابق جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹنے کا مطلب مجاہدۂ نفس ہے‘ اس لئے کہ نفس ہمیشہ اور مستقل طور پر طالب ِ لذت و شہوت رہ کر غرقِ معصیت (گناہ) رہتا ہے۔
القرآن وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ ﴿سورة الحجر، آية ۹۹﴾
ترجمہ۔ رب کی عبادت کرتے رہو یہاں تک کہ تمہیں یقین آ جائے (نہایت درجہ حاصل ہو)۔
روح کی غذا