خلیفہ شیر محمد صاحب نے بیان کیا کہ وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ لندن ہیتھرو ائرپورٹ سے بذریعہ کار‘ نوٹنگم اپنی بیٹی اور داماد کے پاس جا رہے تھے۔ گاڑی ان کا بھانجا ڈرائیو کر رہا تھا۔ مرسیڈیز نئی گاڑی نوے میل کی سپیڈ سے تیز رفتار لین میں ہائی وے پر جا رہی تھی کہ اچانک پچھلا دایاں ٹائر ایک بہت زور دار دھماکے سے پھٹ گیا، جس کی آواز اس قدر بلند تھی کہ ان سب کو یہ گمان ہوا کہ کسی نے بم مار دیا ہے۔ جب گاڑی بے قابو ہو کر بائیں طرف دوسری دو متوازی لین کی طرف تیزی کے ساتھ مڑی تو ڈرائیور گھبراہٹ میں خدا تعالیٰ کو زور زور سے پکار کر چیخنے چلانے لگا۔
’’کار دونوں لائنوں کو بحفاظت کراس کر کے فٹ پاتھ پر چڑھ گئی اور سامنے ایک بہت مضبوط درخت سے ٹکرا گئی۔ درخت کار کے ٹکرانے سے ٹوٹ کر کھیتوں میں جا گرا۔ کار دوبارہ ہائی وے کی طرف مڑی مگر حضور پاک کی نگاہِ کرم سے ٹوٹے ہوئے درخت کے باقی ماندہ حصے میں پھنس گئی اور بند ہو گئی۔ لندن میں ہائی وے پر کاریں ہر سہ لائنوں میں بالکل تھوڑا فاصلہ چھوڑ کر رواں دواں رہتی ہیں۔ کاروں کے درمیان نہ تو کوئی زیادہ فاصلہ ہوتا ہے اور نہ قطاریں ٹوٹتی ہیں‘ نہ ان میں کوئی وقفہ ہوتا ہے۔ تاحد ِ نگاہ سڑک کی دونوں جانب یہ سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے۔ ہماری کار نے ٹائر پھٹنے کے بعد دوسری دونوں لائنوں کو کراس کیا لیکن نہ ہی ہماری کار دوسری قطاروں میں لگاتار رواں دواں کاروں سے ٹکرائی اور نہ ہی کاروں کے مسلسل ہجوم میں کوئی دوسری کار ہماری کار سے ٹکرائی۔ کار درخت سے ٹکرا کر بھی نہ الٹی۔ ہم گھبراہٹ میں کار سے فوراً باہر نکلے اور سجدے میں گر گئے۔ ہم سب کو کوئی چوٹ نہ لگی۔ حتیٰ کہ کسی کو خراش تک نہ آئی۔ دوسرے سینکڑوں لوگ اپنی کاریں بند کر کے فوراً ہماری مدد کے لیے پہنچے۔ پولیس بھی موقع پر آ گئی۔ سب حیران تھے کہ اتنا بڑا حادثہ ہوا ہے اور سواریاں معجزانہ طور پر محفوظ رہیں ہیں۔ قارئین یقین کریں کہ اس قدر بڑا حادثہ تھا، خاص کر ہائی وے پر ہمارے زندہ بچنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ یہ بات عقل و فہم سے بہت بالا تر ہے کہ ہماری کار دوسری کاروں سے ٹکرانے سے کس طرح محفوظ رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے کار کو اٹھا کر دوسری کاروں کے اوپر سے گزار کر فٹ پاتھ پر رکھ دیا۔ ورنہ حادثہ اتنا شدید تھا کہ جسموں کے ٹکڑے دور دور تک کھیتوں میں پھیل جاتے۔ خوف سے کار میں سوار سب کے ہوش اُڑ گئے اور سب کی آنکھوں کے آگے اندھیرا آ گیا۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے کس طرح ہمیں بمع کار سلامت رکھا۔ ہم سب تاقیامت نئی زندگی ملنے پر حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے دل کی گہرائیوں سے ہمیشہ مشکور و ممنون رہیں گے۔ جن لوگوں نے یہ حادثہ دیکھا، میں نے ان لوگوں کو اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے دیکھا‘‘۔
خلیفہ شیر محمد نے اپنے لڑکے گلزار احمد کو در پیش حادثے کا بیان بھی کیا۔ وہ بمع اپنے اہل و عیال اور والدہ‘ (امریکہ میں) شکاگو شہر سے نیو جرسی پکنک پر جا رہے تھے۔ کار ہائی وے پر چل رہی تھی کہ دفعتاً کار کا ٹائر پھٹ گیا اور کار بے قابو ہو کر بیس فٹ گہرے گڑھے میں جا گری۔ دوسرے لوگ مدد کے لیے بھاگ کر آئے۔ تمام سواریوں کو کار کے شیشے توڑ کر باہر نکالا تو پتا چلا کہ سب محفوظ ہیں۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے ان سب کی صرف جانیں ہی نہ بچائیں بلکہ ان میں سے کسی کو چوٹ تک نہ آنے دی۔ موقع پر پہنچنے والے سب لوگ ششدر تھے کہ اتنی سپیڈ کے ساتھ چلتی گاڑی اتنی بلندی سے بیس فٹ گہرے گڑے میں گرنے کے باوجود سب لوگ بالکل محفوظ ہیں۔ اس حادثے کی شیر محمد صاحب کی اہلیہ عینی شاہد ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے