جمعہ، 21 فروری، 2014

زکوٰۃ – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

زکوٰۃ کے ذریعے مال کی حفاظت کرو۔ صدقے کے ذریعے مریضوں کا علاج کرو۔ دعا کے واسطے سے بلا کو دور کرو۔ کم بولنا حکمت ہے۔ کم کھانا صحت ہے۔ کم سونا عبادت ہے۔ کم ملنا عافیت ہے۔ خاموشی اور تنہائی‘ درویشی میں کامیابی کے بنیادی اصول ہیں۔ اے ایمان والو! کوئی چیز‘ تمہارے مال‘ تمہاری اولاد‘ تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دے اور جو ایسا کرے وہی نقصان میں ہے۔

 

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ۭاَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ       ۝

(پارہ7 ،سورۃ انعام‘ آیت 50)

ترجمہ۔    فرما دیجئے! کیا برابر ہو سکتے ہیں اندھا اور دیکھتا؟ تم دھیان کیوں نہیں کرتے؟

 

رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ

(سورۃ المجادلہ‘ آیت ۲۲)

ترجمہ۔    اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی۔ یہ اللہ کی جماعت ہے۔ اللہ ہی کی جماعت کامیاب ہے۔ یہی لوگ جن کو سورۃ الحمد شریف میں  انعمت علیھم   فرمایا۔ ’’جن پر تیرا انعام ہوا‘‘۔ جو جماعت اللہ کی ہے‘ وہی جماعت رسول اللہ ﷺ کی ہے۔ پس ظاہر ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی جماعت ہی ناجی ہے۔ باقی سب جماعتیں ناری ہیں۔ شاہ عبد الحق دہلوی کا فتویٰ ہے کہ قرآنِ پاک کے ایک حرف سے انحراف پر کفر عائد ہوتا ہے چہ جائیکہ پوری آیت سے انحراف کیا جائے۔

 

وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ         ؀

(پارہ 18، سورۃ النور‘ آیت 56)

ترجمہ۔    اور رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری کرو‘ اس امید پر کہ تم پر رحم کیا جاوے۔

 

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ

(سورۃ آلِ عمران، آیت۳۱)

ترجمہ۔    محبوب فرما دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابع فرمانی کرو‘ اللہ تعالیٰ تمہیں دوست بنا لے گا۔

علمائے ظاہر، علمِ لدنیٰ سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے اندھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ ہزار قسم کی مخلوقات کو چھ دن میں تخلیق فرمانے کے بعد اس نور کو ایک نورانی قندیل میں رکھ کر عرش پر آویزاں کر دیا۔ اس کا ذکر قرآنِ پاک میں اس طرح ہے۔

 

اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ ۭ اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ

(سورۃ النور‘ آیت 35)

ترجمہ۔    اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ (نور) ہے‘ وہ چراغ ایک فانوس میں ہے۔

 

حدیث:    اَنَا مِنْ نُورِ الله وَ الخلقُ كُلُّھُمْ مِن نورِيْ

ترجمہ۔    میں اللہ کے نور سے پیدا ہوا ہوں اور میرے نور سے ساری خلقت۔

اسی نکتہ کو بیان فرماتے ہوئے تخت ِ بلقیس لانے والا واقعہ بھی دھرایا۔ قبلہ سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے فرمایا: (اوّل) اولیاء عظام کے قدموں کے نیچے زمین سکڑتی ہے۔ (دوئم) اللہ تعالیٰ جب کسی پر رحمت فرما دیتے ہیں تو اس کی کسی معمولی غلطی پر رحمت واپس نہیں لیتے بلکہ اس کی باطنی کیفیت پر عارضی طور پر حجاب کر دیتے ہیں۔ اس لیے شیخ صنعان ولایت سے معطل کیے گئے تھے‘ یعنی معزول۔ ان کے باطنی حال پر عارضی پردہ ڈال دیا گیا تھا اور معافی کے بعد انہیں منصب ِ ولایت پر بحال کر دیا گیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے