جمعہ، 13 اپریل، 2012

ہدیۂ تہنیت۔ شکریہ کے چند الفاظ–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ہدیہ تہنیت

 

سیّدی و مرشدی حضرت سیّد افضال احمد حسین دامت برکاتہم العالیہ نے "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" تصنیف کر کے سلسلۂ عالیہ قادریہ احمد حسینیہ کے وابستگان پر احسانِ عظیم فرمایا ہے کہ اس تصنیف لطیف میں "حضرت محبوبِ ذات" کے بارے میں تمام معلومات شرح وبسط کے ساتھ درج فرما دی ہیں اور اس میں کوئی پہلو تشنہ نہیں رہنے دیا۔ میرے نزدیک "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" شیخ طریقت و شریعت‘ واقف ِ حقیقت حضرت قبلہ سیّد افضال احمد حسین دامت برکاتہم العالیہ کی ایک "روحانی تخلیق" ہے۔ اس سے سلسلہ کے لوگوں کو یقیناً صحیح راہنمائی حاصل ہو گی۔ رشد و ہدایت کے سلسلہ میں اس روحانی تخلیق سے نہ صرف عام ارادتمند مستفید ہو گا بلکہ علماء و مشائخ عظام بھی اس سے استفادہ کر سکیں گے۔ میں اس تخلیق پر اپنے پیر طریقت و مرشد ِ کامل قبلہ سیّد افضال احمد حسین شاہ صاحب مدظلہ العالی کودل کی گہرائیوں سے ہدیہ تہنیت پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ہم مریدین پر احسانِ عظیم فرما کر اس کتاب کو مکمل فرمایا۔

خلیفہ ایم۔ ایم۔ صلاح الدین‘ فیصل آباد

شکریہ کے چند الفاظ

 

بندئہ ناچیز اللہ ربُّ العزت کا شکر گذار ہے کہ اس نے اسے "ملفوظاتِ محبوبِ ذات" کے لئے کچھ عرض کرنے کی سعادت عطا فرمائی۔ یہ کتاب حسن و کردارِ "محبوبِ ذات" کی آئینہ دار ہے اور اسے سینہ قرطاس پر نقش کرانے کے لئے آپ یعنی حضرت "محبوبِ ذات" نے دستگیرِ مریداں، راہنمائے ظاہر و باطن، راہبر دین و دنیا، منبع ولادت و سخاوت، صاحب عرفان، پیر کامل، دلبندِ "محبوبِ ذات" مولا و مرشدی جناب سیّد افضال احمد حسین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ کو ہی افضلیت عطا فرمائی۔ واللہ یہ بے سبب نہ تھا، آخر مسند پاک انہیں عطا کی گئی تھی۔ پھر کیسے ممکن تھا کہ کمالات و برکاتِ مسند سے نہ نوازے جاتے۔ آپ یقیناً پَرتو ِ محبوبِ ذات ہیں۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشند خدائے بخشندہ

اس کتاب کے مطالعہ کے بعد اور شرفِ غلامی کے ناطے یہی درس ملا کہ سب سے بڑی عبادت مخلوقِ خدا کی خدمت ہے اور سب سے بڑا جہاد اپنی رضا کو خدا کے تحت رکھنا ہے۔ یہی سبق حضور سرور کونین ﷺ نے اپنی صحبت، اپنی عبادت، اپنی جلوت، اپنی خلوت، اپنی سخاوت اپنی ریاضت، اپنی قناعت، اپنے علم، اپنے حلم، اپنے صبر اور اپنے سلوک میں عملی مظاہر کر کے دیا۔ پھر یہ سبق محبوبین نے ورثہ میں پایا اور مخلوقِ خدا تک پہنچا کر اپنے آخری سانس تک خدا کی رضا پر لبیک کہا۔ مجھے ظاہری دیدار حاصل نہ ہو سکا کیونکہ غلامی کا شرف 1979-80ء؁ میں حاصل ہوا۔ جبکہ حضرت "محبوبِ ذات" 1961ء؁ میں واصل ذات ہوئے۔ لیکن غلامی کے بعد حضرت "محبوبِ ذات" جب بھی کرم فرمائیں ملاقات اور گفتگو کا شرف حاصل ہوتا رہتا ہے اور انشاء اللہ ہوتا رہے گا۔ سو یہ بات کسی شبہ کے بغیر ثابت ہے کہ حضور کا ظاہری اور باطنی فیض ابھی تک جاری و ساری ہے۔

ایسی عظیم ہستی کے شب و روز جہاں تک ممکن ہو سکا اس کتاب میں درج کئے گئے ہیں جو عشق والوں کے لئے خصوصی طور پر جبکہ اُمّتِ مسلمہ کے لئے عمومی طور پر مشعلِ راہ ہیں۔ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ حلفاً عرض کرتا ہوں کہ حضرت نے لا تعداد کافروں کو مسلمان کیا اور بے شمار مسلمانوں کو مومن کے مقام تک پہنچایا اور پہنچا رہے ہیں۔

اوپر کے چند کلمات اس بات کے متقاضی ہیں کہ بندئہ ناچیز، مرشد دوراں، راہبر اَسرارِ خفی و جلی، اعلیٰ حضرت جناب سیّد افضال احمد حسین شاہ صاحب مدظلہ العالی کا تہہ دل سے شکر گذار ہے کہ انہوں نے ایک ایسی مستند تحریر عطا فرمائی ہے جو طالبانِ ذات کے لئے مشعل راہ ہے۔ اللہ رب العزت انہیں اجر ِ عظیم عطا فرمائیں، صحتِ کاملہ عاجلہ عطا ہو اور ان کا سایہ ہم غلاموں کے سروں پر سدا قائم رہے۔                  (آمین)

ہم غلاموں کو توفیق عطا ہو کہ ہم "حضرت محبوبِ ذات" کے نقش قدم پر چل کر دائمی حیات پائیں فیض کا یہ سمندر یعنی درگاہ "حضرت محبوبِ ذات" سدا سلامت رہے اور ماننے والے اس سمندر میں غوطہ زن ہو کر فیض کے انمول موتی پاتے رہیں جو میرے مرشد پاک کی اک نگاہ کا ثمر ہے۔

شکر گذار

ناچیز غلام

خلیفہ عبد الرحمٰن جامی

فیصل آباد

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے