جمعہ، 4 اپریل، 2014

غلبۂ عشقِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جب تک مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رہتے‘ ننگے پاؤں پھرتے۔ اس تعظیم کے تحت پاؤں میں جوتا نہ پہنتے کہ معلوم نہیں اس سر زمین پر آقائے نامدار رحمۃ للعالمین ﷺ کے قدم مبارک کہاں کہاں لگے ہوں گے۔ اور میں اپنے جوتوں سے اس جگہ کی بے ادبی کا مرتکب نہ ہو جاؤں۔

حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کی توبہ کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ آپ ایک روز منیٰ میں چلے جا رہے تھے۔ راستے میں ایک کاغذ پڑا پایا۔ اس کو آپ نے بہ سبب ِ تعظیم اٹھا لیا۔ اس پر لکھا تھا ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘۔ آپ نے اسے معطر کر کے کسی پاک جگہ رکھ دیا۔ اسی رات آپ نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے بشر! تو نے میرے نام کی عزت و تکریم کی ہے‘ میں بھی تیرے نام کو دنیا و آخرت میں پاک و محترم کروں گا۔ اسی دن سے آپ نے توبہ کی اور زہد و ریاضت کا طریقہ اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ کے غلبۂ عشق میں کوئی چیز پاؤں میں اس لیے نہ پہنتے کہ اللہ کے فرش کو اپنے پاؤں سے کیوں لتاڑوں۔

حضرت ابو محمد عبد اللہ بن فضل بلخی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ وہ اہلِ خراسان اور اہلِ عراق کے محبوب و پسندیدہ مشائخ میں سے ہوئے ہیں۔ ان سے روایت ہے کہ مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو جنگلوں میں اور بیابانوں کے خطرات و مشکلات طے کرتا ہوا خدا کے گھر یعنی خانہ کعبہ تک پہنچتا ہے مگر وہ نفس کے جنگلوں اور معصیّت کے راستوں کو عبور کر کے اپنے قلب تک رسائی کیوں حاصل نہیں کر پاتا، جو اس کے مالک و پروردگار کا مقدس مسکن ہے؟ یعنی دل خدا کی معرفت کا گھر ہے۔ وہ فضیلت میں کعبہ سے بھی بڑھا ہوا ہے‘ جس کی جانب اللہ تعالیٰ کے عشق اور نظر کا رجوع رہتا ہے۔ اور جس مرکز پر اللہ تعالیٰ کا عشق اور رجوع ہو‘ بندے کی مراد وہیں سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے اور تصوّف کے گہرے نکات ہیں‘ جنہیں صاحبِ معرفت لوگ ہی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا کہ وہ سچے عاشقِ رسول ﷺ تھے۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ جنگ ِ اُحد میں حضور پاک ﷺ کا دانت مبارک شہید ہو گیا ہے تو اپنے پورے بتیس دانت اس شک میں نکال دیئے کہ ان کو پوری طرح معلوم نہ ہو سکا کہ کون سا دانت شہید ہوا ہے۔ یہ ان کے عشق کی انتہا تھی۔ حضور پاک ﷺ کی ظاہری زیارت سے دو وجوہات کی بنا پر محروم رہے۔ اوّل والدہ کے حکم اور خدمت کا بہت پاس تھا۔ دوئم سامنے آتے تو عین ممکن تھا کہ جھلک کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو جاتے۔


 


 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے