جمعہ، 29 مئی، 2015
واٹر ورکس میں بطور سپر وائزر بھرتی – مصباح العرفان
جمعہ، 22 مئی، 2015
سکول میں پہلا دن – مصباح العرفان
الف سے اللہ}
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اولیائے کرام کی تعلیم و تربیت خود اللہ کریم کے ہاتھ میں ہے۔ جیسا کہ ’’ کشف المحجوب‘‘ میں حضرت سیّد علی ہجویری داتا حضورؒ نے لکھا ہے کہ’’ یہ ضروری نہیں ہر عالم عارف ہو لیکن ہر عارف عالم ہوتا ہے‘‘۔ اللہ کے ولی صرف رسمِ دنیا نبھانے کے لیے مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔ سرکارِ عالیؒ کو بھی رسمِ دنیا نبھانے کے لیے مدرسہ لے جایا گیا پھر وہاں کیا ہوا ذرا دل تھام کے پڑھیے۔
جمعہ، 15 مئی، 2015
بچپن کی فیاضی – مصباح العرفان
دوسروں کی ضرورت کا خیال کرنا؛ دوسروں کا دکھ محسوس کر کے اسے دور کرنے کی کوشش کرنا؛ سخاوت و فیاضی بچپن سے آپؒ کے مزاج کا خاصہ تھی۔ سرکارِ عالیؒ کے بچپن کی سخاوت کا یہ قصہ زدِ زبانِ عام ہے۔ آپؒ کی عمر اس وقت بمشکل چار پانچ سال ہو گی۔ گھر والوں نے بڑی محبت سے آپ کے کانوں میں چھوٹی چھوٹی بالیاں پہنا دی تھیں۔ آپ جانتے ہیں کہ دیہات میں غریب عورتیں بچوں کے لئے مٹی کے کھلونے فروخت کر کے اپنی اور اپنے بچوں کی روزی کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک عورت آپ کی گلی میں آئی اور ’’گھگو گھوڑے لے لو‘‘ کی آواز لگائی۔ گاؤں کے بچے بالے خریدنے کے لیے اکھٹے ہو گئے۔ آپؒ وہاں کھڑے ہو کر دلچسپی سے انہیں دیکھتے رہے۔ اس عورت کی نظر آپؒ کے چہرے پر پڑی تو دیکھتی ہی رہ گئی۔ لیکن جب اس کی نظر آپ کے کانوں پر پڑی تو اس نے پوچھا کہ بیٹا یہ بالیاں تم نے کہاں سے لی ہیں، تو آپ نے فرمایا کہ میرے گھر والوں نے پہنائی ہیں۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ کاش میرے پاس پیسے ہوں تو میں ایسی بالیاں بنوا کر اپنی بیٹی کو جہیز میں دے سکوں۔ اس نے کہا، بیٹے سیّد زادے ہو۔ میرے سوہنے نبی ﷺ کا نور تمہارے چہرے پر چمک رہا ہے۔ میرے لئے دعا کرو کہ اللہ مجھے بھی اتنے پیسے دے کہ میں اپنی بچی کو جہیز میں ایسی بالیاں دے سکوں۔ اللہ سادات کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ اس کی اس بات نے آپ کے دل پر گہرا اثر کیا ۔ ساتھ ہی حیدری خون نے جوش مارا اور رگِ سخاوت پھڑک اٹھی۔ آپؒ نے اپنے کان اس عورت کے آگے کر دیے اور کہا کہ مائی! یہ بالیاں اتار لو، اپنی بیٹی کو جہیز میں دے دینا۔
اس عورت نے کہا ’’ناں، بابا! ناں۔ میں نہیں لیتی۔ تمہارے گھر والے مجھے پکڑ کر ماریں گے‘‘۔
’’تم بے فکر ہو کر اتار لو، میں خود تمہیں گاؤں کی حد سے با ہر چھوڑ آؤں گا‘‘، آپ نے اس عورت سے کہا۔ اس عورت نے ڈرتے ڈرتے وہ بالیاں اتار لیں۔ آپ اس کے ہمراہ ہو لیے اور گاؤں کی حد سے باہر نکل کر اس وقت تک کھڑے رہے جب تک وہ عورت نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی۔ جب آپ گھر پہنچے تو گھر والوں نے پوچھا کہ بالیاں کدھر گئیں۔ معصومیت سے کہنے لگے گھگھو گھوڑے بیچنے والی غریب عورت کو اپنی بچی کی شادی کے لیے ضرورت تھی۔ میں نے اسے دے دیں۔ گھر والے مسکرا کر رہ گئے۔
جمعہ، 8 مئی، 2015
بالائی کھانے کا شوق – مصباح العرفان
آپؒ کے بچپن کی ایک یہ کرامت بھی میرے علم میں ہے۔ سرکارِ عالیؒ کو بچپن سے بالائی کھانے کا بڑا شوق تھا۔ اپنے گھر کے علاوہ دیگر رشتہ دار سادات گھروں کا چکر لگاتے اور وہاں سے بالائی اتار کر کھا جاتے۔ اگر موج میں ہوتے تو دودھ بھی پی جاتے۔ ایک روز کسی گھر نے آپ کو بالائی کھانے سے روک دیا۔ آپ ناراض ہو کر گھر لوٹ آئے۔ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس روز جب انہوں نے بھینسوں کا دودھ ابالنے کے لئے چولہے کے اوپر رکھا دودھ تو ابل گیا لیکن گھر کا سارا ایندھن جلانے کے باوجود دودھ پر بالائی کا نشان تک نہ آیا۔ وہ بہت پریشان ہوئے۔ یہ بات آپ کے نانا جان میر شرف علی شاہ صاحبؒ تک جا پہنچی۔ آپؒ پر ساری بات منکشف ہو گئی۔ انہوں نے فرمایا، جس کو بالائی کھانے سے روکا تھا، اسی کو منا کر لاؤ۔ پھر بالائی آئے گی۔ وہ لوگ فوراً سرکارِ عالیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور منت سماجت کر کے آپ کو راضی کیا۔ تب ان کے دودھ پر بالائی آنا شروع ہوئی۔ اب کوئی بھی آپؒ کا ہاتھ نہ روکتا تھا۔
جمعہ، 1 مئی، 2015
بچپن – مصباح العرفان
سخیٔ کاملؒ نے مجھے سرکارِ عالیؒ کے بچپن سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ابھی بالکل کمسن تھے کہ آپ کے والدِ محترم کا وصال ہو گیا۔ تقریباً چھ سال کے ہوئے تو آپ کے شفیق نانا جان حضرت میر شرف علی شاہ صاحبؒ راہیٔ مُلکِ عدم ہوئے۔ پھر والدۂ محترمہ تیرِ قضاء کا نشانہ بن کر داغِ مفارقت دے گئیں۔ اس کے بعد آپ کے دادا جان بھی اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ اب تربیت کی تمام تر ذمہ داری آپ کی ضعیف دادی صاحبہ کے کندھوں پر آپڑی۔ آخر وہ یومِ سعید آپہنچا جس کا انتظار تھا۔ آپ کی دادی صاحبہ نے اپنے پاس محفوظ امانت یعنی تاجِ محبوبیت سرکارِ عالیؒ کے سپرد کر دیا۔ اس طرح وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئیں۔ پھر جلد ہی وہ بھی راہیٔ مُلکِ عدم ہوئیں۔