آپؒ کا لباس بہت سادہ مگر نہایت صاف ستھرا ہوتا۔ آپؒ نے منڈیر شریف میں مستقل قیام کے بعد عربی لباس زیبِ تن فرمایا، جس کے اوپر اکثر سبز اور سیاہ رنگ کی قبا پہنتے۔ سیاہ رنگ کی بہت تعظیم کرتے۔ کوشش کرتے کہ سیاہ رنگ کا جوتا کبھی استعمال نہ ہو۔ مریدین کی محفل میں زمین پر مسند لگا کر رونق افروز ہوتے۔ سفید رنگ زیادہ پسند تھا۔ شیروانی اکثر زیبِ تن فرماتے۔ پیٹی باندھتے، جس میں تلوار‘ خنجر اور پستول وغیرہ آویزاں ہوتے اور گلے میں قرآنِ مجید حمائل ہوتا۔ دائیں ہاتھ میں چاندی کی انگوٹھیاں ہوتیں جن کا نگینہ عموماً یمنی یاقوت کا ہوتا اور پاؤں میں سادہ مکیشن پہنتے۔ گولڈن چشمہ بھی لگاتے۔ آپؒ کے استعمال کی چیزیں کنگھی‘ سرمہ دانی‘ لباس‘ مصلّٰے‘ تسبیح‘ قرآنِ مجید‘ انگوٹھیاں‘ یہ تمام تبرکات ہمارے پاس بڑے ادب و احترام سے محفوظ ہیں۔
جمعہ، 26 جون، 2015
جمعہ، 19 جون، 2015
نوجوانی – مصباح العرفان
میں نے گھر کے بزرگوں سے سنا ہے کہ جوانی میں آپؒ حسن و جمال کی انتہائی متوازن شخصیت تھے۔ آپؒ کی سیرتِ مبارکہ اور چہرۂ انور کی پھبن کے بارے میں عالی سرکارؒ کے جانشین اور خلیفۂ اوّل‘ سیّدی‘ مرشدی‘ قبلہ و کعبہ‘ السیّد حضرت افضال احمد حسین گیلانی‘ سخیٔ کامل رقمطراز ہیں۔
جمعہ، 12 جون، 2015
سرکار غوثِ اعظمؒ سے شرف بیعت – مصباح العرفان
سرکارِ عالیؒ نے سیالکوٹ سے ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ وزیر آباد کی طرف سفر شروع کر دیا اور اگوکی کے قریب بابا ملک شاہ ولیؒ کے مزار پر ٹھہرے۔ اس وقت نمازِ تہجد کا وقت تھا۔ آپؒ جب تہجد سے فارغ ہوئے تو ایک سبز پوش بزرگ‘ جنہوں نے سبز رنگ کی بڑی سی پگڑی باندھ رکھی تھی‘ ان سے ملے اور فرمایا کہ بیٹا یہ تمہاری منزل نہیں۔
جمعہ، 5 جون، 2015
مزارات پر حاضری – مصباح العرفان
جن دنوں آپؒ گوشہ نشین تھے‘ ان دنوں آپ پر استغراق کا زبردست غلبہ تھا۔ آپؒ کو غیب سے اشارہ ہوا کہ استغراق کے اس عالم سے نکلنے کے لیے مزارات پر حاضری دینا شروع کریں۔ چنانچہ آپؒ سب سے پہلے قیام کی نیت سے سیالکوٹ میں امام علی الحقؒ کے مزار پر تشریف لے گئے۔ نمازِ عشاء کے بعد مجاوروں نے اگلی صبح کے لیے مزار کا دروازہ بند کر دیا اور آپؒ کو اندر فروکش ہونے کی اجازت نہ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ مزار پر رات ٹھہرنے والا صبح کبھی زندہ نہیں ملا۔ اس لئے ہم آپ کو یہ خطرہ مول لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ آپؒ وہاں سے واپس چلے آئے۔
جمعہ، 29 مئی، 2015
واٹر ورکس میں بطور سپر وائزر بھرتی – مصباح العرفان
جمعہ، 22 مئی، 2015
سکول میں پہلا دن – مصباح العرفان
الف سے اللہ}
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اولیائے کرام کی تعلیم و تربیت خود اللہ کریم کے ہاتھ میں ہے۔ جیسا کہ ’’ کشف المحجوب‘‘ میں حضرت سیّد علی ہجویری داتا حضورؒ نے لکھا ہے کہ’’ یہ ضروری نہیں ہر عالم عارف ہو لیکن ہر عارف عالم ہوتا ہے‘‘۔ اللہ کے ولی صرف رسمِ دنیا نبھانے کے لیے مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔ سرکارِ عالیؒ کو بھی رسمِ دنیا نبھانے کے لیے مدرسہ لے جایا گیا پھر وہاں کیا ہوا ذرا دل تھام کے پڑھیے۔
جمعہ، 15 مئی، 2015
بچپن کی فیاضی – مصباح العرفان
دوسروں کی ضرورت کا خیال کرنا؛ دوسروں کا دکھ محسوس کر کے اسے دور کرنے کی کوشش کرنا؛ سخاوت و فیاضی بچپن سے آپؒ کے مزاج کا خاصہ تھی۔ سرکارِ عالیؒ کے بچپن کی سخاوت کا یہ قصہ زدِ زبانِ عام ہے۔ آپؒ کی عمر اس وقت بمشکل چار پانچ سال ہو گی۔ گھر والوں نے بڑی محبت سے آپ کے کانوں میں چھوٹی چھوٹی بالیاں پہنا دی تھیں۔ آپ جانتے ہیں کہ دیہات میں غریب عورتیں بچوں کے لئے مٹی کے کھلونے فروخت کر کے اپنی اور اپنے بچوں کی روزی کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک عورت آپ کی گلی میں آئی اور ’’گھگو گھوڑے لے لو‘‘ کی آواز لگائی۔ گاؤں کے بچے بالے خریدنے کے لیے اکھٹے ہو گئے۔ آپؒ وہاں کھڑے ہو کر دلچسپی سے انہیں دیکھتے رہے۔ اس عورت کی نظر آپؒ کے چہرے پر پڑی تو دیکھتی ہی رہ گئی۔ لیکن جب اس کی نظر آپ کے کانوں پر پڑی تو اس نے پوچھا کہ بیٹا یہ بالیاں تم نے کہاں سے لی ہیں، تو آپ نے فرمایا کہ میرے گھر والوں نے پہنائی ہیں۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ کاش میرے پاس پیسے ہوں تو میں ایسی بالیاں بنوا کر اپنی بیٹی کو جہیز میں دے سکوں۔ اس نے کہا، بیٹے سیّد زادے ہو۔ میرے سوہنے نبی ﷺ کا نور تمہارے چہرے پر چمک رہا ہے۔ میرے لئے دعا کرو کہ اللہ مجھے بھی اتنے پیسے دے کہ میں اپنی بچی کو جہیز میں ایسی بالیاں دے سکوں۔ اللہ سادات کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ اس کی اس بات نے آپ کے دل پر گہرا اثر کیا ۔ ساتھ ہی حیدری خون نے جوش مارا اور رگِ سخاوت پھڑک اٹھی۔ آپؒ نے اپنے کان اس عورت کے آگے کر دیے اور کہا کہ مائی! یہ بالیاں اتار لو، اپنی بیٹی کو جہیز میں دے دینا۔
اس عورت نے کہا ’’ناں، بابا! ناں۔ میں نہیں لیتی۔ تمہارے گھر والے مجھے پکڑ کر ماریں گے‘‘۔
’’تم بے فکر ہو کر اتار لو، میں خود تمہیں گاؤں کی حد سے با ہر چھوڑ آؤں گا‘‘، آپ نے اس عورت سے کہا۔ اس عورت نے ڈرتے ڈرتے وہ بالیاں اتار لیں۔ آپ اس کے ہمراہ ہو لیے اور گاؤں کی حد سے باہر نکل کر اس وقت تک کھڑے رہے جب تک وہ عورت نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی۔ جب آپ گھر پہنچے تو گھر والوں نے پوچھا کہ بالیاں کدھر گئیں۔ معصومیت سے کہنے لگے گھگھو گھوڑے بیچنے والی غریب عورت کو اپنی بچی کی شادی کے لیے ضرورت تھی۔ میں نے اسے دے دیں۔ گھر والے مسکرا کر رہ گئے۔