ہفتہ، 7 اگست، 2010

Message of Sajjada Nasheen Darbar-e-Aliya Mundair Sharif Syedan (monthly Sohney Mehraban, July 2010).

کیا ہم نے کبھی سوچا ہے؟

سوہنے مہربان کی اشاعت نئی نسل کو ایک فکر‘ ایک سوچ دینے میں کافی حد تک کامیاب نظر آتی ہے۔

کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم کس ڈگر پر جا رہے ہیں؟ اسلام فرقہ واریت میں بٹ کر رہ گیا ہے۔ کوئی شیعہ ہے اور کوئی سنی‘ کوئی وہابی ہے‘ کوئی دیوبندی اور دیگر مکتبہٴ فکر سے تعلق رکھتا ہے۔ ہم نفرتوں کے سمندر میں اس قدر غرق ہو گئے ہیں کہ اسلام کی صحیح شکل بھی غائب ہوتی جا رہی ہے۔ ہر مکتبہٴ فکر کا عالِم دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کوشاں ہے۔ کسی نے اہلِ بیتؑ کا نام استعمال کر کے اپنی دوکان چمکائی ہے تو کسی نے صحابہؓ کی عظمت کا شامیانہ لگا رکھا ہے۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اسلام دیا تھا کہ مسلمانوں کا قتلِ عام ہو۔ آج جس انداز میں مسلمان پس رہے ہیں اس کی مثال تاریخِ عالم میں اس سے پہلے نہیں ملتی۔ اس کی اصل وجہ صرف یہ ہے کہ ہم نے اللہ کی رسی کو ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے اور دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش علی بن عثمان الہجویری رضی اللہ عنہ کے مزارِ اقدس پر بم دھماکہ بخدا نہ صرف اولیاءکے خلاف تھا بلکہ پوری انسانیت کے خلاف تھا۔ یہ بم دھماکہ کرنے والے انسان ہیں نہ مسلمان۔ ہمیں چاہیے کہ ولی اللہ کے آستانوں سے اپنے دل کی لو لگائیں اور سکون اور معرفت حاصل کریں۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس زمانے میں اللہ کے ولی ہی اس کام کو بخوبی انجام دے سکتے ہیں کیونکہ ان کے آستانوں سے اتحاد‘ ایثار اور محبت کا درس ملتا ہے۔ نفرت‘ لڑائی اور جھگڑے کی راہ شیطان کی راہ ہے۔ کیا آج ہم مسلمانوں میں اتنا اتحاد نہیں رہا کہ ہم ایک دوسرے کی مدد کر سکیں؟ ہمیں چاہیے کہ اسلام و ملک و ملت کی خاطر آپس میں لڑائی جھگڑا کرنے کی بجائے حقیقی معنوں میں اسلام کی خدمت کریں جس سے تمام عالم میں اسلام کی چھاپ نظر آئے۔ (آمین۔ ثم آمین(

صاحبزادہ سیّد محمد مبارک علی گیلانی قادری

سجادہ نشین آستانہ عالیہ قادریہ منڈیر شریف سیّداں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے