سرکارِ عالیؒ نے سیالکوٹ سے ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ وزیر آباد کی طرف سفر شروع کر دیا اور اگوکی کے قریب بابا ملک شاہ ولیؒ کے مزار پر ٹھہرے۔ اس وقت نمازِ تہجد کا وقت تھا۔ آپؒ جب تہجد سے فارغ ہوئے تو ایک سبز پوش بزرگ‘ جنہوں نے سبز رنگ کی بڑی سی پگڑی باندھ رکھی تھی‘ ان سے ملے اور فرمایا کہ بیٹا یہ تمہاری منزل نہیں۔
سرکارِ عالیؒ نے پوچھا، ’’آپ کون ہیں؟‘‘ وہ فرمانے لگے کہ میں سیّد عبدالقادر جیلانیؒ ہوں۔ تم میرے بیٹے ہو۔ پھر سرکارِ غوثِ اعظمؒ نے سرکارِ عالیؒ کو بیعت فرمایا اور تاکید کی کہ مغرب کی سمت سفر شروع کر دو۔ جہاں اذان مغرب ہو وہاں ٹھہر جائیں۔ مزید ہدایات آپؒ کو ساتھ ساتھ ملتی رہیں گی۔ بعد میں کسی وقت سرکارِ عالیؒ نے سخیٔ کاملؒ سے گفتگو میں خود انکشاف فرمایا کہ حضرت محبوبِ سبحانی سیّد عبدالقادر جیلانی غوثِ اعظمؒ سے میری یہ صحبت سات سال تک رہی۔
سرکار غوثِ اعظم قدس سرہٗ العزیز کی ہدایات کے مطابق آپؒ نے ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ سفر شروع کر دیا۔ جب آپؒ موڑ ایمن آباد سے تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع موضع چیاں والی پہنچے تو مغرب کی اذانیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ لہٰذا آپؒ وہیں ریلوے لائن کے قریب ایک جگہ فروکش ہو گئے۔ وہاں ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر آپؒ رات بھر تشریف فرما رہے۔
یہاں سرکارِ عالیؒ کے ایک رات فروکش ہونے کی یاد گار کی نشان دہی کے لئے ایک بورڈ لگا دیا گیا ہے۔ ہر جمعرات کو اس جگہ قوالی ہوتی ہے۔ لوگ یہاں منتیں مانتے ہیں۔ اللہ کریم اپنے محبوب بندے کے رات بھر قیام کے صدقے میں لوگوں کو ان کے دلوں کی مرادیں عطا کرتے ہیں۔ ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور ان کی منتیں پوری ہوتی ہیں۔ ایک ملنگ نے وہاں ڈیرہ جمایا ہوا ہے۔ آپؒ کے قیام کی یادگار کے طور پر اس درخت کے قریب مٹی کی ڈھیری بنا رکھی ہے‘ جس پر سبز چادر بچھائے رکھتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ ایک صدی گزر گئی لیکن وہ درخت ابھی تک قائم ہے جس کے ساتھ سرکارِ عالیؒ ٹیک لگا کرصرف ایک رات محوِ یادِ الٰہی رہے۔
یہاں سے آپ نے سفر جاری رکھا اور لاہور تشریف لے گئے۔ وہاں دہلی دروازہ کے پاس مسجد وزیر خاں سے متصل حضرت سَیِّد صوف صاحبؒ کے مزار اقدس پر حاضر ہوگئے۔ جب آپؒ نے وہاں رات کے قیام کا قصد کیا تو مجاوروں نے کہا کہ ہم آپ کو یہاں قیام کی اجازت نہیں دے سکتے۔ رات کو یہاں ایک شیر آتا ہے جس کی دہشت سے ہی لوگ مر جاتے ہیں۔ آپ پردیسی نوجوان ہیں۔ آپؒ کو ان باتوں کا علم نہیں‘ اس لئے آپؒ کو آگاہ کرنا ہمارا فرض بنتا ہے۔ آپؒ نے کہا: ’’ میں یہاں زندگی پانے آیا ہوں‘ مرنے نہیں۔ میں یہاں اپنی ذمہ داری پر ٹھہروں گا۔ اگر کوئی ایسا واقعہ ہوا تو تمہیں کوئی دوش نہ ہوگا‘‘۔ چنانچہ وہ دروازہ بند کر کے چلے گئے۔ آپؒ اندر یادِ الٰہی میں محو ہو گئے۔ صبح جب مجاوروں نے دروازہ کھولا تو آپ کو بخیریت دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔
آپؒ سنہری چشمہ لگاتے جو آپؒ کے چہرۂ انور پر خوب سجتا تھا۔ اس چشمے کے بارے میں آپؒ نے میرے والدِ محترم‘ حضرت سخیٔ کاملؒ، کو بتایا کہ میں حضرت سَیِّد صوف صاحبؒ کے مزار سے نکل رہا تھا۔ باہر قوالی ہو رہی تھی۔ اس وقت مجھ پر ایک خاص کیفیت طاری تھی۔ قوالی نے اسے مہمیز لگائی۔ اس حالت میں میری نظر ایک لڑکے پر جا پڑی۔ وہ بے ہوش ہو گیا۔ میں نے انارکلی سے ایک چشمہ خریدا اور آنکھوں پر لگا لیاتاکہ دوبارہ کبھی ایسا واقعہ نہ ہونے پائے۔
سخیٔ کاملؒ نے مجھے بتایا کہ لاہور سے بابا عبدالرشید‘ جنہیں بعد میں سرکارِ عالیؒ نے خلافت سے بھی سرفراز فرمایا، جب بیعت کے لیے خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے فرمایا کہ جب تم واپس جاؤ تو میرا سلام حضرت سیّد صوف صاحبؒ کی خدمت میں عرض کرنا۔ میں ان کے مزار پر ایک رات قیام کر چکا ہوں۔
اس کے بعد آپ پیر مکی شاہ صاحبؒ کے آستانہ عالیہ پر حاضر ہوئے اور پھر آپ نے شہنشاہِ لاہور‘ مخدومِ اُمم‘ سیّد علی ہجویری‘ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پُر انوار پر حاضری دی اور اس کے علاوہ لاہور میں دیگر بُزرگانِ دین کے مزاراتِ پُر انوار پر بھی حاضری دی۔ اس سخت ریاضت کے بعد آپ پر سے استغراق کی کیفیت کم ہوتی چلی گئی اور رفتہ رفتہ آپ اس کیفیت سے باہر نکل آئے۔ چلہ کشی کے ان جاں گسل مراحل سے فارغ ہو کر آپ واپس اپنے گھر منڈیر شریف تشریف لے آئے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے