آپؒ کی گھر آمد پر سب گھر والوں نے بہت خوشی منائی۔ خاندان کے بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ اب آپ کی شادی کر دی جائے۔ لہٰذا انہوں نے آپ سے نبی پاک ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کی درخواست کی۔ حضورِ پاک ﷺ کی سُنّتِ مطہرہ کا ذکر آتے ہی آپ کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اور سمجھ گئے کہ اس سے مراد شادی ہے۔ آپ نے مسکراتے ہوئے رضامندی ظاہر کر دی۔ آپ کی اس ہاں سے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ چنانچہ آپؒ کے لیے رفیقۂ حیات ڈھونڈنے کی تگ و دو شروع ہوئی۔ رشتے تو بہت نظر میں آئے لیکن قرعۂ فال بٹالہ شریف میں حضرت آغا بدیع الدین گیلانی شہید کے خاندان کے نام نکلا۔ یہ خاندان انڈیا میں نیکی‘ شرافت‘ اخلاق‘ طریقت و معرفت کی ایک کہکشاں کی مانند تھا۔ اس کہکشاں کی ایک عالی مرتبت بلند اقبال اور عظیم شخصیت حضرت قبلہ سیّد مظفر علی شاہ صاحب‘ جن کا سلسلہ نسب بھی اسی خاندان کی طرح حضرت سیّدنا عبدالرزاقؒ سے جاملتا ہے‘ نے اپنی دخترِ نیک اختر کا ہاتھ سرکارِ عالیؒ کے ہاتھ میں دینے کی رضامندی ظاہر کر دی اور یوں 25 ذو ا لحجہ ۱۳۳۳ھ بمطابق 4 نومبر1915ء کو آپ کی شادی سر انجام پائی۔
اب آپؒ کی زندگی ایک نئے موڑ میں داخل ہو رہی تھی لیکن آپؒ نے اس موڑ پر بھی اپنی زندگی کے مشنِ حقیقی یعنی خدمتِ خلق اور تبلیغِ دین کے مشن کو متاثر نہ ہونے دیا۔ بلکہ آپؒ کی رفیقۂ حیات‘ جو ساداتِ خاندان کا فرد ہونے کی وجہ سے اس رنگ میں پہلے ہی رنگی ہوئی تھیں‘ نے آپ کے اس مشن کی تکمیل و ترویج میں آپ کا مکمل ساتھ دیا۔
سرکارِ عالیؒ کی گھریلو زندگی قابلِ رشک تھی۔ سرکارِ عالیؒ سب اہلِ خانہ سے نہایت شفقت کا برتاؤ کرتے۔ میری نانی جانؒ نے مجھے سرکارِ عالیؒ کی گھریلو زندگی کا ایک نہایت منفرد اور خوبصورت واقعہ اس طرح سنایا۔ ایک دفعہ آپؒ اپنے گھر والوں کے ہمراہ بٹالہ شریف تشریف لے گئے۔ سرکار اس وقت بہت بنے سنورے ہوئے تھے۔ بہت خوبصورت لباس اور اس کے اوپر کوٹ زیبِ تن تھا۔ اہلیہ کو زنانہ ڈبہ میں بٹھا کر خود مردانہ بوگی میں تشریف فرما ہو گئے۔ آپ کے ہمراہ ایک ٹرنک تھا جس میں پانچ صد روپے نقد اور خاصا زیور موجود تھا۔ آپ نے وہ ٹرنک زنانہ ڈبے میں اہلیہ محترمہ کے پاس رکھوا دیا۔ بٹالہ ریلوے سٹیشن پر اترے تو پتہ چلا کہ ٹرنک غائب ہے۔ محترمہ کے پاؤں تلے سے تو گویا زمین نکل گئی۔ بہت پریشان ہوئیں۔ لیکن آپ مسکراتے رہے اور اہلیۂ محترمہ کو بھی حوصلہ دیا کہ کوئی بات نہیں۔ جو لے گیا، اس کو ہم سے زیادہ ضرورت تھی۔ ہمیں ہمارا رب اور دے دے گا۔ تشویش میں مبتلا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آؤ! ہم چلتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے