جمعہ، 9 جنوری، 2015

پیشِ لفظ – مصباح العرفان

بسم الله الرحمٰن الرحيم
نحمده ونصلي على رسوله الكريم.
یہ دنیا، یہ زمانہ سب فنا کے گھاٹ اتر جانے والے ہیں ۔ بہت سے لوگوں نے دیکھا ہو گا کہ سمندر میں ایک لہر اٹھتی ہے دوسری لہر آکر اسے مٹا کر خود چھا جاتی ہے۔پھر تیسری لہر آتی ہے وہ ان دونوں کو مٹا دیتی ہے، پھر چوتھی ، پھر پانچویں۔ اس طرح لہروں کے بننے اور مٹنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ گویا زمانہ ہر نقش کو مٹانے اور نئے نقش و نگار قائم کرنے کے لیے قدرت کی تجدّدِ امثال کی روش کا پا بند ہے۔
پھر ’’بقا ‘‘ ملے تو کیسے ملے؟بقا کا راز ’’باقی‘‘ رہنے والی ذات کے ساتھ منسلک ہونے میں ہے۔ جو باقی کے ساتھ ہو رہا وہ بقا پا گیا،جو فانی چیزوں کو چھوڑ کر باقی رہنے والی ذات میں گم ہو گیا۔لوحِ جہاں پر صرف اسی کے نقش کو دوام ہے ۔ دوسرے سب نقوش حرفِ غلط کی طرح مٹ جاتے ہیں۔
دنیا میں کتنے احمد حسین نام والے لوگ آئے ہوں گے لیکن لوحِ جہاں پرکسی کا نام موجود نہیں؛ بس آئے اور چلے گئے۔لیکن منڈیر شریف سیّد اں کے ماہی سیّد احمد حسین گیلانی ؒاس فانی دنیا میں تشریف لائے اور اس شان سے واصل با اللہ ہوئے کہ ’’ہمیشگی‘‘ پائی۔ وہ لوحِ جہاں پر اپنا ایسا  پختہ نقش چھوڑ گئے کہ قیامت تک کی آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ کا کام دے گا۔
سیّد احمد حسین گیلانی ؒمادیت کے اس گئے گزرے دور میں سخاوت، خدمت اور استقامت جیسے محاسِن و فضائل کی وجہ سے ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔آپ نے ربّ العزت کے حضور عاجزی و انکساری، عشقِ مصطفیٰ ﷺ اور اتباعِ سنّت کے ساتھ ساتھ، خوش خلقی، مہمان نوازی، تواضع، تقویٰ، وَرَع، صدق و صفا، غائت درجۂ شفقت اور حقوق العباد جیسے فرائض کی ادائیگی کو سختی سے اپنایا اور بقا کا راز پا یا۔ آپؒ کی ذات زمان و مکان کی بندشوں سے آزاد ہو چکی تھی۔ اب آپؒ زمانے کی ہر کروٹ کے ساتھ زندہ رہیں گے۔
ہر دور کی نوجوان نسل پر یہ قرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے اکابرین اور بزرگان دین کی یادوں کو محفوظ کر کے آئندہ نسلوں تک پہنچانے کا اہتمام کرے۔ بھائی جان قبلہ سیّد محمد مبارک علی شاہ صاحب نے اپنے ذمے اس قرض کو اتارنے کی ایک بھر پور اور قابلِ تحسین کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا کرے ۔ اس کتاب میں’’حضرت محبوبِ ذاتؒ ‘‘ کے تمام اوصافِ حمیدہ کو عوام الناس کے سامنے لانے کی بھر پور سعی کی گئی ہے۔
بستی منڈیر شریف سیّداں کا انتہائی خوبصورت انداز میں تعارف کروانے سے لے کر حضرت محبوبِ ذاتؒ کے حالاتِ زندگی، سفر اور ملازمت کے واقعات، تعلیمات، کرامات غرضیکہ ان کی مبارک زندگی کے ہر گوشہ اور ہر پہلو پر سَیر حاصل روشنی ڈالی گئی ہے۔
اس کتاب میں کئی مقامات ایسے ہیں جہاں صاحبِ کتاب نے بڑے گہرے اَسرار و رموز بیان کیے ہیںکہ پڑھنے والا قاری ہر مرتبہ جھوم اٹھے گا۔لیکن ایک ایسے مقام پر جہاں میں خود بھی جھوم اٹھا، اس کا تذکرہ نہ کرنا اس کتاب سے انصاف نہ ہوگا۔
فی زمانہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ مرشدِ کریم کے وصال کے بعد بعض مریدین آستانہ کا رخ کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں یا مرشدِ کریم کے جگر گوشوں سے اگرملنا بھی پڑ جائے تو اس میں گرم جوشی نہیں ہوتی۔ لیکن صاحبِ کتاب نے حضرت محبوبِ ذاتؒ کی مبارک زندگی کے شب و روز کی خوشہ چینی کرتے ہوئے ایک ایسا موتی نکال کے پیش کیا ہے کہ جسے پڑھ کر آدمی کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔
صاحب کتاب مقامِ محبوبیت کا تعارف کروانے کے بعد ’’جشن محبوبیت‘‘ پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچتے ہیں جہاں لوگ حضرت محبوبِ ذاتؒ کو اعلانِ محبوبیت پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ حضرت محبوبِ ذاتؒ کے مرشدِ کریم کے جگر گوشے بھی آپ کو مبارک باد دینے کے لئے حاضر ہیں۔ حضرت محبوبِ ذاتؒ نے اپنے مرشد کے جگر گوشوں کے ساتھ جو حُسنِ سلوک کیا ۔اسے پڑھ کر میں بھی جھوم اٹھا۔ آپ نے اس واقعہ کو تحریر کرتے ہوئے لکھا۔
’’اس موقع پر سرکارِ عالیؒ کے مرشد ِ کریم ابو المظفّر، حضرت سیّد فتح علی شہباز گیلانیؒ کے سجادہ نشین حضرت سیّد میر عبد الغنیؒ اپنے برادر عزیز حضرت سیّد میر عبد ا لغفورؒ کے ہمراہ سرکارِ عالی کو ’’محبوبِ ذاتؒ‘‘ کے درجۂ اولیٰ و اعلیٰ پر فائز ہونے کی خوشی میں خود چل کر مبارک باد کے لئے تشریف لائے۔ سرکارِ عالیؒ نے اپنے مرشدِ کریم کی اولاد کی عزت و تکریم اپنے مرشد ہی کی طرح کی اور انہیں ایک بھینس دو جوڑے کپڑے اور پانچ ہزار روپے نقد (جو آج کل کے پانچ لاکھ سے بھی زیادہ ہیں) بطورِ نیاز پیش کر کے انتہائی عزت و احترام سے رخصت کیا‘‘۔
اگرچہ صاحبِ تصنیف کی عمر تقریباً گیارہ بارہ سال ہی تھی جب سرکارِ عالیؒ وصال فرما گئے تھے اور وہ سرکارِ عالی کے تمام معمولات سے کافی آگاہ تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے والد محترم و مرشدِ کریم پیکرِ صدق و صفا، ماہ تاباں، قدوۃ السالکین، زبدۃ العارفین، حجۃ الکاملین، سلطان المشائخ، سخی کامل، عکس محبوبِ ذاتؒ، السیّد افضال احمد حسین گیلانی محبوبِ خاصِ حضرت محبوبِ ذات قدس سرّہ العزیز سے حضرت محبوبِ ذاتؒ کی زندگی کے ہر پہلو کو سمجھا اور سوالات کے ذریعے کرید کرید کر سرکارِ عالیؒ کی سیرت سے واقفیت حاصل کی۔ اپنے چچا  صاحبان سے معلومات حاصل کیں۔ پھر سرکارِ عالیؒ کے قریبی خلفاء حضرات سے سرکارؒ کی زندگی کے واقعات لیے۔ اس طرح انہوں نے حضرت سرکارِ عالیؒ کی ولادت سے لے کر وصال تک کے ہر لمحے کو صفحۂ قرطاس پر بکھیر کر قارئین کے سامنے پیش فرمایاہے۔
ان کی یہ کاوش لائقِ صد تحسین و آفرین ہے۔ اس سے حضرت محبوبِ ذات قدس سرّۃ العزیز سے محبت کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ اس کتاب میں صاحبِ تصنیف نے بہت سے نئے رنگ بکھیرے ہیں۔ حضرت سرکارِ عالیؒ کی بچپن میں ’’بالیوں‘‘ والی کرامت کو ایک نئے انداز میں پیش کرکے قارئین کے دل موہ لئے ہیں۔
کافی شاپ لٹانے کے واقعات، گوالیار کے راجہ کی حاضری، موٹر سائیکل پر سوار ہو کر مدد کے لیے پہنچنا، دعا فی سبیل اللہ، سیاحت کے دلچسپ واقعات، حسن ابدال، انبالہ شریف اور بٹالہ شریف کے واقعات، آپ کا سفرِ چلّہ کشی، بیعت کرتے وقت کی عطائیں، الغرض حضور سرکارِ عالیؒ کی زندگی کے ہر پہلو کو منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ مقامِ غوثیت بیان کرتے وقت انہوں نے غوثیت کو خوب سمجھایا ہے اور محبوبیت کا درجہ عطا ہونے کا ذکرِ خیر کرنے سے پہلے یہ بھی اچھی طرح سمجھایا ہے کہ محبوبیت ہے کیا چیز۔ اس سے قاری کو مقام غوثیت و محبوبیت سمجھنے میں کافی مدد ملے گی۔
سرکارِ عالیؒ  کو سرکارِ مدینہﷺ کی طرف سے ایک جبّہ شریف اور خط موصول ہوا۔
صاحبِ تصنیف نے اس کو بڑے منفرد عنوانات کے تحت پیش کیا ہے۔ ایک عنوان ہے ’’جبّہ ء جاناں‘‘  دوسرا عنوان ’’پیغامِ جاناں‘‘ ہے۔ صاحبِ تصنیف نے حضرت سرکارِ عالیؒ کی کرامات کو بھی بڑے موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ کرامات شروع کرنے سے قبل ’’کراماتِ اولیاء‘‘ کے عنوان سے جو تحریر لکھی ہے۔ وہ بھی پڑھنے کی چیز ہے۔ یہ تحریر قاری کی ذہنی سطح فطری طور پر بہت بلند کر دیتی ہے اور کرامات کو سمجھنے میں بڑی آسانی ہو جاتی ہے۔
اس کتاب میں ایک انتہائی منفرد اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سرکارِ عالیؒ کے خلفاء حضرات کی فہرست دی گئی ہے۔ سرکارِ عالیؒ کے ان غلاموں کا بھی حق ہے کہ ذِکر محبوبِ ذاتؒ کے ساتھ ساتھ ان کا بھی ذکر کیا جائے کہ انہوں نے بھی ’’باقی‘‘ سے ناطہ جوڑا اور سرکارِ عالیؒ کی خدمت میں رہے۔ آپؒ نے ان کی خدمات سے خوش ہو کر انہیں اپنی خلافت سے نوازا۔ ان کا ذکر کر کے بھی مصنف نے ایک بڑا کام کیا ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
میری نظر میں یہ کتاب طالبینِ راہِ حق کی مکمل طور پر رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ میری دعا ہے کہ مصنف کی اس کاوش کو اللہ اور اس کا حبیب ﷺ اپنی بارگاہِ اقدس میں قبول و منظور فرمائے اور انہیں اس طرح کی مزید کتابیں لکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ ثم  آمین۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
سیّد شاہ کمال محی الدّین گیلانی
چیف ایڈیٹر ماہنامہ سوہنے مہربان
منڈیر سیّداں    ( سیالکوٹ)
           

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے