منگل، 23 جولائی، 2013

نورانیتِ مصطفیٰ ﷺ قرآن کی روشنی میں – قسط دوم

ازقلم: ڈاکٹر عباس علی قادری

ماہنامہ سوہنے مہربان ماہِ شعبان المعظم 1434ھ

    رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس نور ہے ۔اس شمارے میں نورانیتِ مصطفیٰ ﷺ کو قرآن کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔

قسط اوّل پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں۔

حوالہ رقم 3

    قرآن پاک میں نورانیتِ مصطفی  ﷺ کے متعلق ایک جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا        ؀   وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا        ؀        سورۃ االاحزاب آیت45,46

    ترجمہ۔اے غیب کی خبریں بتانے والے نبیﷺبے شک ہم نے تجھے بھیجا حاضروناظر بنا کر اور خوشخبری دینے والااور ڈر سنانے والااور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والااور نور بانٹنے والاآفتا ب بنا کر۔

    عربی لغت میں سراج سے مراد سورج ہے اور منیر ا سے مراد نور بانٹنے والا،یا نور تقسیم کرنے والا،جو لوگ سِرَاجًا مُّنِیْرًا  کا ترجمہ کرتے ہیں روشن آفتاب وہ صحیح نہیں  ہے کیونکہ عربی میں روشن کے لیے لفظ منور استعمال ہو تا ہے جبکہ منیرسے مراد نور تقسیم کرنے والاکےہیں۔

    اگر ہم قرآن پاک کے الفاظ سِرَاجًا مُّنِیْرًا کی گہرائی میںجاکر دیکھیں ،تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورج کے لیے لفظ استعمال کیا ہے وجعل فیھا سراج اور چاند کے لیے لفظ استعمال کیا ہے وقمرًا منیرًا ۔چونکہ سراج یعنی سور ج کی حکمرانی دن کو ہوتی ہےیعنی وہ دن کو روشنی بکھیرتا ہے اور قمر یعنی چاند کی حکمرانی رات کو ہوتی ہےاوروہ رات کو روشنی تقسیم کرتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ  نے اپنےمحبوب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ  کے لیے یہ دونوں الفاظ یکجا کر دئیےاور سِرَاجًا مُّنِیْرًا ارشاد فرما کر یہ عیاں کر دیا کہ آپﷺ  کے نور کی ضیا پاشیاں دن کو بھی ہوتی ہیں اور رات کو بھی آپﷺ  کا نور روشنی بکھیرتا ہے۔


حوالہ رقم4

يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَيَاْبَى اللّٰهُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ        ؀        سورۃ توبہ آیت 33

    ترجمہ۔کفار چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور [محمدﷺ ] اپنے مونہوں سے[ پھونکیں مار کر] بجھا دیں مگر اللہ انہیں ایسا نہیں کر نے دے گا وہ اپنے نور کو پورا کرکے چھوڑے گا اگرچہ کا فروں کو برا ہی لگے۔

    اس آیت میں بھی نور سے مراد حضور نبی کریمﷺ  ہی ہیں حوالہ کے لیے کتابیں درج ہیں ۔

تفسیر دُرّ ِ منشورجلد3صفحہ 231

نسیم الریاض جلد2صفحہ 396

مطالع المسرات،استناداً،صفحہ104

موضوعاتِ ملاعلی قاری صفحہ99

زرقانی علی المواہب جلد 3صفحہ149


 

حوالہ رقم5

    قرآن پاک میں ایک جگہ اللہ جل شانہُ ایک اور مقام پر یہ ارشاد فرماتاہے۔

يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ ۭ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ        ۝

سورۃ الصف، آیت 8

    ترجمہ ۔ چاہتے ہیں کافر لوگ کہ اللہ کے نور [حضرت محمد مصطفی ﷺ ] کو اپنے مونہوں [کی پھونکوں ] سے بجھا دیں اور اللہ کو تو اپنا نور پورا کرنا ہے اگرچہ کافر برا ہی منائیں ۔

    یہاں بھی نور سے مراد نورِ مصطفیﷺ ہی ہے ،حضور ﷺ اللہ کا نور ہیں ۔کافریہ چاہتے تھے کہ نعوز با للہ آپﷺ کو قتل کر دیں تا کہ اسلام کی شمع گل ہو جائےمگر اللہ آپﷺ کا محافظ و نگہبان ہے۔

     حضرت علامہ مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف|| نور العرفان کے صفحہ305میں ملا علی قاری کی تصنیف موضوعاتِ کبیر کے حوالے سےبیان کیا ہے کہ  کہ ملا علی قاری نے موضوعات ِکبیر کے آخر میں فرمایاکہ قرآن مجید میں ہر جگہ نور سے مراد حضور ﷺ ہیں ۔ 

        || نور العرفان ازمفتی احمد یار خاں نعیمی صفحہ305 ,882

جاری ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے