محکمہ اربن ٹرانسپورٹ اومنی بس لاہور میں شیخ رحمت اللہ اکاؤنٹس افسر تھے۔ اس محکمے کا انگریز چیف منیجر جب ریٹائر ہو گیا تو شیخ رحمت اللہ‘ چوہدری علم الدین کی وساطت سے دربار شریف آئے اور عرض پرداز ہوئے حضور! دعا فرما دیں میں چیف منیجر ہو جاؤں۔ فرمانِ عالی ہوا تمہاری تعلیم اور عہدے کے اعتبار سے تمہارا چیف کے عہدے پر ترقی پانا اور فائز ہونا ناممکن ہے مگر چونکہ آپ دعا کے لیے آئے ہیں تو جاؤ آپ چیف ہو جائیں گے اور کوئی افسر یا اتھارٹی آپ کو اس عہدے سے معزول نہ کر سکے گی۔ مشرقی پاکستان سے ایک اکاؤنٹنٹ جنرل تعینات ہو کر آ گیا۔ حکومت نے دوبارہ اشتہارات اخبارات میں دیئے۔ بہت سے ریٹائرڈ اکاؤنٹنٹ جنرل قسمت آزمائی کرنے آئے مگر جس کو سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے منتخب فرما دیا تھا، اس کے مقابلے میں کسی کو کامیابی نہ ہوئی۔ حالانکہ شیخ صاحب تعلیم کے لحاظ سے دوسروں سے کم تھے یعنی تعلیم بہت کم تھی لیکن چیف منیجر مقرر ہوئے اور ریٹائرمنٹ تک چیف رہے۔ ان کی تقرری نے اعلیٰ عہدوں کے افسران کو حیرت زدہ کر دیا کہ شیخ رحمت اللہ پر کسی بلند ہستی کا ہاتھ ہے جو اس کے مقابلے میں بڑے بڑے تجربہ کار اور اعلیٰ ڈگریوں والے‘ سب ناکام رہے۔ یہ سب سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی نظرِ کرم اور کمال کا اثر تھا جس کے مقابلے میں سب ظاہری طاقتیں ناکام ہو کر رہ گئیں۔
جمعہ، 29 اگست، 2014
جاؤ چیف کر دیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے