سخیٔ کاملؒ نے مجھے سرکارِ عالیؒ کے بچپن سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ابھی بالکل کمسن تھے کہ آپ کے والدِ محترم کا وصال ہو گیا۔ تقریباً چھ سال کے ہوئے تو آپ کے شفیق نانا جان حضرت میر شرف علی شاہ صاحبؒ راہیٔ مُلکِ عدم ہوئے۔ پھر والدۂ محترمہ تیرِ قضاء کا نشانہ بن کر داغِ مفارقت دے گئیں۔ اس کے بعد آپ کے دادا جان بھی اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ اب تربیت کی تمام تر ذمہ داری آپ کی ضعیف دادی صاحبہ کے کندھوں پر آپڑی۔ آخر وہ یومِ سعید آپہنچا جس کا انتظار تھا۔ آپ کی دادی صاحبہ نے اپنے پاس محفوظ امانت یعنی تاجِ محبوبیت سرکارِ عالیؒ کے سپرد کر دیا۔ اس طرح وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئیں۔ پھر جلد ہی وہ بھی راہیٔ مُلکِ عدم ہوئیں۔
ایک روز میں وَسّن پورہ لاہور میں سرکارِ عالیؒ کے چچا جان سیّد فاضل حسین صاحب (جو ڈاکٹر علی مقدس صاحب کے والدِ گرامی اور رشتہ داری کے ایک لحاظ سے میرے نانا ہوتے ہیں) کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے گذارش کی کہ میرے دادا جان احمد حسین سرکارِ عالیؒ کے بچپن کا کوئی واقعہ سنائیں تو انہوں نے فرمایا کہ احمد حسینؒ بچپن ہی سے خاموش اور بردبار طبیعت والے تھے۔ داغِ یتیمی تو بالکل ننھی عمر میں انہیں جھیلنا پڑا۔ اپنے شفیق نانا جان میر شرف علی شاہ صاحبؒ کے وصال پر آپؒ پریشان پریشان تو دکھائی دیتے مگر صبر سے اپنے آپ کو سنبھالے رکھا۔ پھر ان کی والدۂ محترمہ پردہ کر گئیں۔ اس کے بعد انؒ کے دادا جان محترم بھی راہیٔ مُلکِ عدم ہوئے۔ اس سانحہ پر بھی آپؒ انتہائی غمزدہ تھے مگر پھر بھی آپؒ نے اپنے آپ کو سنبھال رکھا تھا۔
سیّد فاضل حسین شاہ صاحب نے اپنی یاداشتوں کے ورق پلٹتے ہوئے بتایا کہ جب سرکارِ عالیؒ کی والدۂ محترمہ کا وصال ہوا تو ان کا ردِ عمل جداگانہ تھا۔ اس صدمے نے آپؒ کو ہلا کر رکھ دیا اور آپؒ کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ سرکارِ عالیؒ اپنی والدۂ مرحومہ کے قدموں سے لپٹ کر بے تحاشہ روئے۔ آنسو پانی کے جھرنوں کی طرح بہہ رہے تھے۔ یہ رقت آمیز منظر دیکھنے والوں کو بھی رلا گیا۔ بڑی مشکل سے آپؒ نے اپنے آپ کو سنبھالا اور گھر سے نکل کر باہر ایک درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے۔ نمازِ جنازہ کے بعد جسدِ مبارک کو قبر میں اتارا گیا تو مٹی ڈالنے والوں میں آپؒ بھی شامل تھے۔ تدفین کے عمل سے فارغ ہو کر جب گھر واپس ہوئے تو ایک بار پھر آپؒ کے نینوں سے برسات برسنے لگی۔ آپؒ کا رونا انسانوں کو تو کیا آسمان کو بھی رلا گیا۔ آسمان پر بادل امڈ آئے۔ پھر اس قدر بارش ہوئی کہ خدا کی پناہ؛ ہر طرف جل تھل ہوگئی۔ گویا آسمان بھی خوب جی بھر کر رویا۔ سخیٔ کاملؒ فرمایا کرتے کہ سرکارِ عالیؒ نے اللہ کے حبیب ﷺ کی طرح اپنا بچپن یتیمی میں گزارا۔ گویا اللہ تعالی نے اپنے حبیب ﷺ کی یتیمی سے نسبت دے کر سرکارِ عالیؒ کی یتیمی کو ’’نُورٌ علیٰ نُور‘‘ کر دیا۔
میری نانی جان فرماتی ہیں کہ ولایت کے آثار اور فقر کی کرنیں تو بچپن ہی سے آپؒ کی عادات و طبیعت سے پھوٹ رہی تھیں۔ یمینِ سعادت آپؒ کی پیشانی پر نمایاں تھا۔ روشن روشن کھلا کھلا چہرہ‘ جس پر نور کا پہرہ تھا؛ ہردیکھنے والے کا دل موہ لیتا۔ آپؒ کے چہرۂ بُشریٰ اور جسم کی کشش ہر دیکھنے والے کو اپنی طرف کھنچ لیتی۔ لیکن آپ خاموش ہلکی مسکراہٹ لبوں پر سجائے آنکھوں میں ذکر و فکر کی چمک دمک لئے بے نیاز بے نیاز سے رہتے۔ ان کی والدۂ محترمہ جب وضو فرما رہی ہو تیں یا پھر نماز میں قیام و سجود فرماتیں تو سرکارِ عالیؒ ان کو دلچسپی سے دیکھتے رہتے اور بعد میں خود ایسا ہی کرتے‘ لیکن آپؒ کے سجدے ذرا طویل ہوتے۔ بعض اوقات تو آپؒ کا سجدہ کچھ زیادہ ہی طویل ہو جاتا۔ لیکن والدہ چونکہ ان کی محرمِ راز تھیں‘ اس لیے انہوں نے سرکارِ عالی کو کبھی سجدہ سے اٹھایا نہیں تھا۔ آپ خود ہی اپنی مرضی سے اٹھتے تھے۔
اولیائے کرام کو علم وادب اور پرہیز گاری‘ سب کچھ‘ ربِّ کریم کی طرف سے ودیعت کیا جا تا ہے۔ وہ کسی راہبر یا ٹیوٹر کے محتاج نہیں ہوتے۔ میں سرکارِ عالیؒ کے بچپن کا ایک واقعہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے میری بات واضح ہو جائے گی۔ اس واقعہ کی گواہ میری نانی جان ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خادمہ ہنڈیا پکا رہی تھی۔ ہنڈیا میں چمچہ ہلانے کے بعد اس نے غلطی سے چمچ کو دیوار کے ساتھ کھڑا کر دیا۔ آپؒ وہاں سے گزرے تو آپؒ کی نظر چمچ پر پڑی۔ آپؒ نے اس روز کھانا نہ کھایا؛ فاقہ سے رہے۔ چمچ کا دیوار کے ساتھ لگنا آپ کی نفاستِ طبع اور پرہیزگار طبیعت پر کس قدر گراں گزرا۔ یہ نفاستِ طبع و پرہیزگار طبیعت خداداد ہی تو تھی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے