سخیٔ کامل‘ مرشدِ دوراں، عکسِ محبوبِ ذاتؒ، سجادہ نشین آستانہ عالیہ قادریہ احمد حسینیہ‘ سیّد افضال احمد حسینؒ نے سرکارِ عالیؒ کے وصال پُر ملال پر انہیں اس طرح خراجِ تحسین پیش کیا:
انسانِ کامل ۔ بے نشاں کا نشاں
’’حضرت قبلہ محبوبِ ذاتؒ نے حصولِ حیاتِ ابدی کے بعد جب اپنی حیاتِ مقدسہ کا ایک ایک لمحہ مخلوقِ خدا کی ہدایت کے لیے وقف کیا تو ابد الآباد تک ہدایت کی وہ مشعلیں روشن کر دیں جو قیامت تک روشن رہیں گی اور گم گشتگانِ راہِ حقیقت کو راہ پر گامزن رکھیں گی۔ اور مخلوقِ خدا کی ظلمت و جہالت کے اندھیروں کو سرکارِ عالیؒ کی سیرت و کردار کی روشنی پاش پاش کرتی رہے گی۔ یہ مقام آپ نے بڑی ریاضت کے بعد حاصل کیا۔ آپ ؒنے اس قدر ریاضت اور مشقت کی کہ چلّہ کشی میں زندگی کا ایک عزیز ترین حصہ وقف کیے رکھا۔ یہی وہ دورِ حیات تھا جب آپؒ پر اَسرارِ خفی و جلی کا اظہار ہوا۔
’’آپؒ نے غاروں میں چلّہ کشی کی تو غاروں سے اُجالے لے کر باہر نکلے۔ مزاروں پر حاضری دی تو صاحبانِ مزار سے براہِ راست فیوض حاصل کیے اور اپنی باطنی روحانی قوت میں اضافہ کیا۔ آج بھی محبوبِ ذاتؒ کی روحانی قوت کا سکہ چلتا ہے۔ حضرتِ محبوبِؒ ذات نے ہمیں یہ سبق دیا کہ ہمیں بزرگانِ دین کے راہِ طریقت و شریعت کے اس سفر سے درسِ حیات سیکھنا چاہیے‘ قربِ الٰہی کا اہتمام کرنا چاہیے اور ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے رازِ حقیقت پا کر قربِ خدا وندی کی دولت سے مالا مال ہو جانا چاہیے۔ اپنے اندر بخشش و عطا کی منزل قائم کر کے خود اس منزل کا نشاں بننا چاہیے۔ اس لئے کہ انسان کامل ہی اس بے نشان کا نشان ہے۔
’’آج ہمارے درمیان ظاہری طور پر اگرچہ یہ ذاکرِ حقیقی‘ حضرت محبوبِ ذاتؒ، موجود نہیں لیکن ان کا ذکر موجود ہے کیونکہ ان کا ذاکر موجود ہے۔ اگر ذاکر اور ذکر موجود ہوں تو مذکور لازماً موجود ہوتا ہے۔ لہٰذا یقین جانیے کہ قبلہ حضرت محبوبِ ذاتؒ بھی موجود ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ یہ ظاہری وجود اس کا مشاہدہ نہیں کر سکتا لیکن آنکھ والوں اور بصیرت و بصارت والوں کے لئے محبوبِ ذاتؒ موجود ہیں۔
’’کسی شاعر نے غالباً اسی مقام کی ترجمانی کی ہے۔
’’آنکھ والا ترے جوبن کا تماشا دیکھے
دیدۂ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے‘‘
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے