جمعہ، 7 دسمبر، 2012

توحید – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

باب چہارم  (4)
توحید اور فقر

 

توحید

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے معمولات میں یہ بات بھی تھی کہ حضور پاک روازنہ شب و روز مریدین کی رہنمائی‘ پختگی ٔ ایمان‘ تعلیم و تربیت اور ان کے جذبۂ عشق و محبت میں اضافہ کے لئے جو ہدایات فرماتے‘ حاصل عرفان ہوتیں۔ آپ سرکار  مریدین کو شریعت کے قوانین اور اسلامی معاشی اور تمدنی طریقوں سے آگاہ فرماتے۔ دین کے پہلو پر وضاحت سے روشنی ڈالتے کہ مریدوں کے دل تبلیغ حق سے پر نور ہو جاتے۔

 

وحدۃ الوجود

حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کے خطبات اور مواعظ کا نکتۂ خاص مبنی بر توحید ہوتا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس سے والہانہ پیار تھا۔ ہمہ وقت ذاتِ اقدس کے تصور سے سرشار رہتے۔ وَحدۃ الوجود نظریہ کے قائل تھے۔ نظریۂ وحدۃ الوجود یہ ہے کہ جو کچھ موجود ہے‘ سب اللہ تعالیٰ ہی کا ہے یعنی ہر سو اللہ ہی اللہ ہے اور تصوف میں اسے ہمہ اوست بھی کہتے ہیں۔ احدیت‘ وحدیت اور کثرت اس کی اشکال ہیں۔ یہ بھی فرماتے کہ کل کائنات مظہر ذات الٰہی ہے یعنی ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ گویا توحید کی اصل حقیقت نظریۂ وحدۃ الوجود ہے۔ قرآن میں هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ  (سورة الحديد، آية ۳) سے وحدۃ الوجود کی تصدیق ہوتی ہے۔ اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (سورة النور، آية ۳۵) سے بھی وحدۃ الوجود کی تائید ہوتی ہے۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے شعری کلام سے بھی اسی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے۔

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز فرماتے توحید یہ ہے کہ کثرت سمٹ جائے اور وحدت پھیل جائے۔ قرآنی آیاتِ مندرجہ ذیل اس کی تصدیق کرتی ہیں۔

وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ     (سورة الحديد، آیت ۴)

وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ      (سورة الذاريات٫ آیت ۲۱)

وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ      (سورة ق، آیت ۱۶)

فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ                 (سورة البقرة، آیت ۱۱۵)

وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى ۚ             (سورة الانفال، آیت ۱۷)

وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ

(سورة الحجر، آيت ۲۹) (سورة ص، آيت ۷۲)

اِنِّىْٓ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ                (سورة القصص،آیت ۳۰)

 

 

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے سجدہ اپنے نور کو کروایا آدم کے قلب کو سجدہ نہ ہوا۔ مولانا رومی  فرماتے ہیں۔

گر نہ بودے نورِ حق اندر وجود
آب و گل را کے بود ملکِ سجود

 

اسی طرح کوہِ طور پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؈ کو فرمایا کہ یہ آگ نہیں‘ میں اللہ ہوں‘ سب جہانوں کا پالنے والا۔ اللہ تعالیٰ کے نور نے درخت کو گھیر رکھا تھا۔ اس نور سے آواز آ رہی تھی  اِنِّىْٓ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ؀موسیٰ تم سجدہ کرو۔ پس سجدہ اللہ کے نور کو ہوا، درخت کو سجدہ نہ ہوا۔ پس ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ ظاہر میں موجود ہے۔ حضور فرماتے یہی وحدۃ الوجود ہے جس کی تصدیق میں آپ کے اشعار بھی اس راز کے رازدار ہیں۔ فرماتے ہیں۔

کہیں ذات احد انہد ہے
کہیں وحدت اندر احمد ہے
احدیت اندر احد ہو کے
وحدیت اندر کثرت ہو کے
آپ ہی احمد آپ محمد
مست دیوانہ میں ہی ہوں
کہیں مخفی ہوں کہیں ظاہر ہوں
سب اسم صفاتی میں ہی ہوں

حضور سرکارِ عالی  اپنے خطبات میں فرماتے۔
کون و مکان کو اپنے قلب سے اس طرح نکال پھینکو کہ خدا کے سوا کچھ باقی نہ رہ جائے۔ اپنے تمام احوال کو اللہ ہی کی طرف منسوب کرو۔ حالت ِ مصائب میں خدا کے سوا کسی غیر سے امداد طلب نہ کرو اللہ کی حکمت اور مصلحت میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ کرو۔ قلب سے تمام مذموم ارادے اس طرح معدوم کرو کہ صرف خدا کا ارادہ باقی رہ جائے۔ پھر بندہ خود ہی خدا تعالیٰ کا فعل اور ارادہ بن جائے۔ آپ سرکار عالی  حدیث نبوی بھی ارشاد فرماتے کہ

الانسان سري وانا سره
ترجمہ۔ انسان میرا راز ہے اور میں اس کا راز ہوں

 

اک الف توں دو تن چار ہوئے پھر لکھ کروڑ ہزار ہوئے
فیر اس توں بے شمار ہوئے اس الف دا نکتہ نیارا اے

 

بندہ جو کچھ دیکھتا ہے اپنے محبوب‘ اللہ کی صفات دیکھتا ہے۔ پس یہ مخلوق کا دیکھنا  نہیں بلکہ خالق کا دیکھنا ہے یعنی  فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا  اور  وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ کی رمز ہو کر  وَنَحْنُ  اَقْرَبُ  کی قربت سے مکین اندر مکان ہے۔

بدوں تحقیق میرے کونین اوصافِ آدم سے
مکر ّم ہو نہیں سکتا بجز میرے عیاں ہوں میں
ذاتِ احد ہے ثبوت اور لا الہ ہے ما سوا
پھر نہ جانے کون ہے یہ دوسرا اس میں سوا
ہے خودی سے جلوہ گر ذاتِ احد بے گماں
پھر نفی ہے کس خودی کی وہم باطل بے نشاں
جلوے سارے ہیں اسی کے آپ ہی ہے وہ عیاں
ظاہر و باطن وہی ہے وہ ہے اول‘ آخری
وہ زمین و آسماں زیر نہاں فوق و بری
آں چناں در ایں چناں دادِ چناں وہم چناں
بے گماں وہ بے گماں وہ بے گماں وہ بے گماں
ہم چوں اول ہم چوں آخر ہم چوں ظاہر ہم چوں باطن
عاجزی و برتری میں ہے وہ خود ہی کن فکاں

 

 

حضورِ سرکار عالی قدس سرہٗ العزیز نے فرمایا حضرت عبد القدوس گنگوہی وحدۃ الوجود کے قائل تھے۔ ان کا ایک شعر اس دلیل کی تصدیق کرتا ہے۔

آستین بر روکشیدہ ہم چوں استاد آمدی
با خودی و خود تماشہ سوئے بازار آمدی

 

بقا در بقا و ذاتِ اللہ کے بیان میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان شعروں میں

گھٹ میں ہوں پرگھٹ بھی ہوں اور گھٹ بھی اپنا میں ہی ہوں
ہر شے کے اندر شے کے ساتھ جو ہے وہ میں ہی ہوں
کن کہا اور کن ہوا کن سے میں اور میں ہی کن ہوں
کن سے میں ہی ظاہر ہوں اور باطن اس کا میں ہی ہوں
کہیں ذات احد انہد ہوں کہیں وحدت اندر احمد ہوں
کہیں مستور ظاہر ہوں سب اسم صفاتی میں ہی ہوں
بھیس سے میں اور بھید بھی میں بھیس کے اندر بھید بھی میں
خود بہروپ بھر کے پورا شیدا اس کا میں ہی ہوں
آپ ہی احمدؐ آپ محمدؐ آپ ہی آدمؑ آپ ہی حواؑ
اپنے اندر آپ سمایا معنی اس کا میں ہی ہوں

 

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا ہے۔
هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ            (سورة الحديد، آية ۳)

حضور سرکار عالی قدس سرہٗ العزیز کا فرمان ہے۔
اللہ ظاہر وِچ شانِ محمدی اے
آیا پہن لباس محمدی اے
گھونگٹ میم دا جس نوں آکھدے نے
ایہو رب دا بھیس محمدی اے

فَثَمَّ وَجْهُ اللّه دیکھو قرآن اندر
چہرہ یار دا حسنِ محمدی اے
پردے میم دے وچ ایہو ہویا باطن
ظاہر شکل مشہود محمدی اے
اول عین سے عین میں عین ظاہر
باطن عین دا عین محمدی اے
نور اوّل تے آخر ہے عین اس دا
ظاہر باطن وِچ نورِ محمدی اے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے