جمعہ، 8 جنوری، 2016

والدِ محترم و مرشدِ کامل‘ حضرت سید افضال احمد حسین گیلانیؒ گاہے گاہے عالی سرکارؒ کی حیاتِ پاک کی نقاب کشی کر کے مجھے آپ کے اوصافِ حسنہ سے آگاہی کا موقع فراہم کرتے رہتے۔ آپؒ بتاتے کہ سرکارِ عالیؒ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بے سہارا، غریب‘ مسکین‘ ضرورت مند اور مصیبت زدہ لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ مصیبت زدہ لوگوں کو حوصلہ دینا، ضرورت مندوں کی مالی استعانت کرنا اور بھوکوں کو کھانا کھلانا آپؒ کا روزانہ کا معمول تھا۔ سخیٔ کاملؒ نے مجھے بتایا کہ سرکارِ عالیؒ نے پورے بر صغیر کا پیدل سفر کیا اور ہزاروں انسانوں کو بلا امتیازِ دین‘ مسلک اور عقیدہ‘ اپنے ظاہری و باطنی فیوض سے نوازا۔ کوئی سائل آپؒ کے در سے خالی نہ گیا۔ اُمتِ محمدیہ ﷺ کے ہر فرد تک آپؒ نے اپنے خُلُقِ عظیم کا فیضان پہنچانے کا ہرممکن جتن کیا۔
آپؒ ساری اُمتِ مسلمہ کی بخشش و مغفرت کے لئے دعائیں مانگتے؛ ہر نماز کے بعد دعا فرماتے کہ یا اللہ پاک! دین اسلام کا پوری دنیا میں بول بالا کر دے۔ یا اللہ! تمام غیر مسلموں کو دائرۂ اسلام میں داخل کر دے تاکہ تیری یہ مخلوق بھی عذابِ جہنم سے بچ جائے۔ تمام اَدیان کو دین اسلام میں داخل کر دے۔ دین اسلام کا بول بالا فرما۔ پرچمِ اسلام کو کل روئے زمین پر لہرا دے۔ پرچمِ اسلام بلند رہے۔ دین اسلام کو تمام اَدیان پر غالب فرما۔ ہم کو پکا سچا مسلمان اور اَہلِ توحید کر دے۔ تمام مریدین کی دین و دنیا میں بھلائی کے لئے دعائیں مانگنا بھی آپ کا معمول تھا۔ سخیٔ کاملؒ نے مجھے بتایا کہ آفاتِ ارضی و سماوی‘ جنگوں اور انقلابات کے وقت مصیبت زدہ اور بے گھر لوگوں کی دل کھول کر امداد فرماتے۔
بر صغیر کی تقسیم کے وقت‘ جبکہ بھارت سے لوگ قافلہ در قافلہ پاکستان آ رہے تھے‘ سرکارِ عالیؒ نے ان لٹے پٹے‘ مفلوک الحال‘ مصیبت زدہ اور پریشان لوگوں کی ہر ممکن مدد فرمائی۔ آپؒ کا لنگر خانہ ان کے لئے ہر وقت کھلا رہتا۔ ان کو کھانے کے علاوہ پارچہ جات‘ بستر‘ نقدی و دیگر اشیائے ضرورت فراہم کی جاتیں۔
1952ء میں جب زبردست سیلاب کے باعث سارا پاکستان آفاتِ سماوی کی زد میں تھا، راولپنڈی سے آپؒ کے مریدین پانچ ٹرک راشن لنگر کے لیے لے کر دربار شریف پہنچے اور آپ کی خدمت میں پیش کئے۔ سرکارِ عالیؒ نے وہ تمام راشن منڈیر شریف کے متاثرین سیلاب میں تقسیم فرما دیا اور کہا کہ ہم توکل علی اللہ پر رہنے والے لوگ ہیں۔ ہمارا اللہ مالک ہے۔ آپؒ کا علاقہ منڈیر شریف سیّداں بھی سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہو گیا۔ آپؒ نے سارے علاقہ کو اپنے ہاں پناہ دی۔ ان کی ہر طرح خدمت کی‘ کسی قسم کی مشکل یا تنگی کا شکار نہ ہونے دیا۔ ان دنوں آپ کا لنگر چوبیس گھنٹے کھلا رہتا۔ لوگوں کو کھانے پینے میں کسی قسم کی دقت نہ ہونے دیتے۔ یہ تو مشکل کے وقت ہنگامی صورت حال میں آپؒ کی خدمات کا تذکرہ ہے‘ معمول کے عام حالات میں بھی آپؒ کا لنگر جاری رہتا۔ امیر و غریب ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ آپؒ لا چار اور بے کسوں کو پارچہ جات دیتے اور یتیموں اور بیواوں کی مدد فرماتے۔ بعض کے ماہانہ وظائف مقر رتھے جو خاموشی سے ان کے گھروں میں پہنچا دیے جاتے۔ آپؒ کے پاس جو رقم آتی‘ شام تک اسے حاجت مندوں میں تقسیم کردیا جاتا۔
1965ء کی جنگ میں سخیٔ کاملؒ اور ان کے بھائیوں نے آپؒ کے اس مستحسن عمل کی پیروی کرتے ہوئے جنگ سے متاثرہ لوگوں کی بہت مدد کی۔ اس مہم میں سرکارِ عالیؒ کے شہزادے‘ چچا جان‘ سیّداقبال احمد حسین شاہ صاحب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اسی طرح 1971ء کی جنگ میں بھی متاثرین کی بہت مدد کی گئی۔ اس جنگ کی وجہ سے پاک وطن کی سرحدوں سے گھر بار چھوڑ کر آنے والے پریشان حال لوگوں کی دُوُم صاحب نے بہت خدمت فرمائی اور ان کی دیکھ بھال کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ اسی وجہ سے آپؒ کا نام اعلیٰ سماجی کارکنوں میں شمار ہوتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے