تعارف
بستی
منڈیر شریف سیّداں سیالکوٹ
میرے دادا جان قبلہ ماہتابِ ہدایت، آفتابِ ولایت، بندہ پرور، غریب نواز، سرکارِ عالی حضرت سیّد احمد حسین گیلانی محبوبِ ذاتؒ کی جائے ولادت منڈیر شریف سیّداں کی بستی ہے۔ اس لئے چاہتا ہوں کہ پہلے اس بستی کا کچھ تعارف ہو جائے۔
منڈیر شریف سیّداں کے شمال مشرق میں کشمیر کی حسین وجمیل پہاڑیوں کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے۔ صبح دم جب مطلع صاف ہوتا ہے تو ان پہاڑوں کا منظر بہت حسین دکھائی دیتا ہے اس کی سر بفلک چوٹیاں نہ جانے بادلوں کے کانوں میں ہر وقت کیا سرگوشیاں کرتی رہتی ہیں۔ ان پہاڑوں سے چشمے پھوٹتے ہیں اور سرد ہوائیں چلتی ہیں جو بستی میں بارش لے کر آتی ہیں۔ پہلے اس بستی کا نام منڈیر کلاں تھا۔ لیکن جب ہمارے مورث اعلیٰ حضرت قبلہ سیّد سالم علی شاہ صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) اپنے لختِ جگر حضرت سیّد عبداللہ شاہ حضوریؒ کے ہمراہ اپنا آبائی وطن بٹالہ شریف چھوڑ کر ہجرت کر کے اس علاقہ میں تشریف لائے تو انہوں نے یہاں زرعی مقاصد کے لئے زمین خریدی اور منڈیر کلاں کے نمبردار سے زمین رہائشی مقصد کے لئے بھی خریدی۔ اس خاندان کے یہاں قیام پذیر ہونے پر ان لوگوں کی خاندانی شرافت ،عوام الناس سے میل جول اور اَخلاقِ حسنہ سے متاثر ہو کر لوگوں نے اس جگہ کا نام منڈیر سیّداں رکھ دیا۔ جب سرکارِ عالیؒ کی ولایت کی خوشبو پھیلی اور ان کے فیض کا چرچا ہوا تو مخلوقِ خدا نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ پاکستان سے بھی یہاں آنے لگی تو اسے منڈیر سیّداں شریف کہا جانے لگا۔ اس بستی کو دو نہروں نے اپنے درمیان لے رکھا ہے۔ ہیڈ مرالہ سے نکلنے والی یہ نہریں دھیرے دھیرے بہتی ہوئیں خاموشی کے ساتھ اس علاقہ سے نکل جاتی ہیں لطف کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی نہروں کے باوجود اس علاقے کو نہری پانی سے سیراب ہونا نصیب نہیں ہوتا۔ اگر چہ انتظامیہ ان نہروں سے علاقہ کو سیراب نہ کر سکی لیکن نہروں نے اس معاملہ میںبخل سے کام نہیں لیا ۔ انہوں نے اپنے سینے سے اس علاقہ کو خوب سیراب کر دیا، جس سے علاقہ میں سیم کی کثرت ہو گئی۔ تھوڑی سی کھدائی کرنے پر پانی نکل آتا ہے۔ ان نہروں کی وجہ سے علاقہ میں ہر یالی بہت ہے شیشم کے بے شمار درخت پائے جاتے ہیں۔ جڑی بوٹیوں کی کوئی انتہا نہیں‘ تا حدِّ نظر سبزہ ہی سبزہ نظر آتا ہے۔
یہ پھولوں کی، خوشبو ئوں کی بستی ہے اس کا صاف شفاف ٹھنڈا میٹھا پانی کوثر و سلسبیل کی یاد دلاتا ہے۔ اس کی بادِ نسیم پر فردوسی جھونکوں کا گماں ہوتا ہے۔ اس کی سحر پر سکون اور نور و نکہت میں ڈوبی ہوتی ہے۔ مجھے اپنے بچپن کے وہ دن ابھی تک یاد ہیں جب ہم نمازِ فجر کے لیے مونہہ اندھیرے اٹھتے۔ اس وقت سحر تاریکی کا سینہ چیر کر نمودار ہو نے کی جستجو کر رہی ہوتی۔ اِس سمے فصلوں کی سوندھی سوندھی مہک، ہل چلاتے بیلوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی رسیلی ٹن ٹن، کوئل کی کوک اور پرندوں کی چہچہاہٹ، یہ سب آوازیں مل کر ایک عجیب سماں باندھ دیتیں۔ طبیعت اس قدر شاداں و فرحاں ہو جاتی کہ جی چاہتا یہ قدسی اور نورانی لمحات امر ہو جائیں، وقت یہیں ٹھہر جائے۔ پھر جب سورج کی پہلی کرنیں اس بستی کی سر زمین پر بوسہ زن ہوتیں تو ان کی نورانی چمک سے ایسا محسوس ہوتا کہ ستاروں نے اس کے ذروں میں افشاں پھیلا کر اس بستی کی مانگ کو سدا بہار پھولوں کی پتیوں سے ڈھانپ دیا ہے۔ بستیٔ منڈیراں کا جو حسن میرے بچپن کی یادوں کے حوالے سے حسین تھا، وہ اب بھی حسین ہے، بلکہ حسین سے بھی حسین تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ سرکارِ عالیؒ کے قدموں کی برکت سے یہ حسن دائمی ہے جو قیامت تک فزوں سے فزوں تر ہوتا چلا جائے گا۔
قدوۃالسالکین، حجۃ العارفین، سلطان المشائخ، عکسِ محبوبِ ذات، نائبِ محبوبِ ذات، سخیٔ کامل، حضرت سیّد افضال احمد حسینؒ گیلانی (سجادہ نشین درگاہِ محبوبِ ذاتؒ) کی روح وَجد میں آئی اور ان کا قلم بھی تڑپا بستی منڈیر شریف کا ذکر کرتے ہوئے آپؒ نے تحریر فرمایا:
’’منڈیر شریف سیّداں کی منڈیر سے طائرِ قلب پرواز کر کے پھر منڈیر شریف کی منڈیر پر ہی آبیٹھا ہے اس لئے کہ یہی مقام ہے جہاں راحت کا مکمل قیام ہے۔ اسی مقام سے ہم بعافیت قائم قیامت تک بصورت بخشش رسائی حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ یہی وہ بستی ہے جس میں حضرت محبوبِ ذاتؒ کے قدموں کے نشانات محفوظ ہیں؛ یہی وہ بستی ہے جس میں حضور سرکارِ عالیؒ کے سانسوں کی خوشبو رچی بسی ہے؛ یہی وہ بستی ہے جس میں حضور محبوبِ ذاتؒ کی صدائیں بصورت وعظ، خطاب وارشادات محفوظ ہیں؛ یہی وہ بستی ہے جس میں ان کا وجودِ مسعود محوِ استراحت ہے؛ یہی وہ بستی ہے جس کے درودیوار آج بھی قبلہ محبوبِ ذاتؒ کی یادیں اور باتیں دہراتے ہیں۔
’’مجھ فقیر کو یہ اعزازحاصل ہے کہ جس طرح حیاتِ اقدسِ حضرت محبوبِ ذاتؒ میں آپ کی نگاہِ کرم میں رہا اور آج بھی ان کے کرم سے ان کے دربارِ اقدس پر رہنے کا شرف حاصل کیے ہوئے ہوں۔ مجھ پر یہ کیا فضل کم ہے کہ انہوں نے اپنے فضل وکرم سے اس افضال کو اپنے آستانہ کا سجادہ نشین بنا کر اپنی فضیلتوں کا امین بنا رکھا ہے؟ میں کل بھی قبلہ محبوبِ ذاتؒ کا خادم تھا اور آج بھی انہیں کا خادم ہوں۔ جب تک سانس کی ڈوری بندھی رہے گی, میں اس رشتۂ عقیدت سے پیوست رہوں گا، بلکہ سانس کی ڈوری ٹوٹنے کے بعد بھی انہیں کے قدموں میں پڑا رہوں گا۔
’’میرے لئے اور آپ کے لئے یہ اعزاز کیا کم ہے کہ ہم سب محبوبِ ذاتؒ کی روحانی پناہ میں ہیں اور اللہ کے فضل سے دربارِ عالیہ قادریہ احمد حسینیہ منڈیر شریف سیّداں مرجع خلائق ہے؟ یہاں حاضری دینے والوں کو خدا تعالیٰ بصدقہ حبیب خدا ﷺ بتوسط حضرت محبوبِ ذاتؒ تمام نعمتوں سے نوازتا ہے، خدا سب کی مرادیں پوری کرتا ہے، سب کی تمنائیں بر آتی ہیں، اداس چہرے کھل اٹھتے ہیں، مایوس لوگ ہشاش بشاش گھروں کو لوٹتے ہیں، محرومیوں کے صدموں سے نڈھال لوگ آس امید کا حوصلہ لے کر واپس جاتے ہیں۔‘‘
سخیٔ کاملؒ نے منڈیر شریف کی بستی پر بڑے پیارے انداز میں خامہ فرسائی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’حضور سرکارِ عالیؒ کی منڈیر سیّداں میں آمد پر اس گاؤں کی فضیلت میں بہت اضافہ ہوا۔ منڈیر سیّداں پہلے ایک غیر معروف کچا گاؤں تھا۔ مقامی لوگ اَن پڑھ اور کارندے تھے۔ دو تین گھر زمین داروں کے تھے۔ ڈاکخانہ کوئی نہ تھا۔ ٹیلی گرام بھیجنے کے لیے سیالکوٹ جانا پڑتا تھا۔ مقامی افراد کا دیگر شہروں سے رابطہ ممکن نہ تھا۔ اشیائے خوردنی نایاب تھیں کیونکہ تمام تر ضروریاتِ زندگی سمبڑیال یا سیالکوٹ سے ہی دستیاب تھیں۔ مگر حضور سرکارِ عالیؒ کے نقش پا کے صدقے گاؤں اور گاؤں والوں کی حالت ہی بدل گئی۔ جنگل میں منگل ہو گیا۔
’’برادر عزیز شہزادہ سیّد اقبال احمد حسین گیلانی (ایم۔ پی۔ اے) کی تگ و دو اور کوششوں سے گاؤں میں بجلی، ٹیلی فون، ڈاکخانہ، پختہ سڑک، ٹیوب ویل، الغرض تمام سہولتیں میسر آئیں۔ یہ سب سہولتیں حضور سرکارِ عالیؒ کے قدموں کا صدقہ ہیں۔ بجلی کی فراہمی سے ٹیوب ویل چلتے ہیں، فصلیں اچھی ہوتی ہیں، آمدنی زیادہ ہوتی ہے، جس سے لوگ خوشحال ہو گئے ہیں۔ ڈاکخانہ اور مدرسہ بھی قائم ہو گیا ہے جس سے تعلیمی سہولت دستیاب ہو گئی ہے۔
’’لوگ آپؒ کے بے حد مشکور ہیں۔ خوشحالی کی وجہ سے لوگوں نے کچے مکانات کی جگہ پختہ اور صاف ستھرے مکانات تعمیر کر لئے ہیں۔ مکان کی بذاتِ خود کوئی اہمیت نہیں۔ اصل اہمیت مکین کی ہوتی ہے۔ مکین جتنا اچھا اور صاحبِ ذوق ہو گا، اس کے دم سے مکان اتنا ہی اچھا ہو جائے گا۔ یہی عالم منڈیر شریف کی بستی کا ہے۔ جب حضور محبوبِ ذاتؒ اس بستی میں آباد ہوگئے، یہ بستی زیا دہ آباد ہو گئی، حسین ہو گئی، دلنشین ہو گئی، گویا مرکزِ قلب ونظر ہوگئی۔‘‘
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے