پیر، 5 جنوری، 2015

مقدمہ – مصباح العرفان

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَيْرِ خَلْقِهٖ مُحَمَّدٍ الْاَمِيْنِ وَعَلٰى اٰلِهٖ وَاِتِّبَاعِهٖ اَجْمَعِيْنَ وَرَحْمَتُهُ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْنَا وَعَلَيْكُمُ الْمُؤْمِنِيْنَ مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِيْنَ سُبْحَانَ الَّذِيْ نَوَّرَ قُلُوْبَ الْعَارِفِيْنَ بِنُوْرِ مَعْرِفَتِهٖ وَفضل اَحْوَالِ الْمُحِبِّيْنَ بِكَمَالِ فَضْلِهٖ وَحِكْمَتِهٖ.
اللہ تعالیٰ  کا ارشاد پاک ہے۔
وَكُلًّا نَّقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْــۢــبَاۗءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهٖ فُؤَادَكَ  ۚ وَجَاۗءَكَ فِيْ هٰذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَّذِكْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ
(سورۃ ہود  آیت نمبر :120)
٭     ترجمہ: اے محبوب    باا!ہم گذشتہ انبیاء کے قصے آپﷺ سے اس غرض سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ کے قلب کوثابت قدمی حاصل ہو اور آپﷺ کے ذریعے سے سچائی اور نصیحت پہنچے اور مومنین کے لیے بھی نصیحت (ذکر)

جس طرح اللہ کریم نے اس آیۂ کریمہ کے ذریعے ہمیں یہ بات سمجھائی ہے کہ سابقہ انبیاء کرام کے قصّے یونہی بلا مقصد قرآنِ مجید جیسی اعلیٰ و ارفع ترین کتاب میں بیان نہیں کئے گئے بلکہ ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد تمہارے دلوں کو ثابت قدم رکھنا، سچائی اور نصیحت کو مومنین تک پہنچانا ہے‘اسی طرح اللہ والوں کی حکایا ت نیکو کاروں کی باتیں اوران کے احوال مریدین کی تربیت کا باعث بنتے ہیں ۔ ان کے دلوں میں نیکو کاروں کی محبت جڑ پکڑتی ہے اور انہیں مصائب و آلام میں رنج و مصیبت میں ثابت قدم رہنے کی ترغیب ملتی ہے۔
نبیٔ رحمت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔
عِنْدَ ذِكْرِ الصَّالِحِيْنَ تَتَنَزَّلُ الرَّحْمَةُ
٭    ترجمہ:    نیک لوگوں کا ذکر ہو تو رحمت ِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے‘‘۔ یعنی ذکر تحریری طور پر کیا جا رہا ہو، زبانی طور پر کیا جا رہا ہو یا تحریری ذکر پڑھا جا رہا ہو ، رحمت ِ الٰہی کا نزول ہو گا۔

ایک بزرگ حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ بزرگانِ دین کی حکایات کے مطالعہ کے بغیر دین کی سلامتی کو ناممکن قرار دیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
٭    ’’جب تک کچھ حصہ قرآنِ پاک کا اور کچھ حصہ اپنے بزرگوں کی حکایات کا روزانہ نہ پڑھو گے ایمان سلامت رہ ہی نہیں سکتا۔‘‘

ان کے اس قول کے بعد حضرت ابو یوسف ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ سے لوگوں نے سوال کیا کہ جب معتبر اکابرینِ دین اور مشائخ عظام اس دنیا سے رخصت ہو جائیں تو پھر ہم اپنے ایمان سلامت رکھنے کے لیے کیا کریں۔ انہوں نے فرمایا:
٭    ’’ان کا کلام اور اقوال پڑھو۔ اگر ان کی مجلس میں بیٹھنے والے تمہیں مل جائیں تو ان سے ان کی باتیں سنو۔ تمہارا ایمان سلامت رہ جائے گا۔‘‘

حضرت شیخ ابوبکر جنید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
٭     تم پر لازم ہے کہ ایسے شخص سے محبت رکھو جو حق تعالیٰ سے محبت رکھتا ہو۔ اگر یہ نہیں ہو سکتا ہو تو ان کے علوم و معارف کا مطالعہ ضرور کرو تاکہ تم اس کی برکت سے اللہ والوں سے محبت کرنے لگو ۔ اور اللہ والو ں کی محبت رفتہ رفتہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی محبت تک لے جائے گی۔

حضرت فرید الدین عطاررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
٭    قرآن و حدیث کے بعد تیسرے درجے پر اہل اللہ کے اقوال ہیں اور سب حکایات میں سے عمدہ حکایات اولیاء اللہ کی ہیں۔ ان کے مطالعہ سے دلوں میں اولیاء اللہ سے نسبت پیدا کرنے کی امنگ پیدا ہوتی ہے اور یہ نسبت ہی تو ہے جو بندے کو بشری اندھیروں سے نکال کر ضیائے انسانی میں لے جاتی ہے۔

حضرت عبداللہ انصاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے آخری وقت میں یہ نصیحت فرمائی کہ
٭     اولیا ء اللہ کی باتوں کو غور سے سنا کرو۔ اور یاد رکھا کرو اگر یہ نہ ہو سکے تو ان کے نام ضرور یاد رکھا کرو اور ان ناموں کا ہی ذکر کرتے رہا کرو تاکہ ان ناموں کی برکت سے ہی فیض یاب ہو سکو۔

حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ جب مرشدوصال کر جائیں تو پھر ہم کیا کریں۔
٭     انہوں نے فرمایاکہ ان کے حالات زندگی کا ایک ورق روزانہ پڑھو ۔ ان کے احوال اور مقالات کا بغور مطالعہ کیا کرو تو انشاء اللہ فلاح پاجائو گے اور کبھی گمراہ نہ ہوگے۔

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
٭     مشائخ کی حکایتیں لشکران الٰہی میں سے ہیں ۔ جس سے دلوں کو فتوحِ الٰہی حاصل ہوتی ہے۔ بزرگان ِدین کو جو نذرنیاز پیش کی جاتی ہے‘ عربی میں اسے ’ فتوح ‘  کہا جاتاہے۔ وہ فرما رہے ہیں کہ بزرگانِ دین کی باتیں کرنے والوں کو اللہ د کی طرف سے  ’’فتوح‘‘ عطا کی جاتی ہے۔ سبحان اللہ ، سبحان اللہ۔
ان کے ارشاد کردہ الفاظ اس طرح ہیں۔
حِكَايَاتُ الْمِشَائِخِ جُنْدٌ  مِّنْ جُنُوْدِ اللهِ تَعَالٰى لِلْقُلُوْبِ يَعِيْنُهَا لِفُتُوْحِ اللهِ
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ بھی قو ل ہے کہ
٭    اللہ تعالیٰ جسے نیکی عطا کرتا ہے اسے اپنے برگزیدہ بندوں کی خدمت میں بھیجتا ہے او ر دنیاوی دل لگی سے باز کرکے اللہ والوں کے کاموں میں لگا دیتا ہے۔

ایک بزرگ سے پوچھا گیا کہ جب ایسا وقت آئے کہ ہم مرشد کو ظاہری آنکھ سے نہ دیکھ سکیں یعنی جب وہ وصال کر جائیں تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ انہوں نے جواب دیا کہ
٭  ہر روز ان کا کلام پڑھ کر اس سے فیض حاصل کر لیا کرو کیونکہ جب آفتاب غروب ہو جائے تو چراغ سے ہی روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ گویا بزرگوں کے اقوال، ان کے واقعات و حکایات ہمارے لئے چراغ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

میرا عقیدہ ہے کہ بزرگان دین کی برکت سے ہی آسمانوں سے پانی برستا ہے۔ ان کے قدموں کی بدولت زمین کو تروتازگی اور رعنائی حاصل ہوتی ہے۔ ان کے نعلین پاسے اٹھنے والی گرد کے نور سے پھلوں میں مٹھاس اور پھولوں میں نکہت و تازگی ہے۔ یہ عالمِ رنگ و بو ان کے تارِنفس سے آباد ہیں۔ یہ پہاڑ ان کی برکت سے قائم اور دریاجاری و ساری ہیں ۔ کائناتِ ارضی و سماوی انہی کے فیض سے قائم و دائم ہے۔
اس کتاب کو لکھنے کی غرض و غایت یہی ہے کہ یہ غلامان ِاولیا ء او ر طالبان ِراہ مستقیم کے لیے قندیل کا کام دے ۔ اس کتاب میں آفتاب ِہدایت ،ماہتاب ِولایت ، ہادیٔ اکبر، محسنِ اعظم ، شافعِ مریداں، بندہ پرور ، عاصی نواز ، سرکار ِعالیؒ حضرت السیّداحمد حسین گیلانی محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی بابرکت زندگی کے حالات و اقعات اور تعلیماتِ عالیہ کا ذکر ہے۔ آپ ؒ نے اللہ جَلَّ شانہ کے احکامات اور نبی پاک ﷺ کی سنت ِمطہرہ کی اس قدر اتباع فرمائی کہ اللہ کریم نے خوش ہو کر انہیں اپنا محبوب بنا لیا اور آپؒ  ’محبوبِ ذات ‘ کے لقب سے سرفراز ہوئے۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کا ہر ولی ہی محبوب ہوتا ہے۔ لیکن ان اولیاء اللہ میں سے کچھ اولیاء ایسے بھی گذرے ہیں جن کے محبوب ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ اور یہ انتہائی فضیلت والے اولیاء ہیں۔ ان میں سے ایک سیّدِ نا حضرت عبد القادر جیلانی ہیںجو’ محبوب ِسبحانی‘ کے لقب سے سرفراز کئے گئے۔دوسرے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی ذات والا صفات ہے۔ جو  ’ محبوب الٰہی‘  کے لقب سے سرفراز ہوئے ۔ ان خوش نصیب محبوب اولیاء ِکرام کی صف میں تیسری شخصیت حضرت سیّد احمد حسین گیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو ’محبوبِ ذات‘ کے لقب سے اولیائے کرام میں ممتازو نمایاں ہوئے۔
بحمدِ اللہِ مجھے حضرت ’’محبوبِ ذات‘‘ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ خونی رشتہ رکھنے کے علاوہ ان کے روحانی سلسلہ میں غلامی کا  شرف بھی حاصل ہے۔اپنے انہی رشتوں کی طرف سے مجھ پر عائد ذمہ داری نبھانے کے لیے  اس کتاب کی صورت میں ایک حقیر سی کوشش کی ہے۔
گر قبول افتدز ہے عز و شرف
حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز ایک ایسی شفیق ہستی تھے جنہوں نے اپنے معتقدین و زائرین کو عشقِ مصطفیٰ ﷺ اور اتباعِ شریعت کی تلقین کے سوا اور کوئی سبق کبھی دیا ہی نہیں تھا۔ ان کی نظر ایسی کیمیا اثر تھی کہ ان کی صحبت اختیار کرنے والوں کے قلوب ’’نُورٌعلیٰ نور‘‘ ہو جاتے اور نفس کی کدورتوں سے پاک ہوکر ’ماسوااللہ ‘ سے فارغ ہو جاتے ۔
مجھے امید ہے کہ طالبانِ راہ حق اس کتاب سے ضرور مستفیض ہوں گے ۔ میں آخر میں اپنے اُن احباب کا انتہائی شکر گزار ہوں جنہوں نے ا س کتاب کے سلسلے میں میری ہر طرح سے مدد فرمائی۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اس دنیا میں بھی کامیابی و کامرانی عطا فرمائے اور آخرت میں بھی ان کے درجات بلندہوں۔

میں اپنے ان احباب کا بھی انتہائی شکر گزار ہوں جن کی مسلسل تحریک کے باعث میں نے اس کام کا بیڑا اٹھایا۔اور اللہ عزوجل نے حضرت محبوبِ سبحانی، شہبازِ لامکانی‘  قندیل نورانی‘ حضرت سیّدعبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے طفیل اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ میں اپنی کم علمی اور کم مائیگی کی وجہ سے حضرت محبوبِ ذات رحمۃ اللہ علیہ جیسی کامل و اکمل شخصیت کا تعارف کروانے کا حق پوری طرح ادا نہ کر سکا۔ شاید کسی شاعر نے میری ترجمانی کے لیے یہ مصرعہ کہا تھا:
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
سیّد محمد مبارک علی شاہ گیلانی
سجادہ نشین درگاہِ محبوبِ ذاتؒ، منڈیر شریف سیّداں (سیالکوٹ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے