میرے محترم و شفیق چچا جان حضرت سیّد افتخار احمد حسین گیلانی صاحبؒ سرکارِ عالیؒ کی اوائل عمری کا یہ واقعہ اس طرح بیان فرمایا کرتے کہ خدمتِ خلق کے جذبہ نے سرکارِ عالیؒ کو آرام سے گھر بیٹھنے نہ دیا۔ ان دنوں سیالکوٹ شہر میں واٹر سپلائی کا نظام قائم کیا جا رہا تھا۔ لوگوں کی سہولت کے لئے حکومت کنویں کُھدوا رہی تھی۔ آپؒ نے سوچا کہ خدمتِ خلق کا اچھا موقع ہے۔ مخلوقِ خُدا کے لیے فراہمیٔ آب پروگرام میں خدمت سر انجام دینی چاہیے۔ لہٰذا 1914ء میں آپؒ گو شہ نشینی چھوڑ کر محکمہ واٹر ورکس سیالکوٹ میں بطور سپر وائزر بھرتی ہو گئے۔ ایک کنواں تیار ہوا تو آپؒ سپر وائزر کی حیثیت سے پانی کی گہرائی کا اندازہ لگانے کے لیے کنویں میں اُترے۔ آپؒ نے ایسی ڈبکی لگائی کہ باہر ہی نہ نکلے۔ کچھ دیر تو باہر کھڑے عملے نے انتظار کیا لیکن جب آپ کافی دیر تک باہر نہ نکلے تو ان کا اضطراب شدت پکڑ گیا۔ فوری طور پر واٹر ورکس کے سپرنٹنڈنٹ کو اطلاع دی گئی۔ وہ بھاگم بھاگ کر موقع پر پہنچا اور غوطہ خور طلب کر لیے۔ اس تگ و دو میں ایک گھنٹہ صرف ہوگیا۔ غوطہ خور پانی میں اترنے کا جائزہ لینے لگے کہ پانی میں ہلچل ہوئی اور آپؒ سطحِ آب پر نمودار ہوگئے۔ جب آپؒ کنویں سے باہر تشریف لائے تو آپؒ کو دیکھ کر سب لوگ بھاگ اٹھے۔ آپؒ آوازیں دے دے کر انہیں بلارہے تھے اور وہ خوف کی وجہ سے آپ کے قریب نہ آ رہے تھے۔ وہ آپ کو مردہ قرار دے چکے تھے کیونکہ کسی شخص کا گھنٹہ بعد پانی سے زندہ نکل آنا نا ممکن تھا۔ بڑی مشکل سے سرکارِ عالیؒ نے یقین دلایا کہ میں کوئی بھوت پریت یا بد روح نہیں ہوں۔ تم میری طرف حیرت سے کیوں دیکھ رہے ہو۔ ان لوگوں نے آپؒ کو پورا واقعہ سنایا۔ آپؒ سن کر خاموش ہو رہے۔ پورے سیالکوٹ میں اس واقعہ کی دھوم مچ گئی۔ اس طرح آپ ایک بار پھر مخلوقِ خدا میں ظاہر ہو گئے تھے‘ اس لئے استعفیٰ دے کر واپس منڈیر شریف گوشہ نشین ہو گئے۔ محترم چچا جان یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ بعد میں کسی نے سرکارِ عالیؒ سے پوچھا حضور آپ کنویں میں اتر کر کہاں غائب ہو گئے تھے؟ آپؒ نے فرمایا، اپنے ایک دوست سے ملنے گیا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے