جمعہ، 23 نومبر، 2012

معمولات اور طریقہ بیعت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

 

اگر کوئی شخص مرید ہونے کی خواہش ظاہر کرتا تو پہلے آپ اس کے دل کی توجہ خاص سے بارگاہِ ایزدی میں پیش کر کے منزہ کرتے‘ جس کے نتیجہ میں دل منور اور ذاکر ہو جاتا۔ دل واصل باللہ ہو جاتا۔ جب وہ شخص ان نوازشات کا حامل ہو کر اس کی تصدیق کرتا تو آپ اس کو بیعت فرماتے اور اس کے سابقہ گناہوں کی معافی کے لئے ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا فرماتے۔
آپ پنج گانہ نماز کی ادائیگی ہمیشہ پابندی سے فرماتے۔ نمازِ مغرب کی جماعت خود کرواتے۔ مریدین کے علاوہ اُمت ِ مسلمہ کے لئے خصوصی دعا فرماتے۔ اس کے بعد آپؒ اپنے وظائف پڑھنے میں مصروف ہو جاتے‘ جو نیم شب تک جاری رہتے۔ وظائف سے فراغت پا کر آپؒ مریدین کی مجلس میں تشریف لے آتے اور رات کا باقی حصہ رشد و ہدایت اور راہنمائی میں صرف فرماتے۔ مسائل کی عقدہ کشائی فرماتے‘ حاضرین کی مشکلات کے حل کے لئے دعا فرماتے‘ مریدین کی باطنی راہنمائی فرماتے ہوئے ان کو تصوّف و معرفت کے حقائق اور رموز سے آگاہ بھی فرماتے۔ آپ کے خطبات‘ ارشادات اور مواعظ سنہری حروف میں لکھنے کے لائق ہیں۔ آپ قرآنِ پاک کی آیاتِ مبارکہ کی جو تفسیر بیان فرماتے وہ بہت دقیق اور پراسرار ہوتی‘ علمائے ظاہر اور واعظین سے مختلف ہوتی۔ آپ اکثر فرماتے کہ قرآنِ پاک کے سِرِّی معانی بھی ہیں۔ ان باطنی معنوں کو سمجھے بغیر علمِ قرآن سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ راقم الحروف کو ان اَسرار و رموز کے سمجھنے اور سننے کی سعادت برابر حاصل رہی۔ فجر کی نماز سے پہلے آپ گھر تشریف لے جاتے اور رات کا رکھا ہوا باسی کھانا (تنوری روٹی اور سالن) بڑے شوق سے تناول فرماتے اور اپنے معمول کے وظائف کے بعد ایک گھنٹے کے لئے استراحت فرماتے۔ استراحت کے بعد تازہ وضو فرماتے‘ ایک پیالی چائے نوش فرماتے اور پھر معمولاتِ زندگی میں مصروف ہو جاتے۔ سارا دن فیض رسانی کا سلسلہ جاری رہتا۔ اسی دوران ظہر کے وقت دربار شریف میں آئے ہوئے ہزاروں عقیدت مندوں کے لئے فرداً فرداً دعا فرماتے۔

گویا آپؒ کے شب و روز خدمت اور عبادت سے معمور رہے۔ آپ ؒکے مواعظِ حسنہ اور خطبات کا محور ہمیشہ توحید اور صلوٰۃ ہوتا۔ آپؒ قانونِ شریعت کی سختی سے پابندی فرماتے اور مریدین و تابعین کو پابندی کرنے کی ہدایت فرماتے۔ آپؒ نے اپنی تمام زندگی قرآنِ پاک کے احکامات اور اُسوۂ حسنہ کے اصولوں کے مطابق گذاری۔ آپ کے چچا سیّد حضرت امداد اللہ حسین‘ ساکن علی منزل‘ وسن پورہ‘ نے تمام برادری کے رو برو کہا تھا کہ آپ نے اپنی تمام عمر عین قرآنِ پاک کے احکامات کے مطابق گذاری۔ انہوں نے انگریزی زبان میں فرمایا۔

“Syed Ahmad Hussain’s whole life was based on the Holy Quran. He led his life according to the laws of Allah and Shirah/Sunna”

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے معمولات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ حضورِ پاک روزانہ شب و روز مریدین کی راہنمائی‘ پختگی ٔ ایمان‘ تعلیم و تربیت اور ان کے جذبۂ عشق و محبت میں اضافہ کے لئے جو ہدایات فرماتے‘ حاصلِ عرفان ہوتیں۔ آپ سرکار قدس سرہٗ العزیز مریدین کو شریعت کے قوانین اور اسلامی معاشرتی اور تمدنی طریقوں سے آگاہ فرماتے۔ دین کے ہر پہلو پر وضاحت سے روشنی ڈالتے کہ مریدوں کے دل تبلیغ حق سے پر نور ہو جاتے۔ مریدوں کو روشنی حاصل ہو جاتی‘ انہیں لاتعداد کتابیں پڑھنے کی ضرورت نہ رہتی کیونکہ ہر مرید کے پاس اتنے مالی ذرائع نہیں ہوتے کہ وہ قیمتی کتب خرید سکے۔ ویسے بھی اکثر مریدین اَن پڑھ ہوتے ہیں‘ کتب سے استفادہ کر ہی نہیں سکتے۔ اس لئے ایسے لوگوں کے لئے آپؒ کے مواعظ و خطبات اور تقاریر راہنمائی کا کام دیتیں۔ یہ فیضان آخر دم تک جاری و ساری رہا، جس کے اثرات اب بھی قائم ہیں۔
حقیقت ِ حال یہ ہے کہ جب تک مرشد ِ کامل خود علم و عمل کا پیکر نہ ہو‘ مرید اس ذات سے ہر گز ہر گز اکتسابِ فیض نہیں کر سکتا۔ اگر مرشد کامل ہو اور علم کا حاصل ہو تو پھر مرید خود سنت ِ شیخ پر چلتا ہوا مرید سے مراد بن جاتا ہے۔ حضور سرکارِ عالی کی ذاتِ والا صفات پیر کامل کی ذات تھی جو ہر لحاظ سے مرید کی راہنمائی کا باعث تھی۔ حضور کے فیض یافتہ اب بھی موجود ہیں‘ جو ان کی عظمت ِ روحانی کے شعائر ہیں۔
علمائے ظاہر اپنی لا علمی کی وجہ سے اپنے خطبات‘ تقاریر یا وعظوں میں ان امور کو بیان نہیں کرتے ۔یہ ایسے نایاب ارشادات ہیں جن کا علم ہونے پر عقیدت مندوں کو سینکڑوں دینی کتب‘ احادیث کی کتب اور تفاسیر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ حضور سرکارِ عالی نے قرآنِ پاک کی تفسیر اور احادیث ِ قدسی اور اسلامی روایات کو نہایت آسان اور عام فہم الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ مریدین کی آگاہی کے لئے ان ارشادات‘ فرمودات‘ خطبات اور مواعظ کے خلاصے کو اختصار کے ساتھ اس تصنیف کی زینت بنا دیا ہے تاکہ ان سب مریدین کو جنہیں حضور سرکار عالی کی ظاہری صحبت نصیب نہیں ہوتی یا آپ  کے ارشادات سننے سےمحروم ہیں‘ انہیں آپ قدس سرہٗ العزیز کی تعلیمات سے آگاہی حاصل ہو اور وہ بھی صحبت ِ پیر کا لطف اٹھا سکیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے