پیر، 10 ستمبر، 2012

توکّل علی الله – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

توکل علی اللہ

اپنے تمام معاملات اللہ کے سپرد کر دینا توکل ہے۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز تمام عمر اللہ تعالیٰ کے فرمان "ومن   يتوکل علی الله فهو حسبه" پر سختی سے کاربند رہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا پورا بھروسہ کرتے اور ہمیشہ فرماتے میرے لئے میرا اللہ ہی کافی ہے۔ آپؒ نے حیاتِ مقدسہ میں اپنی ذات کے لئے کسی قسم کی کوئی جائیداد نہ بنائی۔ اپنی مرضی سے کبھی کوئی چیز ذاتی استعمال کے لئے نہ خریدی۔ آپؒ کے پاس جو رقم یا سامان وغیرہ بطورِ نذر پیش ہوتا، تمام کا تمام راہِ خدا میں تقسیم کر دیتے اور کوئی روپیہ‘ پیسہ یا شے پس انداز نہ فرماتے۔ توکل پر پورا یقین رکھتے۔ فرماتے جس خدا نے آج دیا ہے‘ وہی کل بھی دیے گا۔ بسا اوقات اپنے تن کے کپڑے بھی اتار کر غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیتے اور فرماتے یہ مجھ سے زیادہ حاجت مند ہیں۔ میرا اللہ وارث ہے۔ آپ کا لنگر منڈیر شریف میں مسلسل جاری ہے۔ تمام حاضرینِ دربار کو بلا امتیازِ مسلک و عقیدہ‘ امیر غریب دونوں کو یکساں کھانا دیا جاتا ہے۔ سب مہمان اکٹھے ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ صبح اور دوپہر کے بعد چائے سے تواضع کی جاتی ہے۔ لنگر کے لئے خوردنی اشیاء کبھی ذخیرہ نہ کرتے‘ ہر روز نیا سامان خریدا جاتا۔ اگر کبھی لنگر پکانے کے لئے خوردنی اشیاء نہ ہوتیں تو فرماتے اللہ تعالیٰ کا یہ لنگر ہے‘ خود بخود انتظام کرے گا۔ اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا، سامان خود بخود لوگوں کے ذریعے پہنچ جاتا۔ ایسا لگتا کہ اللہ تعالیٰ نے باطنی مخلوق کے ذریعے سامان مہیا فرمایا ہے۔ خدا نخواستہ کبھی فاقے کی نوبت آ جاتی تو آپ کبھی شکوہ نہ کرتے اور یہ کہہ کر سب کو مطمئن کر دیتے کہ یہ (فاقہ) ہمارے بزرگوں کی اوّلین سنت ہے۔
بیماری کی حالت میں کبھی دوا استعمال نہ کرتے۔ فرماتے بیماری یا تکلیف منجانب اللہ ہے۔

مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ        (سورة التغابن، آية ١١)

کوئی تکلیف اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہیں آتی۔( تکلیف یا بیماری کا وقت مقرر ہوتا ہے‘ مقررہ وقت پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ختم ہو جاتی ہے۔)
آپ فرماتے دکھ سکھ‘ مصائب و آلام‘ بیماری اور تکلیف‘ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر وارد نہیں ہوتیں۔ اور ہر ایک کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔ ایسا تو کل معصومین اور محبوبین ہی کر سکتے ہیں۔ عام شخص کی قوتِ برداشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ اہل اللہ کی قوت برداشت عام مخلوق سے مختلف اور زیادہ ہوتی ہے جس کو عام لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ آپ حضور فرماتے توکل کی تین اقسام ہیں؛ اوّل انبیاء ؊ کا توکل‘ دوئم اولیاء عظام کا توکل‘ سوئم عام مخلوق کا توکل۔ انبیاء ؊‘ آئمہ مطہرّین اور معصومین ؊ کو جن مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا،عوام اسے برداشت تو کیا در کنار اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ آپ کا توکل اور تقویٰ‘ پرہیزگاریُ‘ صفائی اور طہارت اولیاء کی تقلید تھی۔ صفائی کے متعلق حدیث بیان فرماتے‘ یہ نصف ایمان ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے