شان عالی پیر دی اور پیر دے دربار دی
اس واقفِ اسرار حق اور مخزنِ اسرار دی
یا الٰہی قائم رکھ تو پیر دے دربار نوں
محرمِ حق پیر نوں اور پیر دی اولاد نوں
طالبیں آتے رہیں اور فیض وہ پاتے رہیں
نظر کرتے رہیں ان پر مری سرکار بھی
مجرم و عاصی سبھی ہوں پار اس نظر سے
نورِ حق میں غرق ہوں اور محرمِ اسرار بھی
پیشِ نظر ہر دم رہے تصویر میرے پیر کی
دور شیطاں بھی رہے اور نفس کے اشرار بھی
دربارِ عالی میں سدا رونق فزوں ہوتی رہے
عرسِ اقدس شاہِ جیلاں ہو سدا ضو بار بھی
مثلِ پروانہ سدا ہو جوش یاروں میں فزوں
فیض بھی پاتے رہیں اور کرتے رہیں دیدار بھی
دار الشفا میں ہو شفا خلقت کو جو آتی رہے
حاسدیں سب دور ہوں اور حاسدیں ہو خوار بھی
دل منور ہو اے عاجز نورِ وحدت سے تیرا
دار الشفاء قائم رہے اور دار الشفاء سرکار بھی
اتوار، 18 اکتوبر، 2009
Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 – 1961):
Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 – 1961) (کھینچی ہے خالق نے کیا تصویر میرے پیر کی)
کھینچی ہے خالق نے کیا تصویر میرے پیر کی
جان و دل میں بس گئی تصویر میرے پیر کی
بخش عرفان و ہدایت کر دیا دل رازداں
مجمعِ تخلیق ہے تصویر میرے پیر کی
مشتاق دنیا ہو گئی اس بھولی بھالی شکل کی
کرتے ہیں جن و ملک توقیر میرے پیر کی
پردہ ء نسیان و غفلت دور ہونا تھا محال
گر نہ کرتی رہبری تاثیر میرے پیر کی
میری بد تقدیر کا جب ہو سکا نہ کچھ علاج
چل گئی فوراً وہاں تدبیر میرے پیر کی
کر دیا تقدیر بد کو بہتر ایک تدبیر نے
دل کو روشن کر گئی تنویر میرے پیر کی
وصف جس کا خود کرے وہ ذاتِ رب العالمیں
وصف عاجز کیا کرے تحریر میرے پیر کی
Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 – 1961) (ایہہ تاثیر میرے پیر دی)
بسم اللہ پڑھ کلم اٹھاواں اتے وصف لکھاں میں پیر دی
خلقت دے وچ روشن ہو گئی ایہہ تاثیر میرے پیر دی
جس شئے وَل مَیں نظر اٹھاواں تے اوہ مونہوں بول سناوے
دیکھ لئی ہے سب نے مل کر تاثیر میرے پیر دی
روشن ہوئی خلقت اس تھیں تے ایسا ہے اوہ ماہِ لقا
رہیا اندھیرا نہ دنیا اندر ایہہ تاثیر میرے پیر دی
دیکھ دیکھ کے سب تَر نکلے جنہاں ایمان ہمیشہ
پیر میرے دے مکھڑے وَلوں اے تاثیر میرے پیر دی
تے باہجوں مرشد ہتھ نہ آوے ایہہ رستہ دین اسلام سیّو
ایتھے اوتھے دوہیں جہانیں ہے تاثیر میرے پیر دی
عملاں باہجوں کم نہیں بن دا بھاویں ہو کیڈا دلیر سیّو
پیر میرا ہے اندر باہر دیکھو کیا شان ہے میرے پیر دی
زمزاں لِکھ لِکھ کے دَسّے رستہ، تے ہووے فضل الٰہی
فیض ہر تھاں جاری اُس دا ایہہ تاثیر میرے پیر دی
وچ منڈیراں ہے ڈیرا لایا تے ہے اوچن چوداں دا
پاک ہوندے عاصی سارے اے تاثیر میرے پیر دی
میراں جی دا علَم سے ہتھ وچ تے قطب زمانے آیا
باہوں پھڑ پھڑ پار کریندا واہ تاثیر میرے پیر دی
پہاڑاں دے ول میں جد ویکھاں تے وچ دریاواں جاواں
جتھے کتھے میں ویکھاں اودھرے دِسدی تصویر میرے پیر دی
جنگل ڈھونڈاں بیلا ڈھونڈاں تے پاواں اوسے تائیں
ایہہ عاجز رب دے کدے نہ خالی بِن تاثیر میرے پیر دی
جمعہ، 19 جون، 2009
Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 – 1961) (تو آ غوث الاعظم تو آ غوث الاعظم)
تو آ غوث الاعظم تو آ غوث الاعظم
میرے دردِ دل کی دوا غوث الاعظم
جو مکھڑا تیرا چاند سا میں نے دیکھا
وہی آج مجھ کو دکھا غوث الاعظم
تو آ غوث الاعظم تو آ غوث الاعظم
یہی عرض ہے تیرے در پر کھڑا ہوں
نہ مسکین کو اپنے در سے پھرا غوث الاعظم
تو آ غوث الاعظم تو آ غوث الاعظم
تپِ ہجر میں دل یہ رہتا ہے ہر دم
مرضِ لادوا کی دوا غوث الاعظم
تو آ غوث الاعظم تو آ غوث الاعظم
غلاموں میں ہوں میں تیرے مجھ کمیں کو
تو روضے پہ اپنے بلا غوث الاعظم
تو آ غوث الاعظم تو آ غوث الاعظم
مجھے شربتِ وصل پلا دو خدارا
نہ در سے تو اپنے ہٹا غوث الاعظم
تو آ غوث الاعظم تو آ غوث الاعظم
ہزاروں کو جس نے ولی کر دیا ہے
وہی نظرِ الفت اٹھا غوث الاعظم
تو آ غوث الاعظم تو آ غوث الاعظم
یہ عاجز و دیوانہ در پہ کھڑا ہے
نہ رکھ تو اب اس کو جدا غوث الاعظم
تو آ غوث الاعظم تو آ غوث الاعظم
Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 – 1961) (یا غوث الاعظم محبوب ربانا)
شہنشاہ آپ ہیں، در پہ سائل ہوں میں، خیر پانا
یا غوث الاعظم محبوبِ ربانا
غنچہ دل، جائے کھل، واروں میں جان و دل، آنا آنا
یا غوث الاعظم محبوبِ ربانا
میری سن لیجئے آہ و زاری کھائے دن رات فرقت تمہاری
صدقہ شاہِ اُمم اب نگاہِ کرم فرمانا
یا غوث الاعظم محبوبِ ربانا
اپنے دامن میں آس لئے ہیں چور جو آئے قطب کئے ہیں
ڈُبا بیڑا جو تھا، دیا اُس کو ترا، کہے زمانہ
یا غوث الاعظم محبوبِ ربانا
عاشقوں کے عاشق ہیں سرور سارے ولیوں کے ہیں آپ افسر
سر جھکا جو میرا سجدہ گاہ ہے تیرا آستانہ
یا غوث الاعظم محبوبِ ربانا
اُٹھ دِلا جلدی چل، شہر میراں دے وَل ہو روانہ
دیکھوں دیکھوں میں روضہ شاہانہ
یا غوث الاعظم محبوبِ ربانا
شہنشاہ آپ ہیں در پہ سائل ہوں میں خیر پانا
یا غوث الاعظم محبوبِ ربانا
Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 – 1961) (غوث الاعظم محبوب ربانا)
غوث الاعظم محبوب ربانا رب دا خاص ولی ہے
لکھیا نام عرش پر اس دا حرفوں قلم جلی ہے
ولیاں دا سرتاج بنایا عالی رتبے والا
غوثاں دا اوہ غوث سدایا خاص اولادِ علی ہے
محبوبِ خدا دے رتبے والا عالی شاناں والا
چوراں نوں چا قطب بناوے واہ کیا شان ملی ہے
دین اسلام نوں زندہ کیتا محی الدین سدایا
ڈبی بیڑی پار کریندا پل وجہ اوہ ولی ہے
نبی سرور نوں کندھا دتا وچ معراج پہنچایا
اچا شان ہویا اس پاروں خاص حدیث نبی ہے
میراں میراں میں کُر لاواں رب دیاں ویکھ رضاواں
ایدھر پائیں پھیرا سایاں رب دا خاص ولی ہے
عملاں والے تر تر جاندے اوگن ہار کھڑی ہے
بیڑا پار ہووے ہن عاؔجز رب سے آس ملی ہے
Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 – 1961) (علی حق کے پیارے)
علی حق کے پیارے ید اللہ علی ہیں
وہ مولا ہمارے دلارے علی ہیں
وہ بیت الحرم میں ولادت لئے ہیں
شرافت صداقت امامت لئے ہیں
کیا درجہ حق نے ہے عالی علی کا
نبی ﷺ کے برادر امام ان سبھی کا
کیا وصف قرآن نے عالی وہ ذیشان
مراتب دیئے جو کہ سب تھے عالی شان
وہ خیبر کا در تھا اکھاڑا علی نے
کیا کفر غارت اس شاہ ولی نے
پڑھا کلمہ سب نے یہ شانِ علی ہے
ہوا جگ میں روشن وہ نام علی ہے
تھراتے تھے کافر یہ قابل نگاہ ہے
دکھائے وہ جوہر کہ خلقت گواہ ہے
میں قربان علی پر اس شاہِ جری پر
وہ کوثر کے ساقی امام علی پر
یہ عاؔجز بھی دیوانہ اُلفت علی ہے
شفاعت کا طالب اور طالب علی ہے
Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 – 1961) (تیرے قدموں میں رہتے ہیں تارے)
تیرے قدموں میں رہتے ہیں تارے
دونوں عالم کے راج دلارے
تو ہے داتائے کل میرے وارث
ہم ہیں محتاج تیرے ہی سارے
میری کشتی لگا دے کنارے
دونوں عالم کے راج دلارے
چلتا ہے عالم تیرے اشارے
ہم تو جیتے ہیں تیرے سہارے
ان گداؤں کو دے بھیک مولا
اور جائیں یہ کس کے دوارے
لن ترانی تھی موسی کے حق میں
آج جلوے ہیں تیرے نیارے
تو ہی تو تو ہی تو تو ہی تو ہے
ہر کے ہر میں ہیں تیرے نظارے
جس نے دیکھا تجھے اس جہاں میں
اُس کو ہوں گے وہاں بھی نظارے
تُو ہی مالک کُن فکاں ہے
میرے یس طہ پیارے
الف کھل کر بنا عین جبکہ
میم میں چھپ گئے بھید سارے
کل شیء ہلاکت پہ مبنی
تیرا چہرا ہی یبقی پُکارے
حُبِّ حیدر کا عوضانہ جنت
بغضِ حیدر ہے دوزخ کنارے
Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 – 1961) (تضمین)
حضرت محبوبِ ذات اقدس قدس سرہ العزیز نے مولانا جامی کی ایک مشہور نعت شریف کے اس مصرع پر تضمین لکھی۔
زمیں از حب او ساکن فلک از نام او شیدا
ہوئے نامِ خدا، نورِ خدا سے مصطفے ﷺ پیدا
نبی ﷺ کے نور سے ہیں انبیاء و اولیاء پیدا
غرض ہر نور اس ذات اقدس سے ہوا پیدا
وصل اللہ علی نور کزو شد نور ہا پیدا
زمیں از حب او ساکن فلک از نام او شیدا
جنابِ آدم و نوح و خلیلِ خالقِ یکتا
ذبیح اللہ، یعقوب و شعیب و عیسی و موسی
غرض وردِ زبان تھا یہ خدا کے ہر پیغمبر کا
وصل اللہ علی نور کزو شد نور ہا پیدا
زمیں از حب او ساکن فلک از نام او شیدا
کتاب کبریا میں ہے رقم ايوب اذ نادے
محمد ﷺ کے وسیلہ سے ہوئی مقصود نجینا
رہا یونس ہوئے غم سے جو اس ظلمت میں یاد آیا
وصل اللہ علی نور کزو شد نور ہا پیدا
زمیں از حب او ساکن فلک از نام او شیدا
کہا جبریل نے اک دن سرور سے خوش ہا رتبہ
کہ خادم نے ہزاروں سال قبل از آدم و حوا
رقم عرش بریں کی ساق پر مضمون یہ دیکھا
وصل اللہ علی نور کزو شد نور ہا پیدا
زمیں از حب او ساکن فلک از نام او شیدا
فتلقی آدم من ربہ کا سمجھے مطلب ہم
بحق المصطفے ﷺ تھا لفظ اللهم سے منضم
تھی کشتی صائب الطوفان میں یا سید عالم
اور نامِ محمد ﷺ ہی بنا شفیع حضرت آدم
وصل اللہ علی نور کزو شد نور ہا پیدا
زمیں از حب او ساکن فلک از نام او شیدا
اگر نامِ محمد ﷺ رہا بیان وردِ شفیعِ آدم
نہ آدم یافتے توبہ نہ نوح از غرق نجینا
وصل اللہ علی نور کزو شد نور ہا پیدا
زمیں از حب او ساکن فلک از نام او شیدا
عجب رتبہ دیا اللہ نے محبوب ﷺ کو اپنے
کہ یہ نامِ محمد ﷺ کام آیا ہر پیغمبر کے
نہ ہوتے گر توسل خواہ سرکارِ مدینہ ﷺ کے
نہ ایوب از بلا رستے نہ یوسف یافتے از چاہ
نہ عیسی را مسیحا دم نہ موسی را یدِ بیضا
وصل اللہ علی نور کزو شد نور ہا پیدا
زمیں از حب او ساکن فلک از نام او شیدا
Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 – 1961) (مورے پیارے محمد)
مورے پیارے محمد ﷺ دلارے محمد ﷺ
وہ یثرب کے اللہ والے محمدﷺ
چلو ری سیو پیا دیس جانا
جہاں رہتے ہیں وہ ہمارے محمد ﷺ
عرب کے وہ گلی کوچے ہم پھرینگے
پگاریں گے اللہ والے محمد ﷺ
قدموں پہ گر کر زیارت کریں گے
پیا کے ہیں وہ دلارے محمد ﷺ
پیا دیس جا کر یہی ہم کہیں گے
پلا شربتِ وصل ہمارے محمد ﷺ
یہ دم بھی پیا تیرے قدموں میں نکلے
یہی دل کی حسرت ہے پیارے محمد ﷺ
بلا لو پیا جی اس عاجز کو اپنے
قدموں میں اب تو دلارے محمد ﷺ
جمعہ، 5 جون، 2009
Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 – 1961) (بڑی شان والے ہمارے محمد)
بڑی شان والے ہمارے محمد ﷺ
بڑی آن والے ہمارے محمد ﷺ
اسی شان پر ہے خدائی تصدق
بنائے خدائی ہمارے محمد ﷺ
نورِ خدا ہیں ظہورِ خدا ہیں
بناء لا اله ہیں ہمارے محمد ﷺ
بڑی شان والے ہمارے محمد ﷺ
عرش تا فرش شور صلی علٰی تھا
دلہا بن کے آئے ہمارے محمد ﷺ
محبوبِ خدا ہیں حبیبِ خدا ہیں
کہف الوریٰ ہیں ہمارے محمد ﷺ
بڑی شان والے ہمارے محمد ﷺ
شَفِيْعُ الْاُمَمْ ہیں جَمِيْلِ الشِّيَمْ ہیں
خدائی کے آقا ہمارے محمد ﷺ
نورِ عرشِ بریں نورِ عرض و سما ہیں
وریٰ الوریٰ ہیں ہمارے محمد ﷺ
بڑی شان والے ہمارے محمد ﷺ
شکلِ خدا ہیں کہ شانِ خدا ہیں
رسولوں کے شاہ ہیں ہمارے محمد ﷺ
دو عالم کی رحمت ہیں بھیسِ خدا ہیں
ہیں عاؔجز کے آقا ہمارے محمد ﷺ
بڑی شان والے ہمارے محمد ﷺ
بڑی آن والے ہمارے محمد ﷺ
بڑی شان والے ہمارے محمد ﷺ
جمعرات، 30 اپریل، 2009
Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 – 1961) (محمد محمد )
محمد ﷺ محمد ﷺ پکارا کروں گی
اسی سے میں دل کو سہارا کروں گی
پیا بھول جانا نہیں اس بندی کو
یہی عرض رو رو گزارا کروں گی
اسی سے میں دل کو سہارا کروں گی
پیا کے پیارے میں رستہ میں رہ کر
یہ فرقت کی گھڑیاں گزارا کروں گی
لگی آگ من میں بجائیو محمد ﷺ
پیا کو میں ایسے پکارا کروں گی
اسی سے میں دل کوسہارا کروں گی
جاؤ ری سیو پیا سے یہ کہہ دو
دردِ ہجر میں میں گزارا کروں گی
پیا مجھ کو اِک دن ملیو خدارا
یہی رات دن میں چتارا کروں گی
اسی سے میں دل کو سہارا کروں گی
تڑپتا ہے دل اور پھڑکتی ہیں آنکھیں
پیا کے میں درشن کو جایا کروں گی
وہ فرقت کے صدمے اس عاجز سے سن کر
پیا پاس میں جو سنایا کروں گی
اسی سے میں دل کو سہارا کروں گی
محمد ﷺ محمد ﷺ پکارا کروں گی
اسی سے میں دل کو سہارا کروں گی
Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 – 1961) (محمد کو حبیب اپنا)
محمد کو حبیب اپنا خدا نے بنا لیا ہے
ساری خدائی اپنی کا صاحب بنا لیا ہے
خدا کا پیار ہے تم سے خدا کے لاڈلے تم ہو
امت کی رہبری کو رہبر بنا دیا ہے
خدا کا وعدہ ہے قرآن میں دن قیامت کے خوش کریں گے
جنت کے مالک ہو تم کو صاحب بنا دیا ہے
خدا کی خدائی میں ہے یکتا وہ نورِ وحدت
کوئی ہمسر ہوا نہ ہو گا ایسا بنا دیا ہے
دل و جان سے ہوں قربان رحمت اللعالمیں پر
ہوئی نظر جس پر ان کی رحمت بنا دیا ہے
مجھ پر بھی نظر کرم کر دو رحمت اللعالیں ہو
منظور کر لو صاحب جیسا بنا دیا ہے
خدا کے پیارے ہو تم خدا کا پیار ہے تم سے
مطلوب بھی محبوب بھی تمہیں بنا دیا ہے
عاجز پہ نظرِ رحمت اِک بار اور کر دو
اجڑے ہوۓ چمن کو جیسے بسا دیا ہے
Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 – 1961) (رسولِ خدا کا ایثار)
رسول اللہ کے قبضہ میں نہ دولت تھی نہ ثروت تھی
نہ اس باطل کدہ میں ان کو دنیا کی ضرورت تھی
قناعت پر گزارا تھا توکل پر گزارا تھا
شہنشاہِ دوعالم تھے اور اس پر بھی یہ حالت تھی
اِدھر تاجِ شہنشاہی ادھر حکمِ جہاں باری
اِدھر دنیا کی دولت تھی ادھر زر کی فراوانی
مگر جو لطف ان کو فقر و فاقہ میں میسر تھا
بڑی مشکل سے سمجھے گی اسے تخلیقِ انسانی
شہنشاہِ دوعالم اور یہ ایثار کیا کہنا
تکالیف و مصائب میں نہایت مطمئن رہنا
زمانہ در پے آزاد تھا دنیا مخالف تھی
ہزاروں قدرتوں کے باوجود اتنے ستم سہنا
یہاں حق کی اشاعت کے لئے ایثار و قربانی
وہاں ہر اِک قدم پر کفر و باطل کی فراوانی
یہاں یہ کوششیں کہ دنیا کو راہِ راست پر لائیں
وہاں گمراہیوں کا جوش اور گمراہ نادانی
یہاں حق کے سوا کچھ اور دولت تھی نہ طاقت تھی
نہ محبوبِ خدا کو اس نمائش کی ضرورت تھی
وہ مصلح تھے وہ ہادی تھے پیغمبر تھے خلیفہ تھے
انھیں حق کی اشاعت کے لئے حق سے محبت تھی
انھیں نے حسنِ سیرت سے کیا تسخیر دنیا کو
بساطِ حق شناسی سے کیا تعمیر دنیا کو
بتایا اہلِ عالم کو کہ مقصد کیا ہے جینے کا
دکھائی زندگی کے خواب کی تعبیر دنیا کو
یقیناً ان کا یہ ایثار تھا جس نے زمانے میں
بھری تھی زندگی حق آشنائی کے فسانے میں
Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 - 1961) (محمد کی محبت):
محمد کی محبت دل میں گر تیرے نہیں ہے
نو نزد خالقِ یکتا ابھی مومن نہیں ہے
محمد کی محبت جو خدا کی عین اطاعت ہے
محبت کر تو اے مومن یہ ہدایت اس کی ہے
محمد سے محبت کر کہ رحمت تم پہ ہو جائے
خدا کا فضل ہو جاۓ وہ راضی تم پہ ہو جاۓ
محمد کی محبت ہے تری بخشش قیامت میں
اگر تو اس سے خالی ہے نہیں راحت قیامت میں
محمد خالق اکبر کو ہے مخلوق سے پیارا
ہمارے سب وہ رشتوں سے ہے مال و جان سے پیارا
محمد کی محبت سے تو خوش رحمٰن ہوتا ہے
غلامی اس کی کرنے سے عطا ایمان ہوتا ہے
غلامی جس نے کر لی پھر سند اس کو ملتی ہے
پھر قیامت میں نہیں پرسش وہ جنت اسکو ملتی ہے
محمد کی محبت کی سند حاصل تو کر عاجز
کھدا لے دل پہ نام ان کا خدا کو خوش تو کر عاجز
Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898-1961) (وحدة الوجود - Wahda-tul-Wujood)
گھٹ میں ہوں پر گھٹ بھی ہوں اور گھٹ اپنا میں ہی ہوں
ہر شے کے اندر، شے کے ساتھ، جو ہے وہ میں ہی ہوں
كُن کہا اور كُن ہوا كُن سے میں، میں ہی كُن ہوں
كُن سے میں ہی ظاہر ہوں اور باطن اس کا میں ہی ہوں
کہیں ذات احد انہد ہوں کہیں وحدت اندر احمد ہوں
کہیں مستور ظاہر ہوں سب اسم صفاتی میں ہی ہوں
کہیں ذات احد انہد ہے کہیں وحدت اندر احمد ہے
کہیں کثرت اندر ہو مستور ہو محمد ظاہر ہے
بھیس سے میں اور بھیس بھی میں بھیس کے اندر بھید بھی
خود بہروپ بھر کے پورا شیدا اس کا میں ہی ہوں
آپ ہی احمد، آپ محمد، آپ ہی آدم، آپ ہی حوا
اپنے اندر آپ سمایا معنی اس کا میں ہی ہوں
آپ ہی احمد، آپ محمد، مست دیوانہ میں ہی ہوں
کہیں مخفی ہوں کہیں ظاہر ہوں سب اسم صفاتی میں ہی ہوں
وحدت اندر احد ہو کے وحدیت اندر کثرت ہو کے
آپ ہی احمد، آپ محمد، مست دیوانہ میں ہی ہوں
جلوہ ہوں نور ہوں میں ہی سرّ نہاں ہوں
مسجودِ ملائک کی میں ہی رمزِ عیاں ہوں
میرے ہی ہونے سے ہوا آدم مسجودِ ملائک
تعظیم بھی ہوئی تکریم بھی ہوئی میں ہی سرّ عیاں ہوں
جمعہ، 24 اپریل، 2009
Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898 - 1961) (اطاعت مصطفےٰ)
خدا کی عین اطاعت جو اطاعت مصطفےٰ کی ہے
خدا کی ہے محبت جو محبت مصطفےٰ کی ہے
اطاعت جو کرے مومن خدا خوش ہوتا ہے اس سے
معزز اس کو کرتا ہے عنایت مصطفےٰ کی ہے
اطاعت کر تو اے مومن یہ اس کی ہدایت ہے
خدا کی ہے خوشی اس میں شفاعت مصطفےٰ کی ہے
نفس مغلوب ہوتا ہے وہ شیطان دور ہوتا ہے
خدا کے گھر میں ہے عزت یہ عظمت مصطفےٰ کی ہے
یہ دنیا اس پہ مرتی ہے وہ نفرت اس سے کرتا ہے
خدا خود جلوہ گر اس میں یہ برکت مصطفےٰ کی ہے
اطاعت فرض ہے تجھ پر تو اے مومن سمجھ اس کو
خدا کا قرب حاصل کر یہ عزت مصطفےٰ کی ہے
اطاعتِ مصطفےٰ سے تو خدا کا فضل ڈھونڈ عاجز
خدا کی ہے رضا اس میں یہ خلوت مصطفےٰ کی ہے
Poetry by Hazrat Mehboob-e-Zaat (1898-1961) (وحدة الوجود - Wahda-tul-Wujood)
گھٹ میں ہوں پر گھٹ بھی ہوں اور گھٹ اپنا میں ہی ہوں
ہر شے کے اندر، شے کے ساتھ، جو ہے وہ میں ہی ہوں
كُن کہا اور كُن ہوا كُن سے میں، میں ہی كُن ہوں
كُن سے میں ہی ظاہر ہوں اور باطن اس کا میں ہی ہوں
کہیں ذات احد انہد ہوں کہیں وحدت اندر احمد ہوں
کہیں مستور ظاہر ہوں سب اسم صفاتی میں ہی ہوں
کہیں ذات احد انہد ہے کہیں وحدت اندر احمد ہے
کہیں کثرت اندر ہو مستور ہو محمد ظاہر ہے
بھیس سے میں اور بھیس بھی میں بھیس کے اندر بھید بھی
خود بہروپ بھر کے پورا شیدا اس کا میں ہی ہوں
آپ ہی احمد، آپ محمد، آپ ہی آدم، آپ ہی حوا
اپنے اندر آپ سمایا معنی اس کا میں ہی ہوں
آپ ہی احمد، آپ محمد، مست دیوانہ میں ہی ہوں
کہیں مخفی ہوں کہیں ظاہر ہوں سب اسم صفاتی میں ہی ہوں
وحدت اندر احد ہو کے وحدیت اندر کثرت ہو کے
آپ ہی احمد، آپ محمد، مست دیوانہ میں ہی ہوں
جلوہ ہوں نور ہوں میں ہی سرّ نہاں ہوں
مسجودِ ملائک کی میں ہی رمزِ عیاں ہوں
میرے ہی ہونے سے ہوا آدم مسجودِ ملائک
تعظیم بھی ہوئی تکریم بھی ہوئی میں ہی سرّ عیاں ہوں
ہفتہ، 28 مارچ، 2009
حمد خالقِ حقیقی
اے خالق حقيقی خالق ہے نام تيرا
تجھ پر ہے ناز مجھ کو ہوں ميں غلام تيرا
قربان تجھ پہ مولی صدقے ميں تجھ پہ آقا
مجرم پہ کرم کرنا بخشش ہے کام تيرا
آقا جو مجھ سے چاہو قربان سب ميں کر دوں
دل ہو جان ہو يا سر ہو جو کچھ بھی ہے انعام تيرا
نہ دنيا ميں مانگتا ہوں نہ عقبیٰ ميں مانگتا ہوں
مانگوں ميں تجھ کو اے رب سجدہ سلام تيرا
تجھ پر ہے تقوی ميرا تجھی سے ہے کام ميرا
اپنا تو مجھ کو کر لے ميں ہوں غلام تيرا
سر ہو يہ تير آگے مولی ہو سامنے تو
سجدے پہ سجدہ ہو پھر ہے دل ميں مقام تيرا
سجدے سے ميں اٹھوں جب آقا کو اپنے ديکھوں
ايسے ہی شغل ميں ہو يہ عاجز غلام تيرا
مناجات بہ درگاہِ قاضی الحاجات
اے خدا عز و على کيا پاک ہے تو شان ميں
لا شريک وحدہ بے مثل ہے تو شان ميں
تيری طاقت ہے بڑی اور تيری قدرت ہے بڑی
ہر وصف ميں ہے تو بڑا بے مثل اپنی شان ميں
تو رحيم بھی٫ تو کريم بھی٫ بے تو عديم المثال بھی
ہيں منہدم سب طاقتيں تيری طاقتِ لازوال ميں
قدرتوں کی حد نہيں طاقت کی تيری حد نہيں
شاہ و گدا اک جا کھڑے تيری قدرتِ بے نياز ميں
تو خالق مخلوق ہے٫ تو لائق مسجود ہے
ہيں مدح خواں جن و بشر تیری ذات عالی صفات ميں
اک گدا سے شاہ کر کے حکمراں کرنا اسے
کن سے فيکون کرنا قدرتِ لازوال ميں
وصف عالی ہے ترا اے مالک کون و مکاں
طاقتيں سب ہيچ ہيں تری طاقتِ بے مثال ميں
فضل و رحمت کے بھروسے پر ہے يہ عاجز کھڑا
منظور ہو تو کرم ہے نکتہ نوازی شان ميں
حمد خدائے مہربان
بڑا ہی تو مہربان ہے بڑا ہی تو مہربان ہے
کبھی تو ہم کو بتا دے کیسا تو مہربان ہے
مہربانیوں کی حد نہیں بڑا بے مثل مہربان ہے
کبھی تو ہم کو بتا دے کیسا تو مہربان ہے
ہمیشہ سے مہربان ہے ذیشان مہربان ہے
کبھی تو ہم کو بتا دے کیسا تو مہربان ہے
ہمیشہ کے واسطے ہے تو ہمیشہ تو مہربان ہے
کبھی تو ہم کو بتا دے کیسا تو مہربان ہے
بے مثل ذات ہے تیری ازلی تو مہربان ہے
کبھی تو ہم کو بتا دے کیسا تو مہربان ہے
بے نیاز مہربان ہے بے انداز مہربان ہے
عاجزی سجدہ قبول ہو جیسا تو مہربان ہے
اللہ ظاہر وچ شان محمدی اے
اللہ ظاہر وچ شان محمدی اے
آیا پہن لباس محمدی اے
گھونگھٹ میم دا جس نوں آکھدے نے
ایہو رب دا بھیس محمدی اے
فَثَمَّ وَجْهُ الله ویکھو قرآن اندر
چہرہ یار دا حسنِ محمدی اے
پردے میم دے وچ اوہو ہویا باطن
ظاہر شکل مشہود محمدی اے
اول عین سے عین میں عین ظاہر
باطن عین دا عین محمدی اے
نور اول تے آخر ہے عین اس دا
ظاہر باطن وچ نور محمدی اے
بھیس عاجز تونگر وچ کون ظاہر
آپے آپ جناب محمدی اے