نور بلوچ نامی شخص ساکن جھنگ سے ایک شخص قتل ہو گیا۔ مقدمے کی سماعت ماتحت عدالتوں سے اس کے خلاف ہوتی ہوئی عدالت ِ عالیہ میں پہنچ گئی۔ فیصلے کے لیے ایک ہفتہ بعد کی تاریخ مقرر ہوئی۔ نور کی والدہ کو مقدمے کی سماعت اور حالت سے یقین ہو چکا تھا کہ اس کا بیٹا یقیناً پھانسی چڑھ جائے گا۔ وہ پریشانی کی حالت میں خلیفہ منور شاہ صاحب کے پاس دعا کرانے کی غرض سے حاضر ہوئی۔ چونکہ معاملہ بہت گھمبیر تھا اور خلیفہ کی پہنچ اور طاقت سے باہر تھا، اس لیے انہوں نے نور کی والدہ کو دربار شریف ‘حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی بارگاہ میں بھیج دیا۔ اس خاتون نے بارگاہِ عالیہ میں رو رو کر التجا کی کہ میرے بیٹے کو پھانسی سے بچا لیں۔ حضور پاک قدس سرہٗ العزیز کو اس کی حالت ِ زار پر ترس آ گیا۔ آپ چند ساعت استغراق میں خاموش رہے۔ پھر اپنی انگشت ِ شہادت سے اپنی مسند پر پڑے ہوئے گاؤ تکیے پر دو مرتبہ لکھا کہ ’’اللہ نے نور کو بری کر دیا‘‘، ’’اللہ نے نور کو بری کر دیا‘‘ اور تیسری مرتبہ لکھا ’’ہم نے نور کو بری کر دیا‘‘۔ مائی دعا کے بعد واپس چلی گئی۔ جب مقدمہ فیصلہ کے لیے جج صاحب کے روبرو پیش ہوا تو جج صاحب نے مثل پر مندرجہ بالا کلمات تین سطور میں تحریر کردہ موجود پائے۔ جج صاحب وہ کلمات پڑھ کر حیرت زدہ ہو گئے اور دل میں خیال کیا کہ پہلے یہ کلمات مثل پر تو نہ تھے۔ جج صاحب نے فیصلہ لکھنے کے لیے مثل کا معائنہ کیا تھا۔ انہوں نے اس سے اخذ کیا کہ یہ کوئی مشیت ِ ایزدی ہے‘ یقیناً کوئی راز کی بات ہو گی۔ ورنہ نور کے خلاف جرم تو ثابت ہو چکا تھا۔ اس کو کسی غیبی طاقت نے بری فرما دیا ہے۔ اس لیے میں نور کو کیونکر سزا دے سکتا ہوں؟ اس نے ان حالات کے تحت نور کو بری کر دیا۔ اس کی والدہ چند دن بعد بیٹے کو ہمراہ لے کر دربار شریف شکریہ ادا کرنے حاضر ہوئی اور ساری کیفیت بیان کی۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے ایک ناممکن بات کو ممکن کر دیا۔
جمعہ، 26 ستمبر، 2014
پھانسی سے بری کر دیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے