جمعہ، 14 مارچ، 2014

تصوّف کے دو اہم واقعات – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے تصوّف کے دو اہم واقعات بیان فرمائے:

(1)    حضرت موسیٰ ؈ کا گزر ایک جنگل سے ہوا۔ آپ ؈ کوہِ طور کی طرف بڑھ رہے تھے۔ راستے میں ایک چرواہا ملا جو اللہ تعالیٰ کی اس طرح تعریف کر رہا تھا کہ میرے اللہ میاں! اگر تو مجھے مل جائے تو میں تجھے بکریوں کے دودھ سے نہلاؤں‘ تیرے بال دودھ سے دھوؤں‘ پھر سرمہ ڈالوں اور کنگھی کروں۔ حضرت موسیٰ ؈ نے سنا تو قریب جا کر اس کو ایسا کرنے سے منع فرمایا اور بتایا کہ اللہ کا کوئی وجود نہیں‘ تو ایسا کہہ کر گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس پر وہ چرواہا نادم ہوا اور گناہ کی معافی کے لیے حضرت موسیٰ ؈ سے کوہِ طور پر جا کر اللہ سے معافی دلانے کے لیے دعا کرنے کی استدعا کی۔ جب حضرت موسیٰ ؈ کوہِ طور پر پہنچے تو ارشادِ باری ہوا کہ جسے شاعر نے یوں کہا

تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی

اے موسیٰ! تجھے لوگوں کو مجھ سے ملانے کے لیے بھیجا گیا ہے‘ نہ کہ لوگوں کو مجھ سے علیحدہ کرنے لیے۔ واپس جاؤ اور اُس چرواہے سے کہو کہ وہی عمل کرے جو پہلے ستر سال سے کر رہا تھا۔ مجھے اس کی یہی ادا پسند ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر حالت میں ذکر کرو‘ خواہ طریقہ کوئی بھی ہو۔ بس یادِ اللہ ضروری ہے۔


(2)    اللہ تعالیٰ کا ایک عاشق پہاڑ کی غار میں عرصہ سے عبادت میں مشغول تھا۔ ایک مرتبہ کسی چیز کی خواہش ہوئی۔ اس کے حصول کے لیے باہر نکلا۔ ابھی قدم اٹھایا تھا کہ آواز آئی ابھی تک غیر اللہ کی طلب رکھتے ہو! تم کیسے عاشق ہو؟ اس مردِ خدا نے اپنے ما سوا اللہ کے ارادے کی تلافی کے لیے اپنا وہ قدم‘ جو باہر نکلا تھا، کاٹ دیا۔ پائوں ٹانگ سے علیحدہ ہو گیا۔ بزرگ نے رونا شروع کر دیا، اس خیال سے کہ آخرت میں عاشق لوگ مجھے اپنی صف میں کھڑا نہ ہونے دیں گے اور کہیں گے کہ تو عاشق ہی نہیں۔ اگر ہوتا تو تیرے دل میں غیر اللہ شے کا خیال کیوں آتا؟ لہٰذا پیچھے ہٹ جاؤ۔ یہ رونا اللہ نے منظور فرمایا اور اس کا پاؤں خود بخود جڑ گیا۔ کچھ ولی اللہ اس بزرگ سے ملنے آئے۔ اس کی روداد سن کر کہنے لگے کہ اب جب تیرا پاؤں جڑ گیا ہے تو اب کس لیے روتا ہے؟ جواباً کہا کہ روتا اس لیے ہوں کہ اللہ کا عاشق ہوتے ہوئے غیر اللہ کا ارادہ میرے دل میں کیوں پیدا ہوا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے