Malfozaat-e-Mehboob-e-Zaat لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Malfozaat-e-Mehboob-e-Zaat لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 14 نومبر، 2014

منڈیراں میں بھی‘ لاہور میں بھی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور قدس سرہٗ العزیز کے خلیفہ کلن خان لاہور میں شربت بیچتے تھے۔ حضور قدس سرہٗ العزیز کی خدمت میں حاضری پر درخواست کی کہ حضور لاہور تشریف لائیں تو شربت آپ کی خدمت ِ عالیہ میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرے۔ آپ ان کے اڈہ پر تشریف لائیں۔ حضور قدس سرہٗ العزیز نے فرمایا کہ آپ ہمیں شربت نہیں پلائیں گے۔ کلن خان نے عرض کی حضور! یہ کیسے ممکن ہے؟ بندہ تو اسے سعادت سمجھے گا۔

جمعہ، 7 نومبر، 2014

مخلوقِ خدا پر تشدد نہ کرو – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

خواجہ صلاح الدین کا بہنوئی علاؤ الدین سکریٹریٹ میں ملازم تھا۔ ایک روز دوانِ سفر سیٹ پر کسی سے جھگڑا ہو گیا۔ علاؤ الدین‘ جو جسمانی طور پر بہت قوی تھا، نے اس شخص کو اٹھا کر گاڑی سے باہر پھینک دیا۔ ریل گاڑی اس وقت کم رفتار سے چل رہی تھی۔ علاؤالدین کو جب قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا تو حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے فرمایا کہ سوہنیا، مخلوقِ خدا سے ایسا سلوک جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اگر جنت کے طلب گار ہو تو میری مخلوق کے گناہ بخشا کرو۔ مخلوق پر تشدد کرنے کی ہرگز اجازت نہیں۔ علاؤ الدین بہت شرمسار ہوا اور اس کو یہ بھی یقین ہو گیا کہ حضورِ پاک قدس سرہٗ العزیز اپنے مریدوں کی سب حرکات و سکنات کو ہر وقت دیکھتے رہتے ہیں۔ حضورِ پاک قدس سرہٗ العزیز نے علاؤ الدین کو تنبیہ فرمائی کہ آئندہ کے لیے احتیاط کرو۔ فرمایا

جمعہ، 31 اکتوبر، 2014

گھر واپسی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

خواجہ صلاح الدین (اچار مربّا مرچنٹ‘ اکبری منڈی) کو حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے اپنے لطف ِ کریمانہ و شاہانہ سے اس قدر نوازا تھا کہ وہ اکثر جذب کی حالت میں رہتا۔ اسی کے زیر اثر وہ گھر سے بھاگ کر جہلم ٹمبر مارکیٹ میں جا کر تین روپے روزانہ مزدوری پر ملازم ہو گیا حالانکہ وہ بی۔اے تک تعلیم یافتہ تھا۔ اس کی ماں نے بہت تلاش کیا مگر کہیں اس کا پتا نہ چل سکا۔

جمعہ، 24 اکتوبر، 2014

بیرونِ ملک بھاگنے سے روک دیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

فقیر محمد‘ ساکن لاہور‘ لنڈا بازار میں آٹے چینی کا ڈپو چلاتا تھا۔ ایک روز اس کا لڑکا سات صد روپے لے کر گھر سے غائب ہو گیا۔ فقیر محمد نے اپنے سب رشتے داروں کے ہاں اس کو تلاش کیا مگر نہ مل سکا۔ بسیار کوشش کے بعد مایوس ہو کر دربار شریف حاضر ہوا اور دعا کے لیے عرض پیش کی۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے فرمایا کہ تمہارا لڑکا اپنے ایک دوست سے ساز باز کر کے بیرونِ ملک جا رہا ہے۔ اگر تم آج دعا کے لیے نہ آتے تو کل تمہارا لڑکا ہمیشہ کے لیے ملک سے باہر چلا جاتا۔

جمعہ، 17 اکتوبر، 2014

حادثہ کے باوجود محفوظ – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

خلیفہ شیر محمد صاحب نے بیان کیا کہ وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ لندن ہیتھرو ائرپورٹ سے بذریعہ کار‘ نوٹنگم اپنی بیٹی اور داماد کے پاس جا رہے تھے۔ گاڑی ان کا بھانجا ڈرائیو کر رہا تھا۔ مرسیڈیز نئی گاڑی نوے میل کی سپیڈ سے تیز رفتار لین میں ہائی وے پر جا رہی تھی کہ اچانک پچھلا دایاں ٹائر ایک بہت زور دار دھماکے سے پھٹ گیا، جس کی آواز اس قدر بلند تھی کہ ان سب کو یہ گمان ہوا کہ کسی نے بم مار دیا ہے۔ جب گاڑی بے قابو ہو کر بائیں طرف دوسری دو متوازی لین کی طرف تیزی کے ساتھ مڑی تو ڈرائیور گھبراہٹ میں خدا تعالیٰ کو زور زور سے پکار کر چیخنے چلانے لگا۔

جمعہ، 10 اکتوبر، 2014

امریکہ سے واپس منگوا دیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

جھنگ ضلع کے میاں بیوی حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض پرداز ہوئے کہ ان کا لڑکا گھر سے چلا گیا ہے۔ بسیار تلاش اور کوشش کے اس کا کہیں کوئی سراغ نہیں مل سکا اور دعا کے لیے عرض کرتے ہوئے اپنی پریشانیوں کا اظہار کیا۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز چند ساعت خاموش رہے۔ پھر فرمایا کہ تمہارا لڑکا امریکہ میں ہے اور وہاں ایک کارخانے میں ملازم ہے۔ ہم نے کارخانے کے منیجر کو ہدایت کی ہے کہ وہ تمہارے لڑکے کو‘ جو غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہو گیا ہے‘ اس کو قانون کے تحت جائز قرار دے کر‘ اس کے واپسی کے کاغذات مکمل کروا کر‘ اس کو رخصت پر پاکستان بھیجے۔ فرمایا تمہارا لڑکا پندرہ دن کے بعد تمہارے پاس آ جائے گا۔ ایسا ہی ہوا۔ اس کے والدین اس کو ہمراہ لے کر سلام پیش کرنے اور شکریہ ادا کرنے کے لیے دربار شریف حاضر ہوئے تو لڑکے نے حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کو پہچان کر عرض کیا کہ حضور پاک خود بنفسِ نفیس کارخانے میں آئے تھے اور منیجر کو میری موجودگی میں ہدایات کی تھیں۔

جمعہ، 3 اکتوبر، 2014

کُھلّا سائیں – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

سائیں کھلا، ساکن فیصل آباد‘ اپنی ملازمت سے رخصت حاصل کر کے موضع کورووال اپنے سسرال سے ملاقات کے لیے آیا ہوا تھا۔ رخصت ختم ہونے پر سسرال والوں نے واپس نہ جانے دیا اور کورووال میں ہی کوئی کام کرنے کا مشورہ دیا۔ لہٰذا سائیں کھلّا نے سبزی فروخت کرنے کا دھندا شروع کر دیا۔ ایک روز سبزی لے کر ساہو والا اسٹیشن سے اتر کر سیدھا دربار شریف پہنچا اور آواز لگائی: تازہ سبزی لے لو۔ حُسنِ اتفاق سے حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز اس وقت اپنے کمرے میں تشریف فرما تھے۔ حضور پاک قدس سرہٗ العزیز نے کھلا سائیں سے سبزی لے کر اندر بھیج دی اور اپنی جیب سے دو روپے کا نیا نوٹ نکال کر دیا۔ سائیں کھلا نے عرض کیا حضور پاک! یہ رقم کم ہے۔ حضور پاک قدس سرہٗ العزیز نے فرمایا کہ ہم نے تجھے جنت کا ٹکٹ دیا ہے اور ساتھ ہی تجھے خرید لیا ہے یعنی اپنا بنا لیا ہے۔ ان دو نعمتوں سے سرفرازی کے بعد اب تمہیں کس چیز کی کمی رہ گئی ہے؟ کھلا سائیں عنایات پر بے حد مشکور اور خوش ہوا۔ چند دنوں بعد دوبارہ حاضر ہو کر اس نے حضور پاک قدس سرہٗ العزیز کی غلامی کا شرف حاصل کر لیا۔

جمعہ، 26 ستمبر، 2014

پھانسی سے بری کر دیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

نور بلوچ نامی شخص ساکن جھنگ سے ایک شخص قتل ہو گیا۔ مقدمے کی سماعت ماتحت عدالتوں سے اس کے خلاف ہوتی ہوئی عدالت ِ عالیہ میں پہنچ گئی۔ فیصلے کے لیے ایک ہفتہ بعد کی تاریخ مقرر ہوئی۔ نور کی والدہ کو مقدمے کی سماعت اور حالت سے یقین ہو چکا تھا کہ اس کا بیٹا یقیناً پھانسی چڑھ جائے گا۔ وہ پریشانی کی حالت میں خلیفہ منور شاہ صاحب کے پاس دعا کرانے کی غرض سے حاضر ہوئی۔ چونکہ معاملہ بہت گھمبیر تھا اور خلیفہ کی پہنچ اور طاقت سے باہر تھا، اس لیے انہوں نے نور کی والدہ کو دربار شریف ‘حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی بارگاہ میں بھیج دیا۔ اس خاتون نے بارگاہِ عالیہ میں رو رو کر التجا کی کہ میرے بیٹے کو پھانسی سے بچا لیں۔ حضور پاک قدس سرہٗ العزیز کو اس کی حالت ِ زار پر ترس آ گیا۔ آپ چند ساعت استغراق میں خاموش رہے۔ پھر اپنی انگشت ِ شہادت سے اپنی مسند پر پڑے ہوئے گاؤ تکیے پر دو مرتبہ لکھا کہ ’’اللہ نے نور کو بری کر دیا‘‘، ’’اللہ نے نور کو بری کر دیا‘‘ اور تیسری مرتبہ لکھا ’’ہم نے نور کو بری کر دیا‘‘۔ مائی دعا کے بعد واپس چلی گئی۔ جب مقدمہ فیصلہ کے لیے جج صاحب کے روبرو پیش ہوا تو جج صاحب نے مثل پر مندرجہ بالا کلمات تین سطور میں تحریر کردہ موجود پائے۔ جج صاحب وہ کلمات پڑھ کر حیرت زدہ ہو گئے اور دل میں خیال کیا کہ پہلے یہ کلمات مثل پر تو نہ تھے۔ جج صاحب نے فیصلہ لکھنے کے لیے مثل کا معائنہ کیا تھا۔ انہوں نے اس سے اخذ کیا کہ یہ کوئی مشیت ِ ایزدی ہے‘ یقیناً کوئی راز کی بات ہو گی۔ ورنہ نور کے خلاف جرم تو ثابت ہو چکا تھا۔ اس کو کسی غیبی طاقت نے بری فرما دیا ہے۔ اس لیے میں نور کو کیونکر سزا دے سکتا ہوں؟ اس نے ان حالات کے تحت نور کو بری کر دیا۔ اس کی والدہ چند دن بعد بیٹے کو ہمراہ لے کر دربار شریف شکریہ ادا کرنے حاضر ہوئی اور ساری کیفیت بیان کی۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے ایک ناممکن بات کو ممکن کر دیا۔

جمعہ، 19 ستمبر، 2014

سکھ کا بیٹا زندہ کر دیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ساہو والہ کے قریب ایک گاؤں سے ایک سکھ اور اس کی بیوی دربار شریف حاضر ہو کر عرض پرداز ہوئے کہ ان کا اکلوتا بیٹا فوت ہو گیا ہے۔ وہ اس کو کمرے میں بند کر کے باہر سے قفل لگا آئے ہیں اور التجا کی کہ حضور! جب تک بچہ زندہ نہ ہو گا، ہم یہاں سے نہ جائیں گے۔ وہ زار و قطار روتے اور چیخ و پکار کرتے تھے۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کو ان کی حالت ِ زار پر رحم آ گیا۔ آپ نے ہاتھ میں پانی لے کر آسمان کی طرف اچھالا۔ پانی کے قطرے فضا میں گم ہو گئے‘ واپس زمین پر نہ گرے۔ فرمایا: جاؤ! تمہارا بیٹا زندہ ہے۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو مردہ لڑکے کو زندہ پایا اور پانی کے وہی قطرے اس کے چہرے اور پیشانی پر موجود تھے۔

جمعہ، 12 ستمبر، 2014

اللہ دتہ کے لڑکے اکرم کا دوبارہ زندہ ہونا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

دربار شریف میں مریدین کے قیام کے لیے کمروں کی تعمیر ہو رہی تھی۔ اکرم بطورِ مزدور کام کرتا تھا۔ ایک شام گارا بنانے کے لیے مٹی کھود کر جمع کر رہا تھا کہ اچانک ساتھ والی دیوار سے ایک مٹی کا بہت بڑا تودہ اس پر گرا اور وہ نیچے دب گیا۔ بڑی مشکل کے بعد مٹی سے اس کو باہر نکالا تو بے جان تھا، رنگ زرد اور سانس بند تھا۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز یہ سن کر وہاں تشریف لے آئے۔ کافی دیر تک اکرم کو تکتے رہے۔ وہ مر چکا تھا لیکن آپ کی توجہ سے چند منٹ بعد اس نے آنکھیں کھول دیں تو حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے بصد مسرت فرمایا شاباش اکرم! تم زندہ ہو۔ مت گھبراؤ۔ تم بالکل ٹھیک ہو۔ فرمایا اس کو دودھ اور گھی پلاؤ۔ وہ چند ہی گھنٹوں کے بعد اٹھ کر چلنے پھرنے لگا۔ اس نے بتایا کہ وہ بہت دور سے واپس آیا ہے۔ ماشاء اللہ وہ آج کل بھی بقید ِ حیات ہے اور دربار شریف حاضری دیتا رہتا ہے۔

جمعہ، 5 ستمبر، 2014

شاہ مہندرا کی آمد – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ایک مرتبہ سیّد منشا شاہ کی ڈیوٹی واہگہ سرحد پر نیپال کے بادشاہ مہندرا کی پاکستان آمد پر سیکورٹی پر لگا دی گئی۔ اتفاقاً برادرِ خورد سیّد اقبال احمد حسین شاہ صاحب سیّد منشا کو ملنے تشریف لے آئے۔ واپسی پر شاہ صاحب کو اپنے ہمراہ دربار شریف لے گئے۔ وہاں حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے ان کو دو دن کے لیے روک لیا۔ شاہ صاحب جب تیسرے روز ڈیوٹی پر گئے تو ان کے عملے نے تصدیق کی کہ شاہ صاحب کبھی ڈیوٹی سے غیر حاضر نہیں رہے‘ البتہ بادشاہ کی آمد کے موقع پر شاہ صاحب بڑے محتاط رہے۔ کسی سے بات تک نہ کی۔ شاہ صاحب کو یقین ہو گیا کہ سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے اپنے تصرف سے یہ کام لے کر شاہ صاحب کو حاضر رکھا۔ مرشد‘ مرید کا کس حد تک ساتھ دیتا ہے‘ اس کی وضاحت عملاً کر کے دکھا دی۔

جمعہ، 29 اگست، 2014

جاؤ چیف کر دیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

محکمہ اربن ٹرانسپورٹ اومنی بس لاہور میں شیخ رحمت اللہ اکاؤنٹس افسر تھے۔ اس محکمے کا انگریز چیف منیجر جب ریٹائر ہو گیا تو شیخ رحمت اللہ‘ چوہدری علم الدین کی وساطت سے دربار شریف آئے اور عرض پرداز ہوئے حضور! دعا فرما دیں میں چیف منیجر ہو جاؤں۔ فرمانِ عالی ہوا تمہاری تعلیم اور عہدے کے اعتبار سے تمہارا چیف کے عہدے پر ترقی پانا اور فائز ہونا ناممکن ہے مگر چونکہ آپ دعا کے لیے آئے ہیں تو جاؤ آپ چیف ہو جائیں گے اور کوئی افسر یا اتھارٹی آپ کو اس عہدے سے معزول نہ کر سکے گی۔ مشرقی پاکستان سے ایک اکاؤنٹنٹ جنرل تعینات ہو کر آ گیا۔ حکومت نے دوبارہ اشتہارات اخبارات میں دیئے۔ بہت سے ریٹائرڈ اکاؤنٹنٹ جنرل قسمت آزمائی کرنے آئے مگر جس کو سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے منتخب فرما دیا تھا، اس کے مقابلے میں کسی کو کامیابی نہ ہوئی۔ حالانکہ شیخ صاحب تعلیم کے لحاظ سے دوسروں سے کم تھے یعنی تعلیم بہت کم تھی لیکن چیف منیجر مقرر ہوئے اور ریٹائرمنٹ تک چیف رہے۔ ان کی تقرری نے اعلیٰ عہدوں کے افسران کو حیرت زدہ کر دیا کہ شیخ رحمت اللہ پر کسی بلند ہستی کا ہاتھ ہے جو اس کے مقابلے میں بڑے بڑے تجربہ کار اور اعلیٰ ڈگریوں والے‘ سب ناکام رہے۔ یہ سب سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی نظرِ کرم اور کمال کا اثر تھا جس کے مقابلے میں سب ظاہری طاقتیں ناکام ہو کر رہ گئیں۔

جمعہ، 22 اگست، 2014

ڈاکٹر حضرات کی فریاد – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

انبالہ میں قیام کے دوران حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی نظرِ کرم سے لوگ زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہوتے رہے۔ ہر تکلیف کے لیے مخلوقِ خدا جوق در جوق بارگاہِ عالی میں حاضری دیتی اور فیض یاب ہو کر جاتی۔ یہ عرصہ تقریباً 3 سے 5 سال پر محیط ہے۔ جسمانی بیماریوں والے لوگ اس قدر فیض یاب ہوئے کہ علاقے کے ڈاکٹروں نے حکومت سے اپنی مالی خستہ حالی کا رونا شروع کر دیا کہ لوگ تو شاہ صاحب کی کرامت سے ہر بیماری سے شفا یاب ہو رہے ہیں اور یہ کمال کا سیّد ہے کہ کسی سے کچھ لیتا بھی نہیں۔ ہمارے پاس مریض آتا ہی کوئی نہیں۔ لہٰذا اس کا تدارک کیا جائے کیونکہ مریض حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی فی سبیل اللہ دعا سے صحت یاب ہو جاتے ہیں۔

جمعہ، 15 اگست، 2014

پنجتن پاک علیہم السلام کی زیارت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

شاہ صاحب فارغ ہو کر باہر صحن میں بڑ کے درخت کے نیچے بیٹھ کر مراقبہ کرنے میں مصروف ہو گئے۔ چند ساعت کے بعد مشاہدہ ہوا کہ وہ پنجتن پاک علیہم السلام کے دربارِ عالیہ میں حاضر ہیں۔ دربار پاک کی ہیبت اور رعب کی تاب نہ لا سکے اور دروازے پر رُک گئے۔ اندر سے سرکار غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور کہا آئو بیٹا! ہم آپ کو پنجتن پاک علیہم السلام کی زیارت کراتے ہیں۔ آپ کا ہاتھ پکڑ کر لے گئے اور پنجتن پاک علیہم السلام کی بارگاہ میں پیش کر دیا۔ سیّد ظفریاب حسین نے حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کو اپنا یہ مشاہدہ ہم سب کی موجودگی میں بیان فرمایا اور کہا کہ ان کو تمام عمر یہ سعادت نصیب نہ ہوئی جو حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے چند لمحوں میں عطا فرما دی۔ حالانکہ بقول اُن کے‘ وہ اٹھارہ سال سے امام بارگاہ کی بطورِ متولی خدمت کر رہے تھے۔ ان کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مجھ پر تین کرم نوازیاں ہوئی ہیں۔ پہلی پنجتن پاک علیہم السلام کی زیارت‘ دوئم حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ کا نجیب الطرفین گیلانی سیّد ہونا اور تیسرے ان کا شاہ صاحب کو بیٹا کہہ کر ثابت کرنا کہ ظفر حسین شاہ صاحب بھی صحیح النسب سیّد ہیں۔ اس سے حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے کمالات کی تصدیق ہوتی ہے۔

جمعہ، 8 اگست، 2014

اہلِ تشیع کی تبدیلیٔ مسلک – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

شیعہ اپنے عقیدے کے اعتبار سے امام آخر الزماں علیہ السلام کے علاوہ کسی سے بیعت کرنے کے قائل نہیں۔ شیعہ حضرات صرف کسی مجتہد کی تقلید کر سکتے ہیں‘ بیعت نہیں کر سکتے۔ مگر میری سچی سرکار کا عارفانہ کلام سن کر لاہور کے بے شمار شیعہ حضرات آپ کے حلقۂ غلامی میں شامل ہو گئے۔ جن میں سیّد ظفریاب حسین متولی امام بارگاہ الف شاہ‘ سیّد ذوالفقار علی‘ شیعہ فرقے کے جیّد عالم اور ان کا سارا خاندان‘ سیّد احتشام الدین‘ شیعہ فرقے کے سیّد ناصر علی شاہ شمس رقم‘ سیّد آصف جاہ فلمسٹار‘ متولی پیر صابر شاہ‘ سیّد سیف علی‘ مدیر رسالہ الحرمت‘ سیّد حکیم مظفر علی شاہ‘ سیّد ارشد حسین گیلانی‘ حجرہ شاہ مقیم‘ لاہور کے حکیم حاذق‘ شیعہ عالم‘ اور دیگر حضرات شامل ہیں۔

جمعہ، 1 اگست، 2014

لوہا سونا بن گیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ایک مرتبہ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز‘ حسن ابدال تشریف لے گئے۔ وہاں آپ کا ایک سکھ دوست مقیم تھا۔ جب اس نے اپنی برادری کے لوگوں میں حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کا تعارف کروایا تو سینکڑوں لوگ دعا کے لیے آپ کے گرد جمع ہو گئے۔ آپ نے سب کی مشکل حل فرمائی۔ دعا سے سب مستفید ہوئے تو ایک غیر مسلم نے پوچھا کہ حضور‘ آپ کے فرمان کے مطابق قرآن میں سب کچھ ہے تو کیا لوہا سونا بن سکتا ہے؟ آپ نے اثبات میں اس کو جواب دیا۔ اس پر وہ لوہے کا ایک ٹکڑا اٹھا لایا۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے توجہ دی اور فرمایا کہ سونا ہو جا۔ اس پر وہ لوہے کا ٹکڑا سونا بن گیا۔ اس موقع پر آپ کی کرامت دیکھ کر پانچ صد سکھوں نے اسلام قبول کر لیا۔

آپ کا تصرف اتنا وسیع و ارفع تھا کہ ہر مذہب و ملت کے لوگوں نے آپ کے دست ِ حق پر اسلام قبول کیا۔ شیعہ‘ سنی‘ قادیانی‘ عیسائی‘ ہندو‘ سکھ‘ اہلِ حدیث کے مسلک کے ہزاروں لوگ آپ کے حلقہ بگوش ہوئے۔

جمعہ، 25 جولائی، 2014

غیر مسلموں کا قبولِ اسلام – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

آپ کے حلقۂ ارادت میں بے شمار غیر مسلم شامل ہیں۔ چند ایک کا ذکر کرتا ہوں۔ شیخ نیاز احمد مرحوم‘ ڈائریکٹر محکمہ زراعت‘ فیصل آباد۔ ایوب ریسرچ جن کا ہندو نام سوشیل کمار تھا۔ اقبال احمد جن کا پہلا نام اقبال سنگھ تھا۔ ان دونوں نے آپ کی بارگاہ میں امتحان میں کامیابی کی دعا کے لیے عرض کیا۔ ان کا ایک پرچہ خراب ہوا ہے۔ آپ نے ہنس کر فرمایا یہ کوئی مشکل کام نہیں کہ پانچ کا ہندسہ پیچھے سے آگے آ جائے۔ انہوں نے سنا اور چلے گئے۔ جب نتیجہ نکلا تو وہ دونوں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے ڈاکٹر احمد علی‘ جو ان کے پروفیسر تھے اور ان کے ہمراہ پہلے دربار شریف آئے تھے‘ کو پرچہ نکال کر تسلی کرانے کا کہا کہ پانچ کا ہندسہ کیونکر تبدیل ہوا۔ معائنہ کیا تو پتا چلا کہ پرچے کے اندر 25 نمبر لگے تھے مگر پرچوں کے باہر صفحے پر 52 نمبر درج ہیں۔ اس طرح دونوں صاحب کامیاب ہو گئے۔ حضور سرکارِ عالی کی یہ کرامت دیکھ کر دونوں نے اسلام قبول کر لیا اور آپ کے دست ِ حق پر بیعت بھی کر لی۔ نیاز احمد صاحب‘ فیصل آباد میں ڈائریکٹر سبزیات کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔

جمعہ، 18 جولائی، 2014

بحری جہاز کو ڈوبنے سے بچا لیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ایک روز حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی آستینوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔ حاضرین نے عرض کی کہ حضورِ پاک! بارش تو نہیں ہو رہی‘ یہ پانی کہاں سے آ گیا؟ حضورِ پاک نے فرمایا کہ میرے ایک عقیدت مند کا جہاز سمندر میں ڈوب رہا تھا۔ اس نے مجھے مدد کے لیے پکارا۔ میں اس کا جہاز دھکیل کر کنارے پر لگا کر آیا ہوں۔ یہ اسی سمندر کا پانی ہے جو آستینوں سے ٹپک رہا ہے۔

جمعہ، 11 جولائی، 2014

سدا سہاگن – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز جب اپر باڑیاں سے ملازمت ترک کر کے رخصت ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ حضور! ہمیں اپنا فیض بخش جائیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے اس درخت کو‘ جو جنگل میں ہماری عبادت گاہ کے قریب تھا، ہر مرض کے لیے شفایاب کر دیا ہے۔ اس کا ایک پتہ کھانے سے مریض شفایاب ہو جائے گا۔ حاضرین میں سے کسی نے کہا حضور! سردیوں میں اس کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔ اس پر آپ نے اپنی نگاہِ لطفِ کرم سے اس درخت کو سدا سہاگن بنا دیا۔ اب کسی موسم میں بھی اس کے پتے نہیں جھڑتے۔

جمعہ، 4 جولائی، 2014

ارواح کا راستہ مت روکو – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

آپ کسی شخص کو دروازے میں نہ بیٹھنے دیتے۔ فرماتے‘ ارواح کا راستہ مت روکو۔ باطنی روحیں انصرام و انتظام سے متعلق باطنی سلطنت ِ خداوندی کی ہدایت لینے آتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ حضور محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز فقر کی انتہائی منزل پر فائز ہونے کی وجہ سے تمام اکابرین پر حاکم تھے اور باطنی انتظام آپ کے سپرد تھا، جو اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔