صوفیائے اسلام کے احوال اور ان کی سیرت و کردار کا مطالعہ تعمیر شخصیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ صِدق و صَفا، زُہد ووَرَع، تسلیم ورَضا ،اِیثار و قربانی، تقویٰ و توکّل خدمتِ خَلق اور حُسنِ تواضع کے پیکر اِن نفوس قدسیہ میں کمال درجہ کی جاذبیت ہوتی ہے کہ اکناف و اطرافِ عالم سے دنیا کشاں کشاں ان کی طرف دوڑی چلی آتی ہے۔ ان پاکباز ہستیوں کو دیکھ کر نہ صرف خدائے وَحدَہُ لاشریک یاد آ جاتا ہے بلکہ اس کی راہ میں چلنے اور اسے پانے کی طلب ملنے والوں کو بے چین کیے دیتی ہے اور وہ دنیا کی تمام تر ترغیبات اور چاہتوں کو بس ایک ذاتِ واحد کی چاہت پر قربان کر دینے کے لیے بے قرار ہو جاتے۔ یہ انقلاب ان کے اندر خانقاہ نشینوں کی تقریروں یا ان کے ہاں منعقد ہونے والے جلسوں کا مرہونِ منت نہیں ہوتا بلکہ ان کے سامنے ایسے نورانی پیکر ہو تے تھے جن کی ایک ایک ادا ان کی زبان کی تصدیق کر رہی ہو تی ہے۔ اگر صدق و اخلاص کی بات ہو تی تو سننے والے کو یقین ہو تاکہ کہنے والا خود صدق و اخلاص کا مجسمہ ہے۔ اگر زہد و ورع کی فضیلت بیان ہو تی تو سامع کے سامنے وہ ہستی ہوتی جو سیم و زر اور کوڑیوں میںکوئی فرق نہ سمجھتی۔ حُبِّ جاہ، دنیا پر ستی کی مذمت ہو تی تو دیکھنے والے کو وہاں حُبِّ جاہ اور دنیا پرستی کا کوئی ہلکا سا سایہ تک نظر نہ آتا۔ بس یہیں سے انقلاب کا در کھل جاتا۔ شَیخ کے وجود سے پھوٹنے والی خوشبوئے کردار سے اس کا مَن مہک اٹھتا۔ دنیا اس کے سامنے ہیچ اور فکر ِ آخرت غالب ہو جاتی اور یوں اس کا ظاہر و باطن سنورنا شروع ہو جاتا۔
حضرت پیر سیّد مبارک علی شاہ گیلانی لائق صد مبارک باد ہیں کہ آپ نے اس دور میں خدمتِ خانقاہی کے لئے قدم اٹھا یاجو اس دور کی ضرورت ہے۔ حضرت پیر مبارک علی شاہ صاحب گیلانی عصرِ حاضر میں اسلافِ کرام کی تصویر ہیں۔ حضرت کی تصنیفِ لطیف پر تبصرہ اور قلم اٹھانا یوں تو کسی اہلِ علم و فن اور ماہر تصوف کا حق تھا، یہ فقیر ابو الشاطبی اس اہل تو نہیں تھا مگر اکابرین کی بارگاہ سے فیض یا فتہ ہوتے ہوئے بیگانہ و محروم بھی نہیں۔ حضرت نے یقیناً یہ تاریخِ تصوف ترتیب دے کر مؤرِّخین علم تصوف کی صف میں خود جناب کو کھڑا کیاہے۔ جس کو ہم سب نے عموماً اور اس فقیر راقم الحروف نے خصوصاً قد آور پایا۔ ایسی تصانیف اس دور کی ضرورت ہیں۔ تاریخ شکریہ کے ساتھ آپ کی خدمت کو قبول کرے گی۔
حضرت پیر سیّد مبارک علی شاہ گیلانی لائق صد مبارک باد ہیں کہ آپ نے اس دور میں خدمتِ خانقاہی کے لئے قدم اٹھا یاجو اس دور کی ضرورت ہے۔ حضرت پیر مبارک علی شاہ صاحب گیلانی عصرِ حاضر میں اسلافِ کرام کی تصویر ہیں۔ حضرت کی تصنیفِ لطیف پر تبصرہ اور قلم اٹھانا یوں تو کسی اہلِ علم و فن اور ماہر تصوف کا حق تھا، یہ فقیر ابو الشاطبی اس اہل تو نہیں تھا مگر اکابرین کی بارگاہ سے فیض یا فتہ ہوتے ہوئے بیگانہ و محروم بھی نہیں۔ حضرت نے یقیناً یہ تاریخِ تصوف ترتیب دے کر مؤرِّخین علم تصوف کی صف میں خود جناب کو کھڑا کیاہے۔ جس کو ہم سب نے عموماً اور اس فقیر راقم الحروف نے خصوصاً قد آور پایا۔ ایسی تصانیف اس دور کی ضرورت ہیں۔ تاریخ شکریہ کے ساتھ آپ کی خدمت کو قبول کرے گی۔
اظہار تشکر کے یہ چند کلمات تحریر کرتے ہوئے بے حد خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ اللہ کرے یہ کتاب جلد چھپ جائے اور عام مسلمانوں کے لئے افادہ عام ہو۔
آمین بجاہ النبی الحرمین ﷺ
سگِ اہل بیت
خادمِ تحریکِ ختمِ نبوت
خادم العلماء و الفقراء
ابو الشاطبی ڈاکٹر زاہد محمود فریدی
خادمِ تحریکِ ختمِ نبوت
خادم العلماء و الفقراء
ابو الشاطبی ڈاکٹر زاہد محمود فریدی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے