آپؒ کی اس ظاہری دنیا میں تشریف آوری اور مقامِ محبوبیت پر فائز ہونے کا تذکرہ سلسلہ قادریہ عالیہ کے اس خاندان سادات میں بہت عرصہ سے ہوتا چلا آرہا تھا۔ آپ کے نانا جان حضرت میر شرف علی شاہ صاحبؒ، سرکارِ عالیؒ کی ولایت اور بلند اقبالی سے بخوبی آگاہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے نواسے احمد حسینؒ کو اپنی آنکھوں کا نور اور جگر کی ٹھنڈک بنا رکھا تھا۔ میر شرف علی شاہؒ خود بھی بڑے صاحبِ نظر اور ولایت کے اعلیٰ درجے پر فائز بزرگ تھے۔ وہ آپ سے بہت پیار کرتے اور آپ کی تربیت پر خصوصی توجہ فرماتے۔ وہ فرماتے کہ میرا احمد حسین ولایت کا شہباز ہوگا۔ اس کی ولایت پر اولیاء اللہ رشک کریں گے۔ سخیٔ کاملؒ نے مجھے بتایا کہ ایک روز میر شرف علی شاہؒ نے اپنی دختر یعنی والدۂ محترمۂ سیّد احمد حسینؒ کو ایک تاجِ مبارک دیا کہ یہ میری طرف سے احمد حسین کے لئے ہے۔ اسے اپنے پاس امانت کے طور پر سنبھال کر رکھ لو۔ ہو سکتا ہے مجھے اللہ کی طرف سے جلد بلاوا آ جائے۔ احمد حسینؒ کے جوان ہونے تک اگر تم زندہ نہ رہو تو یہ امانت اس کی دادی کے سپرد کر دینا۔ وہ اسے احمد حسین تک پہنچا دیں گی۔ اس بات کے کچھ عرصہ بعد‘ ۴ ذو الحجہ ۱۳۲۲ھ‘ بمطابق ۹ فروری ۱۹۰۵ء‘ بروز جمعرات‘ میر شرف علی شاہ صاحبؒ کو اللہ کی طرف سے بلاوا آ گیا اور وہ اس دارِ فانی سے عالم بقاء کی طرف کوچ کر گئے۔ پھر یہ تاجِ محبوبیت کچھ عرصہ سرکارِ عالی کی والدۂ محترمہ کی تحویل میں رہا۔ جب ان کا وقتِ وصال قریب آیا تو انہوں نے یہ امانت آپ کی دادی صاحبہ کے سپرد کر دی۔ اس طرح یہ تاجِ محبوبیت آپؒ کی دادی محترمہ کے ہاتھوں سرکارِ عالیؒ تک پہنچ گیا۔
اس واقعہ سے ہم حضرت میر شرف علی شاہؒ کی باطنی بصیرت اور روحانی پرواز کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ انہیں باطنی طور پر علم ہو چکا تھا کہ احمد حسینؒ کے جوان ہونے تک میں نے اور احمد حسینؒ کی والدۂ محترمہ نے اس دنیا سے پردہ کر جانا ہے لیکن ان کی دادی محترمہ اس وقت موجود ہوں گی۔ لہٰذا انہوں نے اپنی امانت میں دادی صاحبہ کا ذکر کر کے بات مکمل کردی۔ امانت آگے چلانے کا ذکر نہیں کیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے