جمعہ، 31 اکتوبر، 2014

گھر واپسی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

خواجہ صلاح الدین (اچار مربّا مرچنٹ‘ اکبری منڈی) کو حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے اپنے لطف ِ کریمانہ و شاہانہ سے اس قدر نوازا تھا کہ وہ اکثر جذب کی حالت میں رہتا۔ اسی کے زیر اثر وہ گھر سے بھاگ کر جہلم ٹمبر مارکیٹ میں جا کر تین روپے روزانہ مزدوری پر ملازم ہو گیا حالانکہ وہ بی۔اے تک تعلیم یافتہ تھا۔ اس کی ماں نے بہت تلاش کیا مگر کہیں اس کا پتا نہ چل سکا۔

جمعہ، 24 اکتوبر، 2014

بیرونِ ملک بھاگنے سے روک دیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

فقیر محمد‘ ساکن لاہور‘ لنڈا بازار میں آٹے چینی کا ڈپو چلاتا تھا۔ ایک روز اس کا لڑکا سات صد روپے لے کر گھر سے غائب ہو گیا۔ فقیر محمد نے اپنے سب رشتے داروں کے ہاں اس کو تلاش کیا مگر نہ مل سکا۔ بسیار کوشش کے بعد مایوس ہو کر دربار شریف حاضر ہوا اور دعا کے لیے عرض پیش کی۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے فرمایا کہ تمہارا لڑکا اپنے ایک دوست سے ساز باز کر کے بیرونِ ملک جا رہا ہے۔ اگر تم آج دعا کے لیے نہ آتے تو کل تمہارا لڑکا ہمیشہ کے لیے ملک سے باہر چلا جاتا۔

جمعہ، 17 اکتوبر، 2014

حادثہ کے باوجود محفوظ – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

خلیفہ شیر محمد صاحب نے بیان کیا کہ وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ لندن ہیتھرو ائرپورٹ سے بذریعہ کار‘ نوٹنگم اپنی بیٹی اور داماد کے پاس جا رہے تھے۔ گاڑی ان کا بھانجا ڈرائیو کر رہا تھا۔ مرسیڈیز نئی گاڑی نوے میل کی سپیڈ سے تیز رفتار لین میں ہائی وے پر جا رہی تھی کہ اچانک پچھلا دایاں ٹائر ایک بہت زور دار دھماکے سے پھٹ گیا، جس کی آواز اس قدر بلند تھی کہ ان سب کو یہ گمان ہوا کہ کسی نے بم مار دیا ہے۔ جب گاڑی بے قابو ہو کر بائیں طرف دوسری دو متوازی لین کی طرف تیزی کے ساتھ مڑی تو ڈرائیور گھبراہٹ میں خدا تعالیٰ کو زور زور سے پکار کر چیخنے چلانے لگا۔

جمعہ، 10 اکتوبر، 2014

امریکہ سے واپس منگوا دیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

جھنگ ضلع کے میاں بیوی حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض پرداز ہوئے کہ ان کا لڑکا گھر سے چلا گیا ہے۔ بسیار تلاش اور کوشش کے اس کا کہیں کوئی سراغ نہیں مل سکا اور دعا کے لیے عرض کرتے ہوئے اپنی پریشانیوں کا اظہار کیا۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز چند ساعت خاموش رہے۔ پھر فرمایا کہ تمہارا لڑکا امریکہ میں ہے اور وہاں ایک کارخانے میں ملازم ہے۔ ہم نے کارخانے کے منیجر کو ہدایت کی ہے کہ وہ تمہارے لڑکے کو‘ جو غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہو گیا ہے‘ اس کو قانون کے تحت جائز قرار دے کر‘ اس کے واپسی کے کاغذات مکمل کروا کر‘ اس کو رخصت پر پاکستان بھیجے۔ فرمایا تمہارا لڑکا پندرہ دن کے بعد تمہارے پاس آ جائے گا۔ ایسا ہی ہوا۔ اس کے والدین اس کو ہمراہ لے کر سلام پیش کرنے اور شکریہ ادا کرنے کے لیے دربار شریف حاضر ہوئے تو لڑکے نے حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کو پہچان کر عرض کیا کہ حضور پاک خود بنفسِ نفیس کارخانے میں آئے تھے اور منیجر کو میری موجودگی میں ہدایات کی تھیں۔

جمعہ، 3 اکتوبر، 2014

کُھلّا سائیں – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

سائیں کھلا، ساکن فیصل آباد‘ اپنی ملازمت سے رخصت حاصل کر کے موضع کورووال اپنے سسرال سے ملاقات کے لیے آیا ہوا تھا۔ رخصت ختم ہونے پر سسرال والوں نے واپس نہ جانے دیا اور کورووال میں ہی کوئی کام کرنے کا مشورہ دیا۔ لہٰذا سائیں کھلّا نے سبزی فروخت کرنے کا دھندا شروع کر دیا۔ ایک روز سبزی لے کر ساہو والا اسٹیشن سے اتر کر سیدھا دربار شریف پہنچا اور آواز لگائی: تازہ سبزی لے لو۔ حُسنِ اتفاق سے حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز اس وقت اپنے کمرے میں تشریف فرما تھے۔ حضور پاک قدس سرہٗ العزیز نے کھلا سائیں سے سبزی لے کر اندر بھیج دی اور اپنی جیب سے دو روپے کا نیا نوٹ نکال کر دیا۔ سائیں کھلا نے عرض کیا حضور پاک! یہ رقم کم ہے۔ حضور پاک قدس سرہٗ العزیز نے فرمایا کہ ہم نے تجھے جنت کا ٹکٹ دیا ہے اور ساتھ ہی تجھے خرید لیا ہے یعنی اپنا بنا لیا ہے۔ ان دو نعمتوں سے سرفرازی کے بعد اب تمہیں کس چیز کی کمی رہ گئی ہے؟ کھلا سائیں عنایات پر بے حد مشکور اور خوش ہوا۔ چند دنوں بعد دوبارہ حاضر ہو کر اس نے حضور پاک قدس سرہٗ العزیز کی غلامی کا شرف حاصل کر لیا۔

جمعہ، 26 ستمبر، 2014

پھانسی سے بری کر دیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

نور بلوچ نامی شخص ساکن جھنگ سے ایک شخص قتل ہو گیا۔ مقدمے کی سماعت ماتحت عدالتوں سے اس کے خلاف ہوتی ہوئی عدالت ِ عالیہ میں پہنچ گئی۔ فیصلے کے لیے ایک ہفتہ بعد کی تاریخ مقرر ہوئی۔ نور کی والدہ کو مقدمے کی سماعت اور حالت سے یقین ہو چکا تھا کہ اس کا بیٹا یقیناً پھانسی چڑھ جائے گا۔ وہ پریشانی کی حالت میں خلیفہ منور شاہ صاحب کے پاس دعا کرانے کی غرض سے حاضر ہوئی۔ چونکہ معاملہ بہت گھمبیر تھا اور خلیفہ کی پہنچ اور طاقت سے باہر تھا، اس لیے انہوں نے نور کی والدہ کو دربار شریف ‘حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی بارگاہ میں بھیج دیا۔ اس خاتون نے بارگاہِ عالیہ میں رو رو کر التجا کی کہ میرے بیٹے کو پھانسی سے بچا لیں۔ حضور پاک قدس سرہٗ العزیز کو اس کی حالت ِ زار پر ترس آ گیا۔ آپ چند ساعت استغراق میں خاموش رہے۔ پھر اپنی انگشت ِ شہادت سے اپنی مسند پر پڑے ہوئے گاؤ تکیے پر دو مرتبہ لکھا کہ ’’اللہ نے نور کو بری کر دیا‘‘، ’’اللہ نے نور کو بری کر دیا‘‘ اور تیسری مرتبہ لکھا ’’ہم نے نور کو بری کر دیا‘‘۔ مائی دعا کے بعد واپس چلی گئی۔ جب مقدمہ فیصلہ کے لیے جج صاحب کے روبرو پیش ہوا تو جج صاحب نے مثل پر مندرجہ بالا کلمات تین سطور میں تحریر کردہ موجود پائے۔ جج صاحب وہ کلمات پڑھ کر حیرت زدہ ہو گئے اور دل میں خیال کیا کہ پہلے یہ کلمات مثل پر تو نہ تھے۔ جج صاحب نے فیصلہ لکھنے کے لیے مثل کا معائنہ کیا تھا۔ انہوں نے اس سے اخذ کیا کہ یہ کوئی مشیت ِ ایزدی ہے‘ یقیناً کوئی راز کی بات ہو گی۔ ورنہ نور کے خلاف جرم تو ثابت ہو چکا تھا۔ اس کو کسی غیبی طاقت نے بری فرما دیا ہے۔ اس لیے میں نور کو کیونکر سزا دے سکتا ہوں؟ اس نے ان حالات کے تحت نور کو بری کر دیا۔ اس کی والدہ چند دن بعد بیٹے کو ہمراہ لے کر دربار شریف شکریہ ادا کرنے حاضر ہوئی اور ساری کیفیت بیان کی۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے ایک ناممکن بات کو ممکن کر دیا۔

جمعہ، 19 ستمبر، 2014

سکھ کا بیٹا زندہ کر دیا – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ساہو والہ کے قریب ایک گاؤں سے ایک سکھ اور اس کی بیوی دربار شریف حاضر ہو کر عرض پرداز ہوئے کہ ان کا اکلوتا بیٹا فوت ہو گیا ہے۔ وہ اس کو کمرے میں بند کر کے باہر سے قفل لگا آئے ہیں اور التجا کی کہ حضور! جب تک بچہ زندہ نہ ہو گا، ہم یہاں سے نہ جائیں گے۔ وہ زار و قطار روتے اور چیخ و پکار کرتے تھے۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کو ان کی حالت ِ زار پر رحم آ گیا۔ آپ نے ہاتھ میں پانی لے کر آسمان کی طرف اچھالا۔ پانی کے قطرے فضا میں گم ہو گئے‘ واپس زمین پر نہ گرے۔ فرمایا: جاؤ! تمہارا بیٹا زندہ ہے۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو مردہ لڑکے کو زندہ پایا اور پانی کے وہی قطرے اس کے چہرے اور پیشانی پر موجود تھے۔