آپؒ کا اندازِ گفتگو من موہنا، کریمانہ‘ دلبرانہ اور ناصحانہ تھا۔ کبھی کسی کو طعن و تشنیع یا طنز کا نشانہ بناتے۔ آپؒ کو نہ دیکھا گیا۔ آپؒ ہر ایک کو ’’سوہنیا‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے۔ جو کوئی ایک بار مل لیتا، پھر وہ ساری زندگی آپؒ کو فراموش نہ کر سکتا۔ آپؒ اپنے اَخلاق سے ہر آنے والے کو اپنا ایسا گرویدہ بنا لیتے کہ وہ آپؒ کی غلامی اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتا۔ آپؒ نے اپنے اس میٹھے اور مدنی اخلاق سے ہزاروں بے دینوں کو دینِ اسلام پر گامزن کیا، بے شمار بد عقیدہ لوگوں کے عقائد کو درست کیا اور بے شمار راہِ گم کردہ افراد کو صراطِ مستقیم پر گامزن کیا۔
سخیٔ کاملؒ نے مجھے فرمایا کہ یہ سرکارِ عالیؒ کے مدنی اخلاق کا ظاہری پہلو تھا لیکن اِس کا ایک باطنی پہلو بھی تھا۔ آپؒ کے اوصافِ حسنہ میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ہر آنے والے مہمان پر ظاہری حُسنِ سلوک کے علاوہ باطنی کرم کے دروازے بھی کھول دیے جاتے۔ بلا امتیازِ مرید و غیرِ مرید‘ ہر ایک کی باطنی داد رسی کی جاتی۔ مجھے سخیٔ کاملؒ نے بتایا کہ بعض لوگ، جن کی منازل رُکی ہوتیں یا اپنی غلطیوں کی وجہ سے اپنے مقامات سے گرچکے ہوتے‘ وہ سرکارِ عالیؒ کی زیارت سے مشرف باد ہوتے تو اپنے مقامات پر بحال ہو جاتے اور ان کی رُکی ہوئی منازل دوبارہ مائل بہ پرواز ہو جاتیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے