میں نے گھر کے بزرگوں سے سنا ہے کہ جوانی میں آپؒ حسن و جمال کی انتہائی متوازن شخصیت تھے۔ آپؒ کی سیرتِ مبارکہ اور چہرۂ انور کی پھبن کے بارے میں عالی سرکارؒ کے جانشین اور خلیفۂ اوّل‘ سیّدی‘ مرشدی‘ قبلہ و کعبہ‘ السیّد حضرت افضال احمد حسین گیلانی‘ سخیٔ کامل رقمطراز ہیں۔
’’آپؒ نہایت خوش طبع‘ دراز قد اور موزوں سراپا کے مالک تھے۔ رنگ سرخ و سفید مگر دیکھنے میں مصلحتاً قدرے گندمی محسوس ہوتا؛ پیشانی چوڑی اور چمکدار؛ سر کے بال گھنے اور سیاہ؛ نہ زیادہ گھنگریالے‘ نہ زیادہ سیدھے؛ پلکیں لمبی اور بھنویں باریک؛ ڈاڑھی مبارک گھنی اور سیاہ؛ ناک پتلی؛ ہونٹ سرخ اور بازو لمبے تھے۔ شانے گوشت سے بھرے ہوئے، سینہ کشادہ اور فراخ تھا۔ ہتھیلیاں چوڑی اور کلائیاں لمبی تھیں۔ کندھوں، کلائیوں اور سینے پر بال تھے۔ جسم گٹھا ہوا، جوڑ بند مضبوط تھے۔ بدن کی ساخت اور جلد نرم و ملائم تھی۔ وجودِ اطہر سے خوشبو آتی۔ جن مریدین کو کبھی آپ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا، ان کا بیان ہے کہ آپ کے جسم سے نہایت عمدہ اور بھینی بھینی خوشبو آتی تھی۔ آپؒ کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجی رہتی۔ قہقہہ مار کر کبھی نہ ہنستے۔ بعض اوقات تو چہرہ چودھویں رات کے چاند سے بھی زیادہ چمکدار‘ روشن اور سفید ہو جاتا۔ یہ جلوہ اکثر مریدین کو دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ آواز بلند اور شیریں؛ چلنے کی رفتار عام لوگوں سے مختلف اور تیز؛ ایسا محسوس ہوتا کہ اونچائی سے نیچے جا رہے ہوں۔ کوئی شخص آپ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل نہ پاتا۔ آپ نہایت مہربان اور رحم دل تھے۔ ہر ایک سے محبت کے ساتھ پیش آتے۔ پہلی ہی ملاقات میں ہر شخص آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔ نہایت سخی اور فیاض تھے۔ کسی کا سوال رد نہ فرماتے۔‘‘
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے