تصوف و طریقت روحِ اسلام ہے۔ عہدِ حاضر میں چند ایسے بھی ہیں جو کہ بضد و مخالف ہیں مگر ذرا علمی خانقاہت پر غور کریں گے تو خوب نظر آئے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ لیکن اس کے لیے حق بین چشم مضطر کی بے حد ضرورت ہے۔ کہیں خانقایت کو شرک تو کہیں بدعت کہا جاتا ہے۔ در اصل کور نگاہ ہے۔ بیمار کی اپنی حسِ ذائقہ کڑوی ہو تو میٹھی سے میٹھی تر شیریں ذائقہ چیز بھی کھلائیں تو کڑوی ہی محسوس ہو گی۔
آج کے پُر فتن دور میں اٹھ کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیریؑ کی عملی تفسیر‘ آستانۂ عالیہ قادریہ منڈیر شریف سیّداں کے خلف و سجادئہ مبارک حضرت سیّد مبارک علی شاہ گیلانی بصد مبارک باد کے مستحق و استحقاق کے لائق ہیں کہ بڑے وقت پر قلم کو جنبش دی کہ عین ضرورت تھی جہاد بالقلم کی۔ ایک خانقاہ نشین سے ایسی تحریر و تصنیف کا منشاء شہود پر آنا یقیناً کسی کرامت سے کم نہیں۔
اس دور میں جبکہ تعلیماتِ اسلامی تصوف کو بعض عامۃ الناس کی عقل و سمجھ سے بالا تر کر دیا گیا کیونکہ بزرگوں کے ملفوظات و تذکار کم پید ہو گئے تھے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ پھر سے قلمِ خانقاہت جنبش لے اور پھر انقلابِ آفرینی برپا کر دے۔ جس طرح دیگر آستانے‘ خانقاہیں‘ اس میدان میں بر سرِ پیکار تھے‘ بالکل ایسے ہی آستانۂ عالیہ قادریہ منڈیر شریف سیّداں کسی سے پیچھے نہیں۔
اس سے قبل بھی اس خانقاہِ عالیہ نے نادر تالیفات کو تاریخ تصوف کے سپرد کیا۔ یہاں بھی حضرت مبارک علی شاہ صاحب گیلانی اسی کڑی سے کڑی ملاتے ہوئے اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر قدم بقدم ہیں۔ ہمیں خوشی اور حیرت ہے کہ آج مبارک کو مبارک پیش کر رہے ہیں کہ اسم با مسمیّٰ ذاتِ والا خود مبارک علی ہے۔
منڈیر شریف سیّداں کی مبارک پورے عالم میں تاریخ تصوف کو مبارک ہو۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
محتاجِ کرم
خلیفہ عبد الرشید قادری‘ ٹوبہ
سیّد محمد رضا شاہ نقوی، فیصل آباد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے