جمعہ، 11 اپریل، 2014

حکایات – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے ارشاد و وعظ کا ہر لفظ نصیحت آمیز‘ عبرتناک اور طالبین کے لیے راہنمائی کا باعث ہوتا۔ حضور پاک قدس سرہٗ العزیز نے بادشاہ نادر شاہ اور محمود غزنوی کی تین حکایات بیان فرمائیں‘ جن میں غلام کا اپنے مالک کے حکم پر عمل پیرا ہونا اور ولی کی طاقت کا اظہار فرمانا ہے۔ آپ سرکار نے ایسی حکایات بیان کر کے توحید کے اہم نکات کی نشان دہی فرماتے ہوئے مندرجہ ذیل مثالیں بیان فرمائیں۔

  1. محمود غزنوی نے ایک مرتبہ اپنی رعایا کے لیے مینا بازار کا اہتمام کیا جس میں ضرورت کی ہر شے رکھی گئی تھی۔ کئی روز تک مینا بازار تفریح کا باعث بنا رہا۔ بادشاہ سلامت بھی مینا بازار کا معائنہ کرتا رہا۔ ایک روز بادشاہ نے حکم دیا کہ مینا بازار کو لوٹ لو۔ ہر شخص اپنی پسند کی چیز لوٹتا۔ بادشاہ یہ منظر دیکھ کر بہت محظوظ ہوتا۔ اُس کی ایک لونڈی نے مینا بازار سے کوئی چیز نہ اٹھائی۔ بادشاہ جدھر جاتا، وہ بادشاہ کا تعاقب کرتی۔ کسی نے لونڈی کو مشورہ دیا کہ وہ بھی کوئی من پسند چیز لے لے مگر لونڈی نے جواباً کہا کہ اس نے مینا بازار کے مالک کو لوٹ لیا ہے‘ جس کے حکم سے اسے سینکڑوں مینا بازار لگ سکتے ہیں۔ مال کا حصول بڑی سعادت نہیں۔ اگر مالک وفاداری پر خوش ہو جائے تو غلام کو دنیا کی ہر چیز میسر آ جاتی ہے۔
  2. محمود غزنوی‘ ایاز کو بہت پسند کرتا تھا۔ دوسرے وزیروں پر اس کو ہر معاملے میں ترجیح دیتا، جس کی وجہ سے دوسرے وزیر حسد کرنے لگے۔ محمود غزنوی نے ایک روز جعلی نشے کی کیفیت طاری کر کے ہر وزیر کو باری باری کہا کہ وہ بیش قیمت ہیرا توڑ دے مگر سب وزیروں نے ایسا کرنے سے معذرت کی اور کہا: بادشاہ سلامت! یہ اتنا قیمتی ہیرا ہے کہ آپ کی ساری سلطنت میں اس کا بدل نہیں۔ ان کو گمان ہوا کہ بادشاہ نشے کی حالت میں ہیرا ضائع کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔ جب وہ ہیرا ایاز کو توڑنے کے لیے دیا گیا تو اس نے بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں ہیرا توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، جس پر سب وزیر چِلّا اُٹھے کہ او ظالم! تم نے یہ کیا ظلم ڈھایا ہے؟ ایسا بیش بہا نایاب ہیرا اب کہاں سے دستیاب ہو گا؟ جس پر ایاز نے جواباً کہا : میں نے کوئی جرم نہیں کیا بلکہ میں نے اپنے مالک کے حکم کی تعمیل کی ہے، حکم عدولی نہیں کی۔ بلکہ حکم کی تعمیل کر کے وفاداری کی ہے۔ میرے مالک کے حکم سے ایسے کئی ہیرے دستیاب ہو سکتے ہیں مگر مالک کے حکم کی نافرمانی کا تدارک نہیں ہو سکے گا۔ ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ پر ہیرے کو ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ اس پر بادشاہ بہت خوش ہوا اور ایاز کی وفاداری پر اس کو بیش بہا انعامات سے نوازا۔ اسی لیے حضور قدس سرہٗ العزیز نے فرمایا:
    اس عشق و محبت میں ہستی کو فنا کر دے
    محمود پھر بنے گا، پہلے ایاز ہو جا
  3. ایاز نے ایک صندوقچہ میں اپنی غلامی کے پارچہ جات اور ٹوٹا ہوا جوتا رکھا ہوا تھا۔ وہ روزانہ صندوقچہ کھول کر ان اشیاء کی طرف اشارہ کر کے اپنے نفس سے مخاطب ہوتا کہ تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور بادشاہ کی عنایت سے وزیر بن گیا ہے مگر تیری اصل حقیقت ایک چرواہے کی ہے۔ اس لیے اے نفس! اپنی حقیقت کو نہ بھول جانا۔ اس طرح وہ نفس کو موجودہ منصب پر مغرور ہونے سے منع کرتا رہتا۔ دوسرے وزیروں کو شک گذرا کہ ایاز نے بادشاہی خزانے سے زر و مال چوری کر کے صندوقچہ میں بند کر رکھا ہے‘ جس کی موجودگی کی تصدیق کے لیے وہ روزانہ صندوقچے کا معائنہ کرتا ہے۔ انہوں نے بادشاہ سے اس امر کی شکایت کر دی۔ بادشاہ نے سب وزیروں کی موجودگی میں ایاز کو صندوقچہ کھولنے کا حکم دیا۔ صندوقچہ کھولا گیا تو اس میں غلامی کے لباس کے علاوہ اور کوئی شے نہ نکلی۔ بادشاہ نے دریافت کیا: اے ایاز! تم نے ایسا کیوں کیا؟ ایاز نے جواباً عرض کیا کہ بادشاہ سلامت! میری اصل حقیقت ایک چرواہے کی ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم اور آپ کی عنایات سے وزیر بن گیا ہوں۔ اس لیے صندقچہ کھول کر ہر روز اپنے نفس سے مخاطب ہو کر کہتا ہوں کہ اے ایاز! تیری حقیقت یہ ہے۔ موجودہ منصب پر مغرور ہو کر اپنی حقیقت نہ بھول جانا۔ اس لیے کہ یہ منصب‘ یہ وزارت در حقیقت کچھ نہیں ہے۔ ’’یہ عبرت کی جا ہے‘ تماشہ نہیں ہے‘‘۔ اس پر وزراء اپنی حرکت پر بہت نادم ہوئے اور ایاز کے اس فعل سے عبرت حاصل کی۔ فرمانِ سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز ہے کہ نفس کو ملیا میٹ کر کے ہی قربِ الٰہی نصیب ہوتا ہے۔
  4. نادر شاہ نے دہلی پر یلغار کی اور افواج کے جوانوں کو لوٹ مار کی اجازت دے دی۔ ایک سپاہی لوٹ کے دوران ایک گھر میں ایک عورت کو اکیلی پا کر اسے اغوا کر کے اپنے ہمراہ لے گیا۔ عورت بے بس تھی‘ رہائی کے لیے کچھ نہ کر سکی۔ گھر واپس پہنچ کر اس نے عورت کی بے بسی کے پیشِ نظر نکاح کی تمنا کا اظہار کیا۔ عورت نے کہا کہ وہ کسی کی منکوحہ ہے۔ نکاح پر نکاح نہیں ہو سکتا۔ اس لیے تم مجھے ایک سال کی مہلت دو۔ اگر میرا خاوند مجھے حاصل کرنے میں ناکام رہا تو میں تمہاری۔ میں کہاں جا سکتی ہوں؟ دونوں کے ما بین ایک سال کا معاہدہ ہو گیا اور دونوں بہن بھائی کی حیثیت سے گذر اوقات کرتے رہے۔ دونوں نوجوانوں نے ایک جگہ اکٹھے‘ معاہدے کے مطابق‘ بھائی اور بہن کی حیثیت سے پورا ایک سال گذارا۔ اس زمانے کے ایک سپاہی کے ایمان کی پختگی کا یہ مظہر خوفِ خدا اور معاہدہ کی پاسداری کی دلیل ہے۔ یہی تقویٰ ہے۔ اس ایک واقعہ سے ہر مسلمان مرد اور عورت کو اپنے ایمان کی پختگی‘ وعدہ کی پاسداری اور خوفِ خدا (اللہ دیکھ رہا ہے) کا سبق سیکھنا چاہیے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے